
شرابی بیٹا
✍️ Written by:
📚 Story Type: Romantic, Adult
🌐 Language: Urdu
📄 PDF Availability: Not Available
🔢 Total Episodes: Single Page Story
📝 Storyline:
شرابی بیٹا
مکمل کہانی
حمیدہ بی بی کی عمر 50 سال کی ہو گی۔ اس کا شوہر یو اے ای میں مزدوری کرتا تھا اور سال کے بعد ایک مہینے کے لیے پاکستان آتا تھا۔ حمیدہ بی بی اپنے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کے ساتھ ڈینہ سٹی میں ایک تین کمروں والے مکان میں رہتی تھی۔
مکان دو منزلہ تھا جس میں دو کمروں اور دو باتھروم اوپر کی منزل پر اور ایک بیڈروم اور کچن وغیرہ نیچے کی منزل میں تھے۔ حمیدہ بی بی کی سب سے بڑی ایک بیٹی تھی جس کی عمر 28 سال تھی۔ وہ شادی شدہ تھی اور اپنے دو بچوں اور شوہر کے ساتھ منڈی بہاؤ الدین میں رہتی تھی۔
دوسرے بیٹے کا نام قادر تھا۔ اس کی عمر 26 سال تھی۔ قادر کی شادی 24 سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ وہ ایک ناکام اور آوارہ انسان تھا۔ جو کبھی کبھی نشہ بھی کرتا اور شراب بھی پیتا تھا۔ وہ غصے کا بہت تیز تھا اور بات بات پر اپنی بیوی کو مارتا۔ جس کی وجہ سے شادی کے دو سال بعد ہی اس کی بیوی نے اس سے طلاق لے لی۔
قادر کے بعد حمیدہ کے دو اور بیٹے تھے۔ جواداور عبدل جو کہ جوان تھے اور قادر سے ایک اور دو سال چھوٹے تھے۔ ان کی شادی ایک سال پہلے ہو گئی تھی اور وہ اپنی بیویوں کے ساتھ بھی اسی گھر میں اوپر والی منزل میں رہتے تھے۔ قادر اب کبھی باہر سو رہا ہوتا، کبھی ڈرائنگ روم میں اور کبھی کبھی اپنی ماں کے کمرے میں الگ چارپائی ڈال کر سوتا تھا۔ قادر کام تو کرتا نہیں تھا۔ وہ روز اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ باہر گھومتا رہتا تھا اور رات کو اکثر لیٹ گھر آتا تھا۔ اپنی بیوی کو طلاق دی ہوئی اسے کچھ مہینے ہو گئے تھے اور اس کا گزارہ اب صرف مشت زنی پر ہی ہوتا تھا۔
ایک دن رات کو وہ لیٹ گھر آیا۔ گرمیاں تھیں اور اس نے رات چھت پر سونے کا ارادہ کیا۔ جب قادر اوپر والی منزل پر گیا تو جواد کے کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے قادر کو کمرے میں سے سسکاریاں اور پلنگ کے چرچرانے کی ہلکی ہلکی آوازیں آئیں۔
قادر سمجھ گیا کہ اس کا چھوٹا بھائی اپنی بیوی کو چھوڑ رہا ہے۔ اس کا لن کھڑا ہونے لگا۔ وہ کچھ دیر کمرے کے باہر کھڑا ہو کر چودائی کی آوازیں سنتا رہا اور ساتھ ہی اپنے لوڑے کو شلوار کے اوپر سے مسلتا رہا۔ جب تھوڑی دیر بعد اندر خاموشی ہو گئی تو قادر بھی آہستہ سے چلتا ہوا چھت پر چلا گیا۔
چارپائی پر لیٹے ہوئے قادر ان آوازوں کو اپنے کانوں میں گونجتا ہوا محسوس کرتا رہا اور مشت زنی کرتا رہا۔ مشت زنی کرتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے جوادکی بیوی اور اس کی چھوٹی بھابی نزہت کا جسم ظاہر ہوگیا اور اس نے پہلی دفعہ اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے نام کی مشت زنی کی۔ قادر کو نزہت کے نام کی مشت زنی کرنے میں بہت مزہ آیا اور وہ جلد ہی فارغ ہو گیا۔
اس کے بعد قادر نے اپنی دونوں بھابھیوں نزہت اور لبنی کو تاڑنا شروع کر دیا۔ وہ روز اب ان دونوں کے نام کی مشت زنی کرتا تھا۔ کچھ مہینے کے بعد ایک دن دوپہر کو قادر امی کے کمرے میں سویا ہوا تھا۔ گرمی سخت تھی اور بجلی چلی گئی جس کی وجہ سے چھت پر لگا پنکھا بند ہو گیا۔ کچھ دیر بعد قادر کی آنکھیں کھل گئیں۔
اس کو سخت پسینہ آ رہا تھا۔ قادر کمرے سے باہر آیا تو گھر میں بالکل خاموشی تھی۔ لگتا تھا کہ سب باہر گئے ہوئے تھے۔ اسی دوران قادر ہاتھ کی پنکھی تلاش کرتا ہوا گھر کے اوپر والی منزل میں آیا تو اس کو جواد کے باتھ روم سے پانی کے گرنے کی آواز سنائی دی۔ وہ سمجھا کہ شاید نزہت نہا رہی ہے۔ یہ سوچ کر وہ مست ہونے لگا۔
آج وہ اپنی بھابی کے ننگے جسم کا منظر دیکھنا چاہتا تھا۔ قادر کو پتا تھا کہ اگر اوپر والی چھت پر آدمی کھڑا ہو تو روشن دان سے اس باتھ روم میں دیکھا جا سکتا ہے۔ قادر فوراً اوپر کھڑا ہوگیا۔ روشن دان تھوڑا کھلا ہوا تھا اور اس میں سے اندر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ قادر کا لن اپنی بھابی کے ننگے جسم کے بارے میں سوچ کر ہی کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ جوش و خروش میں بے تابی کے ساتھ روشن دان سے باتھ روم میں جھانکا تو اندر کا منظر دیکھ کر حیران ہو گیا۔
اندر اس کی بھابی نزہت نہیں بلکہ اس کی اپنی سگی ماں ننگی کھڑی نہا ری تھی۔
حمیدہ بی بی نہ تو کسی فلمی ہیروئن کی طرح خوبصورت تھی نہ ہی کسی ماڈل کی طرح کا پٹاخہ جسم تھا۔ وہ ایک عام شکل صورت کی ٹیپیکل پاکستانی عورت تھی۔ اس کا رنگ گندمی تھا۔
حمیدہ بی بی نے شادی اور پھر چار بچوں کی ماں ہونے کی وجہ سے اپنے جسم کا خیال رکھنا چھوڑ دیا تھا جس وجہ سے اس کے جسم پر آہستہ آہستہ گوشت چڑھتا گیا۔ اس کے وزن بڑھنے کا اثر اس کے جسم کے ہر حصے پر ہوا تھا۔ اس کے نہ صرف ممے اور گانڈ کافی موٹی ہو گئی بلکہ اس کا پیٹ بھی اب کافی نکلا ہوا تھا۔
قادر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی اپنی سگی ماں کو اس حالت میں دیکھے گا۔ اس کے تو پسینے چھوٹ گئے۔ اس نے ادھر سے ہٹنے کی کوشش کی مگر اس کے پاؤں تو جیسے زمین نے جکڑ لیے اور وہ دم بخود ہو کر اندر کا منظر دیکھتا رہا۔
ادھر باتھ روم میں حمیدہ بی بی نہا کر فارغ ہو چکی تھی
اس نے تولیے سے اپنے جسم کو خشک کیا اور دروازے کے ساتھ لٹکا ہوا سفید رنگ کا دیسی اسٹائل والا بڑا سا برا اتارا اور اس کو اپنے جسم کے گرد لپیٹ کر اس کی ہکس کو باندھ دیا۔ پھر ہکس کو پیچھے کی طرف کیا جس سے اس برا کے کپ اب اس کے پیٹ پر آ گئے۔
قادر کی امی نے برا کے اسٹریپ میں ایک ایک کر کے اپنے دونوں بازو ڈال کر اسٹریپ کو اپنے کندھوں پر ڈال دیا۔ اس کے بعد حمیدہ بی بی نے ایک ایک کر
کے اپنے موٹے اور سانوالے ممے (جو کہ کافی بڑے ہونے کی وجہ سے اب تھوڑے لٹکے ہوئے تھے) اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اپنی برا کے کپ میں
ڈھالے اور برا کے اسٹریپ کو ٹائیٹ کر دیا۔
اپنی امی کو زندگی میں پہلی بار اس طرح ننگا دیکھ کر قادر کے منہ سے فوراً نکلا " میری توبہ" اور وہ روشن دان سے پیچھے ہٹ گیا۔ اس کا تانک ہوا لن "موتر کی جھاگ" کی طرح بیٹھ گیا تھا۔ وہ کافی دن اس بات سے پریشان رہا کہ اس نے اپنی سگی ماں کو اس طرح ننگی حالت میں دیکھا ہے۔
وہ اس واقعے کے بعد جب بھی اپنی ماں کو دیکھتا فوراً اپنی نظریں نیچے جھکا لیتا۔ حالانکہ اس کو معلوم تھا کہ اس کی ماں کو اس کے باتھ روم میں جھانکنے کا علم نہیں تھا مگر پھر بھی وہ اپنی ماں سے نظریں نہیں ملا پاتا تھا۔
قادر نے اب کافی دنوں سے مٹھ بھی نہیں لگی تھی۔ کیونکہ جب بھی وہ مٹھ لگانے کی کوشش کرتا، اس کی آنکھوں میں اس کی امی کے باتھ روم میں نہانے والا منظر دوڑجاتا اور اس کے ساتھ ہی اس کا کھڑا لن فوراً بیٹھ جاتا۔
کچھ دنوں بعد ایک دن شام کے وقت قادر کی بھابی لبنیٰ کو اپنڈیسائٹس کا شدید درد ہوا۔ جمعے کی چھٹی کی وجہ سے کوئی قریبی ڈاکٹر نہیں ملا تو جاوید اور عبدال نے لبنیٰ کو فوراً سول ہسپتال جہلم لے گئے۔
نزہت بھی ان کے ساتھ تھی۔ ڈاکٹر نے لبنی کو ہسپتال میں داخل کر لیا۔ جس کی وجہ سے ان سب لوگوں کو رات ہسپتال میں ہی گزارنی تھی۔ قادر روز کی طرح اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ منگلا ڈیم گیا ہوا تھا۔ ادھر وہ اور اس کے دوست بیٹھ کر چرس کے سٹے لگاتے رہے۔
رات کو وہ تقریباً 10 بجے گھر پہنچا تو چرس کے نشے کی وجہ سے وہ کافی سرور میں تھا اور اس کا سر بھی ہلکا ہلکا درد کر رہا تھا۔ حمیدہ بی بی نے قادر کو لبنی کے بارے میں بتایا اور کہا کہ اس کے چھوٹے بھائی اور بھابی رات جہلم گزریں گے۔
رات کا کھانا کھانے کے بعد قادر نے ماں کو بتایا کہ اس کے سر میں درد ہے۔ حمیدہ بی بی قادر کی بات سن کر وہ پریشان ہو گئی۔ حمیدہ نے قادر سے کہا، تم میرے کمرے میں آرام کرو۔ میں ابھی آ کر تمہارے سر پر تیل لگا کر مالش کر دیتی ہوں۔
قادر کبھی بھی اپنی ماں کی بات سے انکار نہیں کرتا تھا۔ قادر کمرے میں آ گیا۔ اس نے اپنی قمیض اتار دی اور بنیان اور شلوار پہنے ہوئے لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد۔ حمیدہ بی بی تیل لے کر آئیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے قادر کے سر پر تیل لگایا اور اس کا سر دبانے لگی۔
آج کافی وقت کے بعد ایک عورت نے اس کے جسم کو ہاتھ لگایا تھا۔ بے شک وہ عورت اس کی اپنی سگی ماں ہی تھی مگر آخر قادر بھی ایک مرد ہی تھا۔
ہاتھ لگانے سے اس کو اپنے جسم اور خاص طور پر لوڑے میں ایک جوش آنے لگا۔ جوش کے مارے اس کا لنڈ کھڑا ہونے لگا۔ قادر نے اپنے اوپر کسی نہ کسی طرح قابو پایا اور تھوڑی دیر مالش کرواتے اس کو نیند آ گئی اور وہ سو گیا۔
رات کے تقریباً 3 بجے قادر کی اچانک آنکھ کھل گئی۔ اس کا لورا بہت سخت ہڑا ہوا تھا۔ اس نے آج ایک بہت گرم خواب دیکھا تھا جس میں وہ اپنی سگی ماں کی چوت بہت بھرپور طریقے سے چود رہا تھا اور اسی وجہ سے وہ بہت گرم ہو رہا تھا۔
قادر کو پیاس لگی ہوئی تھی۔ وہ اپنی چارپائی سے اٹھا اور باہر نلکے سے پانی پی کر کمرے میں واپس آیا۔ کمرے کی اپنی لائٹ تو بند تھی مگر ساتھ والے باتھ
روم سے آتی ہوئی روشنی کی روشنی میں کمرے میں کافی اُجالا تھا۔ اپنی ماں کی چارپائی کے پاس سے گزرتے ہوئے قادر کو نظر آیا کہ اس کی ماں حمیدہ بی بی اپنی چارپائی پر گہری نیند سو رہی ہے۔ شاید اس کو گرمی لگ رہی تھی جس کی وجہ سے اس نے اپنے جسم پر پڑی چادر اتار دی تھی۔
قادر نے بڑے غور سے اپنی ماں کو دیکھا۔ گہری نیند میں ہونے ہی وجہ سے اس کی لان کی شلوار قمیض بے ترتیبی ہو رہی تھی۔
حمیدہ بی بی کی قمیض اس کی موٹی اور بھاری گانڈسے ہٹی ہوئی تھی جس کی وجہ سے اسکے بڑے بھاری چوتروں ننگی ہو رہی تھی۔ حمیدہ بی بی کے سینے پر دوپٹہ نہیں تھا جس کی وجہ سے اس کے موٹے بڑے ممے پوری کے پوری اس کے جوان بیٹے کی بھوکی نظروں کے سامنے تھے۔ جب حمیدہ بی بی کی سانس اوپر نیچے ہوتی تو قادر کو اپنی ماں کے بڑے ممے اوپر نیچے ہوتے دیکھ کر مزہ آنے لگا
چرس کا نشہ، اس کی ماں کے بھرے ہوے جسم کا مزہ، ماں کےساتھ گرم چودائی والا وہ خواب اور اب یہ اپنی نظروں کے سامنے یہ گرم منظر قادر کے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا۔ جس وجہ سے اس کا لن اس کی شلوار میں ٹنٹنا رہا تھا۔
قادر اپنی ماں کے جسم کو دیکھ بھی رہا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ اس کو ایسے کرتے ہوئے تھوڑی شرم بھی آ رہی تھی۔ کیونکہ آخر وہ اس کی سگھی ماں ہے۔ تھوڑی دیر بعد قادر اپنی چارپائی پر آ کر لیٹ گیا اور چارپائی پر لیٹے ہوئے وہ اپنی ماں کے بدن کی طرف ہی دیکھتا رہا۔ اس کے دل اور دماغ میں جیسے ایک جنگ سی چھڑ گئی تھی۔ اس کا دماغ اسے اپنی ماں کو اس طرح دیکھنے سے منع کر رہا تھا مگر اس کا تناؤ ہوا لوڑا اسے اور آگے بڑھنے پر مجبور کر رہا تھا۔ پھر چرس کے نشے نے اس کی سوچ سمجھ پر تالا لگا دیا تھا۔ اور قادر اپنے دماغ سے نہیں بلکہ اپنے کھڑے لن سے سوچنے لگا۔
وہ اپنی چارپائی سے دوبارہ اٹھا اور اپنی امی کی چارپائی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا دل دھڑک دھڑک کر رہا تھا۔ اس نے امی کے پاس کھڑے ہو کر ڈرتے ڈرتے اپنا ایک ہاتھ بڑھایا پھر آہستہ آہستہ اپنی ماں کے ننگے پیٹ سے ہوتے ہوتے اس نے اپنی والدہ کے موٹے مموں کو اس قمیض کے اوپر سے اپنی انگلیوں کے ساتھ ہلکا سا چھوا۔ اُف، ہاے قادر کے منہ سے نکلا کیا موٹا بھاری گرم اور نرم ممہ تھا اس کی ماں کا۔
آج تقریباً دو سال بعد قادر نے کسی عورت کے مموں کو چھوا تھا۔ اور وہ بھی کوئی عام عورت نہیں بلکہ اس کی اپنی سگھی ماں تھی۔ ان مموں سے ہی وہ بچپن میں دودھ پی کر جوان ہوا اور آج وہ آدھی رات کو ان ہی مموں سے اپنی جنسی لذت کو پورا کر رہا تھا۔ اس لیے قادر کے منہ سے ایک سسکی سی نکل گئی۔ اُف
قادر کو بہت مزہ آیا۔ اس کا لن تو اپنی ماں کے موٹے مُمے کو فیلال کرتے ہی جیسے اس کی شلوار میں چھوٹ جانے لگا تھا۔ قادر نے محسوس کیا کہ مُمے کو ہاتھ لگانے سے اس کی ماں کے بدن میں کوئی ایسی حرکت نہیں ہوئی تھی جس سے پتہ چلتا کہ وہ جاگ گئی ہے۔ قادر کی ہمت تھوڑی اور بڑھی اور اس نے جذبات میں آ کر پُستانو (مُمے) کو اپنی ہاتھ میں لیا اور تھوڑا زور سے دبایا۔ قادر نے اب دوسرا ہاتھ بھی امی کے دوسرے پُست پر رکھا اور دونوں ہاتھوں سے اپنی سگی ماں کے بڑے بڑے پُستانو کو آہستہ آہستہ دبانے لگا۔ اس کو بہت مزہ محسوس ہو رہا تھا۔
قائد نے اپنے ایک ہاتھ کو اپنی ماں کےممے سے ہٹا کر اپنی شلوار کا نارا کھول کر اپنی شلوار اتار دی۔ اب وہ صرف بنیان میں تھا اور ایک ہاتھ سے اپنی ماں کے تنےہوئے موٹے ممے اور دوسرے ہاتھ سے اپنے کھڑے لورے سے کھیل رہا تھا۔
قادر نے اپنی انکھیں مزے کی وجہ سے بند کر رکھی تھیں۔ حمیدہ بی بی کو سوتے ہوئے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے کسی کے ہاتھ اس کے جسم سے کھیل رہے ہیں۔ حمیدہ بی بی ہر بارا کر اٹھ گئیں۔ نیند سے اٹھتے ہی پہلے تو اس کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر اس کی نظر اپنے سگے بیٹے پر پڑی جو اس کی چارپائی کے پاس ننگا کھڑا تھا اور وہ اپنے لُن اور اس کے ممو ں سےکھیل رہا ہے۔
حمیدہ بی غصے سے لال پیلی ہو گئی۔ اس نے یہ خواب کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس کا اپنا سگا بیٹا اس کی عزت پر اس طرح ہاتھ ڈالے گا۔
حمیدہ بی بی نے ایک دم اٹھ کر اپنے بیٹے کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کیا اور بولی، "یہ کیا کر رہے ہو تم، تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی بےغیرت انسان۔ اور ساتھ ہی اپنے پاس پڑا دوپٹہ اٹھا کر اپنی چھاتیوں پر ڈالنے کی کوشش کی۔
تھپڑ کھاتے ہی قادِر کو پہلے تو سمجھ نہ آئی کہ کیا ہوا ہے۔ اس نے فوراً اپنی آنکھیں کھول دیں اور اپنی ماں کی طرف دیکھا۔ اس کے ہاتھ اب اپنی ماں کے ممےسے بھی ہٹ گئے تھے۔ قادِر اپنی ماں کو جاگتےہوئے دیکھ کر تھوڑا شرمندہ سا ہو گیا۔ مگر پھر اس پر جیسے ایک شیطان سا سوار ہو گیا۔ آج کافی ٹائم کے بعد اس کو چودنے کے لئے ایک عورت ملی تھی اور وہ یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔
آج اسے ایک پھدی کی اشد ضرورت تھی اور قادر پھدی کے لئے آج کچھ بھی کرنے کے لئے تیار تھا۔ جیسے ہی اس کی ماں نے اپنا ہاتھ اپنے دوپٹے کی طرف بڑھایا
قادر نے اپنی ماں کو فوراً اپنی باہوں میں دبوچ لیا۔ اس نے ماں کے ہاتھ قابو کر لئے اور اس کے اوپر چڑھ کر قیمں کے اوپر سے ہی اپنی ماں کے موٹے بڑے مموں پر منہ رکھ کر ان کو چوسنے لگا۔
وہ اس طرح اپنی ماں کے اوپر لیٹ گیا کہ اوپراس کا منہ اپنی ماں کی چھاتیوں پر تھا اور اس کا لورا، شلوار کے اوپر سے اپنی ماں کی چوت کے بالکل اوپر ٹک گیا۔
حمیدہ بی بی نے لان کی پتلی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ اپنی ماں کی چوٹی کی گرمی اپنے لورے پر محسوس ہوتے قادر کی حالت خراب ہو گئی۔ اس نے شلوار کے اوپر سے ہی اپنی ماں کی چوٹی پر اپنا لوڑا رگڑنا شروع کر دیا۔
حمیدہ بی بی اپنے بیٹے کے نیچے پڑی غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔ قادِر بیٹا ہوش میں آؤ میں تمہاری اپنی سگھی ماں ہوں۔ تم کو شرم نہیں آتی اپنی ہی ماں کی عزت پر ہاتھ ڈال رہے ہو۔ اتنے کہتے ہوئے وہ اٹھنے لگی۔
قادِر بولا: امّی آج مجھے اپنے جسم سے پیاس بجھا لینے دو۔ شرافت سے کہہ رہا ہوں مجھے اپنی پھودی دے دو۔ یا پھر مجھے زبردستی کرنا پڑے گی تمہارے ساتھ۔
حمیدہ بی بی اپنے سگے بیٹے کے منہ سے اتنے بےشرم الفاظ سن کر تو جیسے ہوش ہی گوا بیٹھیں
حمیدہ بی بی بولی: لعنت ہو تم پر اپنی ماں سے ایسی گندی باتیں اور حرکتیں کرتے ہو۔ میں تمہارے سامنے بھیک مانگتی ہوں مجھ سے یہ سلوک نہ کرو، یہ کہہ کر حمیدہ بی بی نے قادر کو اپنے اوپر سے ہٹانے کی کوشش کی۔
مگر قادر ایک جوان مرد تھا اور حمیدہ بی بی ایک بھوڑی اور نازک عورت۔ جس کو قادر نے بہت مضبوطی سے قابو کیا ہوا تھا۔ اس پر اپنی ماں کی منتوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ قادر نے اپنا منہ آگے کیا اور اپنی ماں کے ہونٹوں کو چومنے کی کوشش کی۔
حمیدہ بی بی نے فوراً اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس کی ایک ٹانگ تھوڑی آزاد تھی۔ حمیدہ بی بی نے اپنی ٹانگ تھوڑی سی مروئی اور اپنا گھٹنا قادر کے پیٹ میں زور سے مارا۔ گھٹنا لگتے ہی قادر درد سے چلا اٹھا اور اپنی ماں کے جسم سے تھوڑا پرے ہٹا۔ اس کے بازو کی گرفت جیسے ہی تھوڑی ڈھیلی پڑی، حمیدہ بی بی جلدی سے قادر کے نیچے سے اٹھ کر کمرے سے باہر بھاگی۔
قادر نے اپنی ماں کو پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کی۔ اس کا ہاتھ حمیدہ بی بی کی قمیض پر پڑا اور اس کی ماں کی قمیض پیچھے سے "چررررررررر" سے پھٹ گئی اور حمیدہ بی بی کی موٹی کمر اور اس کا سفید رنگ کا برازیئر نظر آنے لگا۔
حمیدہ بی بی بھاگ کر ڈرائنگ روم میں گئی اور اندر سے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی۔ قادر اپنا شکار ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر غصے سے آگ بگولا ہوگیا اور فوراً اپنی ماں کے پیچھے بھاگا۔
اس نے زور سے دروازے کو دھکا دیا تو دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور اس کے زور سے حمیدہ بی بی ڈرائنگ روم کے فرش پر جا گری۔ فرش پر گرنے کی وجہ سے حمیدہ بی بی کے سر پر چوٹ لگ گئی۔
قادرکو بہت غصہ آیا ہوا تھا۔ اس نے ماں کو جلدی سے قابو کیا۔ ساتھ ہی اس نے اپنی ماں کے منہ پر دو چار زور دار تھپڑ رسید کر دیے۔
تھپڑ پڑتے ہی حمیدہ بی بی کا ہونٹ تھوڑا پھٹ گیا اور اس میں سے خون نکلنے لگا۔ سر پر چوٹ لگنے اور تھپڑ کھانے کی وجہ سے حمیدہ بی بی کی حوصلہ جواب دے گئی اور وہ بے سدھ ہو کر فرش پر گر گئی
قادرنے اپنی ماں کی شلوار کے ناڑےے پر ہاتھ ڈالا اور اس کو کھولنے کی کوشش کی۔
حمیدہ بی بی ہمیشہ ہی اپنی شلوار کے ناڑے کو سختی سے اپنی کمر کے گرد باندھتی تھی۔ حمیدہ بی بی نے اپنے ناڑے کو مضبوطی سے پکڑ لیا تاکہ قادراس کو نہ کھول سکے۔
اس کشمکش میں حمیدہ بی بی کے ناڑےکی گرہ اور سخت ہو گئی اور قادر اس کو نہیں کھول پایا۔
قادر کو بہت غصہ آیا اور اس نے اپنی ماں کی لان کی پتلی شلوار پر ہاتھ ڈال دیا چرررررررر کی آواز آئی اور ایک جھٹکے میں اس نے اپنی ماں کی کی شلوار کو اس کی پھدی والی جگہ سے پھاڑ دیا۔
حمیدہ بی بی کو جیسے ہی اپنی شلوار پھٹنے کا احساس ہوا اس نے اپنی پھدی کو ڈھانپنے کی ایک ناکام کوشش کرتے ہوئے اپنی چوت پر اپنا ایک ہاتھ رکھ دیا۔
قادر نے زور سے اپنی ماں کے ہاتھ کو پرے کیا اور پھر سے شلوار کو ہاتھ میں لے کر مزید پھاڑ دیا۔
حمیدہ بی بی کی شلوار اب تار تار ہو چکی تھی۔ حمیدہ بی بی نے اپنی چوت کو چھپانے کے لیے اپنی ٹانگوں کو بند کرنے کی کوشش کی مگر قادر ایک دم اس کی ٹانگوں کے درمیان آ کر بیٹھ گیا۔
اب حمیدہ بی بی کے ہاتھ اس کی گردن کی دائیں اور بائیں طرف تھے اور قادِر نے ان کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ حمیدہ بی بی کے جسم پر قادِر اس طرح بیٹھا تھا کہ حمیدہ بی بی کی ٹانگیں پھولی ہوئی تھیں اور وہ حرکت نہیں کر سکتی تھیں۔ قادِر نے اپنی ماں کی قمیض کو کنارےسے پکڑا اور قمیض کے اگلے حصے کو اٹھا کر ماں کے پیٹ پر ڈال دیا جس کی وجہ سے اس کی ماں کا ناف سے نیچے والا حصہ قادِر کی نظروں کے سامنے آ گیا۔
شلوار پھٹ جانے کی وجہ سے حمیدہ بی بی کی چوت والا حصہ اب پوری طرح ننگا ہو رہا تھا۔
قادِر نے اپنی ماں کی موٹی چوت زندگی میں پہلی بار اس طرح مکمل ننگی دیکھی۔ حمیدہ بی بی کی چوت کے لب کافی "پھولے" ہوئے تھے۔ اُس کی ماں کی چوت کا رنگ سانولا تھا، اُس پر تھوڑے ہلکے ہلکے بال تھے۔ لگتا تھا کہ اُس نے جیسے ایک ہفتے سے چوت کی شیونہیں کی تھی۔
حمیدہ بی بی ادھر اُدھر اپنے ہاتھ پاؤں مار کر اپنی پوری کوشش کر رہی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے چنگل سے نکل جائے مگر اُس کا بھاری جسم اُس کے جوان بیٹے سے مقابلہ نہیں کر پا رہا تھا۔
قادر نے اپنی ماں کی ٹانگوں کو اٹھا کر اپنے کندوں پر رکھا جس سے اس کی ماں کی چوت ابھر کر اس کے تن سے ہوئے لوڑے کے بالکل سامنے آ گئی۔
قادِر نے اپنی ماں کی نگی چوچ پر اپنے لور پہلے بار رگڑھا۔ اس کو آج اتنے عرصے بعد اپنی لُن ایک پھدی پر اس طرح رکھنے میں بہت سواَد آیا۔
اس کا لورا اب اس کی سگی ماں کی موٹی چوت کے لبوں پر تھا اس نے تھوڑا زور لگا کر اپنا لن ماں کی پھدائی میں ڈالنے کی کوشش کی
مگر لن اندرنہی گیا اس کی ماں کی چوت کافی عرصےسے چودائی نہ ہونے کی وجہ سے "خشک" تھی۔ جس وجہ سے قادر کا لن اندر نہیں جا پا رہا تھا
قادر نے ڈھیر سارا تھوک اپنے ہاتھ پر لگایا اور اس کو جلدی سے اپنی ماں کی موٹی چوت پر پہھلا دیا۔ پھر اس نے دوبارہ کافی سارا تھوک اپنے لنڈ پر لگایا اور لورے کو اپنی ماں کی چوت پر رگڑنا شروع کر دیا۔
حمیدہ بی بی کو سمجھ آ گیا کہ اس کا بیٹا اس کی پھدی مارے بغیر اس کو نہیں چھوڑے گا۔ اس نے پھر بھی اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔ "قادر یہ گناہ نہ کرو میں تمہاری سگی ماں ہوں،
قادر اپنی ماں کی ننگی چوتکے مزے سے بے حال ہو رہا تھا اور اس پر اب ماں کی کسی بھی بات کا اثر نہیں تھا۔
قادر نے لنڈ کا ٹوپا ماں کی چوت کے منہ پر رکھا اور ایک دھکا مارا۔
لُن اور چوت پر تھوک لگنے کی وجہ سے پہلے دھکے میں ہی اس کا لنڈ اس کی ماں کی پھُدئی میں تلکتا ہوا چلا گیا۔
ماں کی پھدی میں لورا گھُساتے ہی قادر کو ایسے لگا جیسے اُس نے اپنا لن کسی گرم تندور میں ڈال دیا تھا۔
ماں کی چوت کی گرمی محسوس کرتے ہی اسے بہت مزہ آیا۔
اس کے منہ سے سسکاریں نکلنے لگیں, افف ہاے
کیا گرم چوت ہے آپ کی امی جان واہ
قادِر نے پھر اپنا لن نکالا اور دوبارہ اپنی پوری طاقت سے ایک زبردست دھکا مارا۔
قادِر کا لُنڈ اپنی ماں چُوت کی دیواروں چیرتا ہوا چُوت کی گہرائیوں میں گھس گیا۔
اپنے بیٹے کا لن اندر لیتے ہی حمیدہ بی بی کو ایسا لگا جیسے اس کی چوت میں کسی نے خود کش دھماکہ کر دیا ہو.... وہ غصے اور درد سے چیخ پڑی۔
کیا کر رہے ہو”۔ “کتے، کمینےیہ کیا کر دیا تم نے۔ اپنی ماں کو ہی چود دیا۔ قادر میں کبھی تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی حرامی۔”
اگر مجھے یہ پتا ہوتا کہ تم میرے ساتھ یہ سلوک کرو گے تو میں تم کو پیدا ہوتے ہی اپنے ہاتھ سے مار دیتی۔حمیدہ بی بی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور اس نے اپنے جسم کو ڈہلا چھوڑ دیا۔
قادِر چرس کے نشے میں ہر بات سے بےنیاز ہو کر اپنی ماں کو موٹی چوت چودنے میں مصروف تھا۔ وہ دو سال سے مٹھ مار مار کر اپنے لوڑے کی گرمی نکال رہا تھا۔
اس کو آج اتنے عرصے بعد ایک اصل پھدی کا مزہ ملا تھا مگر اس پھدی کی گرمی نے اس کے لوڑے کو بے حال کر دیا تھا۔
وہ اپنی ماں کی چوت میں دھکے اور دھکے مارے جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ اپنی ماں کے موٹے مموں کو اس کی قمیض کے اوپر سے دبانے میں مصروف تھے۔
اور وہ اپنے ہونٹوں اور دانتوں سے اپنی ماں کے گال اور گلے کو چومنے اور کاٹنے میں مصروف تھا۔
اس نے دو تین دفعہ اپنے ہونٹ اپنی ماں کے ہونٹوں پر رکھنے اور انہیں چومنے کی بھی کوشش کی مگر اس کی ماں نے ہر بار اپنا منہ ہٹا لیا جس کی وجہ سے وہ اپنی ماں کے نرم ہونٹوں کو نہ چوس سکا۔
حمیدہ بی بی اپنے بیٹے کے جوان مضبوط بدن کے نیچے فرش پر پڑی آنسو آنسو اپنی قسمت پر رو رہی تھی۔ قادر اپنی ماں کی چوت میں گسے پہ گسےمارے جا رہا تھا۔ اس کی امی کی چوڑیوں کی کھنک اس کے ہر دھکے کے ساتھ کمرے میں گونجتی اور قادر کا جوش مزید بڑھتا جا رہا تھا۔
پھر قادر کے دھکوں میں بہت تیزی آ گئی اور قادر نے ایک زور کا جھٹکا مارا اور اپنے لن کا سارا پانی اپنی سگی ماں کی اس چوت میں چھوڑ دیا
جس سے وہ کافی سال پہلے پیدا ہوا تھا۔ اپنی ماں کی چوت میں فارغ ہونے کے بعد وہ کچھ دیر اپنی ماں کے جسم پر ہی پڑا رہا۔
اس کے نیچے اس کی ماں اب برف کی سل کی طرح بےبس پڑی زور زور سے رو رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد حمیدہ بی بی نے قادر کو زور سے دھکہ مارا تو وہ اس کے اوپر سے گِرا۔ پاس پڑی ٹیبل کا پیالہ اس کے سر پر پٹک سے لگا تو وہ درد سے سسکا اٹھا۔ “ہائے امی جی”۔
حمیدہ بی بی نے اس کو روتے ہوئے جواب دیا “آج سے مرگئی تیری ماں تیرے لیے اور تو میرے لیے مر گیا۔ دفع ہو جاؤ میری نظروں سے بدبخت انسان اور مجھے اپنا یہ منحوس چہرہ دوبارہ کبھی نہ دکھانا۔
لن کی مانی نکلنے کے بعد قادر کو تھوڑا ہوش آیا اور اسے یہ احساس ہوا کہ اس نے نشے کی حالت میں کتنا بڑا گناہ کر دیا ہے۔ اپنی ماں سے نظروں ملانے کی اس میں ہمت نہیں ہو رہی تھی۔
قدر اٹھا اور اپنی ماں کے کمرے میں جا کر اپنے کپڑے پہن کر گھر سے باہر نکل گیا۔ اس وقت صبح کی پہلی روشنی ہو رہی تھی قادر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اب کیا کرے۔
ساتھ ہی ساتھ اپنی ماں کے ساتھ کیے ہوئے گناہ پر اسے بہت کی ندامت ہو رہی تھی۔ وہ اب اپنی ماں کا سامنے کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔
قادر اپنی سوچوں میں گم چلتے چلتے جی ٹی روڈ پر آیا اور راولپنڈی جانے والی ویگن میں بیٹھ کر پنڈی چلا گیا۔
پنڈی میں قادر کا ایک بہت اچھا دوست رہتا تھا جو کہ ایک سیکیورٹی کی نوکری کرتا تھا۔ قادر اس کے گھر پہنچا اور ادھر جا کر سو گیا۔
ادھرحمیدہ بی بی اپنے بیٹے کے جانے کے بعد کافی دیر زمین پر پڑی اپنی قسمت پر آنسو بہاتی رہی۔
The End
0 Comments