ڈاکٹر ہما۔ قسط 6

ڈاکٹر ہما 


   قسط 06  



زیب نے اسکے ہاتھ میں شراب کی بوتل دیکھی تو مسکرا کر بولی ۔۔ اچھا تو یہ شوق بھی کرتے ہیں آپ۔۔ زمان اسکے قریب بیٹھ کر دونوں گلاسوں میں شراب ڈالتے ہوئے بولا۔۔ جی ہاں سبھی شوق ہیں جناب۔۔ زمان نے زیب کی طرف شراب کا گلاس بڑھایا تووہ مسکرا کر بولی ۔۔ آپ کو کیسے یقین ہے کہ میں بھی پیتی ہوں گی ۔۔ زمان زیب کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا ۔۔ تمھاری آنکھوں سے جو شراب چھلک رہی ہے اس سے ہی مجھے یقین ہو رہا ہے میری جان ۔۔ یہ کہتے ہوئے زمان نے اپنا گلاس اسکے ہونٹوں سے لگا دیا۔۔ اور زیب نے پہلا گھونٹ لے لیا۔۔ اور پھر اپنا گلاس بھی اسکے ہاتھ سے پکڑ لیا۔۔ زمان نے ایک ہاتھ میں اپنا گلاس لیا۔۔ اور دوسرا بازو زیب کی گردن کے پیچھے سے ڈالکر اسے اپنے ساتھ چپکا لیا۔۔ اسکا ہاتھ اسکے کندھے پر سے اسکے سینے کے ابھار پر آگیا۔۔ اور وہ اسکو سہلاتے ہوئے پینے لگا۔۔ ایک ایک پیگ پینے کے بعد زمان نے دونوں گلاس رکھے اور پھر زیب کو اپنی بانہوں میں کھینچ لیا۔۔ وہ بھی اسکے سینے پر لڑھک سی گئی ۔۔ زمان نے اسکے ہونٹوں کو چومنا شروع کر دیا۔۔ اور اسکے ہاتھ زیب کی کمر کو سہلانے لگے ۔۔ زمان نے اسکی شرٹ کو اوپر کی طرف کھینچنا شروع کیا تو زیب نے سیدھی ہو کر اپنی شرٹ نیچے سے پکڑ کر اوپر اٹھائی اور اپنے جسم سے الگ کر دی ۔۔ اب اسکا گورا گورا اوپری بدن بلکل ننگا تھا ۔۔ سوائے اسکی کالے رنگ کی برا کے ۔۔ جو کہ اسکے گورے گورے جسم پر بہت ہی جچ رہی تھی ۔۔ زمان نے فوراََ ہی اپنے دونوں ہاتھ زیب کی کالی برا کے اوپر سے ہی اسکی چھاتیوں پر رکھ دیئے ۔۔ زمان ۔۔ بہت دنوں کی حسرت انکو دیکھنے کی ۔۔ زیب مسکرائی۔۔ تو کہہ دیتے ۔۔ زمان ۔۔ بس ہمت ہی نہیں ہوئی چانس مارنے کی ۔۔ یہ کہتے ہوئے زمان نے اسکی برا کو نیچے کو کھینچ دیا۔۔ اور اسکے گورے گورے ممے ننگے کر دیئے ۔۔ گول گول ممے ۔۔ جن کے سروں پر گلابی نپل تنے ہوئے تھے ۔۔ ہما کے مموں سے چھوٹے ہی تھی ۔۔ مگر خوبصورت ویسے ہی لگ رہے تھے ۔۔ زمان نے اسکے نپلز کو اپنی انگلیوں میں لے کر مسلا ۔۔ اور پھر اپنے ہونٹ اسکے ایک نپل پر رکھ کر اسے چوسنے لگا۔۔ چوستے ہوئے اسکو اپنی زبان سے رگڑنے بھی لگا۔۔ چوستے ہوئے اسکے نپل کو کھینچتا اپنے ہونٹوں سے ۔۔ اور پیچھے سے اسکا ایک ہاتھ زیب کی ننگی کمر کو سہلا رہا تھا ۔۔ تھوڑی دیر تک دونوں ایک دوسرے کو اسی طرح چومتے اور چوستے رہے ۔۔ پھر زمان نے اسے صوفے پر سیدھا کر کے لٹایا ۔۔ اور خود نیچے کھڑے ہو کر اسکا پاجامہ بھی کھینچ کر اتاردیا۔۔۔ زیب کی خوبصورت چوت اسکے سامنے ننگی تھی۔۔ زمان نے اسکی ٹانگوں کو کھولا اور نیچے بیٹھ کر اپنے ہونٹ اسکی گلابی چوت پر رکھ دیئے ۔۔ زیب کے منہ سے سسکاری نکل گئی ۔۔ زمان نے اپنی زبان اسکی چوت پر چلاتے ہوئے اسکی چوت کو چاٹنا شروع کردیا۔۔ کبھی اپنی زبان کو اسکی چوت کے اندر لے جاتا ۔۔ اور اندر سے چاٹنے لگتا۔۔ اور کبھی اسکی چوت کے دانے کو اپنی زبان کی نوک سے سہلانے لگتا۔۔ زیب کا لذت کے مارے برا حال ہو رہا تھا۔۔ وہ زمان کے سر کو اپنی چوت پر دبا رہی تھی ۔۔ اسکے بالوں کو کھینچ رہی تھی ۔۔ اور اپنی ٹانگوں کو اسکے پیچھے لپیٹ رہی تھی ۔۔ اسکے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں ۔۔۔ زمان کھڑا ہوا ۔۔ اور اپنی پینٹ کھولنے لگا۔۔ پینٹ کو اپنے جسم سے نیچے سرکانے کے بعد اپنا انڈرویئر بھی اتار دیا۔۔ اسکا لوڑا زیب کے سامنے لہرانے لگا۔۔ زیب فوراََ ہی اُٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔ بنا اسکے لنڈ کو چُھوئے اسکی ٹوپی کو چوما۔۔ اور پھر اپنا منہ کھول دیا۔۔ زمان نے آہستہ سے اپنا لنڈ اسکے منہ کے اندر رکھ دیا۔۔ زیب نے اسکی ٹوپی کے نچلے حصے پر اپنی زبان پھیرنی شروع کر دی ۔۔ زبان کی نوک سے لنڈ کے نچلے حصے کو سہلانے لگی ۔۔ زمان نے بھی آہستہ آہستہ اپنا لوڑا زیب کے منہ کے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔۔ خود کو آگے پیچھے کرتے ہوئے ۔۔ زیب نے اپنے ہونٹوں کو اسکے لوڑے کے گرد بند کر لیا اور اسکے لنڈ کو چوسنے لگی ۔۔ اپنے منہ کو آگے پیچھے کرتی ہوئی ۔۔ اسکا دوسرا ہاتھ زمان کے ٹٹوں کو سہلانے لگا۔۔ ان سے کھیلنے لگا۔۔ زمان نے اپنا ہاتھ زیب کے سر پر رکھا اور اپنا لوڑا اسکے منہ کے اندر باہر کرنے لگا۔۔ لنڈ کی ٹوپی زیب کے حلق سے جا کر ٹکراتی۔۔ چند منٹ تک زیب کو اپنا لوڑا چسوانے کے بعد زمان نے اسے صوفے پر ہی سیدھا کیا۔۔ اور اسکی ٹانگوں کو پھیلا کر اپنے لوڑے کو اسکی چوت پر رگڑنے لگا۔۔ اوپر نیچے کو گھسنے لگا۔۔ اسکی چوت کے دانے کو سہلانے لگا۔۔ زیب کے تھوک سے زمان کا لوڑا گیلا ہو رہا تھا۔۔ اب اسکی چوت کا پانی بھی اسکے لوڑے کو گیلا کرنے لگا۔۔ زیب۔۔ ڈال دو اندر اب پلیز۔۔ اور نہیں تڑپاؤ۔۔۔ زمان مسکرایا۔۔ اور اپنے لوڑے پر دباؤ بڑھا تے ہوئے اپنے لوڑے کی ٹوپی کو اسکی چوت کے اندر سرکا دیا۔۔ زیب کے منہ سے ایک سسکاری نکل گئی ۔۔ اب زمان نے بنا رکے اپنا لوڑا اسکے چوت کے اندر پورے کا پورا اتار دیا۔۔ دونوں کے بال ایکدوسرے سے ٹچ ہونے لگے ۔۔ زمان نے اپنا لوڑا اب زیب کی چوت میں اندر باہر کرتے ہوئے اسے چودنا شروع کر دیا۔۔ زیب بھی اپنی ٹانگیں اٹھائے اس سے چدوا رہی تھی ۔۔ اسکے منہ سے آہ ۔۔ آہ ۔۔ اُوووووو۔۔۔ کی آوازیں نکل رہی تھیں ۔۔۔ زمان کا موٹا لوڑا جڑ تک زیب کی چوت کے اندر باہر ہو رہا تھا ۔۔ زمان نے زیب کی ٹانگوں کو ہوا میں اٹھا کر دھنا دھن اسے چودنا شروع کر دیا۔۔ کچھ دیر کے بعد اسے صوفے پر ہی گھوڑی بنایا ۔۔ اور پیچھے سے اپنا لوڑا اسکی چوت کے سوراخ پر رکھا ۔۔ اور اسکی گانڈ کو پکڑ کر اپنا لنڈ اسکی چوت کے اندر ڈال دیا۔۔ زیب نے ایک لمبی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کے ساتھ اسکا پورا لوڑا اپنی چوت میں لے لیا۔۔ زمان نے اب اسکی کمر کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر پیچھے سے گھسے مارنے لگا۔۔ ایک ہی دن میں دو نئی چوتیں پا کر زمان کا لوڑا پاگل ہو رہا تھا ۔۔۔ کبھی زمان اسکی کمر کو چھوڑ کر اپنے ہاتھ آگے لے جا کر اسکے مموں کو پکڑ کر دھکے مارنے لگتا۔۔ قریب 15 منٹ تک زمان اسکی چُدائی کرتا رہا۔۔ اس دوران زیب کی چوت نے دو بار پانی چھوڑ دیا۔۔ اور آخر کار زمان کے لنڈ نے بھی اپنا پانی زیب کی چوت میں نکال دیا۔۔ دونوں صوفے پر ایکدوسرے کی بانہوں میں لیٹ گئے ۔۔ زمان اسکے نپل سے کھیلتے ہوئے بولا۔۔ تم بھی کنواری نہیں ہو۔۔؟؟؟ وہ نرسز کے بارے میں ٹھیک ہی کہتے ہیں نا پھر کہ نرس کنواری نہیں ہوتی ۔۔ زیب مسکرائی ۔۔ کیوں ۔۔ آجکل تو آپکی لیڈی ڈاکٹرز بھی کنواری نہیں ہوتیں جناب۔۔ زمان مسکرایا۔۔ ہاں یہ تو ہے ۔۔ زیب۔۔ ویسے زمان صاحب ۔۔ آج کے دور میں تو کنواری ۔۔ سیل پیک چوت تو بس قسمت والوں کو ہی ملتی ہے ۔۔ دونوں مسکرانے لگے ۔۔ تھوڑی دیر ریسٹ کرنے کے بعد زمان نے ایک بار پھر زیب کو چودا اور پھر وہ اسے ہوسٹل چھوڑ آیا۔ ہاسپٹل جانے کے لئے آج تو ہما سپیشل تیار ہو رہی تھی ۔۔ اس نے ایک خوبصورت سا شلوار قمیض نکال کر پہنا ۔۔ جسکا گلا بھی تھوڑا گہرا ہی تھا ۔۔ اور بنا جھکے ہی اسکی چھاتیوں کی درمیانی لکیر نظر آتی تھی ۔۔ اور جھکنے پر تو اسکے مموں کا کچھ حصہ بھی آسانی سی دیکھا جاسکتا تھا ۔۔ نیچے سے اس نے ٹائٹ سا برینڈڈ برا پہنا تھا ۔۔ ہاف کپ ۔۔ جسکی لائننگ اسکی پتلی شرٹ کے اوپر سے صاف دکھ رہی تھی ۔۔ اور صاف پتہ چلتا تھا کہ اسکی برا نے اسکے آدھے مموں کو ڈھانپا ہوا ہے ۔۔ روٹین سے زیادہ اس نے میک اپ بھی کیا تھا ۔۔ اور آج تو ہما قیامت ہی لگ رہی تھی ۔۔ اسکے ہونٹوں کی سرخی دیکھ کر کسی کا بھی دل انکو چومنے کے لیے مچلنے سے نہیں رہ سکتا تھا ۔۔ تیار ہو کر خود کو آئینے میں دیکھا تو ہما مسکرا دی ۔۔ اور خود سے ہی بولی ۔۔ ہما ڈارلنگ ۔۔ آج تو تم چدنے سے نہیں بچ سکتی ۔۔ اور ہما خود کونسا بچنا چاہتی تھی ۔۔ اب وہ جس راہ پر چل نکلی تھی وہ اسکو انجوائے کرنے لگی تھی ۔۔ رات کو جب انور نے ہما کو ہاسپٹل میں ڈراپ کیا تو ہما کے ذہن میں ایسے ہی خیال آٰیا کہ اسکا شوہر خود اسے ایک دوسرے مرد کے ساتھ سیکس کرنے کے لیے چھوڑ کر جا رہا تھا ۔۔ ایک لمحے کے لیے ہما کو تھوڑی شرمندگی محسوس ہوئی اور خود کو غلط پایا۔۔ لیکن پھر اسے خیال آٰیا کہ انور بھی تو ذرا سا موقع ملنے پر یہی سب کچھ کرنے والا ہے نا ۔۔ تو پھر میں ایسا کیوں نا کروں ۔۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنی شرمندگی کو جھٹک کر دور کیا اور پھرہاسپٹل کے اندر چلی گئی ۔۔ زیب آچکی ہوئی تھی ۔۔ جیسے ہی اس نے ہما کو دیکھا تو اپنے ہونٹ سکیڑ کر سیٹی بجائی ۔۔ جسے سن کر ہما شرما گئی ۔۔ زیب ۔۔ ڈاکٹر ہما ۔۔ آج تو لگتا ہے کہ مکمل تیاری کر کے آئی ہوئی ہیں ڈاکٹر زمان کو پورے پورے مزے دینے کے ۔۔ میرا تو دل کر رہا ہے کہ ان سے پہلے میں خود آپکے ان رسیلے ہونٹوں کا رس چوس لوں ۔۔ ہما اسکے خطرناک ارادوں کو دیکھ کر فوراََ وہاں سے کھسک گئی ۔۔ اور اپنے کمرے میں آگئی ۔۔ ڈاکٹر زمان شاید ابھی نہیں آیا تھا ۔۔ وہ اپنے آفس میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی کہ رشید صفائی کرنے کے لیے آگیا۔۔ رشید بھی اس ہاسپٹل کا ایک کریکٹر تھا۔۔ 40- 35 سال کا ہٹا کٹا مرد تھا ۔۔ درمیانہ قد ۔۔ لیکن مضبوط بھاری بھرکم جسم۔ کالا سیاہ رنگ۔۔ ایک کان میں چاندی کی بالی پہنی ہوئی تھی ۔۔ پان اور سگریٹ اسکی عادت تھی ۔۔ ۔ موٹے کالے ہونٹ ۔۔ اور سیاہ چہرہ ۔۔ بہت ہی بد صورت آدمی تھا یہ رشید۔۔ جیسا اسکا حلیہ تھا ویسی ہی اسکی نوکری تھی ۔۔ ہاسپٹل میں کلینر کی نوکری کرتا تھا ۔ یعنی جمعدار۔۔ سرکاری جاب بھی تھی یہاں نائٹ پر پارٹ ٹائم ڈیوٹی کرتا تھا۔۔ سرکاری ہسپتالوں کا یہ نچلا عملہ تو بس شکاری ہی ہوتا ہے ۔۔ جیسے ہی کوئی خوبصورت لڑکی نظر آئی اسکے اردگرد منڈلانے لگتے ہیں اور اکثر اوقات تو یہ لوگ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اپنا شکار قابو کرنے میں ۔۔ رشید بھی ایسی ہی چیز تھا۔۔ بہت ہی ٹھرکی ہی ٹھرکی اور ہوس سے بھرا ہوا۔۔ کسی بھی لڑکی کو تاڑنے سے باز نہیں رہتا تھا ۔۔ چاہے وہ کوئی نرس ہو یا کوئی لیڈی ڈاکٹر۔۔ اور ڈاکٹر ہما تو اس کی پسندیدہ لڑکی تھی ۔۔ وہ ہمیشہ ہی اسکی خوبصورتی پر اپنی لاڑ ٹپکاتا رہتا تھا ۔۔ ہما کو بھی اس بات کا احساس تھا۔۔ اسی لیے وہ اسکو نا پسند کرتی تھی ۔۔ اسے دیکھتے ہی اسکے ماتھے پر بل پڑ جاتے تھے ۔۔ کیونکہ اسکی نظریں اسکے جسم کو ناپتی رہتی تھیں ۔۔ اسی وجہ سے ہما اس سے نفرت کرتی تھی ۔۔ اب بھی کمرے میں صفائی کرنے آیا تو ہما کو دیکھنے لگا۔۔ اسے بھی احساس ہوا کہ آج ہما ہر روز سے کچھ زیادہ ہی خوبصورت لگ رہی ہے ۔۔ اسکی نظریں بار بار ہما کی ننگی ہو رہی ہوئی گوری گوری پنڈلیوں پر جا رہی تھیں ۔۔ صفائی کرتے ہوئے وہ رہ نہیں پایا اور بول ہی پڑا۔۔ میڈم جی ۔۔ آج تو آپ بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔ ہما نے چونک کر اسکی طرف دیکھا ۔۔ اور ناگواری سے بولی ۔۔ تم کو اس سے کیا مطلب ؟؟؟ تم اپنے کام سے کام رکھو۔۔ رشید۔۔ وہ میڈم جی میں تو ویسے ہی کہہ رہا تھا ۔۔۔ جو سچ بات ہے میں نے کہہ دی بس۔۔ ہما۔۔ اپنی اوقات میں رہا کرو ۔۔ سمجھے ۔۔ اور آئندہ میں تمھارے منہ سے ایسی بات نہ سنوں رشید چپ کر گیا۔۔ اور اپنا کام کرنے لگا۔۔ مگر اسکی ہوسناک ٹھرکی نظریں کہاں باز آنے والی تھیں ۔۔ وہ ابھی بھی بار بار ہما کے جسم کو ہی تاڑ رہی تھی ۔ ۔ آخر اس کا کام مکمل ہوا اور وہ کمرے سے نکل گیا۔۔ تھوڑی دیر میں ہما کو ایک سینئر ڈاکٹر کے ساتھ آپریشن تھیٹر جانا پڑ گیا۔۔ اس نے اپنے آفس میں اپنے کپڑے اتارے اور انکو کھونٹی پر لٹکا کر آپریشن تھیٹر کا لباس پہن لیا اور اندر چلی گئی ۔۔ رشید نے بھی ہما کو آپریشن تھیٹر جاتے ہوئے دیکھا تو ماحول سازگار دیکھ کر وہ ہما کے آفس میں کھسک آیا۔۔ وہاں اسے ہما کا لباس نظر آیا۔۔ وہ فوراََ آگے بڑھا۔۔ اور اسے کھونٹی پر سے اتار لیا۔۔ اسے اپنے ہاتھوں میں لے کر انکی خوشبو سونگھنے لگا۔۔ ہما کے لباس کی خوشبو کو سونگھتے ہی رشید کی آنکھیں بند ہونے لگیں ۔۔ بہت ہی پیاری اور مست خوشبو آرہی تھی ۔۔ ہما کے جسم کی خوشبو بھی اس میں تھی اور اسکے پرفیوم کی بھی ۔۔ رشید نے ہما کی شلوار کو پکڑا اور اسکی چوت والے حصے کو اپنی ناک سے لگا کر سونگھنے لگا۔۔ وہاں پر تو صرف ہما کی چوت کی خوشبو تھی ۔۔ بھینی بھینی ۔۔ مست کر دینے والی ۔۔ جتنا وہ سونگھتا جاتا اتنی ہی اسکی ہوس بڑھتی جاتی ۔۔ اسکا لوڑا بھی اکڑنے لگا تھا ۔۔ اس نے اپنا لوڑا باہر نکالا اور ہما کی شلوار کو اپنے کالے لوڑے پر لپیٹ کر اسے رگڑنے لگا۔۔ ملائم شلوار کی رگڑائی سے اسے بے حد مزہ آرہا تھا ۔۔ لوڑے پر سے کپڑا پھسلتا جا رہا تھا ۔۔۔ اور رشید دوسرے ہاتھ سے ہما کی قمیض کو سونگھ رہاتھا۔۔ اسے احساس تھا کہ اگر اسکا پانی ڈاکٹر ہما کے کپڑوں پر لگ گیا تو اسکے لیے اچھا نہیں ہو گا۔۔ آخر اس نے خود پر قابو پایا اور پھر ہما کے کپڑے واپس لٹکا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔ ہما واپس آئی اور آکر اپنے کپڑے پہننے لگی تو اسے احسا س ہوا کہ اسکے کپڑوں پر کافی سلوٹیں پڑی ہوئی ہیں ۔۔ ہما کو کچھ سمجھ نہیں آئی ۔۔ وہ اپنے کپڑوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی ۔۔ اپنی شلوار پر ایک جگہ اسکو ایک چھوٹا سا سرخ سرخ نشان نظر آیا۔۔ وہ حیران ہوئی اور اسے دیکھنے لگی کہ یہ کس چیز کا نشان ہو سکتا ہے ۔۔ کوئی بلڈ ہے یا کچھ اور۔ ۔ جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے خاموشی سے اپنے کپڑے پہنے اور باہر آگئی ۔۔ باہر آئی تو رشید پھر اسکو دیکھ رہا تھا ۔۔ اسکا لوڑا یہ سوچ کر ہی ٹائٹ ہونے لگا کہ ابھی کچھ دیر پہلے وہ ڈاکٹر ہما کی چوت کی خوشبو سونگھ چکا ہے ۔۔ اور اسکی شلوار سے اپنی مٹھ بھی ماری ہے ۔۔ ہما نے جب رشید کو پان چباتے ہوئے دیکھا تو ایک لمحے کے لیے اسے خیال آیا کہ کہیں یہ اسکے پان کا نشان تو نہیں ہے ۔۔ ہو بھی سکتا ہے کہ اس کمینے نے اندر جا کر میرے کپڑوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہو ۔۔ ہما کی نظروں میں خود بخود ہی اسکے لیے غصہ آگیا۔۔ مگر وہ اسے کچھ نہ بولی ۔۔ آخر کہتی بھی کیا۔۔ کیونکہ اسے خود یقین نہیں تھا ۔۔ رات کے 2 بجے تو سب طرف سکون ہی سکون ہوگیا۔۔ رشید بھی حسب معمول کہیں پڑ کر سو چکا تھا۔۔ مگر ڈاکٹر ہما، زمان اور زیب جاگ رہے تھے ۔۔ زمان نے ہما کا ہاتھ پکڑا اور آج پھر سیکنڈ فلور کی طرف لے جانے لگا۔۔ ہما نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور مسکراتی ہوئی اسکے ساتھ چل پڑی ۔۔ لفٹ کے اندر جاتے ہی زمان نے ہما کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔۔ ہما کسمسائی ۔۔ تھوڑا صبر تو کرو نا ۔۔ میں کہیں بھاگی تو نہیں جا رہی نا۔۔ تمھارے ساتھ ہی جارہی ہوں نا۔۔ مگر زمان کہاں اسے چھوڑنے والا تھا۔۔ اتنی سی دیر کے لیے بھی اسکو چومتا رہا۔۔ اندر کمرے میں جاتے ہی اس نے ایک بار پھر سے ہما کو اپنی بانہوں میں لیا اور اسکی کمر کو سہلاتے ہوئے اسکی گانڈ کو دبانے لگا۔۔ 



 جاری ہے

*

Post a Comment (0)