بیوی سے زیادہ بہن وفادار
قسط نمبر 03
وہ کیا کہنا چاہتی تھی . کیا میرے اندر جو اتنے سال سے شق ہے کیا وہ اس کو جانتی ہے . کیا وہ سائمہ كے بارے میں بھی جانتی ہے . ایک دفعہ پِھر میرے دِل ودماغ میں سائمہ والی بات گونجنے لگی . میں یہ ہی سوچتا سوچتا نیچے اپنے کمرے میں آ گیا اور تو دیکھا سائمہ کسی کے ساتھ فون پے بات کر رہی تھی . مجھے دیکھتے ہی فون پے بولی اچھا امی پِھر بات کروں گی . اور فون بند کر دیا . اور مجھ سے بولی آپ کے لیے چائے لے آؤں . میں نے کہا ہاں لے آؤ اور وہ کچن میں چلی گئی . پِھر اس رات میں نے سائمہ کے ساتھ کچھ نہیں کیا اور جلدی ہی سو گیا . میں اب موقع کی تلاش میں تھا کے مجھے اکیلے میں موقع ملے تو میں نبیلہ سے کھل کر بات کروں گا . لیکن شاید مجھے موقع نہیں مل سکا اور ایک دن لاہور سے خبر آئی کے سائمہ کے ابو یعنی میرے چا چا جی زیادہ بیمار ہیں . میں سائمہ کو لے کر لاہور آ گیا چا چا کی طبیعت زیادہ خراب تھی وہ اسپتال میں ایڈمٹ تھے میں سیدھا چا چے کے پاس اسپتال چلا گیا ان کوگرد ےفیل ہو چکے تھے وہ بس اپنی آخری سانسیں گن رہے تھے . میں نے جب چا چے کی یہ حالت دیکھی تو مجھے رونا آ گیا کیونکہ میری چا چے کے ساتھ بہت محبت تھی بچپن میں بھی چا چے نے مجھے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی . جب چا چے نے مجھے دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے . میں وہاں بیٹھ کر چا چے کے ساتھ آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگا . کچھ دیر کے لیے میں باہر گیا اور نبیلہ کے نمبر پے کال کی اور اس کو بتایا کے ابّا جی کو لے کر تم سب لاہور آ جاؤ چا چے کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے . پِھر دوبارہ آ کر چا چے کے پاس بیٹھ گیا جب میں اندر آیا تو اس وقعت کوئی بھی اندر نہیں تھا میں اکیلا ہی چا چے کے ساتھ بیٹھا تھا . میں نے چا چے ہاتھ پکڑ کر ان کے ماتھے پے پیار کیا تو چا چے نے مجھے اشارہ کیا کے اپنا کان میرے منہ کے پاس لے کر آؤ میں جب چا چے کے نزدیک ہوا تو چا چے نے کہا وسیم پتر مجھے معاف کر دینا میں نے تیرے ساتھ ظلم کیا ہے . تیری چا چی اور تیری بِیوِی سائمہ ٹھیک نہیں ہیں اور تو *** کے لیے میری چھوٹی بیٹی کو ان سے بچا لینا . میں نے کہا چچا جی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں . بس پِھر چا چے کے منہ سے اتنا ہی لفط نکلا نبیلہ اور شاید چا چے کی سانسوں کی ڈوری ٹوٹ چکی تھی . چا چے کا سانس اُکھڑ نے لگ گئی تھی میں بھاگتا ہوا باہر گیا ڈاکٹر کو بلا نے کے لیے لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا جب میں واپس ڈاکٹر کو لے کر کمرے میں داخل ہوا تو چا چا جی اِس دُنیا کو چھوڑ کر جا چکے تھے. پِھر ہم میت لے کر گھر آ گئے میرے ابّا جی اور میرے گھر والے بھی شام تک آ گئے تھے . میرے ابّا جی بہت روے کیونکہ ان کا ایک ہی بھائی تھا . میں بھی بہت رویا اور سوچتا رہا کے چا چے کو پتہ نہیں کیا کیا دُکھ سائمہ اور چا چی نے دیئے ہوں گے جو وہ مجھے ٹھیک طرح سے بتا بھی نا سکے. جب جنازہ وغیرہ ہو گیا تو چا چے کے گھر پر میں نے ایک اجنبی سا بندہ دیکھا اس کی عمر شاید 29یا30 سال کے لگ بھاگ لگ رہی تھی. وہ بندہ اجنبی تھا میں تو اپنے سارے رشتے دارو ںکو جانتا تھا . وہ بار بار چاچی کے ساتھ ہی بات کرتا تھا اور ان کے آگے پیچھے ہی پِھر رہا تھا . ایک بات اور میں نے نوٹ کی میری بہن نبیلہ اس کو بہت غصے سے دیکھ رہی تھی اور اس کی ہر حرکت پے نظر رکھے ہوئے تھی . یہاں پے چا چی کا بتا دوں میرے چا چے نے خاندان سے باہر شادی کی تھی وہ تھی بھی شکل صورت والی اور ناز نخرے والی تھی . اس کی عمر بھی لگ بھاگ 37یا 38 سال تھی . اس نے چا چے کو زمین بیچ کر لاہور میں رہنے کے لیے اکسایا تھا . اور میرا بے چارہ چا چا شاید اس کی باتوں میں آ گیا تھا. خیر وہ وقعت وہاں گزر گیا ہم چا چے کے گھر مزید ایک ہفتہ رہے اور پِھر اپنے گھر واپس آ گئے جب ہم واپس آنے لگے تو سائمہ نے تو ابھی مزید کچھ دن اور رکنا تھا لیکن سائمہ کی چھوٹی بہن ثناء جس کی عمر 16 سال کے قریب تھی وہ میرے ابّا جی سے کہنے لگی تایا ابو میں نے بھی آپ کے ساتھ جانا ہے میرے ابّا جی فوراً راضی ہو گئے اور اس کو بھی ہم ساتھ لے آئے لیکن میں ایک بات پے حیران تھا کے سائمہ یا اس کی ماں نے ایک دفعہ بھی ثناء کو ساتھ جانے سے منع نہیں کیا جو کہ مجھے بہت عجیب لگا . خیر ہم واپس اپنے گھر آ گئے. جب ہم گھر واپس آ گئے تو ایک دن دو پہر کو میں اپنے کمرے میں بیٹھ ٹی وی دیکھ رہا تھا تو نبیلہ میرے کمرے میں آ گئی اور آ کر میرے بیڈ کے دوسرے کونےپے آ کر بیٹھ گئی اور بولی بھائی مجھے آپ سے بہت سی ضروری باتیں کرنی ہیں . لیکن فلحال ایک بات کرنے یہاں آئی ہوں . میں نے ٹی وی بند کر دیا اور بولا ہاں بولو نبیلہ کیا بات کرنی ہے میں سن رہا ہوں . نبیلہ نے کہا بھائی ثناء نے میٹرک کر لیا ہے اور وہ اب بڑی ہو چکی ہے آپ اس کو اگلی پڑھائی کے لیے لاہور سے دور کسی اچھے سے کالج میں داخلہ کروا دو میں نہیں چاہتی وہ اپنے گھر میں اور زیادہ رہے وہ جتنا اپنے گھر سے دور رہے گی تو محفوظ رہے گی. میں نے کہا نبیلہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ اپنے گھر سے باہر کیسے زیادہ محفوظ رہے گی مجھے تمہاری یہ بات سمجھ نہیں آ رہی ہے . چا چے نے بھی مرتے ہوئے مجھے چا چی اور سائمہ کے بارے میں کہا تھا کے یہ دونوں ٹھیک نہیں ہے اور تمہارا نام لے رہے تھے اور پِھر وہ آگے کچھ نہ بول سکے اور دنیا سے ہی چلے گئے . نبیلہ یہ سب کیا ہے کیا تم کچھ جانتی ہو . اس دن تم نے چھت پے جو بات کہی تھی وہ بھی تم نے بول کر مجھے عجیب سے وہم میں ڈال دیا ہے. نبیلہ نے کہا بھائی آپ فل حال پہلے ثناء کا کچھ کریں اور تھوڑا سا انتظار کریں میں آپ کو سب کچھ بتا بھی اور سمجھا دوں گی. میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن کیا ثناء راضی ہے . تو نبیلہ نے کہا وہ تو راضی ہی راضی ہے وہ خود اب اس گھر میں نہیں جانا چاہتی ہے . میں نے کھا اچھا ٹھیک ہے میں کل ہی ***** آباد میں کسی سے بات کرتا ہوں اِس کو وہاں اچھے سے کالج میں داخلہ بھی کروا دیتا ہوں اور ہاسٹل بھی لگوا دیتا ہوں . نبیلہ پِھر شکریہ بول کر باہر چلی گئی جب وہ باہر جا رہی تھی میری یکدم نظر اپنی بہن کی گانڈ پے گئی تو دیکھا اس کی قمیض شلوار کے اندر پھنسی ہوئی تھی اور اس کی گانڈ بھی کافی بڑی اور مو ٹی تازی تھی . مجھے اپنے ضمیر نے فوراً ملامت کیا اور میں پِھر خود ہی اپنی سوچ پے بہت شرمندہ ہوا. پِھر میں اپنے بیڈ پے لیٹ گیا اور سوچنے لگا کے نبیلہ سائمہ اور چا چی کے بارے میں کیا جانتی ہے . کیا اِس بات کا چا چے کو بھی پتہ تھا جو اس نے مجھے آخری ٹائم پے بولا تھا. اگلے دن میں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا وہ میرے کالج وقعت کا دوست تھا وہ اب ***** آباد شہر میں کسی سرکاری مہکمہ میں آفیسر لگا ہوا تھا. اس نے مجھے 2 دن کے اندر ساری معلومات اکٹھی کر کے دی. میں ثناء کو لے کر لاہور آ گیا اور اس کا سارا ساما ن اکھٹا کیا اور اس کو لے کر ***** آباد چلا گیا میں دوبارہ پِھر حیران ہوا کے اِس دفعہ بھی چا چی یا سائمہ نے ثناء کے لیے منع نہیں کیا خیر میں ثناء کو ***** آباد میں آ کر اس کے کالج اور ہاسٹل کا سارا بندوبست کر کے پِھر میں واپس لاہور آ گیا اور لاہور سے سائمہ کو لیا اور اپنے گھر واپس آ گیا جب میں سائمہ کو لاہور سے لینے گیا تو چا چی کی بھی کہا آپ بھی چلو آپ بھی وہاں کچھ دن جا کر رہ لینا لیکن چا چی کا جواب بہت ہی عجیب اور معنی خیز تھا انہوں نے کہا میرا کیا وہاں گاؤں میں رکھا ہے اور ویسے بھی دنیا کا مزہ تو شہر میں ہی ہے . مجھے اب کچھ کچھ اپنے چا چے کی بات سمجھ لگنے لگی تھی. میں گھر آ کر موقع کی تلاش میں تھا کے میں نبیلہ سے کھل کر بات کر سکوں اور سب باتیں سمجھ سکوں . لیکن کوئی اکیلے میں موقع نہیں مل رہا تھا . میری چھٹی بھی 1 مہینہ ہی رہ گئی تھی اور مجھے واپس سعودیہ بھی جانا تھا . میرا اور سائمہ کا جسمانی تعلق تو تقریباً چل رہا تھا لیکن آب شاید وہ بات نہیں رہ گئی تھی کیونکہ میرا شق یقین میں بدلتا جا رہا تھا . پِھر ایک دن میں صحن میں بیٹھ اِخْبار پڑھ رہا تھا تو نبیلہ شاید فرش دھو رہی تھی اس نے اپنی قمیض اپنی شلوار میں پھنسائی ہوئی تھی اور فرش دھو رہی تھی . میری یکدم نظر اس پے گئی تو حیران رہ گیا اور دیکھا اس کی شلوار پوری گیلی ہوئی تھی اس نے سفید رنگ کی کاٹن کی شلوار پہنی ہوئی تھی جو کے گیلا ہونے کی وجہ سے اس کی نیچے پوری گانڈ صاف نظر آ رہی تھی . نبیلہ کا جسم ایک دم کڑک تھا سفید رنگت بھرا ہوا سڈول جسم تھا . نبیلہ کی گانڈ کو دیکھ کر میری شلوار میں برا حال ہو چکا تھا . اور اپنے لن کو اپنی ٹانگوں کے درمیان میں دبا رہا تھا . میں نے اپنی نظر اِخْبار پر لگا لی لیکن شیطان بہکا رہا تھا اور میں چور آنکھوں سے بار بار نبیلہ کی طرف ہی دیکھ رہا تھا . مجھے پتہ ہی نہیں چلا کے کب میں نے اپنا لن اپنی شلوار کے اوپر سے ہی ہاتھ میں پکڑ لیا تھا اور اس کو زور زور سے مسل رہا تھا . اور نبیلہ کی گانڈ کو ہی دیکھ رہا تھا . میرا ضمیر مجھے بار بار ملامت کر رہا تھا ہے یہ بہن ہے . لیکن شیطان مجھے بہکا رہا تھا . مجھے پتہ ہی نہیں چلا کے میری بہن نے مجھے ایک ہاتھ سے اِخْبار اور دوسرے ہاتھ سے اپنا لن مسلتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور میری آنکھوں کو بھی دیکھ لیا تھا کے وہ نبیلہ کی گانڈ کو ہی دیکھ رہی ہیں . مجھے اس وقعت احساس ہوا جب پانی کا بھرا ہوا مگ نبیلہ کے ہاتھ سے گرا اور مجھے ہوش آیا میں نے نبیلہ کی طرف دیکھا تو وہ مجھے پتہ نہیں کتنی دیر سے دیکھ رہی تھی مجھے بس اس کا چہرہ لال سرخ نظر آیا اور وہ سب کچھ چھوڑ کر اندر اپنے کمرے میں بھاگ گئی . مجھے ایک شدید جھٹکا لگا
جاری ہے