دیہاتی لڑکی
قسط نمبر 36
بارشوں کا یہ سلسلہ اسی رات سے دوبارہ شروع ہو گیا تھا اور میں تقریباً گھر تک محدود ہو گیا تھا سائقہ کا زرلٹ آ چکا تھا اور سائقہ کے ساتھ مہوش بھی اچھے نمبروں سے پاس ہو گئی تھی سائقہ کی امی روزانہ ہی کال کرتی تھی اور وہ لوگ سائقہ کے ساتھ مہوش کے داخلے کے بھی خواہاں تھے میرے ایک دوست کی وائف اسی کالج کی پرنسپل تھی جن سے میں نے پہلے ہی بات کر لی تھی اور داخلہ لینے میں کوئی دشواری نہیں تھی ساتھ میں نے اس کالج سے تقریباً دو فرلانگ دور ایک پرائیویٹ گرلز ہاسٹل تھا اور شہر میں گرلز کے لئے مختص یہ واحد ہاسٹل تھا بارش کا سلسلہ رکنے کے بعد میں نے پہلی فرصت میں اس گرلز ہاسٹل کا رخ کیا اور ایک روم بک کرا لیا ۔۔ اس ہاسٹل میں ہر روم چار بیڈ پر مشتمل تھا میں دو بیڈ بھی بک کرا سکتا تھا لیکن میں نے یہ روم مکمل بک کتا لیا تھا ۔۔۔ سائقہ کو شادی سے واپس گئے ایک مہینے سے زیادہ ہو چکا تھا اور وہ داخلے سے زیادہ مجھ سے ملنے کو بےقرار تھی اور سچی بات کہ میں اس سے کہیں زیادہ بےچین تھا لیکن ملاقات کے مواقع دستیاب نہیں تھے اور مجھے اس کے ساتھ خوشی بھی تھی کہ سائقہ اب میرے قریب آ رہی تھی اور ملنے کے فل ٹائم مواقع موجود تھے کالج کے داخلے شروع ہو گئے تھے اور میں سائقہ کی امی کو ان کی مکمل تیاری کے ساتھ اگلے روز آنے کا۔کہہ دیا وہ اگلے روز شام سے قبل میرے گھر میں آ گئے تھے سائقہ کی امی کے ساتھ سائقہ مہوش اور مہوش۔کی امی بھی آ گئی تھی شام کے بعد شاکرہ کھانا تیار کرنے لگی اور میں ان چاروں کو گرلز ہاسٹل لے کر چلا گیا میں ہاسٹل سے باہر گاڑی میں ہی بیٹھا رہا جبکہ یہ چاروں ہاسٹل میں چلے گئے ان کے میرے گھر آنے کے بعد سے ابتک سائقہ سے میری زیادہ تر باتیں آنکھوں ہی آنکھوں میں ہو رہی تھیں ۔۔ واپسی پر سائقہ کی امی نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہی کہا بھائی یہاں کا نظام تو بہت بہتر ہے پیچھے بیٹھی مہوش کی امی بھی بہت مطمئن تھی اور ان دونوں کی میری ساتھ ہونے والی گفتگو سے پیچھے بیٹھی سائقہ اور مہوش بہت خوش تھی ۔۔۔ مہوش کی امی اب بات یہ ہے کہ ان کا دل بھی جہاں لگ جائے اور پڑھائی پر توجہ دیں ۔۔ سائقہ بولی میرا تو پہلے سے دل لگا ہوا اور مہوش کا دل بھی لگ جائے گا ۔۔۔۔ میں سائقہ کی میٹھی گفتگو کو انجوائے کرتا مسکرا کر گاڑی اس رش میں آگے بڑھا رہا تھا ہم گھر پہنچ گئے تھے کھانے کے بعد شاکرہ نے ان دونوں کی کلاس لی کہ شہر میں کیسے رہنا اور اپنے والدین کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے پڑھائی کیسے کرنی ہے سائقہ مہوش سے بہت زیادہ شریف اور سادہ بن کر شاکرہ سے گفتگو کر رہی تھی اور اس کے اس بھرپور انداز پر میرا کسی بھی وقت قہقہہ بلند ہو سکتا تھا سو میں اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔۔ شاکرہ ان چاروں کو سلا کر میرے پاس آ گئی تھی ناول اٹھا کر میرے ساتھ بیڈ پر۔بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔سائقہ بہت پیاری اور ذہین بچی ہے ۔۔۔۔ اس کی عمر کم ہے ورنہ میں شاہد (شاکرہ کا بھائی )سے اس کی شادی کر لیتی ۔۔۔ اور شاہد کی تو اب منگنی بھی ہو چکی۔۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔پھررر۔۔۔۔ مسکرا کے بولی کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔ میں مسکرا کر نیم کھلی آنکھوں سے بولا شاکرہ ۔۔۔۔۔ ناول کو رکھ دو۔۔۔۔ اس نے ناول کو بیڈ کے ساتھ ٹیبل پر رکھتے ہوئے ہنستے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ آج گرمی تو اتنا زیادہ نہیں تھی ۔۔۔۔۔ اور شاکرہ میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر کر میری آنکھوں کو چومتے ہوئے ان کو پورا کھولنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبحِ میں ان کو کالج لے گیا یہ چاروں کالج میں چلیں گئیں اور میں نے دوست کو کال کر کے بتا دیا جس نے اوکے کر کے کال منقطع کر دی میں گاڑی میں بیٹھ کر میوزک انجوائے کرنے لگا کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وہ مسکراتی آنکھوں کے ساتھ کالج سے باہر آ گئی تھی واپسی پر سائقہ کی امی نے پرنسپل کی طرف سے ملنے والی عزت افزائی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پرنسپل کہہ رہی تھی کہ میرے ہسبنڈ نے پہلی بار کسی دوست کی بچیوں کی سفارش کی ہے تو میں ان بچیوں کی خود نگرانی کرونگی ۔۔۔۔۔ کالج اور ہاسٹل میں میرا رابطہ نمبر سربراہ کے طور پر لکھا دیا گیا تھا ۔۔ہم گھر آگئے تھے اور کھانا کھانے کے بعد یہ اپنے گھر جانے کی تیاری پکڑنے لگ گئیں تھی آج منگل تھا اور آنے والے منڈے سے کلاسز سٹارٹ ہو رہی تھی اور شاکرہ نے ان کو بولا تھا کہ ہم اتوار کے روز اپ کو خود لینے آ جائیں گے ۔۔۔ وہ بہت خوش ہو کر چلی گئی تھی ۔۔۔۔ شام کے بعد سائقہ نے محبت بھری ایک لمبی تحریر ہے میرا شکریہ ادا کیا تھا ۔۔۔۔ مانوں ۔۔۔ اس زینت کے بھائی کی شادی کے دنوں میں اس چھوٹی کوٹھڑی میں ہونے والی ہماری ملاقات کے بعد میں محبت میں اندھی خود کو سسی محسوس کرنے لگی تھی ۔۔۔ جو ریت کے ٹیلوں میں رل کر مر گئی تھی ۔۔۔ جب تم نے جاتے وقت گاڑی کو سپیڈ سے اس بستی کی گلی سے نکالا تھا تو میں گرد کے ان بادلوں میں گر کر دفن ہونا چاہ رہی تھی میرے سینے میں عشق کی جو آگ بھڑک اٹھی تھی میں اس میں رفتہ رفتہ سلگ کر جلنے اور اس کے دھویں سے بستی میں تماشا نہیں بننا چاہتی تھی ۔۔۔ تمھاری وہ بات کہ آپ مجھے اپنے پاس لے جائیں گے بالکل ایسے لگ رہی تھی جیسے کوئی شہر کا۔مرد اپنی حوس پوری کرنے کے لئے گاؤں کی ایک سادہ بھولی لڑکی پر اپنا جال پھینک کر شکار کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔۔۔ لیکن آج۔۔۔۔۔۔۔۔بس آئی لو یو ۔۔۔مانوں ں ں ں آئی لو یو۔۔۔ کاش میرے ان الفاظ لکھنے کے وقت بھی آپ میرے سامنے بیٹھے ہوتے ۔۔۔۔ تو میں تمھیں بتا دیتی کہ عشق کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔ میں تھینکس نہیں بولنا
چاہتی ۔۔۔۔۔۔۔
میں نے مسیج پڑھنے کے بعد موبائل کو اپنے سینے کر رکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔۔۔بہت دیر بعد شاکرہ نے میری ران پر اپنی کہنی ٹکاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ نیند آ رہی ہے ؟؟؟؟؟ میں نے آنکھیں کھول کر انگڑائی لی اور اپنے آنکھوں کے کنارے انگلیوں سے صاف کرتے ہوئے کہا بولو شاکرہ ۔۔۔۔ بولی دوسری گلی میں کسی یتیم بچی کی شادی ہے اگر چلتے ہو تو کچھ دیں آئیں ؟؟؟ میں نے کہا ہاں چلتے ہیں ۔۔۔۔۔اتوار کے روز صبح ناشتے کے دوران شاکرہ بولی اگر آپ فری ہیں تو سائقہ لوگوں کو لینے چلے جاتے ہیں اور واپسی ان کو ہاسٹل چھوڑ کر مجھے امی کے گھر پہنچا دینا میں نے کہا نہیں تم صبح جانا امی کے گھر۔۔۔۔۔۔۔ میں مسکرا کر ٹی وی کی طرف دیکھنے لگا اور شاکرہ مسکراتے ہوئے برتن اٹھانے لگی ۔۔۔۔۔ ہم دس بجے سائقہ کی بستی کی طرف نکل پڑے تھے شاکرہ ریموٹ اٹھا کر گانے بدل رہی تھی ہم سائقہ کے گھر پہنچ گئے تھے مہوش اور اس کی امی بھی وہیں آئیں ہوئی تھی۔۔۔ ہم ان سے ملنے کے بعد کچھ دیر کے لئے زینت کی امی کے گھر چلے گئے اور پھر سائقہ ہمیں بلانے آ گئی تھی اور ساتھ زینب کی امی کو بلا لیا کہ خالہ آ جائیں کھانا تیار ہے ۔۔۔ دیسی خالص فوڈ ایٹم کے ساتھ لسی ۔۔۔شاکرہ کو بہت مزہ آ رہا تھا بولی جی کرتا ایک گھر بستی میں بھی لے لیں ۔۔۔ سائقہ کی امی بولی اس جگہ دیوار بنا کر آدھا گھر میں آپ لوگوں کو دے دیتی ہوں ۔۔۔۔۔ شاکرہ نے ہنستے ہوئے سائقہ کی امی کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا تھا ۔۔۔ سائقہ اور مہوش نے دل لگی سے ہماری خوب خاطر مدارت کی تھی ۔۔۔ ہم واپسی کے لئے تیار ہو چکے تھے شاکرہ بولی اپنی شہزادیوں سے مل لیں ہم یہ واپس نہیں کریں گے آپ کو ۔۔۔ مہوش کی امی بولی ہم نے واپس لینے کیلئے کب دی ہیں آپ کو ۔۔۔۔۔۔ سائقہ اپنی امی کو دیکھتے ھوئے بولی ۔۔میری امی تو یہ بات نہیں بول رہی ۔۔۔۔ سائقہ کی امی نے کیوں بولوں میں تو ایسے واپس لوں گی ان لوگوں سے ۔۔۔ سائقہ بولی میں خود ہی واپس نہیں آؤں گئی ۔۔۔۔ سائقہ کی امی نے اسے گلے لگا کر چوما اور اپنی بھیگی آنکھیں صاف کرتے ہوئے سائقہ کو دھکا دیتے ہوئے ۔۔ مسکرا کر کہا دفاع ہو جاؤ۔۔۔۔۔پگلی کہیں کی ۔۔۔۔ میں نے اپنے چہرے کو دوسری طرف کر کے اپنی آنکھوں کے کنارے صاف کر لئے۔۔۔ ان کا سارا سامان شاکرہ گاڑی کی ڈگی میں رکھ رہی تھی اور کچھ سامان واپس کر دیا کہ اس کو رہنے دو سائقہ نے برقعہ پہننے کے بعد اپنے ہاتھ میں ایک شاپر اٹھا لیا ۔۔۔ شاکرہ نے شہد کی ان دو بوتلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا یہ کس لئے ۔۔۔ سائقہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی یہ استاد ۔۔۔۔ او میڈیم کے لئے تحفہ لے کے جا رہی ہوں ۔۔۔ شاکرہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھی اور سائقہ کی امی اور باقی لوگوں سے ملنے لگی ۔۔۔۔ گلی سے نکل کر کچے پر آتے ہی پچھلی سیٹ پر بیٹھی سائقہ نے پیچھے ہاتھ لہرا کر کہا بائے بائے میری بستی ۔۔۔۔۔ شاکرہ نے مسکرا کے پیچھے دیکھا اور بولی بائے بائے تو ایسے بول رہی ہو جیسے یہاں سے دلہن بن کے جا رہی ہو ۔۔۔۔ مین روڈ پر آتے ہی سائقہ نےشاکرہ سے بولا ۔۔۔ باجی ماموں سے لونگ لاچی والا گانا تو لگوا دو ۔۔۔۔ شاکرنے ریموٹ اٹھا کر میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ہے آپ کے پاس ؟؟؟ میں نے اپنا سر اثبات میں ہلا کر پیچھے دیکھتے ہوئے آگے جاتے ٹرکوں کو۔کراس کرنے لگا ۔۔۔ سائقہ شاکرہ سے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی ڈرائیونگ پر بھی پوری توجہ دے رہی تھی ۔۔۔۔ شاکرہ نے گانا ڈھونڈ لیا تھا اور ساتھ والیم بھی فل کر دیا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔ شہر کےایک چوراہے پر میں نے گاڑی کی سپیڈ تھوڑی کم کی اور لفٹ سائیڈ پر ہاسٹل کی طرف مڑنا چاہا تو شاکرہ نے سیدھا جانے کا کہا اس رش سے نکلنے کے بعد شاکرہ بولی مارکیٹ چلتے ہیں ۔۔۔اور پھر پیچھے ہاتھ لہراتے ہوئے بولی ان کا ہاسٹل کے لئے کچھ ضروری سامان لے لیتے ہیں ۔۔۔ میں نے ایک مارکیٹ کے پاس گاڑی روک لی ۔۔ میں نے شاکرہ سے کہا آپ جاؤ ان کے ساتھ میں گاڑی میں بیٹھا ہوں ۔۔۔۔۔ وہ تینوں گاڑی سے اتر گئیں تھی اور چند قدم جانے کے بعد سائقہ کا پاؤں کیلے کے چھلکے سے پھسل گیا تھا لیکن اس نے خود کو گرنے سے بچا لیا تھا ۔۔۔۔ لیکن یہ رک چکے تھے اور سائقہ نے اپنے ہپس کے اوپر ہاتھ رکھ کے اپنا سر جھکا لیا تھا وہ قدم نہیں اٹھا رہی تھی شاکرہ اسے کندھے سے پکڑ کر کچھ پوچھ رہی تھی اور میں مسکرا رہا تھا ۔۔۔ پھر وہ دونوں سائقہ کو پکڑے واپس گاڑی کی طرف آنے لگے تھے اور وہ بہانے سے آہستہ قدم رکھ کر لنگرا کر چل رہی تھی وہ جب قریب آئے تو میں شیشہ نیچے اتارتے ہوئے پریشانی کی اداکاری کرتے ہوئے پوچھا ۔۔کیا ھوا۔۔۔ شاکرہ بولی پھسل گئی تھی اور اسے چلنے میں دشواری ہو رہی یہ ادھر بیٹھی ہے اور ہم ابھی آتے ہیں میں نے اوکے کہہ خر پچھلی کھڑکی کھول دی ۔۔۔۔ سائقہ محتاط انداز میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی شاکرہ لوگ جیسے ہی گاڑی سے دور ہوئے اس نے کھڑکی بند کی اور پچھلی سیٹ پر الٹی لیٹتے ہوئی چلانے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ وائی وائی وائی ۔۔۔۔ یہاں
بہت درد ہو رہا ۔۔۔۔ وہ ہپس کی سائیڈ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی ۔۔۔ میں نے ہونہہہہ کرتے ہوئے سیٹ پر سے اپنا ہاتھ اس کی ببلی کی طرف لے جا کر کہا زیادہ درد ادھر ہے ناں ۔۔۔۔۔ سائقہ اثبات میں سر ہلا کر قہقہے لگانے لگی ۔۔۔میں نے اس کے ہپس پر زور سے مکا مارا اور بولا اٹھ جا بہن کی لوڑی۔۔۔۔۔۔ وہ ہنستے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر لگاتے ہوئے بولی مانوں ں ں آئی لو یو۔۔۔۔ ۔۔ میں نے مارکیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے اسے اٹھنے کو کہا اور موبائل کا بٹن دکھا کر اسے آن کرنے لگا اور پھر اسے سائقہ کو تھماتے ہوئے بولا ۔۔۔ اسی بٹن سے اسے آف کر دو اس نے موبائل کا بٹن دبا کر اسے آف کر دیا میں نے اسے اپنے پرس میں رکھنے کو کہا اور بولا ہاسٹل میں جب ایزی ہو جاؤ ۔۔۔ تو آن کر لینا ۔۔۔۔۔۔ یہ سامسنگ کا J7۔۔۔ میں نے اسے کہا کہ صرف ہاسٹل کے روم میں اس کو آن کرنا ہے اور کالج جاتے وقت روم میں ہی رکھ کے جانا ہے ۔۔۔ اس نے اوکے کہہ دیا اور کچھ پیسے دیکر اسے بتایا کہ صبح میں آپ کو کالج چھوڑنے آ جاؤں گا ۔۔۔۔اور ایک بزرگ سے ملا دوں گا آئندہ وہ چنگ چی پر آپ کو کالج اور ہاسٹل لاتے گا ۔۔۔یہ بزرگ دوماہ پہلے میرے پاس امداد کے لئے آیا تھا جسے میں نے چنگ چی خرید دی تھی کہ اسے چلا کر اپنی ضروریات پوری کرے اور جب تھک جائے تو چنگ چی مجھے واپس کر دے ۔۔۔آج سے کچھ روز قبل میں نے اسے بتا دیا تھا کہ کالج اور ہاسٹل کی ڈیوٹی لگائی ھے آپ کی جسے اس نے خوشی سے یہ کہتے ہوئے قبول کر لیا کہ چلو آپ کی خدمت کا کوئی موقع تو مل رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہوش کے بارے میں میں نے سائقہ سے پوچھا توبولی ۔۔۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔۔۔ سیٹ ہو جائیگی ۔۔۔۔ شاکرہ اور میں ان کو ہاسٹل میں پہنچانے کے بعد نکل پڑے تھے شاکرہ نے موبائل سے نظر اٹھا کر آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے بولی۔۔۔۔ کہاں جا رہے ؟؟؟ میں نے کہا پارک ۔۔۔۔ اس وقت شام کے آٹھ بج چکے تھے ۔۔۔ شاکرہ نے مسکرا کر دیکھا اور بولی خیریت ۔۔؟؟؟ کوئی لالچ تو نہیں ؟؟ میں نے کہا لالچ کے بغیر کون اتنا اہتمام کرتا ۔۔۔۔ شاکرہ نے مسکراتے ہوئے دوسری طرف دیکھتے ہوئے اپنے لبوکو گولائی میں کھولتے ہوئے اوووووووو ۔۔۔۔۔ کہہ دیا رات بارہ بجے ہم گھر آ کر ضروری کام سے فراغت کی بعد سو گئے ۔۔۔ صبح چھ بجے موبائل نے الارم بجا دیا اور میں تیار ہو کر ہاسٹل کی طرف نکل پڑا کالج کے گیٹ کے ساتھ بزرگ چنگ چی والا پہنچا ہوا تھا میں نے سائقہ اور مہوش کو بتا دیا کہ یہ آپ لو ہاسٹل اور کالج وقت پر پہنچا دے پہنچا دے گا میں گھر آ کر شاکرہ سے بولا کہ تیار ہو جاؤ امی کی گھر جانا ہے تو ۔۔۔۔۔۔ بولی امی کہیں جا رہی ہے فون پر رابطہ ہوا ہے ۔۔۔ میں جمعہ کے دن جاؤں گی اور تین دن وہاں رہوں گی ۔۔۔ چار دن پہلے بتا رہی ہوں وہ اپنا سر جھٹک کر پیار سے دیکھتی ہوئی کچن کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔۔۔ سائقہ کی امی کو میں ڈیلی کال کر کے اس کی حوصلہ افزائی اتوار کے صبح میں نے لاہور کسی تقریب میں شرکت کرنی تھی اور جمعہ کی شام کو پہلی بار سائقہ سے کال پر تفصیلی بات ہوئی تھی وہ ہر لحاظ سے مطمئن تھیں لیکن وہ خود ملنے کو تڑپ رہی تھی ۔۔۔ میں نے اسے سمجھایا کہ نیا سسٹم ہے جلد مل لیں گے میں نے اسے اپنا پروگرام بتاتے ہوئے کہا کہ آپ ہاسٹل سے ضروری سامان کے ساتھ کالج آنا میں آپ کو چھٹی کے بعد گھر پہنچا کر لاہور نکل جاؤں گا۔۔۔۔۔ سائقہ بولی آپ ابھی نکل جاؤ ہم بس پر چلی جائیں گی ۔۔۔۔ اس کا اصرار تھا کہ میں لاہور نہ جاؤں اور رات اس کے ساتھ گزار کر اتوار کے روز ان کو واپس لے کر آ جاؤں ۔۔۔۔
جاری ہے