ads

Dehaati Larki - Episode 23

دیہاتی لڑکی


قسط نمبر 23


سائقہ جھک کر میری پیشانی پر کس کرتے میرے سر کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔ سائقہ نے بہت پیار سے میرے گالوں کو اپنے نرم ہاتھوں میں بھرا تھا سائقہ کے ان بھرے ہاتھوں کا لمس مجھے پانچ ماہ بعد نصیب ہوا تھا میرے جلتے بدن میں ٹھنڈک محسوس ہونے لگی تھی اور میں نے وششششش کے ساتھ اپنی آنکھوں کو بند کر لیا ۔۔۔۔ سائقہ نے میرے ہونٹوں کو کس کیا اور میرے گال پر تھپکی دیتے ہوئے بولی ۔۔۔ مانوں ۔۔۔ میں نے اپنی آنکھیں کھول لیں اور جی کے ساتھ اسے دیکھا ۔۔۔ بولی ۔۔ آنکھیں کیوں بند کر لیں۔۔۔ میں مسکرا کے اسے دیکھا اور گہری سانس لے کر بولا ۔۔۔ تیرے ہاتھوں سے میری تھکن دور ہونے لگی تھی ۔۔۔۔ اس نے مسکرا کے اپنے ہاتھ دوبارہ میرے گالوں پر ٹکا دئیے ۔۔۔۔۔ مانوں ۔۔۔ آج میں آپ سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ اور تیری باتیں سن کر بہت سا رونا چاہتی ہوں ۔۔۔۔ میرے دل پر ابھی بھی بہت سا بوجھ ہے ۔۔۔ میں نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولا سقی ۔۔۔ مجھے زندگی کی طرف واپس لوٹتے دیکھ کر خوش ھو نا ۔۔۔۔ سائقہ نے جھک کر مجھے کس کیا اور بولی ۔۔۔ بہتتتتت بلکہ تیرے سے مجھے بھی نئی زندگی ملی ہے اور میں جینے لگی ہوں ۔۔۔۔۔ ورنہ شفقت کے تیرے اس چہرے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پھوٹ پھوکر رونے لگی تھی ۔۔۔ مانوں سوری مانوں ۔۔۔۔ میری وجہ سے تمہیں بہت درد ملے مانوں ں ں ں ں ۔۔سائقہ نے اپنا سر میرے ماتھے پر ٹکا دیا تھا ۔۔۔۔ میں نے پانی بھری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھنے کی کوشش کی اور ذرا اونچی آواز میں بولا ۔۔۔۔۔ سقی۔۔۔۔۔۔۔ وہ فوراً اپنا سر اٹھا کے آنکھیں ملتی بولی ۔۔۔ جی۔۔۔۔۔ تم مجھے رلانا چاہتی ہو۔۔۔؟؟؟ وہ آنکھوں کو صاف کرتے ہولی ۔۔۔ کبھی نہیں مانوں ۔۔۔۔ بسسسسس۔۔۔۔۔ وہ مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھنے لگی ۔۔۔۔ بولی وعدہ کرو ایک ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ بولو۔۔۔ سائقہ بولی جب آپ ٹھیک ہو جاؤ گے تو مجھے وہ سب بتاؤ گے ۔۔۔ اور مجھے کھل کر رونے بھی دو گے ۔۔۔ میں نے کہا بتانا کیا ہے ۔۔۔ بولی جب میرے گھر سے آگے چل گئے تھے اور حادثے تک ۔۔۔۔ میں نے کہا سقی کبھی بتا دونگا ۔۔۔۔ لیکن اب تم خوش رہا کرو پلیز ۔۔۔ بولی شام تک زینت کی امی گلی میں کھڑی رہی تھی کہ آپ ادھر آئیں گے تو وہ آپ کو اپنے گھر لے جائے گی اور تمھیں اس حال میں جانے نہیں دے گی ۔۔۔۔ سقی تمہیں جانا نہیں تھا میرے پاس سے ۔۔۔ ۔۔ بولی میں امی۔۔۔۔۔۔ وہ رونے کے قریب جا کر پھر چپ ہو گئی اور میرے گال پر ہاتھ رکھ کر خاموش بیٹھی رہی ۔۔۔ مانوں ں ں ایک بات کہوں ۔۔۔۔ میں نے کہا جی بولو۔۔۔ ۔۔۔ بولی ۔۔ مانوں ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اچھا بس ۔۔۔۔ میں نے کہا سقی ۔۔۔ شہد پڑا ہے گھر میں ۔۔۔۔ وہ فوراً اٹھ کر صوفے پر چلی گئی ۔۔۔۔ اور بولی نہیں پڑا ۔۔۔۔ لالچی مانوں ۔۔۔۔۔ میں مسکرا دیا پھر سائقہ اٹھ کر اپنی رائٹ سائیڈ میری طرف پھیر کر بھرپور انگڑائی لیتے ہوئے وشششش کرتی ۔۔۔۔ صوفے پر بیٹھتی ہوئی بولی ۔۔۔ بسسسسس ؟اتنا کافی سمجھو۔۔۔ شہد کے بچے ابھی شہد بہت مہنگی ہو گئی ۔۔۔۔ وہ اپنے لبوں کو سختی سے آپس میں ملاتے ہوئے اپنا سر ہلانے لگی تھی ۔۔۔ اس کی انگڑائی سے ببلو میں بہت عرصے بعد کچھ حرکت پیدا ہوئی تھی ۔۔۔ میں نے اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ بولی سو جاؤ سو جاؤ بہت گرمی ہے ۔۔۔ پھر وہ پاس آتے ہوئے بولی بولو لالچی انسان ۔۔۔۔ میں نے اسے زبان نکالنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ وہ میرے لبوں میں زبان دے کر جھک گئی اور اپنے ہاتھ گدے پر ٹکا دئیے میں اس شیریں ذائقے کا عادی ہو چکا تھا وہ شہد سے زیادہ میٹھی تھی ۔۔۔ اور اس نشئی کے طرح جسے بہت عرصے سے نشہ نا ملا ہو اور وہ اپنے نشے ٹوٹ پڑے میں اسی میں مست ہو کر اپنا بازو اٹھا گیا ۔۔۔۔۔ میں درد سے ٹوٹ گیا تھا ۔۔۔۔۔ بیڈ سے تھوڑے اٹھے بازو کے نیچے سائقہ نے اپنے ہاتھ لے جا کر میرے بازو کو آہستہ سے گدے پر ٹکا دیا اور بھاگ کر الماری سے پین کلر اٹھا لائی ۔۔۔ سائقہ نے مجھے ٹیبلیٹ کھلانے کو بعد میرے ہونٹوں پر اپنا گال رکھ دیا میں درد کو بھولنے لگا تھا ۔۔۔ وہ بہت دیر مجھے پیار کرتی رہی ۔۔۔ میں نارمل ہوا تو بولی مانوں ۔۔۔۔ یار تھوڑا صبرر کر لیا کرو۔۔۔۔میں تیری ھوں ۔۔۔ ۔۔۔ تم پھر چلی تو نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔۔ سائقہ نم آنکھوں سے میرے چہرے پر جھکتے ھوئے بولی ۔۔۔۔ مانوں مجھے اپنا فیصلہ ہر وقت اندر سے کاٹتا رہتا ہے پلیز مجھے معاف کر دو۔۔۔۔ اگر منہ مسکراتا،تو وہ رونے لگتی ۔۔۔۔ بہت دیر تک خاموش رہنے کے بعد سائقہ بولی ۔۔۔۔ مانوں اگر شاکرہ کو میرے مسئلے کا پتا چل گیا تو۔۔۔۔ میں نے کہا یہ صرف تمھیں اور مجھے معلوم ہے ۔۔۔ ۔۔۔ میں تو بتا نہیں سکتا ۔۔۔۔ باقی دیکھ لو۔۔۔۔۔۔۔ سقی سمجھو تمھارے ملنے سے میری ساری خواہشیں ختم ہو گئیں ہیں ۔۔۔ میں خوش ھوں ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے آگے بس ساری خواہشیں ختم ۔۔۔۔ میں جانتا ہوں ۔۔۔ شاکرہ تمھیں کبھی رنجیدہ نہیں ہونے دے گی اور اگر کہیں تم پر جان نچھاور کرنی پڑی تو وہ مجھ سے پہلے تم پر قربان ہو جائے گی ۔۔۔۔ سائقہ بولی شکی بہت اچھی ہے مانوں۔۔۔ اور میں چاہتی اس کا دل کبھی نہ ٹوٹے ۔۔۔ سائقہ نے میرے بازو کی طرف دیکھا اور پوچھا ۔۔۔ درد تو نہیں ۔۔۔۔ میں نے اسی فلائنگ کسنگ کرکے بولا تیرے ملنے کے بعد سارے درد ختم ۔۔۔۔۔۔ وہ مسکرا دی تھی ۔۔۔۔ میں نے پوچھا بھوک نہیں لگی ۔۔۔ بولی لگی ہے ۔۔۔۔ بہت لیکن جتنا تم کھاؤ گے اتنا میں ۔۔۔۔ جیسے ایک رات انڈہ پراٹھا کھایا تھا ۔۔۔۔ میں نے کمرے کی چھت کو تکتے ہوئے کہا ۔۔۔ ہاں سب سے بھاری دن تھا وہ ۔۔۔۔۔۔ سائقہ کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی ۔۔۔ پھر کچن کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔۔ وہ بریانی کے ساتھ رائتہ بنا لائی تھی ۔۔۔ اور ایک ایک چمچ کے کھیل سے بریانی ختم ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔شام سے کچھ پہلے سائقہ نے میرا موبائل اٹھا کر شاکرہ کو کال ملا دی ۔۔۔ شکی ۔۔۔ کال نہیں کی تم نے ۔۔۔۔۔ پھر چند لمحے کی خاموشی کے ساتھ بولی ہاں بہت سا مزا لیا ۔۔۔ لیکن تیرے حصے پر حملہ نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔ وہ کھلکھلا کر ہںس دی ۔۔۔ بولی آ جاؤں ۔۔۔ ؟؟؟ وہ شاکرہ کی بات سنتے ہوئے بولی ۔۔بیس منٹ کی خوراک دے کے ابھی آتی ۔۔۔۔ پھر خاموشی کے بعد بولی ۔۔۔ ہاں گھنٹے کی خوراک بھی دے دیتی لیکن مانوں ٹھیک نہیں ہیں ناں سمجھا کرو۔۔۔۔ وہ ہنسنے لگی ۔۔۔ بولی ہاں بس تیار ہو امی سے بھی مل لیتی ۔۔۔ اوکے۔۔۔۔ ۔۔ موبائل رکھتے ہوئے بولی مانوں ۔۔۔ بازو ٹھیک ہے ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ ہاں ٹھیک ۔۔۔۔ بولی میں جاؤں ؟؟؟؟ میں نے اسے فلائنگ کس دی ۔۔۔۔ وہ واپس مڑی ۔۔۔ مجھے کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد اپنا گال میرے ہونٹوں پر رکھا اور بولی صرف ایک ۔۔۔۔ بسسس اور مسکراتے ہوئے باہر چلی گئی ۔۔۔۔ وہ جاتے ہوئے گیٹ باہر سے لاک کر گئی ۔۔۔۔۔ کچھ دیر میں دونوں ہنستی ہوئی روم میں آ گئیں شاکرہ نے قریب آ کر پوچھا ۔۔۔ سقی کا مانوں ٹھیک ہے ۔۔ میں نے مسکرا کر بولا ٹھیک ہوں ۔۔۔ امی ٹھیک ۔۔۔ بولی ہاں دعائیں دے رہی تھی ۔۔۔ اور سقی کو اپنی بیٹی بنایا ہے ۔۔۔ سائقہ بولی امی بہت اچھی خاتون ھیں ۔۔۔ بہت پیار دیا مجھے ۔۔۔۔ شاکرہ اپنی امی کے گھر سے کھانا بنا کر لائی تھی سائقہ اس کچن میں رکھ کر آ گئی ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔ سقی موبائل کیسا ہے ۔۔۔ سائقہ نے مسکرا کر شاپر اٹھا کے اس کے طرف بڑھا دیا اور بولی ویسے کا ویسا ہے ۔۔۔ شاکرہ موبائل کا ڈبہ شاپر سے نکالتی ہولی ۔۔۔۔ بچی کو اتنا وقفہ تو دے دیتے کہ اپنا موبائل تو دیکھ لیتی ۔۔۔ شاکرہ نے موبائل ڈبے سے نکالا اور سم ڈال کر سائقہ کو دے دیا سائقہ نے موبائل میرے قریب رکھ دیا اور صوفے کے قریب پڑا نیلا شاپر اٹھا کر بولی شکی ادھر آؤ۔۔۔ وہ بیڈ پر آ گئی اور شاکرہ بھی اس کے سامنے بیٹھ گئی ۔۔۔ پوچھا سقی دودھ پلایا اسے۔۔۔۔ میں نے فوراً کہا نہیں پلایا اس نے ۔۔۔ سائقہ مسکرا کے میری طرف دیکھ کر خاموش ہو گئی ۔۔۔ شاکرہ نے پھر پوچھا ۔۔۔ سائقہ بولی پلایا ہے ۔۔ ایسے مستی کر رہا ۔۔۔۔ شاکرہ بات کو سمجھتے ہوئے مسکرا دی ۔۔۔ سائقہ نے شاپر کو الٹا کر دیا شاکرہ بولی کس کے ہیں یہ پیسے ؟؟؟سائقہ بولی مانوں کے اور میرے ۔۔۔ پھر اسے دھاگے میں لپٹے اور انعامات میں ملی رقم کے ساتھ اپنی امی سے ملنے والی رقم کے ساتھ پوری تفصیل بتا دی ۔۔۔ شاکرہ اس کے ساتھ مل کر نوٹوں کی الگ الگ کاپیاں بناتے ہوئے سائقہ سے پوچھا انعام والی رقم امی کو نہیں دی ۔۔۔ ؟؟ سائقہ نے بتایا کہ اس نے انکار کرتے ہوئے قسم اٹھائی تھی کہ بس مانوں کو دے دینا اس نے اتنے لگائے ہیں تم پر ۔۔۔ شاکرہ بولی کیوں مانوں نے تم پر اس لئے خرچ کئے تھے ۔۔۔؟؟؟؟ پھر خود ہی بولا ویسے اچھا ہوا ورنہ اب وہ یزید (شفقت ) کھا رہا ہوتا ۔۔۔ شاکرہ کو شفقت اور میرے معاملے کا علم نہیں تھا ۔۔۔ پھر بھی وہ شفقت کا نام سن کر جل بھن جاتی تھی شاکرہ نے نوٹوں کی کاپیاں دوبارہ شاپر میں ڈالیں اور سائقہ کو دیتے ہوئے ان کو الگ رکھ دو۔۔ اور ان پیسوں میں شامل نہیں کرنا۔۔ ۔۔ ہم دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے پھر شاکرہ اٹھ کر کچن چلی گئی اور کچھ دیر بعد وہ کھانا لیکر آ گئی ۔۔۔ سائقہ بولی آج میں نے اس کو بہت سی بریانی کھلائی ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔ بہت سی کیسے کھا لی اس نے ۔۔۔ سائقہ بولی ابھی دکھاتی ۔۔۔۔ اور اس طرح ایک نوالہ وہ اپنے منہ میں ڈالتی اور ایک میرے منہ میں ۔۔۔ شاکرہ بولی ماشاءاللہ ۔۔ کسی اور کے سامنے یہ عشق نہ جتانا ۔۔۔۔ نظر لگے گی تم دونوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیڈ پر آئی تو شاکرہ سیدھی لیٹ گئی اور سائقہ اس کو باہوں میں لپیٹ کر اسے کسنگ کرتی اس کے سینے پر سو گئی شاکرہ مسکرا کر اس کے گال پر چٹکی بھر گئی ۔۔۔۔ اگست میں میری ٹانگوں اور ایک بازو پر لگے اسٹیل کے جنگلے اتار لیئے گئے ۔۔۔ گھر آ کر ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق یہ دونوں میری ٹانگوں اور بازو کر ورزش دیتی تھی ۔۔۔ سائقہ گھر کے کاموں کے ساتھ میری خدمت کہ ساتھ سٹڈی بھی کرتی رہتی گھر میں وہ کبھی موبائل ہاتھ میں لے کر نہیں بیٹھی تھی ۔۔۔ ہاں گھر سے باہر جاتے وقت وہ موبائل اٹھانا نہیں بھولی تھی ۔۔۔ میری حالت بہتر ہونے لگی تھی اور اب بیڈ پر تکیے کی ٹیک سے بیٹھنے لگا تھا ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہم الشفاء ہسپتال جا رہے تھے میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹا ہوا تھا شاکرہ فرنٹ اور سائقہ سیٹ بلٹ باندھے ڈرائیونگ کر رہی تھی ۔۔۔ دوسرے دن واپسی پر ہم شاکرہ کی بہن کے گھر رکے تھے جو اسی روڈ پر موجود ایک سٹی میں تھا ۔۔۔ رات وہی۔ گزارنے کے جب صبح نکلنے لگے تو اس گھر کی ساری خواتین سائقہ کی دوست بن چکی تھی ۔۔۔ شاکرہ کی بہن نے بھی شاکرہ کے فیصلے پر اسے داد دی ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے کچھ سکون کی دوائیں لکھی تھی کیونکہ میرے سر میں اب بھی درد ہوتا تھا اور نیند آنے کے وقت مجھے اب بھی سائقہ کی چیخیں ۔۔۔ بریک اور ہارن کی بھاری آواز کے ساتھ سائقہ کا بکھرے بالوں کے ساتھ گھوم خر دور جاتا چہرہ دیکھائی دیتا تھا اور میرے آوازیں نکل جاتی تھی ۔۔۔ گھر آنے کے بعد شاکرہ نے ایک دن بولا دونوں اپنی خوراک بڑھا لوں ۔۔۔میں کچھ دنوں بعد تم دونوں لیلیٰ مجنوں کے ساتھ بہت برا کرنے والی ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ ایک دن میری صبح جلدی آنکھ کھل گئی ۔۔۔ آج میری طلب شدت میں تھی اور اس وقت اور زیادہ ہو گئی جب میں نے شاکرہ کے اوپر الٹی لیٹی سائقہ کو دیکھا ۔۔۔۔ میں کچھ کرنا چاہتا تھا لیکن کیسے یہ سوال مجھے ڈسٹةکر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ سائقہ نے آج تیاری کر لی تھی میڈیکل کالج اوپن ھو رہے تھے ۔۔۔۔ وہ آٹھ بجے گاڑی لیکر نکل گئی ۔۔۔ شاکرہ اسے اپنے بازو میں لپیٹ کر چومتی گاڑی تک لے گئی تھی اورگیٹ پر گڈ بائی کہنے کے بعد گیٹ لاک کرتی کچن چلی گئی ۔۔۔ اور کچھ دیر بعد میرے پاس آئی تو گیٹ بجنے لگا وہ محلے کی اس خالہ کو سودا سلف کے پیسے تھما کر واپس آ گئی تھی ۔۔۔ یہ خالہ ہمارے ہسپتال کے آنے کے بعد سے گھر کا سودا سلف لاتی تھی ۔۔۔ شاکرہ میرے پاس آئی تو میں نے پوچھا خالہ کتنی دیر میں آئے گی ۔۔۔ شاکرہ نے ہنستے ہوئے پوچھا ۔۔۔ کیوں خیریت ؟؟؟؟ آج آپ کی آنکھوں میں شیطان نظر آ رہا مجھے ۔۔۔۔۔ میں نے مسکرا کر کہا ۔۔۔۔ ہونہہہ بہت زیادہ ۔۔۔ بولی صحت کا خیال کرو۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا ہاں صحت کا خیال تو کر رہا ۔۔۔ ڈسٹرب ہوں ناں وہ مسکراتے ہوئے مجھے دیکھتی باہر چلی گئی ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد خالہ سودا دے کر چلی گئی تھی اور شاکرہ میرے سر کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔۔ بولی کچھ دن رک جاتے تو میں تمھیں سہاگ رات دینے لگی تھی ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ اسی رات کی پریکٹس کرنی ہے ۔۔۔ وہ ہنسنے لگی اور بولی ۔۔۔ ہل تو سکتے نہیں ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ آپ تو ہل سکتی ناں ۔۔۔شاکرہ نے میرے گال پر چٹکی بھر لی تھی شاکرہ میرے ساتھ لیٹ کر احتیاط سے آگے بڑھنے لگی تھی وہ مجھے کسنگ کرتے اپنا ہاتھ شلوار کے اوپر ہی ببلو کی طرف بڑھا گئی وہ بہت عرصے بعد میرے پاس سوئی تھی ۔۔ بہت دیر تک وہ ببلو کو ہاتھ میں بھرتی کسنگ کرتی رہی اور پھر اٹھ بیٹھی اور میری شلوار کو اتار دیا ببلو کو غور سے دیکھتی بولی۔۔۔ اچھا ہوا یہ ہڈی بچ گئی ۔۔۔ ایک ہی چیز تو کام کی پورے زاہد میں ۔۔۔ وہ ہنسنے لگی تھی پھر اس نے اپنے کپڑے بھی اتار دئیے اور الماری کے نچلے دراز سے ایک کپڑا نکال کر بیڈ پر آ گئی میں نے اس کی لائٹ براؤن کلر کی چھوٹے نپلز سے سجے بوبز کی طرف دیکھ کر اسے قریب لانے کا اشارہ کیا اور اپنے سر کو اٹھانے لگا ۔۔۔ شاکرہ نے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کے بولا سوتے رہو۔۔۔ اور پھر اپنے بوبز کو میرے ہونٹوں پر لٹکانے لگی ۔۔۔ ببلو بہت دنوں بعد بیدار ہو کر اپنا غصہ اتارنے کو بیچ و خم کھا رہا تھا ۔۔۔ میں نے بوبز کو جی بھر سے پینے کے بعد تیز سانس لیتا ۔۔۔ شاکرہ کو دیکھ کر ہونہہ بولا اور اٹھ بیٹھی اور احتیاط سے میرے آس پاس پاؤں رکھتی ببلو کی ٹوپی کو گیلا کرتی اس پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ بہت دیر بعد وہ ڈسچارج ہو کر اپنی مٹھیاں گدے پر ٹکا کر اپنے ہپس کو میرے جسم سے قدرے اوپر کرکے بیٹھی رہی پھر اور لمبی سانسیں لیتی میرے بائیں طرف آ گئی ببلو کی خواہش تھی کہ وہ اپنی مرضی سے چلتا آگے بڑھے لیکن حالات اسے اجازت نہیں دے رہے تھے ۔۔۔ شاکرہ لمبی سانسیں لیتی مسکرا کر اپنی رانوں کو پکڑتی بولی ۔۔۔۔ تھک گئی ہوں ۔۔۔ میں احتیاط سے بائیں سائیڈ پر کروٹ لیتے اسے لیٹنے کا اشارہ کیا اور میرے ساتھ لیٹتی ہوئی اپنی بائیں ٹانگ آرام سے میرے اوپر رکھی اور ببلو کو پکڑ کر اپنی ببلی کو آگے لاتی بولی ۔۔۔۔ آج تو اس کی سختی بھی زیادہ ہو گئی ہے ۔۔۔۔ شاکرہ میرے بڑھتے جذبات کو دیکھتے ہوئے کچھ تیز ہو گئی تھی ۔۔۔ اور پھر میرے سے پہلے ساکت ہو گئی میرے جسم کے اکڑنے کے ساتھ بازو اور ٹانگوں میں کٹاؤ کے ساتھ درد برداشت سے بڑھ گیا تھا ۔۔۔ میری اوی ی ی اوی ی کے ساتھ آوازیں نکلی لیکن میں نے صبرر کا دامن تھام لیا تھا ۔۔۔۔ برداشت سے بڑھتے درد پر اگر میں خود کو کنٹرول نہ کرتا تو اگلی باری تاخیر کا شکار ہو جاتی ۔۔۔ میرے پورے وجود کو پسینے کی بوندوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔۔۔ شاکرہ میرے چہرے کا جائزہ لینے لگی تھی اور میں مصنوعی مسکراہٹ سے اسکے چہرے کو دیکھنے لگا پوچھا درد ہو رہا ۔۔۔۔ میں نے نفی میں سر ہلا دیا ۔۔۔ بولی ہونہہہہ کٹ جاؤ گے لیکن مانو گے نہیں ۔۔۔ میں نے درد کو ضبط کرتے ہوئے اس کے گال کو چٹکی میں بھرا اور اس کی آئی ی ی ی پر چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ کچھ سوچ کر وہ جلدی اٹھ گئی اور چادر لپیٹ کر اٹھ گئی ۔۔۔ اس نے برآمدے سے ویل چیئر کھینچی اور بیڈ کے پاس لا کر میرا جائزہ لینے لگی ۔۔۔ اور پھر مجھے کندھوں سے پکڑ کر اٹھانے لگی ۔۔۔۔۔۔ میرے گیلے بدن کو تولیہ سے صاف خشک کرتی شاکرہ مجھے عجلت میں کپڑے پہناتے ہوئے مسکرا کر بولی ۔۔۔۔ آتے ہی سمجھ جائے گی ۔۔۔ بہت بڑی بلا ہے یہ۔۔۔۔۔ شاکرہ اپنے کپڑے اٹھا کر باتھ روم چلی گئی تھی اور کچھ دیر بعد گیٹ پر ہارن بجنے کی آواز آئی شاکرہ باتھ روم سے نکلتے ہوئے مسکرا کر گیٹ پر چلی گئی ۔۔۔ چند منٹ بعد ۔۔۔ دونوں کمرے میں داخل ہو گئی ۔۔۔ سائقہ بول رہی تھی شاکی صبح نہائی تو تھی ۔۔۔ پھر کیوں نہائی ہے۔۔۔۔۔ سائقہ نے سر جھکایا اور آنکھ مارتے ہوئے مجھے سلام کیا شاکرہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے خاموش تھی ۔۔۔۔ سائقہ اپنا ماسک اتارتے ہوئے بولی ۔۔ شکی یہ سمل کیسی ہے روم میں ۔۔۔۔؟؟ شاکرہ بولی دوائی کی ہے۔۔۔۔ سائقہ بولی اچھا ااا کہاں گری ہے دوائی ۔۔؟؟؟ وہ بیڈ پر میرے آس پاس دیکھنے لگی تھی ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔۔ جلدی سے فریش ہو جاؤ۔۔۔۔ مانوں کھانے کے لئے تیرا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔ سائقہ بولی ۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ میرے مانوں بھی نہائے ہوئے ۔۔۔۔ وہ میرے چہرے پر جھک کر کس کرتے ہوئے بولی شکی ۔۔۔ مانوں کا رنگ آج پیلا پیلا کیوں لگ رہا ۔۔۔۔ میرے مانوں کا خون تو نہیں چوس لیا ؟؟؟؟ شاکرہ نے ہنستے ہوئے سائقہ کے ہپس پر زور سے مکا مارا ۔۔۔اور یہ کہتے ہوئے روم سے باہر چلی گئی ۔۔ بدمعاش کہیں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ سائقہ بہت دیر سر جھکائے ہنستی رہی ۔۔ پھر مجھے سر ہلاتے ہو ۔۔۔ ہونہہہہ ۔۔ میں نے اپنا سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہاں ۔۔ ہاں ں ں ں ۔۔۔ پھر بولا سقی مجھے پین کلر دے دو ۔۔۔ سائقہ الماری سے میڈیسن کا شاپر لاتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔۔ زیادہ ہے درد۔۔۔ میں نے ہاں کہہ دیا بولی زور لگایا ناں ؟۔۔ میں نے کہا نہیں جسم اکڑتے درد شروع ہو گیا ۔۔۔۔۔ میں نے اسے شکی کو بتانے سے منع کیا وہ باتھ روم چلی گئی ۔۔۔ جب سائقہ اپنا فیس تولیہ سے خشک کرتی باہر آئی تو شاکرہ کھانا لا چکی تھی ۔۔۔ سائقہ نے مجھے بڑے تکیہ کی ٹیک لگا کر بٹھایا ۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد سائقہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی شکی وہ کالج والے کچھ ڈاکومنٹس اور فیس مانگ رہے تھے ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔۔ توں پیسے لے کر نہیں گئی تھی ۔۔ سائقہ بولی پیسے تھے لیکن فیس سے کم تھے ۔۔۔ شاکرہ بولی تو بتانے کی کیا ضرورت ہے کل لیتی جانا۔۔۔ اور ڈاکومنٹس کہاں ہیں ۔۔۔ سائقہ نے اپنا سر جھکا لیا اور چند لمحے بعد گہری سانس لے کر بولی ۔۔۔ گھر ہیں وہ ۔۔۔۔ شاکرہ روم کی دیوار پر نظریں جمائے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولی ۔۔۔ ڈاکومنٹس اور تیار نہیں ہو سکتے ؟؟؟۔ سائقہ نے سرجھکائے ہی نفی میں اپنا سر ہلا دیا ۔۔۔۔ شاکرہ اپنی انگلی اپنے دانتوں میں دبائے بہت دیر خاموش بیٹھی رہی ۔۔۔۔۔ پھر بولی سقی کل فیس جمع کرا دینا اور ڈاکومنٹس کا بولنا کہ گھر ہیں ہفتے تک لاؤں گی ۔۔۔ سائقہ نے سر جھکائے دھیمے لہجے میں بولی اوکے ۔۔۔ وہ دکھ میں جکڑی بیٹھی تھی ۔۔۔ شاکرہ بولی ۔۔۔ اس کو بستی میں سمجھانے والا کوئی نہیں ۔۔۔ سائقہ نے شاکرہ کی طرف دیکھا اور بولی شفقت کسی کی نہیں سنتا ۔۔۔ سب اس کے فساد سے ڈرتے ہیں ۔۔۔ شاکرہ بولی کیوں ڈرتے ؟؟۔ اور اس میں کونسی شفقت ہے کہ تم اس کا نام لے رہی ہو ۔۔ یزید بولا کرو اسے۔۔۔ جس کو ماں اور بہن کے رشتے کی تمیز بھی نہیں ۔۔۔ ۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی کیا چیز ہے یہ بندہ ؟؟ اور تم اسے ٹھیک نہیں کر سکتے ۔۔۔میں نے گہری سانس لی اور بولا ۔۔ پہلے ٹھیک کرنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔ اب ہو جائے گا ۔۔۔۔ تھوڑا ویٹ کر۔لیں تو بہتر ہو گا ۔۔۔ میری آنکھیں نم ہو چکی تھی اور شفقت کے ذکر پر میرے سر پر دباؤ بڑھ گیا تھا ۔۔۔ میرا ہاتھ بےاختیار اپنے بائیں گال کی طرف اٹھ گیا تھا جہاں شفقت نے مجھے تھپڑ مارا تھا ۔۔۔ سائقہ ایک دم پاگلوں کی طرح میرا ہاتھ ہٹا کر میرے گال پر کسنگ کرتے ہوئے اسی روز کی طرح آآآآآآآآ آآآآآآآآآ آآآآآآ کی بلند چیخیں مارنے لگی ۔۔۔۔ اور پورا گھر اس کی چیخوں سے گونج اٹھا شاکرہ نے اسے اپنی گود میں بھر لیا تھا اور اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے نم آنکھوں سے کسنگ کر رہی تھی ۔۔۔۔ میری آنکھیں بھی نم ہو چکی تھی اور میں نے اپنا ہاتھ سائقہ کے سر پر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔ بہت دیر بعد سائقہ کچھ نارمل ہو چکی تھی ۔۔۔ کمرے میں اردگرد نظریں گھماتی شاکرہ اس کے گال سہلاتی ہوئے بولی ۔۔۔ سقی یہ شخص دیکھ رہی ہو ۔۔۔ شاکرہ نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔ سائقہ نے اپنی آنکھوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے شاکرہ کے ہات کو دیکھا ۔۔۔۔ شاکرہ بولی یہ بہت اچھے انسان ہیں ۔۔۔یہ مجھ سے پیار نہیں کرتے میں اس سے بہت پیار کرتی اور آخری حد تک کرتی ہوں ۔۔۔۔ اور زاہد میری اس آخری حد سے بھی آگے جا کر تم سے پیار کرتے ہیں ۔۔۔ اب۔۔۔۔ میں اس سے پیار کرتی تو یہ میرے محبوب ٹھہرے ناں ؟؟؟ اور محبوب کی پسند اس کے عاشق کی بھی پسند ہوتی ہے ۔۔۔۔ ہم شادی سے پہلے ملے نہیں تھے ۔۔۔ زاہد کی کزن میری دوست ہے اور اسکی شادی پر میں نے انہیں دیکھا تھا ان کی کہی کو بات اور ان کا اعتماد مجھے اچھا لگا ۔۔۔ اور اس کی کزن سے کچھ اور اچھی معلومات مل گئیں ۔۔۔ اور جب میرے گھر میں رشتہ لینے والوں کی لائن لگی تھی ۔۔میں نے اس کو اس کی کزن کے ذریعے خود شادی کا پیغام بھیجا تھا ۔۔۔ میرے اور اس کے خاندان کی بھرپور مخالفت کے باوجود ہماری شادی ہو گئی ۔۔۔ اور آپ کے ایک بھائی جیسے درجنوں یزید ہمارے خلاف چلنے لگے ۔۔۔ زاہد نے میرے رشتے کو بچانے کی خاطر یہ گھر بنا کر یہاں چلے آئے اور سب کو پیچھے چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ سقی۔۔ (شاکرہ نے اپنا کوئی درد گلے سے نیچے اتارا ) سقی میں نے بھی اپنے خاندان کے ان تمام افراد کو چھوڑ دیا جو ہمارا رشتہ توڑنے اور ہمیں تکلیفیں دینے لگے تھے ۔۔۔ ہم دونوں نے بہت گھٹن حالات کا مقابلہ کیا ۔۔۔ جادو اور پتا نہیں کیا کیا ۔۔ ۔۔۔ سقی سمجھ لو کہ تمھاری شفیق والدین کی طرح ۔۔۔ یہ یزید بھی مر گیا ۔۔۔ یہ گھر میرا بھی نہیں اور زاہد کا بھی نہیں بلکہ تمھارا ہے اور زاہد جلدی یہ گھر تمھارے نام کر دیں گے ہماری کوئی بات نہیں ہوئی اس بارے میں ۔۔۔اور اب کہہ رہی ہوں تو سمجھو آپس میں مشورہ ہوگیا ہمارا اور اس مشورے میں تم بھی شریک ہو ۔۔۔سائقہ حیرت سے شاکرہ کا چہرہ تکتے اس کی باتیں سن رہی تھی ۔وہ ابھی تک شاکرہ کی گود میں لیٹی ہوئی تھی ۔۔ شاکرہ بولی میں تمھیں بہت بڑا سرپرائز دینے جا رہی ہوں جو تم دونوں نے دیکھا تو دور سنا بھی نہیں ہو گا۔۔۔۔ تم مجھے زاہد سے زیادہ پیاری ہو۔۔۔۔۔ سقی میں اس اکیلے گھر میں اکتا جاتی تھی اور تیرے مانوں جس دن مصروف ہوتے میں امی کے گھر چلی جاتی تھی ۔۔۔ میں ہفتے میں دو دن امی کے گھر ھوتی تھی ۔۔۔ اور آپ نے دیکھا نہیں کہ زاہد کی صحت بہتر ہونے اور میری امی کی طبیعت خراب ہونے کے باوجود بھی ۔۔۔ میں نے چند گھنٹوں کے لئے گئی ۔۔۔ پتا ہے میں کیوں نہیں جاتی ؟؟؟۔ شاکرہ مسکرا کے بولی تیری شکل میں مجھے ایک گڑیا مل گئی ہے۔۔۔۔۔ اب میرا کہیں جانے کو دل ہی نہیں کرتا ۔۔۔۔۔ سائقہ مسکرا کر شاکرہ کے گالوں کو اپنے ہاتھوں میں بھرنے لگی ۔۔۔ بولی تو دوبارہ روئی تو میں تجھ سے ناراض ہو جاؤں گی ۔۔۔ آپ کے ڈاکومنٹس بھی آ جائیں گے ۔۔۔ اب یزید تجھ پر ہاتھ تو کیا ۔۔۔ تمھیں آنکھ بھی نہیں دیکھ سکے گا ؟؟؟؟ شاکرہ گہری سوچ میں ڈوبتے ہوئے بولی ۔۔۔ کوشش کرتے سارے کام ایک دن میں میں مکمل کر لیں ۔۔۔۔ بہت دیرکی خاموشی کے بعد شاکرہ بولی میں نے صبح سے چھت پر واشنگ مشین سیٹ کر دی تھی اور تیرے مانوں کی طبیعت خراب ہو گئی تو کپڑے نہیں دھو سکی۔۔۔ سائقہ نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپایا اور ہنسنے لگی شاکرہ نے اس کی کلائی کو دانتوں سے کاٹا اور بولی بہت بڑی بدمعاش ہو تم ۔۔۔۔ سائقہ اٹھتے ہوئے بولی میں دھوتی ہوں کپڑے ۔۔۔۔ شاکرہ نے اسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے اٹھتے ہوئے بولی ادھر لیٹو۔۔۔۔ اور میرے پیٹ پر انگلی سے لکیر کھینچ کر بولی میرے حصے کا خیال کرنا ۔۔۔۔ شاکرہ مسکراتی باہر چلی گئی اور سائقہ مجھے دیکھ کر مسکراتی ہوئی خاموش پڑی رہی اور پھر میرے ساتھ اپنا جسم ٹچ کر کے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کے شاکرہ کی باتیں کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔ شام کے بعد شاکرہ نے میرا موبائل اٹھایا اور پوچھا ۔۔۔ نعمت کا نمبر کونسا ۔۔۔ میں نے سکرین پر نظر ڈال کر اسے بتا دیا وہ نمبر ڈائل کرتے ہوئے بولی نعمت سے کہو زینت کا خل پرسوں لے آئے میرے پاس کچھ وقت کے لئے ۔۔۔۔ شاکرہ نے موبائل میرے کان پر پکڑ لیا میں نے نعمت کو زینت کو لانے کا بول دیا ۔۔۔۔ اگلے روز جمعرات کے دن زینت ہمارے گھر آ گئی نعمت اسے گیٹ پر چھوڑ کر شہر چلا گیا تھا اور 5 بجے آنے کا بول گیا ۔۔۔ زینت کا بیٹا بھی ساتھ تھا ۔۔۔۔ شاکرہ بچے کے دودھ کے ساتھ زینت کے لئے چائے وغیرہ لے کر آ گئی تھی بہت دیر تک شاکرہ زینت سے شفقت کی باتیں کرتی رہی ۔۔۔۔ اس دوران سائقہ واپس آ گئی تھی ۔۔۔ اس نے سلام کیا اور زینت سے ملنے لگی ساتھ شاکرہ کی گال پر چٹکی بھری اور بولی کیسی ہو میری عاشق ۔۔۔ شاکرہ بولی تڑپ رہی تھی تیرے لئے توں بیس منٹ لیٹ آئی ہو آج اس نے بتایا کہ ٹریفک جام ہو گیا تھا کالج سے تھوڑا آگے ۔۔۔ اور ساتھ شاکرہ کو رسید تھماتے ہوئے بولی فیس جمع ہو گئی ۔۔۔ شاکرہ نے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹایا اور بولی مجھے کیوں دے رہی رکھ لو کہیں سنبھال کے ۔۔۔ سائقہ زینت کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے ہوئے اس سے بستی بستی کی یادیں تازہ کرنے لگی ۔۔۔ شاکرہ مجھے سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے کچھ سوچ رہی تھی پھر وہ اٹھ کر باہر چلی گئی ۔۔۔۔ زینت کا بیٹا شاید اس سے چیز خریدنے کے لئے پیسے مانگ رہا تھا ۔ سائقہ دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے بچے کو اپنے پاس بلانے لگی۔۔۔ اوےےےے ادھر آ۔۔۔ بچہ اس کی طرف چلا گیا سائقہ نے اپنا ہاتھ بچے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور دوسرے ہاتھ سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی جاؤ اپنے ابو سے پیسے لیکر چیز لے آؤ۔۔۔۔ زینت نے قہقہہ لگاتے ہوئے اپنا ہاتھ سائقہ کے چہرے پر پھیرا ۔۔۔ اور پھر بولی چل رنڈی ۔۔۔ سائقہ بولی ۔۔ گشتی ۔۔۔۔ ۔۔۔ شاکرہ روم میں آئی اور زینت کو بولا کہ آ جاؤ کھانا کھا لیں ۔۔۔ ساتھ سائقہ سے کہا کھانا میں لاتی ہوں ۔۔۔ آپ فریش ہو جاؤ۔۔۔ سائقہ اپنا سفید کوٹ اتار کر باتھ روم چلی گئی ۔۔۔۔ شاکرہ کھانا رکھ کر مجھے تکیے کی ٹیک لگا کر چلی گئی ۔۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد سائقہ برتن اٹھا کر باہر گئی اور واپس آ کر بولی آج تو شکی زینت سے کوئی راز نیاز کی باتیں کر رہی ۔۔۔ مجھے بھی واپس بھیج دیا ۔۔۔۔ سائقہ نے روم کی کنڈی لگائی اور زیتون آئل کا ٹین اٹھا کر میری ٹانگوں پر مالش کرنے لگی ۔۔۔ کچھ دیر بعد شاکرہ نے دروازہ بجایا ۔۔۔ سائقہ اٹھ گئی شاکرہ نے میری ٹانگوں پر لگے آئل کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے سائقہ کو ساتھ لیکر چلی گئی ۔۔۔ سائقہ نے واپس آ کر بتایا کہ۔پیسے لانے کا بولا شاکرہ نے جو اس دن شاپر میں رکھے تھے اس مکان والے ۔۔۔ ۔۔۔ میں نے پوچھا پیسے کیا کرنے زینت کے پاس منگا کے ۔۔ بولی پتا نہیں ۔۔۔ زینت مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔۔۔میں نے کہا یہ کوئی سرپرائز دینے جس رہی ۔۔۔۔ سائقہ نے اپنے ہونٹوں کو سختی سے ایک دوسرے سے جوڑا اور سر ہلاتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ بہت بڑی شکی ہے۔۔۔۔۔۔ 


جاری ہے


Post a Comment

0 Comments