ads

Dehaati Larki - Episode 24

دیہاتی لڑکی


قسط نمبر 24


ایک لمحے کے وقفے کے بعد سائقہ نے زہرہ کا ہاتھ پکڑ کر میری ہاتھ میں دے دیا اس کا رنگ گورا تھا لیکن اس پر گوشت کی کمی کی وجہ سے اس کا ہاتھ قدرے لمبا لگ رہا تھا میں تھوڑی دیر اس کی نازک پتلی انگلیوں کو آہستگی سے مسلتا رہا پھر اس کو کسنگ کر کے چھوڑ دیا مخالف سمت سے لڑکیوں کے گروپس سکول کی طرف آ رہے تھے یہ دونوں آگے والی سیٹوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھی تھیں گاڑی کے بیک اور سائیڈ شیشے سیاہ تھے اور ان سے باہر کی طرف سے اندر کچھ نظر نہیں آتا تھا سکول کی چھٹی تک میرے پاس تقریباً پانچ گھنٹے کا وقت تھے اور میرے گھر تک دو اور دو چار گھنٹے لگ جانے تھے اور اس وقت میں گھر تک ان کو نہیں لا سکتا تھا مین روڈ پر بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد میں نے گاڑی کو لفٹ سائیڈ پر چھوٹی سڑک پر موڑ لیا اور کچھ دیر بعد اس سڑک سے بھی رائٹ سائیڈ پر اس سڑک سے اتار دیا گاڑی تھوڑے اونچے ٹیلوں والے اس بڑے میدان نما بنجر زمینوں میں ہچکولے کھاتی آگے بڑھ رہی تھی چھوٹی خودرو جھاڑیاں وقفے وقفے پر جھنڈ بنائے کھڑی تھی اس چھوٹی سڑک سے تقریباً دو کلومیٹر ان بنجر زمینوں میں فاصلہ طے کرنے کے بعد میں نے گاڑی ایک ٹیلے پر روک دی جہاں سے چاروں طرف تقریباً ایک کلومیٹر تک ان جھاڑیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا سائقہ نے اپنا برقعہ اتار دیا تھا اور مسکراتے ہوئے آگے آنا چاہا رہی تھی لیکن میں نے اسے روک دیا اور میں خود پچھلی سیٹ پر چلا گیا زھرا ابھی تک سفید ٹوپی والا برقعہ پہنے بیٹھی تھی میں نے شاہر سے تین بوتل جوس اور چپس کا ایک بڑا پیکٹ نکالا اور اور سائقہ کے بعد زھرا کو جوس دیتے ہوئے ہنس کے بولا اس کو تو اب اتار دو اس نے مسکراتے ہو اپنے برقعے کا نقاب والا پلو اٹھا کر اپنے سر پر رکھ دیا سائقہ نے اس کے برقعے کو پکڑ کر ٹوپی سر سے اتارتے ہوئے کہا اس ٹوپی کو اتارو ابھی میرا ماموں آپ کو ایک اور ٹوپی پہناتے ہیں ۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی ماموں میری دوست کو ٹوپی پہناؤ گے ناں ؟؟؟ میں نے کہا پہتو تمھیں پہناتا ہوں اس آپ کہو گی تو اس کو بھی پہنا دونگا زھرا کا چہرہ تھوڑا کمزور تھا لیکن اس کے لب بہت خوبصورت تھے اس کی آنکھوں میں کاجل لگا تھا اس کا جسم بھی کمزور تھا لیکن حیرت انگیز طور پر اس کے بوبز سائقہ سے بھی بہت بڑے تھا اور اس کی نیلی قمیض بوز پر کافی ٹائٹ ہو رہی تھی سائقہ ہمارے درمیان میں بیٹھی تھی اور چپس کھانے سے زیادہ توجہ اس کی میرے پینٹ میں بنتے ابھار میں تھا میں زھرا سے باتیں کرکے اسے ریلکس کرنے کی کوشش کر رہا تھا والے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی مجھے اس جگہ خوف محسوس ہو رہا ہے میں نے کہا خوف کی کیوں بات ہے جب کچھ ہے نہیں جہاں تو خوف کیسا ہے ؟؟؟ زھرا بولی کوئی آ گیا تو ۔۔۔ سائقہ بولی آنے والے کو تم راضی کر لینا اور کیا چاہیے ہو گا اسے میں نے کہا یہ راضی کر سکتی ہے کسی کو ابھی تو چھوٹی ہے ۔۔سائقہ بولی اووووووو یہ اتنی چھوٹی تھی اور دکان والے چاچا کو خود جا کر راضی کرتی تھی زھرا نہیں اپنی کہنی سائقہ کی سائیڈ میں مار کر اسے چپ رہنا کو کہا سائقہ نے چپس کا پیکٹ اور جوس کا ڈبہ رکھ دیا تھا اور میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر کر تھوڑی اوپر اٹھ گئی اور کسنگ کرنے لگی تھی زہرہ نے بھی جوس کا ڈبہ رکھ دیا اور آس پاس کا جائزہ لینے لگی تھی اس کے چہرے پر خوف کے اثرات موجود تھے سائقہ میری جھولی میں بیٹھ گئی تھی میں کے ہپس کو سہلاتا ہوا ادے کسنگ کر رہا تھا اور زھرا کی بیچینی بڑھتی جا رہی تھی وہ بار بار پہلو بدل کر کبھی باہر دیکھنے لگتی تو کبھی سائقہ کے ہپس پر پھرتے میں ہاتھوں کو دیکھتی تھی اس کے جسم میں کپکپاہٹ صاف نظر آ رہی تھی میں سائقہ کی قمیض اتارنے لگا تو زھرا کے چہرے پر ہوائیں اڑنے لگیں تھی اور وہ کھلے ہونٹوں کے ساتھ بےچینی کی آخری حدوں کو چھونے لگی تھی وہ سائقہ کے بازو کو پکڑ کر کانپتی آواز میں بولی قمیض تو۔۔۔ نہ اتارووووو سائقہ نے مسکرا کر اس کو آنکھ ماری اور اپنی قمیض کے ساتھ اپنی بریزر کو بھی اتار کر گئیر لیور کے پاس پھینک دیا زھرا پاگلوں کی طرح سائقہ کو مڑ کر آگے سے دیکھتی تو کبھی تھوڑا اوپر اٹھ کر آس پاس کو جائزہ لینے لگی میں سائقہ کو زھرا کی گود میں لٹا کر اس کے بوبز پر جھک گیا اور اپنوں بائیس ہاتھ کو زھرا کے موٹے بوز پر رکھ کر ان کو دبانے لگا زھرا کے سسکیاں کے بیچ لمبی سی وائی ی ی ی ی نکلی اور اس نے اپنے ہاتھ میرے ہاتھوں پر ٹکا دئیے زہرہ کی وائی سن کر سائقہ نے اپنے سر کو تھوڑا اوپر کر کے زہرا کو دیکھا اور مسکرا دی سائقہ میری شرٹ کے بٹن کھول چکی تھی میں نے اپنے کندھوں سے شرٹ اتارتے ہوئے نظر دوڑا کر آس پاس کا جائزہ لیا دور کہیں چھوٹے اور دھندکے سے دو اونٹ جاتے دیکھائی دئیے جا نے آگے ایک سیاہ نقطہ حرکت کرتا دیکھائی دیا میں نے دوبارہ سے سائقہ کے بوبز کو اپنے ہاتھوں میں بھرا اور اپنی انگلیوں سے اس کے گلابی نقطے جیسے نپلز کو انگلیوں سے مسلنے لگا سائقہ کی سسکیوں کے ساتھ زہرا کی وششششش نکل گئی وہ وہ اپنی ایک انگلی کو چوستے ہوئے اپنے دوسرے ہاتھ سے اپنے بوبز مسلنے لگی اور اسی لمحے میں نے زہرا کی قمیض کے اندر ہاتھ بڑھا کر اس کے بوبز پر لے گیا زہرا سسک گئی اور اس نے اپنا ہاتھ قمیض کے اوپر میرے ہاتھ پر جما لئے میں نے اپنا سینہ سائقہ پر ٹکا دیا اور زہرا کی قمیض اتارنے لگا زہرا ایک بار پھر گھبرا گاڑی کے باہر کا جائزہ لیتی ہوئی اس کی قمیض اوپر اٹھاتے ہاتھوں کو ہاتھ لگاتی جا رہی تھی قمیض بوبز کے پاس جا کر رک گئی میں زہرا کو بولا قمیض اتار دو اس نے تےز سانسوں کے بیچ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے قمیض اتار دی اور بریزر پر ہاتھ رکھ کر مجھے تکنے لگی میں نے سائقہ کے گول بوبز کو باری باری اپنے منہ میں بھرا اووپا ہ ہ ہ ہ کی آواز کے ساتھ چھوڑ دیا میں نے زہرا کو سائقہ پر جھکا کر اس کے بریزر۔کی ہک کھول دی اور میں سائقہ کی سفید شلوار کو اتارنے لگا سائقہ نے ہاتھ میری پینٹ کے بیلٹ کی طرف بڑھائے لیکن میں نے اسے رکنے کا اشارہ کر دیا براؤن بڑے دائرے کے بیچ نتے ہوئے چھوٹے نپلز کے ساتھ زہرا اپنے بوبز نکال چکی تھی میں نے سائقہ کے جسم پر ہاتھ پھیرا اور اس کی ببلی پر تھپکی دے کر اپنے ہاتھ زھرا کی شلوار کے لاسٹک پر ڈال دئیے میں اس کی شلوار نیچے کھینچنے لگا اور وہ سیٹ سے ہپس کو تھوڑا اٹھا کر میری مدد کر رہی تھی وہ اب باہر دیکھنے سے زیادہ سائقہ کے فل ننگے جسم کو رشک بھری نظروں سے دیکھنے کے بعد اپنے کمزور جسم کو سر جھکائے دیکھنے لگی تھی اس کی شلوار گھٹنوں تک کھینچنے کے بعد میں نے اسے اتارنے کا اشارہ دیا زہرا کا قد سائقہ سے تھوڑا بڑا تھا زہرا کے شلوار اتارنے کے بعد میں نے اس کے کپڑوں کو ڈرائیونگ سیٹ کی طرف اچھال دیا اور سائقہ کی ٹانگوں کے بیچ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے بیلٹ کھولنے کا اشارہ کیا اور میں نے اردگرد نظریں دوڑا لیں بہت سکون اور خاموشی تھی سائقہ نے میری پینٹ کو تھوڑا نیچے کر لیا تھا میں باری باری پینٹ کو اپنی ٹانگوں سے نکال کر آگے اچھال دیا اور زہرا کا ہاتھ پکڑ کر اپنی انڈرویئر کے لاسٹک پر رکھ دیا سائقہ نے جیسے ہی میری اںڈرویئر کو نیچے کیا ببلو کسی مست سانپ کی طرح اکڑ کر نکلا اور ادھر ہلتے ہوئے پھنکارنے لگا پھٹی آنکھوں اور کھلے منہ کے ساتھ کبھی مجھے اور کبھی ببلو کو دیکھے جا رہی تھی شاید اس کا میرے ببلو جیسے کسی ہتھیار سے واسطہ نہیں پڑا تھا سائقہ کے ہاتھوں میں کھیلتے ببلو کو دیکھ کر وہ بہت گھبرا چکی تھی اور ساتھ اس کی سانسوں میں تیزی آ گئی تھی سائقہ نے مسکراتے ہوئے دھیمے لہجے میں پوچھا لوشن ؟؟؟ میں نے ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے لگی جیب میں ہاتھ ڈالا اور لوشن کی بڑی بوتل سائقہ کر تھما دی سائقہ نے اس کا ڈھکن کھول کر پھینک دیا اور مجھے دیکھتے ہوئے اپنی پتلی کمر کو بل دیا میں نے سائقہ کو بغل میں ہاتھ ڈال کر زہرا کی جھولی میں اس کا سر رکھ دیا اور مسکراتے ہوئے زہرا کے بوبز کو تھوڑا آگے کر کے اس کا نپل سائقہ کے ہونٹوں پر رکھ دیا سائقہ قہقہہ لگاتے ہوئے منہ دوسری طرف پھیر لیا میں نے سائقہ کی بھری بھری ٹانگوں کو اپنے رانوں پر سجا لیا ببلو نے زور زور کی انگڑائیاں لینی شروع کر دیں سائقہ نے لوشن کے بڑی مقدار ببلو پر گرا دی جو موٹی لکیروں کی شکل میں اس کے پیٹ پر گرنے لگی زہرا کے لئے یہ سین حیران کن تھا اور ببلو اور سائقہ کے چھوٹے جسم کو دیکھ کر اگلا سین جلدی دیکھنا چاہتی تھی زھرا آنکھیں جھپکائے بغیر کھلے منہ کے ساتھ لرزتے جسم کے ساتھ لوشن میں لت پت ببلو کو آہستہ آہستہ سائقہ کی ببلی کے ہونٹوں میں اترتا دیکھ کر جسم کو ایسے اکڑا رہی تھی جیسے ببلو اس کے پیٹ میں اتر رہا ہو میں ساکت پڑی سائقہ کے معصوم چہرے خو دیکھتا ببلو کو آگے پھلاتا جا رہا تھا سائقہ نے میری سائیڈوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ببلو کے چھ انچ سے آگے جانے کے بعد سائقہ کا منہ آہستہ آہستہ کھلتا جا رہا تھا میں نے راستے میں رکے بغیر ببلو کو اپنی منزل مقصود تک پہنچا دیا تھا میں نے جھک کر اس کے ہونٹ چوسنے شروع کر دئیے اور اس کی سانسوں کے بحال ہونے کا انتظار کرنے لگا تھوڑی دیر بعد سائقہ ریلکس ہو گئی اور میں نے اپنی کمر کر اہستہ سے حرکت دینی شروع کر دی میں نے گاڑی کے پچھلے شیشے کے ساتھ رکھے ا۔ دونوں کے سکول بیگز کو ایک سائیڈ پر کرتے ہوئے اس طرف بھی بہت دور تک نظام دوڑا لی اور زھرا کو اپنے بوبز آگے لانے کا بولا میں سائقہ کو جھٹکے لگاتے زہرا کے بوبز چاسنے لگا زہرہ اس وقت بنا پانی کے مچھلی جیسے تڑپ رہی تھی لیکن سائقہ میں 9۰5' انچ کا تگڑا ببلو پورا اترتے دیکھ کر اس کا تھوڑی دیر پہلے ببلو کو دیکھ کر پیدا ہونے والا خوف ختم ہو چکا تھا اور اب وہ خود پورا ببلو اپنے اندر لینے کو بےتاب ہو رہی تھی زھرا کو پوری طرح تڑپانے کے بعد میں نے اپنے ہونٹ سائقہ کے ہونٹوں میں جوڑ دئیے سائقہ کی ریشمی ببلی میں لوشن کی نفاست بھرا ببلو اکیلے مزے لوٹ رہا تھا زہرا انتظار کرتے تھک چکی تھی اور اب پیاس کے ساتھ مایوسی بھی اس کے چہرے پر عیاں تھی سائقہ کے جسم میں اکڑاہٹ کےساتھ حرکت پیدا ہو چکی تھی میں نے بھی سائقہ کے بڑھتے مزے کو دیکھ کر اپنے جھٹکوں میں تھوڑی تیزی بھر لی تھی سائقہ نے اپنے ہاتھ میرے کندھوں پر جوڑ لئے تھے وہ اپنے بھاری ریشمی ہپس کو جھٹکے کے ساتھ ساکت کرتے اوووووووو وشششششششش وشششششش وشششش کرتی جسم کو ڈھیلا چھوڑنے لگی میں اس کی آنکھوں کو چومتے ہوئے اپنا ہاتھ زہرا کی ببلی کی طرف بڑھا گیا زہرہ نے وائی وائی کرتے ہوئے میرے ہاتھ کو ایسی رانوں میں دبا لیا سائقہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے میرے سینے کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی پھر میں نے اسے اٹھنے کا اشارہ کیا اور ببلو کو آہستہ آہستہ نکالنے لگا سائقہ سیٹ سے اتر کر اپنے ریشمی ہپس میری باڈی سثٹچ کرتے ادھر ادھر دینے لگی تھی اور میں نے زھرا کی ٹانگوں کو پکڑ کر اسے سیٹ پر گھسیٹ لیا میں نے جھکے کر سائقہ کے ریشمی ہپس پر کس کیا اور اسے زھرا کے سر کی طرف آنے کا اشارہ کیا سائقہ زہرا کے سر کو گود میں لیکر بیٹھ گئی اور بولی ماموں یہ میری بہت پیاری دوست ہے اسے بھی میری طرح پورا مزہ دینا اور کنجوسی نہ کرنا میں نے زہرا کی ٹانگیں تھوڑی اوپر اٹھائیں تو اس نے اپنی تین انگلیوں پر اپنا تھوک لگایا اور اسے اپنی ببلی کے ہونٹوں پر مل دیا سائقہ ہنستے ہوئے بولی رواج کے مطابق چلا کرو آج کل لوشن کا رواج ہے میں نے ہنستے ہوئے سائقہ کے گال پر تھپکی دی اور لوشن کی بوتل نیچے سے اٹھا کر کچھ لوشن زہرا کی ببلی پر گرا دیا اور اپنے ببلو کو ببلی کے ہونٹوں میں برش کرتا اندر اتارنے لگا ببلو کی موٹی ٹوپی کمزور سی زہرا کے اندر اتری تو اس کی ٹانگیں اکڑا لیں میں نے ادھر رک کر اس کی ٹانگوں کو ڈھیلا کیا مسکراتی سائقہ نے اپنے ہاتھ کی مٹھی بند کرکے مجھے جھٹکا مارنے کا اشارہ کیا میں نے زہرا کے چھوٹے ہپس پر ہاتھ پھیرے اور غباروں جیسے بھولے بوبز کو تھوڑا چوس کر اس کی ٹانگوں کو پکڑ کر ایک لمحے کا وقفہ دیا اور جھٹکے کے ساتھ آدھے سے زیادہ ببلو کو تنگ گلی میں اتار دیا زہرا کے حلق سے ہلکی چیخ نکلی اور وہ میرے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر زور سے دھکیلنے لگی اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا ۔۔۔اششششششش اووووووو ماموں ۔۔۔ آآآآآآآ ۔۔۔ ما۔۔۔۔ اووو سائقہ اپنے لبوں کو دانتوں تلے دبا کر زہرا کے چہرے پر جھکی مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔


جاری ہے


Post a Comment

0 Comments