ads

Dehaati Larki - Episode 26

دیہاتی لڑکی 


قسط نمبر 26


سائقہ مجھے شاید سے زیادہ میٹھی لگ رہی تھی میں شہد سے زیادہ اس کے نرم ہپس کو منہ میں بھر رہا تھا سائقہ میرے ہاتھ کو چومے جا رہی تھی زھرا نے آواز لگائی سائقہ پاگل نہیں بنو ۔۔۔۔ بہت لیٹ ہو رہے ہیں .,. سائقہ بولی بس خیر ہے لیٹ ہونے سے گھر وال مار دیں گے ناں بس مار دیں ناں ۔۔۔۔ زھرا بولی تمھیں کوئی کچھ نہیں کہے گا مجھے سچ میں مار دیں گے ۔۔۔سائقہ مجھے بولی اپنی خواہش پوری کرو آپ۔۔۔۔ میں نے کہا تم کچھ ۔۔۔۔ سائقہ اٹھتے ہوئے بولی ہاں وہ سیدھی ہو کر لیٹ گئی اور بولی میرے اوپر لیٹ جاؤ میں سائقہ کے اوپر لیٹ گیا ۔۔۔ سائقہ نے زھرا کو آپ کپڑے پہن لو ۔۔۔بس چلتے ہیں سائقہ پوری طرح مجھے اپنے بازوں میں پورا بھرنے کی کوشش کر رہی تھی وہ میرے سینے پر بےتحاشہ کسنگ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ بہت شکریہ میں بہت بےچین تھی پڑھائی بھی نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔ بولی سکول گھر ہر جگہ تیرا عکس سامنے آ جاتا تھا میں نے کہا اب کیا کرو گی ۔۔۔وہ ہنس کے بولی صرف پڑھائی تاکہ اچھے نمبر لیکر کالج میں داخلہ لے سکوں میں نے اس سے عہد لیا کہ اب پیپر ختم ہونے تک مجھے تنگ نہیں کرو گی ہنستے ہوئے بولی اگر موقع ہوا تو پھر ضرور آؤ گے میں نے اوکے کہہ دیا 1:10 بج چکے تھے چھٹی ہونے سے بیس منٹ باقی تھے میں نے اپنی پینٹ شرٹ۔کے ساتھ بڑا شاپر بھی اٹھا لیا میں نے بٹوے سے ایک ہزار روپے اور شاپر سے ایک ریڈی میٹ سوٹ نکال کر زھرا کی طرف بڑھایا وہ خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹتے ہوئے بولی میں نہیں لیتی سائقہ نی اصرار کیا تث بولی امی کو کیا کہوں گی ۔۔سا،قہ بولی یہ بھی کوئی مسئلہ ہے پیسے آپ چھپا لو اور سوٹ کا کہنا کہ رستے سے شاپر گرا ہوا ملا ہے پھر سائق ہنس کے بولی اوپر سے میں گواہی دے دونگی زھرا قدرے مطمئن ہو گئی اور شاپر میرے ہاتھ سے لے لیا میں ڈرائیونگ سیٹ پر آ گیا تھا زھرا کپڑے پہن چکی تھی سائقہ نے اسے پیچھے بلا لیا اور خود آگے آتے ہوئے زھرا سے بولی میرے کپڑے اور برقعہ بیگ میں ڈال دو میں نے بٹن دبا کر زھرا کے ساتھ والی کھڑکی کا شیشہ اتار کے زھرا سے کہا کہ اس کے کپڑے باہر پھینک دو ۔۔۔۔ زھرا مسکراتے ہوئے مجھے دیکھنے لگی سائقہ نے اپنی پونی بھی اتار کے زھرا کو دی کہ اسے بھی پھینک دو میں آج بستی میں صاف ستھری ہو کر جاؤں گی میں نے زھرا کو اشارہ دیا اور اس نے کپڑے گاڑی سے باہر پھینک دئیے میں نے بٹن دبا کر شیشہ اوپر چڑھا دیا اور گاڑی آگے بڑھا دی سائقہ نے مسکراتے ہوئے اپنی دائیں ٹانگ کو دوسری ٹانگ پر رکھتے ہوئے ہپس میری طرف موڑ دئیے اور مسکراتے ہوئے باہر دیکھنے لگی تقریباً دوسو فٹ آنے کے بعد وہ قہقہے لگاتے ہوئے سوری کرنے لگی کہ گاڑی موڑو پیچھے زھرا نے کہا آپ کے مذاق میں بہت لیٹ ہو رہے اور امی سے مجھے مار پڑواؤ گے کہ پھر میں نہ آ سکوں کبھی سائقہ کے قہقہے گاڑی کو ہلا رہے تھے وہ ہنستے ہنستے گٹھڑی بن گئی پھر بولی جلدی سے پیچھے مڑو زھرا لیٹ ہو گئی تو آپ کی ایک دوست کم ہو جائے گی میں نے ہنستے ہوئے گاڑی کو تیزی سے پیچھے موڑ لیا اور اس جگہ پہنچ کر زھرا کو نیچے اترنے سے روک کر سائقہ کو بولا کہ وہ خود اتر کر اپنے کپڑے اٹھائے ۔۔۔ وہ منتیں کر رہی تھی مگر میں اپنی شرط پر قائم رہا پھر اس نے گاڑی کا گیٹ کھولا اور ادھر ادھر محتاط انداز میں دیکھنے لگی اور گھبرا کر جیسے ہی اترنے لگی میں نے اس کی کمر کو پکڑ کر اپنے قریب کر لیا اور زھرا کو جانے کا اشارہ دیا وہ بھاگ کر کپڑے اٹھا لائی تھی اور میں سائقہ کو کسنگ کر کے گاڑی کو تیزی سے آگے بڑھا دیا سائقہ ہنستے ہوئے کپڑے پہنتی جا رہی تھی اور پھر پوچھا اپنی نئی دوست کے لئے تو سوٹ لائے اور پیسے بھی دئیے میرے لئے کیا لائے ہو ۔۔؟؟ میں نے سائقہ کے دوسری بار پوچھنے پر۔کہا۔۔۔ تمھارے لئے لن لایا ہوں وہ ہنستے ہنستے اپنے سر گھٹنوں پر لے گئی گاڑی اس ٹیلوں والے میدان سے اوپر چھوٹی پکی سڑک پر آ چکی تھی اور میں سپیڈ بڑھا چکا تھا سائقہ بولی پھر بتاؤ تو۔۔ کیا لائے ہو شہر سے میں نے اس کے اصرار پر ایک بار پھر کہا تمھارے لئے لن لایا ہوں وہ پھر قہقہہ لگاتے ہوئے بولی وشششششش میرا کلیجہ ٹھنڈا کر دیا گاڑی کی بےتحاشہ سپیڈ اور جمپ لگنے سے وہ ہچکولے کھا رہی تھی بولی۔اس وقت بھی مجھے ایسے اٹھا ٹھا کے مارا کرو مجھے ایسے بہت مزہ آئے گا ۔۔۔۔ گاڑی مین روڈ پر گاڑی کو سائقہ کی بستی کی سائیڈ پر۔موڑتے ہوئے میں نے ٹائم دیکھا 1:29بج چکے تھے یعنی اس کے سکول کی چھٹی ہو چکی تھی اور ہمیں اس سپیڈ سے بھی کم سے کم سکول تک پہنچنے میں دس منٹ درکار تھے جبکہ آگے کچے راستے پر یہ سپیڈ ممکن نہیں تھی پچھلی سیٹ پر بیٹھی زھرا بہت پریشان ہو رہی تھی میں نے اسے تسلی دی سائقہ بولی ماموں میرے لئے جو چیز لے۔کر آئے ہو وہ مجھے دیکر جانا ایسے نہ بھاگ جانا ۔۔۔میں نے پوچھا کیا کرو گی اس کو بولی۔مجھے اس کی ہر جگہ ضرورت ہوتی ہے بس آپ دے کے جانا ہے ایسے میں نہیں جانے دوں گی میں نے کہا نہیں تم بہت فضول خرچ ہو تم اسے ضائع کر دو گی میں تیرے لئے سنبھال کے رکھوں گا بولی نہیں تم سارا زینت کو کھلا دو گے ۔۔۔ میں نے مسکرا کے اسے دیکھا وہ سنجیدہ ہوتے ہوئے معصومانہ انداز میں بولی ماموں پلیز بچوں کا دل تو نہیں دکھاتے ایک چیز دے جاؤ گے تو آپ کے پاس کیا کمی رہ جائے گی ۔۔مین روڈ سے کچے رستے پر۔مڑتے ہی سائقہ پیچھے چلی گئی تھی اور برقعہ پہننے لگی تھی تھوڑا آگے سکول سے بہت پہلے لڑکیوں کے گروپ آنے شروع ہو گئے تھے یہ دونوں آگے والی سیٹوں کے پیچھے چھپی بیٹھی تھی اور اپنے برقعے اور لباس درست کر رہی تھی سکول کے آگے سے گاڑی ٹرن کی تو سکول کا چوکیدار تالا لگا کر اپنی سائیکل اٹھا رہا تھا بستی سے کچھ پہلے رستے پر درختوں کے ایک جھنڈ کی اوٹ میں میں نے گاڑی روکی اور یہ دونوں اتر کر جلدی سے آگے بڑھ گئیں میں نے ٹائم دیکھا تو مطمئن ہو گیا یہ دونوں اپنے مقرر وقت پر آسانی سے گھر پہنچ سکتی تھیں کیونکہ ابھی ان کا فاصلہ نہ ہونے کے برابر تھا میں نے گاڑی کو پیچھے موڑ لیا اور میوزک پلیئر آن کر دیا دل کتھے کھڑایا ای بھولیا۔۔۔ گل روونڑ پا لئی او بھولیا دل کتھے کھڑا لئی ۔۔۔جگ تھگ باز دا علم تاں ہایا ۔۔۔ناز ادائی تے ڈلنڑا نایا۔۔۔منوکھ لوا لائی بھولیا دل کتھے کھڑا لئی بھولیا۔۔۔۔ دل کتھے ۔۔۔۔۔ فل والیم کے ساتھ گاڑی اس کچے رستے پر آہستہ آہستہ بڑھ مین روڈ کی طرف بڑھ رہی تھی میں صبح سویرے ہی اس گاڑی میں گھسا تھا اور ابھی تک باہر نہیں نکلا تھا اور مجھے اب یہ ہنڈا سوس ایک چھوٹا گھر لگنے لگی تھی ۔۔۔۔ سائقہ کے پاس سے آئے مجھ بیس دن سے زیادہ ہو گئے تھے اور سائقہ سے میسج پر بات ہو جاتی تھی جبکہ اس کا ابو ڈیلی کال کر کے حال احوال کر لیتے تھے ان کی واپسی کے دن قریب آ گئے تھے جبکہ دوسری طرف میں ابھی تک زینت سے نہیں مل سکا تھا ہاں البتہ جب نعمت گھر سے آؤٹ ہوتا تو ہماری کھل کر باتیں ہوتی تھی زینت تقریباً تین ماہ کی پریگنٹ ہو چکی تھی اور اس کا کہنا تھا کہ اس کے بھائی کی۔شادی کے۔موقعہ پر میں نے اس کو پریگنٹ کر دیا تھا ایک روز سائقہ کا ابو پھر میرے پاس آ گیا۔وہ جہاں کے۔ماحول پڑھائی کالج اور ہاسٹل کا جائزہ لینا چاہتا تھا میں نے اسے کالج اور پرائیویٹ ہاسٹل دکھا دیا تھا اور بہت بہتر ماحول کی یقین دہانی کرا کر واپس بھیج دیا والے خاصا مطمئن ہو کر اپنی بیگم کے بھائی پر اعتماد کرتا واپس چلا گیا تھا اگلے ہفتے اس کی واپسی تھی اور جانے سے پہلے مجھے اپنے ہاں کھانے کی دعوت دے دی ان دنوں سائقہ کے پیپر ختم ہو چکے تھے میں شاکرہ کو اس کی امی کے گھر پہنچا کر میں شام سے کچھ دیر پہلے سائقہ کے گھر پہنچ چکا تھا سائقہ کے ابو نے میرا استقبال کیا میں اس کے ابو اور امی کے ساتھ کمرے میں بیٹھا باتیں کرنے لگا سائقہ اس بڑی حویلی کے ایک کونے میں بنی دوفٹ اونچائی کی Lکے ڈیزائن میں بنی دیوار کے پیچھے بیٹھی دھواں ہو رہی تھی کچھ دیر بعد سائقہ آئی اور سلام کرتے ہوئے پوچھا کیسے ہیں ماموں ۔۔۔۔ میں نے مسکرا کے اسے سلام کا جواب دیا وہ بیٹھ کر پوچھنے لگی کہ بیگم صاحبہ ٹھیک ہے پھر اپنے ابو کو بتانے لگی کہ بیگم صاحبہ بھی ماموں کی طرح بہت اچھی ہیں ہمیں بہت پیار اور عزت دی ماموں ہم سب کو پارک لے۔گئے تھے میں نے امی کی بہت منتیں کی کہ جہاز والے جھولے پر بیٹھ جاؤ لیکن امی نہیں بیٹھی ۔۔۔ اس کے ابو نے پوچھا آپ بیٹھی تھی سائقہ بولی ہاں مجھے تو اس پر بہت مزہ آتا ہے پہلے بار جب بیٹھی تو تھوڑا ڈر لگا اب تو میرا دل چاہتا ہے روزانہ نہیں تو ایک بار اس کا مزہ ضرور لو زینت بھی بیٹھی تھی ۔۔۔اس کے ابو نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ کا رزلٹ اچھا آیا تو کالج داخلہ لیں گے آپ کا پھر جی بھر کے جھولے پر بیٹھنا اور پڑھائی بھی کرنا وہ وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولے بھائی میں کل واپس قطر جا رہا ہوں اس نے باجی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لی بہن کی اور میری بھی خواہش ہے ، کہ سائقہ کسی اچھے کالج میں پڑھے اور ہم صرف آپ پر اعتماد کرکے اسے آپ کے سپرد کر رہے یہ سادہ سی لڑکی ہے بستی کی اسے شہر کے حالات کا علم نہیں ہے اور یہ نہیں سمجھتی آپ نے اس کا خیال رکھنا ہے میں پہلی بار آپ کی بہن سے محبت دیکھ کر صرف آپ پر اعتماد کر رہا ہوں میں نے باجی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اسے بہن بنایا ہے اور اس پر پورا اتروں گا اورآپ کے اعتماد پر پورا اتروں گا سائقہ کو وہاں کوئی تکلیف نہیں ہو گی ۔۔۔سائقہ بولی ماموں کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی فکر نہیں ہو گی بیگم صاحبہ بھی ہمارا بہت خیال کرتی ہے ماموں کو جب بھی کسی مسئلے کا ذکر کرتے ہیں یہجب یہاں آ جاتے ہیں تو ادھر تو کے۔قریب ہونگی تو اس سے بھی زیادہ خیال رکھیں گے ۔۔۔ سائقہ۔کا ابو بولا آپ نے بھی ماموں کا دل نہیں دکھانا جیسے بہتر سمجھیں گے ویسے آپ کی بہتری کے لئے کریں گے اور آپ نے انکار نہیں کرنا اور کسی کی باتوں میں نہیں آنا سائقہ بولی۔مجھے اور کسی کی پرواہ بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ پھر اس کا ابو مجھ سے بولا بھائی میں کل شامِ کو چلا جاؤں گا اپنی بہن کے پاس جب جی کرے آ جائیں اور ڈاکٹر طاہر سے ان کا باقاعدہ چیک اپ کرا دیا کریں ہمارا یہاں آپ سے بڑھ کر کوئی اعتماد والا بندہ نہیں ہے میں نے کہا آپ بالکل فکر نہ کریں میں سنبھال لوں گا ۔۔۔۔ رات کھانے میں دیسی گھی میں بنا دیسی مرغ پلاؤ مکھن فروٹس کے ساتھ لسی کا اہتمام بھی کیا گیا تھا کھانے کے بعد بھی ہماری گفتگو کا سلسلہ جاری رہا سائقہ کے ابو بولے بھائی بس سائقہ کی ساری ذمہ داری آپ کی ہے میں صرف آپ کو پیسے بھیج دیا کرونگا میں نے کہا کہ جب ساری ذمہ داری مجھ پر ہے تو آپ پیسے کیوں بھیجیں گے بولا۔نہیں یہ ٹھیک نہیں ہو گا میں نے کہا کہ۔نہیں اتنا۔کرنا مجھ پر لازم ہے سائقہ۔بولی۔ابو ماموں کو کہہ دو یہ ڈیلی اگر ایک گھنٹہ مجھ ٹیوشن پڑھا لیں تو سب سے بہتر ہو گا یہ بہت اچھے پڑھے لکھے ہیں سائقہ کا ابو۔بولا میرے خیال میں یہ۔آپ کو ایک کے بجائے دو گھنٹے دے دیں گے میں نے اوکے کردیا ۔گھر کے صحن میں چارپائیوں پر پر ایک طرف میرا اور سائقہ کے ابو کا بستر لگا دیا سائقہ مجھے اپنی باتوں اور اداؤں سے بہت ہاٹ کر چکی تھی اس نے بستر لگاتے ہوئے میری ایک دوسرے کے اوپر رکھی ٹانگوں اور میری بےتابی کو دیکھتے ہوئے کہا ماموں ہمارے ہاں اے سی نہیں لگے ہوئے آج کی رات ہمارے لئے گرمی برداشت کر لو ۔۔۔۔سوری میرے ابو بھی قطر میں اے سی کے عادی ہیں اور اب یہاں گرمی میں سوتے ھیں تو رات کو بار بار اٹھتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔شاکرہ کی کال آ گئی تھی میں نے ان سے کہا کہ صبح جلدی نکل آؤں گا پندرہ دن بعد شاکرہ کی ایک کزن کی شادی تھی بولی باجی کو کہہ دو میں سائقہ اور زینت کو شادی پر بلواؤ گی اور ان لو شہر کی شادی دکھاؤں گی بچیاں ہیں خوش ہو جائیں گی میں نے شاکرہ کی باجی سےبات کرا دی۔ ہم رات کو سو گئے تھے سائقہ مست اداؤں سے مجھ پر اپنی محبت کے پھول نچھاور کرتے اپنے موٹے ریشمی ہپس میری طرف کر کے سو گئی میرا ببلو اس پکے کمرے کی طرف منہ کرکے مجھ سے کہہ رہا تھا کہ کچھ کرو یار ۔۔۔ لیکن اس وقت یہ۔ممکن نہیں تھا اور میں ببلو کو تھپکی دے کر سو گیا صبح میں نے تیاری کر لی سائقہ کے ابو نے شام کو جانا تھا میں ناشتے کے بعد کچھ عجلت سے کام لینے لگا تو میرے قریب سے گزرتے ہوئے آہستہ سے بولی ۔۔صبرررر ۔۔۔۔۔ میں نے موبائل نکال کر ایک دوست کو۔کال کرنے لگا اس دوران سائقہ کے گھر میں زھرا آ گئی تھی سائقہ سائیڈ پر اس کے ساتھ کھڑی ہو کر باتیں کرنے لگی تھی زھرا سفید برقعہ پہنے اس سے ہاتھ ہلا کر کچھ کہتی چلی گئی اور سائقہ۔مسکراتی نظروں سے میرے سامنے سے گزر کر کچے کمرے میں چلی گئی دو منٹ بعد سائقہ کا۔میسج آ گیا ۔۔۔ زھرا اکیلی سکول جا رہی ہے راستے سے اسے اٹھا کر وہیں لے جانا وہ آہستہ چلتی آپ کا انتظار کرے گی اب جاؤ۔۔۔۔۔ میں اٹھ گیا اور ان سے اجازت لیکر نکل پڑا بستی سے نکلنے کے تھوڑی دیر بعد ہی مجھے سفید ٹوپی والے برقعے مزھرا اکیلی جاتی دکھائی دی میں نے میوزک پلیئر کے نیچے والے خانے کو کھول کر اس سے کنڈوم کا پیکٹ نکال کر اپنی سیٹ کے پیچھے پھینک دیا میں آس پاس کا جائزہ لیتا اس کے قریب سے گزر کر چند قدم آگے گاڑی روک دی اور گاڑی کی پچھلی کھڑکی کو کھول دیا زھرا نے اندر بیٹھتے ہی کھڑکی بند کر دی اور میں نے سپیڈ بڑھا دی مین روڈ پر جاتے ہی میں نے زہرا کو فرنٹ سیٹ پر بلا لیا اور وہ سکول بیگ اور سفید برقعہ اتار کر آگے آ کر دوپٹے سے اپنا آدھا چہرہ چھپا کر مسکرا رہی تھی 


جاری ہے


Post a Comment

0 Comments