دیہاتی لڑکی
قسط نمبر 27
زھرا کے ساتھ باتیں کرتا میں گاڑی کو تیز بھگا رہا تھا آح جمعہ کا دن تھا اور زھرا کے سکول کی 11:30 بجے چھٹی ہونی تھی میں نے ایک پٹرول پمپ سے گاڑی کا فیول لیا اور ساتھ ہی ایک شاپ سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں اور پانی کی بوتل لے لی مین روڈ سے اس چھوٹی سڑک پر آنے کے ساتھ ہی میں نے زھرا کا دوپٹہ اتار لیا اور ساتھ میں اپنی پینٹ کا بلٹ بھی کھول دیا اور پینٹ اور انڈرویئر کو گھٹنوں کی طرف سرکا کر زھرا کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ببلو پر رکھ دیا زھرا کا جسم کانپ رہا تھا اور وہ آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے ہولی صاحب ۔۔۔۔۔۔۔ ایک بات کہوں ۔۔۔۔میں نے کہا جی بولو کہنے لگی بہت بڑا ہے اور سخت بھی ۔۔۔۔ آپ کا ۔۔۔۔ میں نے کہا کہ اسی لئے تو اچھا ہے ۔۔۔ بولی نہیں بہت درد ہوتا ہے ۔۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ درد میں ہی مزہ ہے ۔۔۔ بولی مجھے اس دن جو درد ہوا میں ایک ہفتے بعد ٹھیک ہوئی ہوں ۔۔اٹھتے بیٹھتے میری اشششش نکلتی تو امی مجھے دیکھ کر پوچھتی کہ زھرا کیا ہوا ہے آپ کو ۔۔۔ میں نے اس چھوٹی سڑک سے گاڑی کو ان ٹیلے بھرے میدان میں اتارتے ہوئے کہا کہ بس آج نہیں ہو گا ۔۔۔۔ ببلو زھرا کے کمزور سے چھوٹے ہاتھ پوری طرح تن چکا تھا میں نے اسے قمیض اتارنے کو بولا تو کہنے لگی ۔۔آج بھی صرف شلوار اتار کے ایک بسر کر۔لو چھٹی جلدی ہو گی اور میں اکیلی ہوں تو مجھے ڈر لگ رہا آج زیادہ میں نے کہا کہ زھرا کچھ نہیں ہوتا ٹینشن کے بغیر پورا انجوائے کرو گی تو مزہ آئے گا اور میں تمھیں صحیح وقت پر پہنچا دوں گا پھر وہ چند لمحے کے وقفے کے بعد ادھر ادھر دیکھتے ہوئے قمیض اتارنے لگی تھی غبارے جیسے پھولے بوبز کو دیکھ کر لگتا تھا کہ ان کو پوری بستی نے جی بھر کے انجوائے کیا تھا لیکن اس کی ببلی انجوائے کرنے کا زیادہ موقع کسی کو نہیں ملا تھا ۔۔۔ میں گاڑی اسی جگہ روک چکا تھا جہاں پچھلی بار کھڑی کی تھی میں نے زھرا کو پچھلی سیٹ پر جانے کا بولا وہ اپنے کپڑے فرنٹ سیٹ پر چھوڑ کر پیچھے چلی گئی میں نے پینٹ کو اوپر کر کے زپ بند کی اور گاڑی سے اتر کر آس پاس کا جائزہ لیتے گاڑی کے پیچھے سے گھوم کر دوسری طرف کی پچھلے گیٹ کو کھول کر اندر آ گیا اور اپنی پینٹ کو ٹانگوں سے الگ کر دیا میں شرٹ وغیرہ اتار رہا تھا کہ زھرا میری طرف ٹانگیں کر کے سو گئی میں اس کے اوپر سوتے ہوئے اس کے فیس کو کسنگ کرتا اس کے بڑے بوبز پر آ گیا اور ان کو اپنے دونوں ہاتھوں میں بھر کے ان کے براؤن نپل کو منہ میں بھر بھر کر چوسنے لگا سسکیاں لیتی زھرا میرے نیچے دبے اپنے چھوٹے کمزور جسم کو بل دیتے ہوئے بولی بس جلدی کرووووو میں نے اسے تھوڑی دیر مذید ترسایا اور پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس سے ببلو پر تھوک لگانے کو بولا وہ ببلو کی ٹوپی پر اپنی انگلیوں سے تھوک لگا کر پھر سونے لگی وہ بری طرح کانپ رہی تھی میں نے اسے پورے ببلو پر تھوک لگانے کو بولا اس نے تھوڑا اور تھوک لگایا اور سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولی پورا ڈالو گے کیا ؟؟؟ میں نے کہا ہاں ں ں ں آج سائقہ نہیں ہے تو یہ سارا آپ کا ہے ناں ۔۔ وہ۔لرز گئی اور پھر سو گئی میں نے ببلو کی ٹوپی کو اس کی ٹانگوں کے بیچ ببلی کے منہ پر چھوڑا اور زھرا کے اوپر لیتا چلا گیا میں نے جھک کر اس کے لبوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا وہ بری طرح لرز کر وشش وشش کر رہی تھی میں نے ببلو کو اس تنگ گلی میں اتارنا شروع کر اونہہہہہہ اونہہہہہ کے ساتھ زھرا اپنی کمر کو بل دے رہی تھی اور میری سائیڈ کو زور سے پکڑتی جا رہی تھی ببلو کے سات انچ تک جانے کے ساتھ زھرا کی درد بھری اونہہہہہ اونہہہہہہہ کے ساتھ اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا تھا اس کے چہرے پر درد کے گہرے اثرات موجود تھے ببلو کی ٹوپی نے اطلاعی میسج دیا کہ آگے رستہ اب بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے میں نے ببلو کو ادھر روک دیا اور چند لمحوں کے بعد اسے ہلانے لگا زھرا چند ہی جھٹکوں بعد جسم کو فل اکڑا کر پھر ڈھیلا چھوڑتے ہوئے اپنی ببلی کو اندر سے پانی سے بھر دیا میں نے ایک بار پھر رک کر اس کے تنے ہوئے بوبز چوسنے لگا اور پھر اپنی کمر کو حرکت دینے لگا زھرا بولی بسسسسس کر ۔۔۔ و ۔۔۔۔ اونہہہہہہہ اونہہہہہہ م مم ما۔۔۔۔۔ میں نے کمر کی حرکت کو قدرے تیز کرتے ہوئے زہرا کو پہلی بار اپنے جھٹکوں سے روشناس کرایا اففففف آآآآآآ صا ۔۔۔۔۔ صاحب ۔ب ب ب نا اونہہہہہہہ آآآآ ما ۔۔۔ مونہہہہھھھھھ اہا اونہہہہہہ ۔۔۔بسسسسسسس انہہہہہہہہ میں مسلسل چلتا رہا اور کچھ دیر بعد زھرا قدرے نارمل ہو گئی اور پھر سے اووووہ اونہہ کرتی اپنی کمر کو کمان کی طرح پیچھے کو موڑتے ہو اپنے ہپس کو گاڑی کی سیٹ اور اپنے تنے ہوئے بوبز کو اوپر لانے لگی تھی میں نے قدرے جھک کر اس کے بوبز کے ایک نپل کو اپنے دانتوں میں لے کر ہلکا ہلکا دبایا اور اسی لمحے زھرا نے ہلکی سی چیخ کے ساتھ اپنی ببلی کو ایک بار پھر پانی سے بھر دیا وائی وائی وائی ۔۔۔ امی ۔۔۔۔۔ آآآآآآ آئی آئی آئی چھوٹی سے زہرا بے حال ہو چکی تھی میں رک کر اس کے چہرے کو دیکھتا اس کے نارمل ہونے کا انتظار کر رہا تھا زھرا نے آنکھیں کھول کر رحم طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے روہانسی آواز میں کہا اب بس کر ل۔۔۔۔۔ بات اس کے گلے میں اٹک گئی تھی ۔۔ میں نے ببلو کو آہستگی سے باہر نکالا تو وہ اپنا سر اوپر اٹھا کر ببلی کو ہاتھ لگا کر دیکھنے لگی اور وائی وائی کرتی جا رہی تھی پھر زھرا نے اپنا سر سیٹ سے ٹکا دیا اور اپنی دونوں ٹانگوں کو اپس میں لپیٹ کر ببلی پر دباؤ بڑھا دیا اور چھوٹی سی گٹھڑی بن گئی تھی میں اس کے جسم پر ہاتھ پھیر کر اسے نارمل کر رہا تھا اس کی آنکھوں سے مسلسل پانی بہہ رہا تھا میرا ببلو آخری لذت کے لمحات کو ترستا بہت سخت ہو کر اوپر اٹھ آیا تھا اور مجھ سے شکوہ کر رہا تھا زھرا کی درد بھری صدائیں کچھ کم ہوئیں تو میں نے کپڑے سے ببلو کو تھوڑا صاف کر کے اس پر کنڈوم کو پورا کھول دیا اور گٹھڑی بنے زھرا کے جسم کو آہستہ سے کھولتے ہوئے اس کو کسنگ کرنے لگا بولی اب تو بس کر لو ۔۔۔ میں نے اس کی آنکھوں پر کسنگ کر کے کہا بس صرف دو منٹ میرا پانی نکلنے لگا ہے وہ آنکھیں بند کر کے کچھ لمحے ساکت پڑی رہی پھر بولی نہیں کرو ناں اور ساتھ اس کے آنسو پھر نکلنے لگے میں نے کہا زھرا میری دوست ہو ناں پلیز میرا کام پورا کر دو مجھے آدھے رستے میں تو نہ چھوڑو ناں وہ نہ چاہتے ہوئے بھی آہستہ سے اپنی ٹانگوں کو کھولنے لگی تھی میں نے اسے اٹھا کر گھوڑی بنا دیا اور اس کی کمر پر اپنے ہاتھ کا دباؤ بڑھا کر کنڈوم میں جکڑے ببلو کو اس کی ببلی میں اتار دیا اس کی اششش اششش پھر شروع ہو گئی کچھ جھٹکوں کے بعد زھرا ایک دوم آگے کو لیٹ گئی اور بولی اسبکو اتار دو ۔۔۔۔ اندر سے چھڑ رہا یہ اس نے کنڈوم کا بولا تھا میں تیز سانسوں کے ساتھ لذت کے ان آخری لمحات میں عجلت سے کام لے رہا تھا میں نے کپڑا اٹھایا اور کنڈوم کو اپنے دانت رگڑتے ہوئے اسے کھینچ کر کپڑے کو سیٹ سے نیچے رکھ دیا میں نے زھرا کے ہپس کو پکڑ کر پیچھے کرتے ہوئے پھر سے گھوڑی بنایا اور ببلو کو اس کی گیلی ببلی میں اتار کے پوچھا اب ٹھیک ہے ؟؟؟ بولی ہاں میں نے ایک دمبتیز جھٹکوں کے ساتھ پھر شروع ہو گیا کچھ ہی دیر میں میری آنکھیں بند ہونے لگی زھرا جسم کو اکڑاتی جا رہی تھی ببلو کا سات انچ حصہ اس تنگ گلی کو انجوائے کر رہا تھا جبکہ باقی دو انچ ترستا باہر ہی سے گرمی محسوس کر رہا تھا میرا جسم زھرا کے جسم سے نہیں ٹکرا رہا تھا میرے جھٹکے رک چکے تھے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ زھرا نے اکڑ کر اپنے ہپس کو تھوڑا پیچھے دھکیلا اور اونہہہہہہ اونہہہہہہ کے بعد وشششششششششششش کے ساتھ اپنی ببلی کو تیسری بار پانی سے بھر دیا میں نے زھراء کی کمر پر ہاتھ پھیرا اور ببلو کو تھوڑا مذید آگے کر کے ببلو کا پانی زھرا کے پانی میں شامل کر دیا میرے پانی کے اندر جانے سے شاہد اسے کوئی مزہ آیا تھا کہ زھرا نے اپنے ہاتھ سے میرے گھٹنے پر پیار سے ہاتھ پھیر دیا میں بہت دیر بعد ببلو کو باہر لا رہا تھا میں نے احتیاطاً گاڑی سے باہر چاروں طرف نظر دوڑا لی اس کھڑکی سے ٹیک لگ کے زھراء کو دیکھتا رہا والے اب بھی اپنی ببلی پر ہاتھ رکھ کر کچھ عجیب سی شکلیں بنا رہی تھی میں نے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا 10:35 بج گئے تھے ساتھ سائقہ کے دو مسیج آئے ہوئے تھے ایک میں لکھا تھا رات والی گرمی پوری طرح نکال لینا ۔۔۔ اور دوسرے میسج میں لکھا تھا کہ اوکے انجوائے کرو رات کو کال پر بات کرونگی ابو چار بجے چلا جائے گا ۔۔میں نے موبائل کو رکھ دیا اور زھرا کو جھولی میں لا کر اس کے بڑے بوبز کو چوسنے لگا بولی نہیں کرو۔۔ناں میں نے کہا کہ وہ نہیں کرتا بس ان کو چوسنے دو۔۔۔ وہ خاموش ہو گئی اور پھر ٹائم پوچھا اور بولی بس چلیں آہستہ آہستہ اس دن بھی آپ نے گاڑی کو جس سپیڈ میں بھگایا مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا میں نے پوچھا پھر کب ملو گی بولی آج تو آپ نے مجھے نچوڑ دیا اور اندر سے پورا کاٹ کے رکھ دیا ہے۔۔۔۔۔۔ایک مہینہ لگے گا مجھے سیٹ ہونے میں ۔۔۔۔۔ میں نے کہا نہیں آپ سیٹ ہو جاؤ گی اور میں پھر آ جاؤں گا کسی دن بولی اب اکیلی نہیں ملوں گی سائقہ ہو۔گی تو پھر دیکھوں گی ۔۔۔۔ میں آہستہ سے گاڑی چلاتا جیسے مین روڈ پر آیا زھرا پچھلی سیٹ۔پر چلی گئی میں نے ایک جگہ میڈیکل سٹور کا بورڈ دیکھ کر گاڑی تھوڑی آگے لی جا کر کھڑی کر دی میں نے وقفے والی دو ٹیبلیٹس اور کغھ پین کلر ٹیبلیٹس لیں اور گاڑی میں آکر سائقہ کی بستی کا رخ کر لیا کچھ فاصلے پر میں نے پھر گاڑی روک لی اور زھرا کو ٹیبلیٹس اور دو ہزار روپے تھما دئیے اور ساتھ اس ٹیبلیٹس کھانے کی ترکیب بھی بتا دی میں زھرا کو بستی سے کچھ پہلے ایک جگہ اتار کے واپس آ گیا تھا رات کو سائقہ سے کال پر بہت سی باتیں ہوئیں سائقہ نے کہا کہ آج آپ نے زھرا کا بہت برا حال کیا ہے وہ مشکل سے چل رہی تھی پھر بولی کہ اس نے میرے گھر میں بیٹھ کر آپ کی دی ہوئی ٹیبلیٹس کھا لیں تھی اور چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔اس روز کے کوئی دس دن بعد شاکرہ اپنی کزن کی شادی پر چلی گئی تھی پانچ روز بعد شادی کے فنگشن شروع ہو رہے تھے اور جاتے ہوئے مجھے رستے میں بولا کہ فنگشن والے دن صبح صبحِ سائقہ اور زینت کو بلوا لینا اور ان کو ادھر پہنچا دینا شہر کی شادی کے فنگشن انجوائے کریں گی بچیاں ہیں خوش ہو جائیں گی میں نے کہا کہ ضرور میں ان کو ایک روز پہلے ہی کال کر لوں گا شاکر کو اپنی کزن کے گھر چھوڑنے کے بعد میں مارکیٹ سے چار ریڈی میٹ سوٹ اور ایک جینز کے ساتھ کچھ شرثس بھی لے لیں اور تین بڑی بوتلیں لوشن کو بھی باری باری چوم کو بڑے شاپر میں ڈال کر گھر آ گیا تھا میں نے سارے شاپر بیڈ پر رکھے اور سائقہ کو کال کر لی اس نے کال ریسیو کرتے ہی بولا جی ماموں ۔۔۔۔۔ میں نے کہا جیتی رہو ۔۔۔۔۔ آہستہ سے بولی کس کے لئے ۔۔۔ میں نے آہ بھری اور بولا میرے لئے پھر زرا اونچی آواز میں بولی۔ہاں امی سے بات کراتی ہوں کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ چند لمحے کے وقفے کے بعد باجی نے ہیلو کہا کچھ رسمی کلمات کے۔بعد میں نے کہا کہ شاکرہ نے بولا ہے سائقہ اور زینت کو لے کر آؤ آج رات سے ہی شادی کے فنگشن شروع ہو جائیں گے باجی بولی ہاں وہ تو ٹھیک ہے سائقہ نے تیاری بھی کر رکھی ہے لیکن آج تو ہمارے مہمان آئے ہوئے ہیں میں تو کام کر نہیں سکتی پھر بولی آپ صبح سویرے آ جائیں یا آج شام کو آ جائیں تو بھی کوئی بات نہیں مہمان چار پانچ بجے چلے جائیں گے میں نے کہا کہ باجی پھر شام کو ٹھیک ہے کل مجھے کہیں جانا ھے بولی ٹھیک ہے بھائی مہمانوں کے جانے کے بعد یہ بس آپ کی ہو گی جب چاہیں لے جائیں میں نے اس کا لفظوں سے زیادہ دل سے شکریہ ادا کیا اور پانچ بجے کی بعد کا ڈن کر دیا باجی کے بعد میں نے نعمت کو کال کی اور اسے بیگم صاحبہ کا پیغام دیا بولا صاحب اگر ایک احسان کر دیں تو میں نے کہا کہ بولو نعمت آپ کا اور میرا کوئی فرق نہیں ہے بولے میرے گردے میں پھر سے درد ہے آج کل اور چنگ چی اور بس پر اتنا سفر نہیں کر سکتا اگر آپ زینت کو گاڑی پر لے جائیں تو مہربانی ہو گی میں بس گھر میں ہی رہ جاؤں گا ۔۔۔۔میں نے کہا نعمت آج میں بزی تو بہت ہوں پھر بھی دیکھتا ہوں کوئی ترتیب بناتے ہیں اس نے شکریہ ادا کیا میں نے یہ کہہ کر کال بند کر دی کہ زینت سے بولو اپنی مکمل تیاری کر کے رکھے مجھے جیسے موقع ملتا ہے میں آ۔جاؤں گا اور رکوں گا نہیں ۔۔۔ نعمت بولا آپ کو انتظار نہیں کرنا پڑے گا وہ تیار ہو گی ۔۔۔ میں موبائل کو چارجنگ پر لگا کر کچن میں چلا اور سامان چیک کرنے لگا۔آج گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گیا تھا میں دن بارہ بجے نکل بڑا تھے بیکری سے کچھ سامان لیکر گاڑی میں رکھ لیا مین روڈ پر گاڑی آگے بڑھ رہی تھی اور میں نے نعمت کو کال کر کے کہا کہ میں بیس منٹ میں پہنچنے لگا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔نعمت نے اچھا کہہ کر کال بند کر دی ۔۔۔۔۔
جاری ہے
0 Comments