دیہاتی لڑکی
قسط نمبر 29
زینت بھی اپنی امی کے گھر جانے لگی میں غسل کر کے واپس اس کمرے میں آ گیا تھا سائقہ نے اپنے ساتھ کھڑی نو سال کی بچی سے بولا بس ٹھیک ہے آپ لے آؤ۔۔۔۔ بچی جانے لگی تو باجی نے اسے روک کر کہا کہ ٹھہرو اپنی امی سے بولو 1500 روپے ٹھیک ہیں دوہزار میں بہت مہنگی ہے بچی چلی گئی تو سائقہ اپنی امی سے کہنے لگی نہیں دیں گے اور یہ واپس بھی نہیں آئے گی ۔۔۔ پھر سائقہ احتجاج کرتے ہوئے بولی میں لے کر جاؤں گی چاہیے 5000 بھی لگ جائیں آپ کے ۔۔۔ باجی بولی اتنا مہنگا بھی لازمی نہیں ہے کوئی اور چیز لیتی جاؤ اس میں کیا ہے ۔۔۔اور چیز بھی لے جاؤں گی ۔۔۔۔میں نے مسکرا کے سائقہ کی طرف دیکھا اور باجی سے مسئلہ پوچھ لیا باجی بولی دیسی شہد کی بوتل لینا چاہتی ہے آپ لوگوں کے لئے پہلے وہ لوگ ایک ہزار میں دے دیتے تھے اب وہ دوہزار مانگ رہے اور اس کی ضد پر وہ ڈٹ گئے باجی کے پیچھے کھڑی نے مسکرا کر۔مجھے دیکھا اور منہ میں بھر جانے والے پانی کو حلق سے اتارا اور اپنے لبوں پر زبان پھیر کر کچھ کہتے کہتے خاموش ہو کر صحن میں کھڑی گاڑی مو تکنے لگی میں نے اس سراپا حسن کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور بولا باجی آپ لوگوں کی محبت اس شہد سے کہیں زیادہ میٹھی ہے ایک بوتل شہد میں کیا رکھا ہے ۔۔۔۔ یہ ضروری نہیں سائقہ جھٹ سے بولی نہیں بہت ضروری ہے آپ لوگ جب ہمیں کوئی کمی نہیں دیتے تو ہم بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ بچی بوتل لے کر آ گئی باجی نے اسے پندرہ سو روپے تھما دئیے اور مسکراتے ہوئے بوتل سائقہ کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی لو دے دو ماموں کو۔۔۔ سائقہ نے بوتل کو اپنے بازوں میں لپٹ کر اپنے پیٹ کر دبا لیا اور بولی ادھر دینا تو کیا میں ماموں کو سارا شہد ادھر ہی چٹا دوں گی پھر آپ خفا نہ ہونا ۔۔۔۔ باجی بولی میں خفا نہیں ہوتی پیالہ بھر دو ماموں کو ۔۔۔ سائقہ مسکراتے ہوئے بولی ایک تو کیا دو پیالے بھی بھریں گے اور ساتھ میں ڈش بھی بھر جائے گی ۔۔ (سائقہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے اپنے چھوٹے پیٹ پر ہاتھ پھیر لیا ۔۔۔۔۔ سائقہ باہر چلی گئی تھی میں باجی اور اس کی کزن سے باتیں کرتا ہوا اپنی امی کے پیچھے خاموش ٹھہری مہوش کے جسم پر نظریں گھما کر اس کے داخلے کو پکا کر چکا تھا ۔۔۔ باجی بولی ۔بھائی اگر آپ برا نہ مانیں تو ان لوگوں کو مین روڈ تک ساتھ لیتے جانا اس وقت بستی کی طرف سے کوئی چنگ چی نہیں ملتی ۔۔۔ میں نے فوراً کہا اس میں ایسی کیا بات ہیں جب ادھر جا رہے تو لے جانے کوئی مسئلہ نہیں ۔۔۔۔ سائقہ دودھ اور بسکٹ لے کر آئی تھی زینت نے آتے ہی مجھے مہوش کی طرف متوجہ پا کر کہا مجھے تو آج موسم میں پھر تبدیلی لگ رہی ہے ۔۔۔۔ سائقہ سر۔ہلاتے ہوئے بولی اتنی زیادہ ۔۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے بٹوے سے ہزار کا نوٹ نکالا اور مہوش کی۔طرف ہاتھ بڑھا دیا زینت اور سائقہ اپنے کندھے ٹکرا کر ہنسی دبانے لگیں مہوش کی امی نے کہا خیر ہے بھائی اسکی ضرورت نہیں ہے میرے اصرار پر سائقہ کی امی بولی لے لو بیٹا سائقہ کی طرح تیرے بھی ماموں ہیں میں نے سر جھکا لیا مہوش نے نوٹ کو اپنے ہاتھ میں بل دینے لگے سائقہ نے مسکراتے ہوئے باہر کی طرف دیکھا اور بولی اب موسم کچھ بہتر ہونے لگا ہے زینت بولی ٹھیک ہو جائے گا ۔۔ میں نے سائقہ کو دیکھتے ہوئے کہا اگر تیاری مکمل ہو۔گئی ہے تو چلیں شام ہونے لگی ہے اور دو اڑھائی گھنٹے لگ جائیں گے سائقہ کے ساتھ مہوش زینت اور اس کی امی بھی تیاری پکڑتے ہوئے سائقہ تیزی سے اپنے ہپس۔مٹکاتی روم میں ادھر ادھر جا کر کچھ چیزیں سنبھال رہی تھی زینت نے سائقہ کے ہپس کی طرف دیکھا اور پھر آآنکھیں گھماتے ہوئےبولی بو آہستہ لی ابھی لمبا سفر طے کرنا ہے ۔۔ سائقہ رک کر بولی میں کوئی پہلی بار جا رہی کہ سدر لمبا لگے گا ۔۔۔۔ مہوش کے لئے یہ سفر لمبا ہو گا ۔۔۔۔ یہ۔کبھی گئی نہیں ۔۔۔۔ زینت بولی آپ کو کیسے پتا کہ نہیں گئی اتنے لمبے سفر پر ۔۔۔۔ سائقہ بولی مجھے پتا ہے نہیں گئی لیکن جب داخلہ لے لے گی تو اتنا بھی لمبا سفر نہیں لگے گا زینت بولی موٹو تم نہیں تھکتی ہو ہم جیسے کمزور تو تھک جاتی ۔۔۔۔ سائقہ ہنستے ہوئے کہنے لگی زینت پتا ہے وہ زھرا گئی تھی اپنے کسی رشتے دار کی۔شادی میں واپس آئی تو چل نہیں سکتی تھی بہت تھک گئی تھی ۔۔۔زینت نے بولا وہ تو بچاری اتنی کمزور ہے اس کا کمال اتنا لمبا سفر طے تو کر لیا باجی روم میں واپس آ چکی تھی دیسی گھی کا بڑا ڈبہ اور شہد کی بوتل ایک شاپر میں ڈال کے لائی تھی میں نے پوچھا آج زینت کی امی نہیں آئی ؟؟ باجی بولی اس نے بستی میں کسی گھر میں جانا تھا ابھی ادھر آئے گی اور وہ میرے ساتھ رہے گی باجی سائقہ سے بولی برقعہ تو صحیح سے پہن لو سائقہ بولی بس ٹھیک ہے بیس منٹ کی تو بات ہے ۔۔ باجی قدرے غصے میں بولی بیس منٹ جو تم جہاز پر بیٹھ رہی ہو ۔۔۔ سائقہ بولی ہاں جہاز پر بھی بیٹھوں گی ۔۔لیکن اس پر بھی گھنٹہ لگ جاتا ہے سب باتیں کرتے گاڑی کی طرف آ رہے تھے میں نے پچھلی سیٹ سے شاپر اٹھا کر ڈگی میں رکھ دئیے مہوش کی امی سے بولا باجی آپ آگے آ جائیں سائقہ کی امی نے سائقہ کو گلے لگایا اور بولی اپنا خیال رکھا کرو۔۔ بہت لا پرواہ ہو تم ویسے بھی سائقہ بولی۔امی مجھے شہر کے رواجوں کا اتنا زیادہ پتا نہیں ہے ابھی ماموں سے کہہ دو باجی بولی بھائی اس کا خیال رکھنا میری ایک ہی بیٹی ہے اور آدھی پاگل ہے وہ مسکرا کر۔بول رہی تھی زینت بولی اب تو پوری پا ہو گئی ہے ۔۔۔ سائقہ مین گیٹ کی طرف بڑھ گئی اور میں باجی سے مل کر گاڑی کو گیٹ۔کی طرف موڑ لیا سائقہ گیٹ کے ایک پلے کو پکڑ کر مسکراتی آنکھوں سے گاڑی کو باہر۔نکلتا دیکھ رہی تھی میوش فرنٹ سیٹ کے پیچھے کھڑکی سے لگ کر بیٹھی تھی اور اس کے ساتھ زینت بیٹھی تھی گلی میں رکی گاڑی میں جیسے ہے سائقہ نے بیٹھ کر گیٹ بند کیا میں نے گاڑی جھٹکے سے آگے بڑھا دی ۔۔۔ سائقہ کی آواز آئی آہ ہ۔ہ مجھے اب ایسی سپیڈ سے گاڑی چلتی اچھی لگتی کہ جمپ میں اچھلتی رہوں زینت بولی ہاں پچھلی سکٹ پر جمپ بھی زیادہ لگتے ۔۔۔ سائقہ نے اس کی ران پر چٹکی بھر لی تھی مہوش کی امی نے آہستہ سے بولا زینت کے لئے جمپ اچھے نہیں ہیں ۔۔۔ سائقہ نے بات سن لی تھی اور منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہنسی دبا رہی تھی ۔۔۔۔ مین روڈ پر۔پہنچے تو میں نے باجی سے پوچھا آپ کی بستی کہاں ہے وہ میرے شہر کی طرف جانے والے روڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہولی اس طرف پھر روڈ سے تھوڑا سا کچہ رستہ ہے میں نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور گاڑی سپیڈ سے آگے بڑھا دی جہاں تک پہچنے تک شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے مین روڈ پر بیس منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد باجی نے اپنا ہاتھ میرے آگے لہرا کر رائٹ سائیڈ کی طرف اشارہ کیا میں نے گاڑی آہستہ کر کے اس کچے رستے پر ڈال دی اور تھوڑی دیر میں ہم مہوش کے گھر کے آگے رک چکے تھے بستی کے بچے گاڑی کے گرد جمع ہو گئے تھے مہوش کا ابو گھر سے باہر آ گیا تھا وہ اپنی بیگم کو گاڑی سے اترتا دیکھ کر حیرت زدہ تھا میں گاڑی سے اتر کر ان سے محبت سے ملا پیچھے بیٹھی سائقہ بولی خالو کیسے ہیں آپ اس نے اندھرے میں گاڑی کے اندر سائقہ کو غور سے دیکھا اور پھر ہنس کے بولے تو بلا بھی آئی بیٹھی ہے سائقہ بولی یہ میرے ماموں ہیں ہم شادی پر جا رہے زیںت بھی ساتھ ہے۔۔۔۔ وہ ایک لمحہ رک کر بولی امی نے ماموں کو بولا کہ میری بہن کو گھر پہنچا دینا تو ہم پہلے ان کو چھوڑنے آ گئے ۔۔۔ وہ بولا بہت اچھا کیا ہے میں اس وقت ان کے لئے پریشان ہو رہا تھا وہ میری طرف مڑے اور کہنے لگے بھائی گھر آ۔جاؤ دروازے پر کھڑی مہوش کی امی نے کہا بھائی آ جاؤ میں جلدی سے کھانا بنا لیتی پھر چلے جانا میں نے ان سے معذرت کر لی اور تاخیر ہونے کا عذر پیش کر کے دروازے پر اپنی امی کے ساتھ کھڑی مہوش کو دیکھتے ہوئے بولا کہ بہت جلدی پھر آ کے ضرور کھا لوں گا سائقہ کے گھر سے یہاں تک میرے بار بار مہوش کو محبت سے دیکھنے اور کچھ باتوں سے وہ جان چکی تھی کہ انکل کی نظروں میں کچھ خاص بات ہے میں نے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ڈگی سے سارے شاپر نکال کر سائقہ کو دے دئیے اور اس نے زینت کے اس پار سیٹ پر رکھ دئیے میں نے گاڑی گلی کی نکر سے پیچھے موڑ لی اور جیسے ہی ہم بستی سے۔نکلے سائقہ آگے آنے لگی اور میں نے اسے روک لیا اور زینت سے بولا کہ نیلے شاپر میں پینٹ شرٹ ہو گی وہ سائقہ کو پہنا لو اور اپنی پینٹ شرٹ بھی پہن لو وہ شاپر ڈھونڈنے لگی اور سائقہ مسرت بھرے لہجے میں خوش ہوتے ہوئے بولی میرے لئیے لائے ہو ؟ مانوں ۔۔۔۔ زینت نے ہنستے ہوئے کہا مانوں ؟؟؟ سائقہ نے سیٹ کے پیچھے سے میرے گلے میں اپنا بازو لپیٹ لیا اور مجھے کسنگ کرتے ہوئے بولی اففففف یہ تو میرا مانوں ہے صرف لوگوں کے سامنے ماموں ہے ۔۔۔ پھر زینت اور سائقہ نے اپنے برقعے اتار کر اس نیلے شاپر میں ڈال لئے جس سے زینت نے پینٹ شرٹ نکال لی تھی سائقہ نے اپنی قمیض اتار کی اور اگلی سیٹوں کے درمیان سینے تک خود کو میری طرف نکال لیا بولی مانوں آج مجھے بہت مزہ آ رہا ہے ۔۔۔ پیچھے سے زینت اس کی۔شلوار اتارتے ہوئے سائقہ کے سفید ریشمی ہپس پر تھپڑ مار کے بولی ۔۔۔ ابھی ان کو پورے پانچ دن کا مزہ دیں گے ماموں ؟؟؟ سائقہ نے ہلکی سے چیخ مار کے میری طرف دیکھ کی بولا ۔سچی۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کے سر کو اس کے مکھن جیسے گال کو منہ میں بھر کر مممھھھھھھ کی آواز سے بولا ہاں سچی وہ خوش ہو کر میرے گلے میں بازوں لپیٹ کے بولی گاڑی روکو پہلے میرے گلے لگ جاؤ۔۔۔۔۔۔ واہ ہ ہ ماںوں مزا آ گیا ۔۔۔۔ میں نے گاڑی کی سپیڈ کم کر دی اور اسے اپنے بازو میں لپیٹ کر کسنگ کرنے لگا زینت پیچھے سے سائقہ کی ٹانگوں کو باری باری پینٹ میں ڈالنے لگی تھی تھوڑی دیر بعد میں نے سائقہ کو سیدھا ہو کر لباس پہننے کا کہہ دیا زینت نے آواز دی یاررر پینٹ تو بہت تنگ ہےاس کے موٹے بستے میں نہیں جا رہی میں نے اندر کی لائٹ جلا کر دیکھا زینت سائقہ ہپس پر جینز کو کھینچ کھینچ کر تھوڑی تھوڑی اوپر لا رہی تھی پھر وہ رک کر سائقہ کے ہپس کے اوپری حصے پر تھپڑ مار کر بولی اتنی پڑھی لکھی نہیں لیکن بستہ اصلی ڈاکٹروں والا اٹھایا ہے ۔۔۔ نہیں جاتی آگے بس ایسے گزارا کروں ۔۔۔ سائقہ بھی اسے اوپر کھینچنے لگی تھی پھر مایوس ہو کر مجھے دیکھنے لگی میں نے پٹرول پمپ سے آگے گاڑی کو روک دیا اور پچھلی سیٹ پر چلا گیا سائقہ آگے والی سیٹوں کے درمیان سر جھکائے کھڑی تھی میں نے آہستہ آہستہ اس کے جینز کو تھوڑا تھوڑا کر کے اوپر کھسکانے لگا اور پھر ہپس پر ہاتھ کا دباؤ بڑھا کر سائقہ کے ریشمی سفید ہپس کو اندر دباتا اور اس جگہ سے جینز کو اوپر کھینچ لیتا میں نے سائقہ کے ہپس کو جینز میں بھر دیا تھا اور اس کے ہپس کے اوپری حصے پر گولائی میں ہاتھ سے دباؤ ڈال کر زپ بند کرنے لگتا تو انڈرویئر زپ میں پھنس جاتی زینت نے ببلی کے اوپر انڈرویئر پر انگلی سے دباؤ بڑھاتی اور میں آہستہ سے زپ بند کر دیتا سائقہ ماڈل بن چکی تھی جو جینز اور بریزر میں کسی بھی معروف ماڈل کو پیچھے چھوڑ رہی تھی پھر میں نے اسے شرث پہننے کا کہہ کر ڈرائیونگ سیٹ پر آ گیا زینت اپنے کپڑے اتار کر پینٹ شرث پہننے لگی تھی سائقہ جینز پر اوپن شرٹ پہن کر غضب لگ رہی تھی ببلو تو پہلے ہی سا،قہ کو پینٹ پہناتے وقت سے کسی بھوکے بھیڑیے کی طرح پینٹ سے باہر آنے کو بل کھا رہا تھا میں گاڑی کو ہلکی رفتار میں چلاتا سراپا حسن سائقہ کو بھوکی نظروں سے دیکھ رہا تھا میرے مںہ میں پانی بھر آیا تھا سائقہ میرے پیچھے بیٹھ کر زینت کو پینٹ شرٹ پہنتا دیکھ کر اپنی ٹانگوں پر ہاتھ پھیر رہی تھی میں نے سائقہ کو بلایا کہ آ جاؤ تمھیں ڈرائیونگ سکھا دوں سائقہ اپنے پاؤں جماتے آگے آ رہی تھی زینت نے گیئر لیور کو ہاتھ لگا کر بولا گاڑی سیکھنے کے لئے پہلے لڑکی کو اس پر بیٹھنا پڑتا ہے سائقہ کو اٹھا کر میں نے اپنی گود میں بیٹھا لیا گاڑی بہت آہستہ سے چل رہی تھی میری گود جینز میں جکڑے سائقہ کے ہپس سے بھر گئی تھی میں سائقہ کے مکھن جیسے گالوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر کر آہا ہ ہ ہ ہ وششش کر کے چوسنے لگا اور سائقہ نے اسٹیرنگ پکڑ لیا تھا سائقہ نے گیئر لیور کی طرف ہاتھ بڑھا کر بولا اس کو کدھر ہلانا ہے۔۔۔ میں نے کہا آپ اسٹیرنگ پکڑنا سیکھو یہ بعد کا مسئلہ ہے زینت پیچھے سے بولی گئیر ماموں لگا دے گا اسی کو پکڑ کر رکھو جس کو پکڑا ہوا ہے ۔۔۔ زینت نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولی نیچے سے بھی گیئر لگا کے رکھو گول مال ہے ادھر ادھر پھسل جائے گی ۔۔۔ سائقہ ڈرائیونگ میں بہت دلچسپی لے رہی تھی ۔۔ میں سائقہ کو گود میں بیٹھائے اس کے ریشمی جسم کا پورا پورا مزہ لے رہا تھا زینت بولی تمھارے عشق میں میں سوکھ رہی ہوں پیچھے گھر جا کر سارے شوق پورے کر لینا ۔۔۔ آج مجھے اس کے بستے کی مجھے خیر نہیں لگتی ۔۔۔۔ سائقہ بولی ان پانچ دنوں میں تیرا بستہ بھی ڈبل کراتی ہو صبر کرو میں نے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا 9:35 بج چکے تھے اور ہم ابھی شہر سے بہت دور تھے اس وقت آہستہ چلتی گاڑی کو سائقہ اچھے انداز میں کنٹرول کر رہی تھی میں اسٹیرنگ سے ہاتھ چھوڑ چکا تھا لیکن محتاط تھے میں نے سائقہ کی کمر کر تھپکی دی اور بولا بس ادھر آ جاؤ لیٹ ہو رہے ۔۔سائقہ بولی نہیں بس مجھے بہت مزہ آ رہا ۔۔۔ صبح تک تو پہنچ جائیں گے ناں ۔۔۔ آپ نے جو شوق پورا کرنا کرتے رہو میں گاڑی چلاؤ گی بس۔۔ میں خاموش ہو گیا اور اس کو اپنی باہوں میں بھر کر اس کی پیٹھ پر اپنا چہرہ ٹکا دیا ۔۔۔۔
جاری ہے
0 Comments