دیہاتی لڑکی
قسط نمبر 34
بارش رک چکی تھی شام سے قبل اندھیرا ہونے لگا تھا درختوں سے ہوا کے جھونکوں سے اب بھی بارش کی طرح پانی ٹپک رہا تھا ہر طرف جل تھل تھی ان علاقوں کی مٹی چکنی تھی جس پر بارش کے بعد چلنا بہت مشکل کام ہے سامنے درختوں کے جھنڈ کے اس پار زینت کا گھر تھا میں کیچڑ بھری زمین کو دیکھتے ہوئے زینت کے گھر تک جانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا تھوڑی دیر بعد نعمت نے کال کر کے صورتحال معلوم کی اور بتایا کہ میں نے گھر بتا دیا ہے آپ کا کھانا تیار ہو رہا آپ گاڑی میں رہیں ایک بچہ بیل گاڑی لا رہا ہے وہ آپ کو میرے گھر تک پہنچا دے گا ۔۔۔۔ میری جان میں جان آ گئی میں اٹھ کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر چلا گیا اور سوٹ کیس سے بلیک شلوار قمیض نکال کر پینٹ شرٹ اتار دی اور سوٹ پہن کر بیل گاڑی والے کا انتظار کرنے لگا میں نے صرف ضروری سامان ایک شاپر میں ڈال رکھا تھا کوئی بیس منٹ بعد گاڑی کے پیچھے سے کچھ آوازیں آنے لگیں میں نے دیکھا تو بارہ تیرہ سال کا ایک لڑکا بیل کو ہانکتا ہوا گاڑی لے کر میرے قریب ہو رہا تھا لڑکے نے بیل گاڑی کو میری گاڑی کی لفٹ سائیڈ پر قریب کرتے ہوئے روک دیا میں شاپر اٹھا۔کر گاڑی کو لاک کرتا ہوا بیل گاڑی میں بیٹھ گیا میں لڑکے سے رسمی گفتگو کرتے ہوئے ذہن میں رات کو رنگین بنانے کے بارے میں سوچ رہا تھا دراصل بیس دن بعد سائقہ کے پاس جا کر مکھن پر شہد ڈال کر کھانا چاہتا تھا لیکن بارش کے باعث سارا مزہ کرکرا ہو گیا تھا مجھے سائقہ سے عشق ہو گیا تھا اور ان دنوں میں صرف سائقہ تک محدود ہونا چاہتا تھا ۔۔۔ اس کیچڑ میں بیل کو گاڑی کھینچنے میں کافی مشکل پیش آ رہی تھی لیکن لڑکا اسے ہانکتے اور جھڑی سے کام لیکر بیل کو آگے چلنے پر مجبور کر رہا تھا درختوں کے اس جھنڈ کے پہنچنے سے پہلے بارش پھر سے شروع ہو گئی اور میرے کپڑے گیلے ہو گئے تھے ۔۔۔ میں نے شاپر میں اتاری گئی پینٹ شرٹ بھی ڈال دی تھی جس سے مجھے تسلی رہی دو فرلانگ کا فاصلہ بیل گاڑی پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا تھا تاریک رستے پر بیل گاڑی چلانے پر میں لڑکے کو دل میں داد دے رہا تھا میرے کپڑے بھیگ کر چپک گئے تھے اور بارش کے ساتھ ہوا چلنے سے اب مجھے سردی لگ رہی تھی میں نے اس بڑے شاپر میں ہاتھ ڈال کر پاور بینک والا چھوٹا شاپر خالی کر لیا اور پاور بینک کو اس بڑے شاپر میں کھلا چھوڑ دیا میں نے اسی شاپر میں ہزار روپے کا ایک نوٹ رکھ کر لڑکے کو دے دیا لڑکے بہت خوش ہو گیا اور مجھے اتارتے ہوئے کہنے لگا صاحب میری جس ٹائم ضرورت ہو نعمت کو کال کر دینا وہ میرے ابو کو بتا دے گا تو میں آپ کے پاس آ جاؤ گا ۔۔۔ میں نعمت کے گھر میں داخل ہو گیا اور احتیاط سے قدم اٹھاتا ان کے کچے کمرے میں چلا گیا زینت بستر پر ںیٹھی ہوئی اور سونیا اس کے ساتھ کھڑی اپنے دوپٹے کا پلو اپنی انگلی کے گرد لپیٹ رہی تھی کمرے میں سو واٹ کا ایک بلب جل رہا تھا جس کی روشنی مجھے سورج کے برابر لگ رہی تھی کیونکہ میں گپ اندھیرے سے یہاں آیا تھا زینت نے بہت گرم جوشی سے میرا استقبال کرتے ہوئے کہا آج کی بارش بہت لکی ہے جو آپ کو ہمارے گھر رہنے کےلئے زبردستی لے آئی ہے میں نے اپنا ہاتھ سونیا کی طرف بڑھایا تو اس نے معمولی سی ہچکچاہٹ کے بعد سر نیچے جھکاتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھا دیا میں نے اس کے گرم ہاتکو دبا کر پوچھا ۔۔۔ ٹھیک ہیں آپ ۔۔۔ وہ ایک لمحے بعد مدھم آواز میں بولی ۔جی۔۔۔۔۔ زینت بولی بارش نے آج اسے گم سم کر دیا ۔۔۔ میں نے کہا کیوں ؟؟۔ بارش نے تو مجھے ڈسٹرب کرنا تھا ۔۔۔ زینت بولی آج اس کے شوہر نے آںا تھا نعمت کے ساتھ ۔۔۔۔ وہ بھی بارش کی وجہ سے رک گیا تو ۔۔۔ اس پر چپ طاری ہو گئی ۔۔۔۔ زینت مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی میں نے کہا خیر ہے ایسا ہو جاتا لیکن کبھی کبھی اس سے بھی اچھا ہا جاتا زینت نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی کو دبایا اور سر جھکا گئی ۔۔۔ زینت نے اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبایا اور اور مزے جیسی آنکھوں خو تھوڑا بند کرتے ہوئے مجھے کچھ اشارہ کیا گیلے کپڑوں کے چپکنے سے ببلو اپنی تگڑی پوزیشن واضح کر رہا تھا میں نے شاپر کھول کر اس سے پینٹ شرٹ کو نکال اور زینت سے بولا کپڑے کہاں بدلوں ؟؟۔ بولی چھوٹی کوٹھڑی میں سامان بھرا ہے اور اندھیرا بھی آپ ادھر ٹھہر کر بدل لیں ہم ادھر کو منہ کر لیتے سونیا چارپائی پر میری طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گئی میں نے اپنی انڈرویئر کو دوبارہ شاپر کی طرف اچھال دیا اور شلوار قمیض اتار دی زینت سونیا سے باتیں کرتی میری طرف توچھی نظروں سے دیکھ رہی تھی میں نے اپنے جسم پر ہاتھ پھیر کر پانی نچوڑا اور پینٹ شرٹ پہن کے سونیا کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گیا سونیا تھوڑی سے کھسک گئی ۔۔۔ زینت نے مسکراتے ہوئے پوچھا صاحب ہم نے تو سبزی بنائی ہوئی ہے مرغی ذبح کرنے والا کوئی نہیں تھا نعمت نے آپ کا پہلے ہی بتا دیا لیکن اس بارش میں ممکن نہیں تھا ۔۔۔ میں نے پوچھا مرغی دیسی ہے یا برائر ؟؟ بولی خالص دیسی ہے لیکن ٹائم نہیں تھا اتنا کچھ فوراً کرنے کو کوشش ہے پھر بھی کوئی طریقہ بن جائے ۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا اگر کوئی طریقہ بن جائے تو احسان ہو گا آپ کا زینت بولی ۔۔نہیں احسان نہیں ہے ہمارا حق بنتا ہے آپ نے ہمارے گھر آ کر احسان کر دیا تو کوئی چیز آپ سے قیمتی نہیں ہے ۔۔۔ بولی میں بیمار نہ ہوتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔۔۔ میں نے کہا اوکے فی الحال کچھ سبزی کھا لیتے ہیں میں نے گیلی قمیض سے اپنا سامان نکالا اور بٹوہ پینٹ کی جیب میں ڈالتے رک گیا اور دوہزار کے دو نوٹ نکال کر سونیا کی طرف بڑھا دیئے ۔۔ وہ ہچکچاتے ہوئے پہلی بار بولی تھی نہیں صاحب آپ کے پہلے بھی شادی والے احسان باقی ہیں آپ نہیں دیں ۔۔۔ میں نے کہا خیر ہے لے لو جس دن دل کرے سارے احسان اتار دینا ۔۔۔ زینت بولی لے لو صاحب سے یہ بھی ہر کسی کو نہیں دیتے جو اچھا لگتا ہے اس پر اپنی عنایت کرتے ہیں سونیا نے مسکراتے ہوئے نوٹ لے کر مسکراتے ہوئے سر جھکا لیا زینت نے سائقہ کو کہا جا کر گلی کے دروازے کو تالا لگا دو اور کھانا لے آؤ۔۔۔ ارم جھم جاری تھی ایک چارپائی زینت کی چارپائی کے ساتھ ملی ہوئی تھی جس پر میں بیٹھا تھا اور ایک چارپائی اس کچے کمرے میں دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی تھی جس پر صاف ستھرا بستر لگا ہوا تھا ۔۔۔ سونیا باہر نکلی تو زینت بولی ۔۔۔ میں بلب اتار کے سو جاؤں گی آپ اس کے ساتھ کھس جانا ۔۔۔۔ باقی کوئی طریقہ نہیں نظر آتا ۔۔۔۔ سونیا واپس آنے لگی تھی زینت بولی بیگم صاحبہ کیسی ہیں میں نے کہا ٹھیک ہیں آپ کے لئے فکر مند تھیں۔۔۔ بولی دوائیاں ختم ہو جائیں تو پھر نعمت کو بولوں گی ڈاکٹر کے پاس جانے کا ۔۔۔۔ میں نے کہا آپ مجھے کال کر دینا اور چنگ چی بسوں وغیرہ پر۔نہیں آنا ۔۔۔ پہلے سے بھی خراب ہو جاؤ گی ۔۔۔ زینت بولی ہاں پھر نعمت کو بتا دونگی اور آپ آئیں گے تو سونیا اور میں ساتھ آ جائیں گی چلو اسی بہانے ایک رات بیگم صاحبہ کے پاس گزار لیں گے سونیا کھانا لے۔کر آ گئی اور کھانے کے دوران ہماری باتیں ہوتی رہیں اور پھر میں زینت کے ساتھ والی اس چھوٹی چارپائی پر لیٹ کر موبائل نکالا اور ڈیٹا آن کر کے فیسبک پر گردش کرنے لگا زینت سونیا سے قدرے آہستہ آواز میں ہماری تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی رات کے دس بج چکے تھے میں نے موبائل سینے پر رکھا اور آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد زینت بولی صاحب کو تو ادھر ہی نیند آ گئی ہے ۔۔۔ پھر اس نے ایک بار مدھم آواز میں بولا صاحب آپ کا بستر ادھر لگا میں سویا رہا ۔۔۔ پھر وہ سونیا سے بولی۔آپ بلب بند کرکے ادھر ہی سو جاؤ بس اس کو نہیں جگاؤ۔۔۔۔ سونیا بولی۔لائٹ جلتی رہے تو ۔۔۔۔ زینت بولی نہیں یہ اندھیرے میں سوتے ہیں ۔۔۔بس بند کر دو اور سو جاؤ ۔۔۔مجھے بھی نیند آ رہی ۔۔رات صحیح سے نہیں سو سکی تھی ۔۔۔ پھر چند قدموں کی آہٹ کے بعد بٹن بند ہونے کی آواز آئی اور میں نے آنکھوں کھول کر دیکھا کمرے میں اندھیرا تھا باہر سے آسمانی بجلی کی چمک کبھی کبھی کمرے کے دروازے سے اندر جھانک لیتی تقریباً بیس منٹ بعد چارپائیوں سے آنے والی چیں چیں کی ہلکی آوازیں بند ہو گئیں زینت کا ہاتھ میرے چہرے پر آ گیا میں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اس پر کسنگ شروع کر دی تھوڑی دیر بعد زینت نے میرے سینے پر تھپکی دی اور میں اٹھ گیا اور پینٹ۔کا بلٹ۔کھول کر اسی چارپائی پر رکھا اور شرٹ اتار کر سونیا کی چارپائی کی طرف بڑھ گیا میں قدموں کو بغیر آہٹ کے آگے بڑھاتا گیا سونیا کی لمبی سانسوں کی آواز آ رہی تھی میں چارپائی کی بازو پر بیٹھتے ہی سونیا کے ساتھ لیٹ کر اس۔پر اپنا بازو رکھ دیا وہ نیند میں تھی میں نے اس پر اپنی دائیں ٹانگ بھی رکھ دی اور اسے اپنے سینے کے قریب کھینچا تو وہ جاگ گئی ۔۔۔۔۔ وہ لرزتے جسم کے ساتھ کانپتی آواز میں بولی کو۔۔کون۔۔۔۔۔ میں نے اآہستہ سے کان میں بولا خاموش رہو زینت جاگ جائے گی اس دوران سونیا میرے چہرے پر ہاتھ پھیر چکی تھی ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ اس کے نیند سے جاگنے پر جو اوسان خطا ھو گئے تھے وہ بحال ہو چکے تھے ۔۔۔۔ میں نے اس کے ہپس کے ایک پنکھ کو پکڑ کر اپنے ساتھ ملا لیا اور اس کے لب چوسنے لگا سونیا میری گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے آہستہ سے بولی صاحب نہیں کرو ۔۔۔۔ میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا اس موسم میں میں پیار کر ترس رہا تھا میں نے اس کے لبوں کو اپنے ہونٹوں میں دبا جڑ لیا اور چوسنے لگا سونیا نے ایک بار پھر اپنے سر۔کر پیچھے کرکے بولا نہیں کروو۔۔۔ زینت جاگ جائے گی ۔۔۔ میں نے کہا نہیں جاگے گی تم خاموش رہو ۔۔۔ میں نے اس کے بوبز کو دبانا شروع کر دیا اور کچھ نارمل ہونے کے ساتھ اپنا سر اٹھا۔کر بار بار اٹھا رہی تھی شاید وہ اندھیرے میں زینت کو دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی باہر رم جھم جاری تھی میں نے اپنا ہاتھ سونیا کی قمیض کے اندر ڈالتے ہو بوبز کی طرف بڑھایا تو اس نے اففففف کے ساتھ کہا یہ نہیں کرو نا بس تھوڑا پیار کر لو میں نے اس کے نپلز کو مسلنے کے ساتھ اس کے لبوں کو چوسنا شروع کر دیا اس کی تیز سانسوں کے بیچ سسکیاں ابھرنے لگیں زینت ساخت پڑی تھی ۔۔۔۔ میں اس کو کسنگ کرتا اس کو سیدھا لٹاتے ہوئے اس کے اوپر آ گیا اور اس کی ٹانگوں کے بیچ جگہ بنانے لگا کسنگ کے دوران میں نے اس کے قمیض کو گلے کی طرف اوپر سرکا دیا اور اپنے ہونٹوں کو بوبز کے نپلز پر جوڑ دیا جس سے سونیا کی نہ صرف سسکیوں میں اضافہ ہو گیا بلکہ اس کی سانسیں بھی تیز ہو گئی میں اپنی پینٹ کو۔گھٹنوں تک سرکا چکا تھا اور اپنے اس ہاتھ کو سونیا کی کمر پر لے آیا میں نے نپلز پر دانتوں کا استعمال کرنے لگا جس سے سونیا مچھلی کی طرح تڑپنے لگی اور میں غیر محسوس انداز میں اس کے لاسٹک میں ہاتھ ڈال کر اس کی شلوار کو گھٹنوں تک سرکا گیا سسکیوں کے بیچ اس نے پھر سرگوشی کی ۔۔۔اففففففف زینت جاگ جائے گی میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا بس دو منٹ ۔۔۔۔۔ بولی جلدی کرووووو۔۔ میں نے اس کی لفٹ ٹانگ کو بازو کے اندر کر کے اس کے بوبز کو منہ میں بھرتے ہوئے ببلو کو اندھیرے رستے میں آگے بڑھا دیا ببلی کے ہونٹوں کے بیچ پھسلتے ببلو کو محسوس کرتے سونیا بری طرح لرزی اور اپنا ہاتھ اپنے ہپس پر پھیرتے ہو قدرے زور سے بولی اوہ ہ ہ ہ نہیں ۔۔۔۔ سونیا کو پہلے علم نہیں تھا کہ میں اس کی شلوار کے ساتھ اپنی پینٹ بھی سرکا چکا ہوں ببلو بہت آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا اور تقریباً چھ انچ کے بعد اس کی ٹوپی تھوڑی ٹائٹ ہو گئی میں نے ادھر رک کر ہلکے جھٹکے دینا شروع کر دئیے وہ ساکت پڑی تھی شاید وہ اس کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھی اور صرف پیار کی امید پر تھی کہ میں بوبز چوسنے کے بعد چکا جاؤں گا کچھ دیر بعد اسے مزہ آنے لگا تھا اور تیز سانسوں میں بولی جلدی کرو۔۔۔میں نے اس کے ہپس کی حرکت سے محسوس کیا کہ اب وہ پورے مزے میں آ چکی ہے میں نے بیٹھ کر ببلو کو باہر نکال لیا اور اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر اس کی شلوار اتار کے نیچے پھینک دی ۔۔۔بولی ساری تو نہ اتارو۔۔۔ میں نے ببلو کو کھلا چھوڑ دیا اور اندھیرے میں اپنی ببلی کو ڈھونڈ کر اس میں اترنے لگا مجھے معلوم ہو چکا تھا سونیا کی کپیسٹی بھی چھ انچ ہے سو میں نے اس کے لبوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑا اور ببلو پر دباؤ بڑھا دیا اونہہہ اونہہہ کے ساتھ سونیا تڑپنے لگی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ببلو مسلسل آگے بڑھ رہا تھا وہ میرے نیچے سے نکلے کی ناکام سی جستجو کو رہی تھی اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ تھوڑی دیر پہلے اس لذت کے لمحوں میں دھکیلنے والا ببلو واقعی میں اتنا بڑا ہے یا کچھ اور میرے اندر جا رہا ۔۔۔۔سونیا نے اپنا سر جھٹک کے اپنے لبوں کو میرے ہونٹوں کی گرفت سے آزاد کیا اور ڈوبتے سانسوں کو گہری سانس لے کر بحال کیا اور ۔۔۔ لمبی سی آواز میں بولی۔۔ آآآ امی ی ی ۔۔۔۔ زینت کی مدھم ہنسی کے ساتھ آواز آئی ۔۔۔ سونیا کیا ہوا طبیعت خراب ہے یا ڈڑ رہی ہو ۔؟؟؟؟؟ سونیا خاموش اور ساکت ہو گئی میں نے اپنے ہونٹ اس کے لبوں پر رکھے تو وہ اپنے لب دانتوں تلے دبائے ھوئے تھی میں نے اسی لمحے کا فائدہ اٹھایا اور باہر رہنے والے ایک انچ کو جھٹکے سے ڈال کر ببلو کو ہلانا شروع کر دیا سونیا اپنے ہاتھوں سے پورا زور لگا کر مجھے دھکیلنا چاہ رہی تھی میں نے ایک دم جھٹکوں میں تیزی بھر دی اور سونیا کی ایک بار پھر بے اختیار آواز نکلی ۔۔۔۔۔ وائی وائی وائی۔۔۔۔۔۔ میں نے محسوس کر لیا تھا کہ زینت اٹھی ہوئی ہے ۔۔۔۔ کڑک کے ساتھ کمرہ روشن ہو گیا اور سونیا نے اپنی آنکھوں پر بازو لپیٹ لیا ۔۔۔
جاری ہے
1 Comments
Episodes repeat q ho rhe Hain? 23 ke aaage saare repeat hain. Inka kia Karna ha ?
ReplyDelete