دیہاتی لڑکی
قسط نمبر 07
باجی بولی میرے میں اب اتنی ہمت نہیں رہی ۔۔۔۔ سائقہ نے مسکراتے ہوئے زینت کی طرف دیکھا اور بولی اپنی امی کو بھی بھی بٹھا دو میری امی بیمار ہے کیوں مارنا چاہتی ہو اسے زینت بولی آپ سے بڑی ہے جب آپ نہیں مری تو آس کو بھی موت نہیں آنے والی ۔۔۔ باجی بولی اب ہماری عمر بھی نہیں رہی سائقہ بولی امی جوانی میں کتنے جھولوں پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔ باجی گول گھومنے والے بڑے جھولے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اتنے بڑا جھولا میں نے پہلی بار دیکھا ہے ۔۔۔ اس سے تھوڑے چھوٹے پر بیٹھی تھی ؟؟؟ باجی بولی میں نے بیٹھی بستی میں ایک چھوٹے جھولے والا آیا تھا سائقہ چھوٹی تھی اس وقت نو سال کی اس کو بٹھایا تھا میں نے سائقہ سر جھکائے ہنسی روکنے کی کوشش کر رہی تھی زینت نے میرے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر سائقہ کے ہپس پر مکا مارا اور بولی میں کہتی تھی نہ ایسے بڑے نہیں ہوگئے ۔۔۔ دلہن ان کی باتوں سے بے نیاز جھولوں کو حیرت سے دیکھ رہی تھی سائقہ بولی آج بھابھی کو بٹھاتے ہیں ۔۔۔ سونیا نے اس کی طرف دیکھا اور تھوڑا مسکراتے ہوئے ہوئے بولی نہیں مجھے ڈر لگتا ہے ۔۔۔ زینت بولی بھابھی کچھ بھی نہیں ہوتا میں بھی پہلے دن بہت ڈری تھی ۔۔۔ میری ٹانگیں کانپ رہی تھی اور دل ڈوبنے لگا تھا لیکن اب ہر وقت دل میں اسی جھولے کا خیال ہوتا ہے ۔۔ سونیا (دلہن ) بولی نہیں نہیں میں نہیں بیٹھتی ۔۔ باجی بولی آپ بیٹھ جاؤ قسمت سے آئی ہو ۔۔۔ اس نے پھر بھی انکار کر دیا زینت میری طرف دیکھ کر سائقہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولی فکر نہ کرو اس کو میں اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر بٹھاؤں گی ۔۔۔ سائقہ بولی امی آپ بیٹھتی نہیں ہو تو دیکھ تو لو ۔۔۔۔ باجی نے بڑے گول جھولے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا دیکھ تو لیا ۔۔۔ سائقہ بولی امی وہ جہاز والا جھولا بول رہی ہوں ۔۔۔ باجی بولی وہ کہاں ہے زینت نے کہا وہ اس کونے میں ہوتا ہے ۔۔۔باجی نے میری طرف دیکھتے ہوئے بولی بھائی ان کو لے جاؤ اور جہاز پر بیٹھاؤ ہم ادھر بیٹھی ہیں ۔۔ان مصیبتوں کو ایسے آرام نہیں آئے گا ۔۔۔ سائقہ اٹھتے ہوئی بولی مجھے تو اس پر بہت سکون مل جاتا ہے زینت بات کاٹتے ہوئی بولی اچھا خالہ اور سونیا کے لئے کچھ منگوا لیتے ہیں میں نے ایک لڑکے کو بلا کر ان کے گول گپے کا آڈر دے دیا ساتھ اسے پیسے بھی ایڈوانس دے دیئے سائقہ بولی امی آپ گول گپے کھاؤ اور ہم جہاز کا مزہ لے لیں ۔۔۔ باجی سائقہ کو دیکھتے ہولی خیال سے بیٹھنا تم تو ویسے بھی لاپرواہ ہو سائقہ بولی امی کچھ نہیں ہوتا ماموں خیال کرے گا۔۔۔۔ زینت بولی خالہ بس اب نہیں مرے گی جاتے ہوئے سائقہ امی سے بولی آپ اپنے بھائی کو کہہ دیں پہلے مجھے بٹھائے باجی بولی بھائی لے جاؤ ان کو میرا تو مغز بھی کھا گئی ہیں ۔۔۔۔۔ میرے ساتھ چلتے ہوئے وہ دونوں ہنسی کو دبانے کی کوشش کرتی جا رہی تھیں ۔۔۔ پھر زینت بولی سائقہ تیرے موٹے بستے کو پیچھے سے سب لڑکے حسرت سے دیکھ رہے ہیں سائقہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی ماموں میری دوست کا بستہ موٹا نہیں کیا آپ نے ؟۔ میں نے کہا اس کا نعمت موقع بھی نہیں دے رہا ۔۔۔۔ پھر زینت سے بولی اس بار بھی چار دن آ جاؤ ماموں کے پاس پھر آپ کو بھی سب لڑکے ایسے دیکھیں گے ۔۔۔زینت بولی موٹے بستے کی مارکیٹ اچھی ہے اس لئے یہ دوبارہ آپ کے پاس بھاگ گیا تھا۔۔ میں نے کہا آپ کو نعمت وقفہ ہی نہیں دے رہا ۔۔۔ بولی اسے بھی اب عشق زیادہ چڑھ گیا ہے جب مجھے بڑے جہاز والا عاشق مل گیا ہے ۔۔۔ سائقہ بولی کیوں اس کا جہاز بڑا نہیں ہے کیا زینت نے اپنی درمیانی انگلی سیدھی کر کے قہقہہ لگایا ۔۔۔۔ پھر وہ ہنستے ہوئے بولی ایک مزے کی بات بتاؤں ۔۔ پھر والے انگلی کو لہراتے ہوئے بولی اتنا ڈال کے پوچھتا ہے۔۔۔ درد تو نہیں ہو رہا ۔۔ہاہاہاہاہاہا ۔۔۔میں نے بھی قہقہہ لگا دیا ہم اس قدرے تاریک کونے میں پہنچ چکے تھے ایک جوڑی پہلے ہی موجود تھی ہم تھوڑے فاصلے پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے زینت بولی اپنے گھر میں کسی دن ہم دونوں کو ایک ساتھ لے کر آؤ کم سے کم ہفتے کے لئے سائقہ بولی امی کو کالج داخلے کے لئے راضی کرو کہ میرے گھر میں رہے گی میں نے کہا گھر میں شاکرہ مستقل رہائش کے خلاف ہو گئی کیونکہ اس کا سب سے بڑا شوق میکے جانے کا ہے اور آپ کو اکیلا نہیں چھوڑے گی میں ہاسٹل کا بندبست کر لوں گا ۔۔ پھر زینت نے پینٹ کے بلٹ۔کی طرف ہاتھ بڑھایا اور میں نے اسے کہا کہ اس دن گاڑی والا کچا کام نہیں کرو انجوائے کرنا ہوتا ہے لیکن ٹینشن فری جگہ پر ایسی جگہ مجھے اچھا نہیں لگتا بولی اچھا ٹھیک ہے ۔۔پھر سائقہ کے ہپس پر ہاتھ لگاتے ہوئے بولی ایک بار ان پر بیٹھ کر مجھے سائقہ کی اونہہہہہہ آآآآآآآآ ہونہہہہہہہ سنا دو ۔۔۔ سائقہ بولی صبر کر لو تمھیں اپنی آواز میں سنا دے گا ماموں ۔۔۔۔۔۔ پھر ہنستے ھوئے بولی ماموں نے بیگم کو ماموں بنایا ہوا ہے ۔۔۔ زینت سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی ایک بات کہوں ۔۔۔میں کہا جی کہوں بولی آپ کا اتنا بڑا گھر ہے بیگم صاحبہ اکیلی اور اکتائی ہو رہتی ھے آپ بھی لوگوں کے بچوں کو حسرت سے دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔۔۔ پھر وہ تھوڑا رک کر بولی آپ سائقہ سے شادی کرلیں ۔۔۔ جیسے اس نے میرے سینے پر زور سے مکا مار دیا ہو ۔۔۔۔ میں سر جھکائے رنجیدہ بیٹھا تھا ۔۔۔۔ سائقہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے میرے چہرے کو غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے تھوڑی مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا سائقہ مجھے کتنے بچے فے سکتی ہے ۔۔۔ سائقہ جھٹ سے بولی ایک درجن ۔۔۔۔ زینت بولی اس نے غلط بولا ۔۔۔۔ زینت سائقہ کے آگے اور پیچھے ہاتھ لگا کر بولی ایک ادھر سے اور دو درجن پیچھے سے ۔۔۔ یہ زیادہ موٹے ہیں ناں ۔۔۔۔ زینت نے اس کے ہپس پر مٹھی بھر کے کہا ۔۔۔ یہ بستہ زیادہ اچھا رزلٹ دے گا ۔۔۔۔میں نے سنجیدہ ہوتے ہوئے سائقہ کی طرف دیکھ کر کہا میری کوشش ہو گی اور اگر شاکرہ کبھی اس پر راضی ہو گئی تو میں آپ سے زیادہ کسی کو ترجیح نہیں دونگا ۔۔۔دور روشنی میں سائقہ کی امی اور سونیا بینچ سے اٹھ کر ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں ساتھ شاکرہ کی کال بھی موصول ہو گئی جسے میں نے کہا کہ بس نکلنے لگے ہیں ۔۔۔ ہم گھر آ گئے تھے اور شاکرہ نے ان کے مارکیٹ سے لائے گئے سوٹ دیکھے اور ایک سوٹ زینت کی امی کو بھی تھما دیا کھانے کے بعد شاکرہ نے دو رومز میں ان کے بستر لگا دئیے میرے ساتھ روم میں اگئی زینت اور سائقہ کی باتوں اور حرکتوں سے پیدا ہونے والی گرمی میں نے شاکرہ پر نکال لی اور ہم سو گئے اگلی صبح ان کے جانے کے وقت سائقہ کی حالت بالکل ویسی تھی جیسے میرے شادی سے واپسی والے دن تھی ۔۔ وہ چلے گئے تھے اور اب اس کے یہ میسج کے بعد یہی میسج آتا کہ تم کب آؤ گے سائقہ کے امتحانات کے دن قریب آتے جا رہے تھے میں نے اس کو پڑھائی پر توجہ دینے کی اپیل کی کہ اگر آپ کے نمبر اچھے آئے تو تبھی کالج میں داخلہ مل سکے گا میں نے ان کے اپنے گھر سے جانے کے تقریباً پندرہ دن بعد جانے کا ارادہ کر رکھا تھا کیونکہ اتنا جلدی جلدی وہاں جانا اچھا نہیں تھا سائقہ ہر وقت اصرار کرتی کہ۔میں اڑ کر اس کے پاس پہنچ جاؤں ان کو ان باتوں کے ابھی سمجھ نہیں تھی کیونکہ وہ ابھی سترہ سال کی بچی تھی میں نے زنگی کے ان 37 برسوں میں بہت کچھ سیکھ رکھا تھا ایک دن سکول سے واپسی پر اس نے میسج کیا اور میں نے اسے بتایا کہ میں کل آ رہا ہوں وہ بہت خوش ہوئی اور بولی لوشن کی بڑی کین ساتھ لے کر آنا ۔۔۔۔۔بہت خشکی ہو گئی ہے پہلے والی لوشن کی خالی بوتل پر میں نے ریشم سے پھول اور دل بنا کر اسے اپنے کمرے میں سجا رکھا ہے میں نے رات کو شاکرہ سے کہہ دیا تھا کہ مجھے دوستوں کے ساتھ کل کہیں جانا ہے اس نے صبح اٹھتے ہوئے پوچھا کہ میں تیاری کر لو میکے کی ۔۔۔اس وقت میں موبائل اٹھا چکا تھا ۔۔۔ میں نے میسج پڑھنے کے بعد اسے بولا کہ نہیں آج کا پروگرام کینسل ہو گیا ہے سائقہ کا رات ایک بجے کا میسج آیا ہوا تھا کہ اس کا ابو قطر سے آ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔والے تیار سالوں بعد لوٹا تھا اور اسے کم سے کم دوماہ جہاں رہنا تھا سائقہ ان دنوں ٹینشن سے پھٹنے لگی تھی دو دن بعد اس کے ابو سے بھی فون پر بات ہوئی اور وہ میری باتوں سے بہت مطمئن لگا وہ نے سب سے میری تعریف سن رکھی تھی اور مجھے کھانے کی دعوت دی لیکن میں نے اس کی دعوت کو آگے بڑھا کر اسے اپنے پاس آنے کی دعوت دے دی وہ دو دن بعد آیا اور ایک رات میرے ساتھ رہنے کے بعد بہت مطمئن ہو کر بولا میری بیوی نے پہلی بار آپ کو بھائی بنا کر ایک اچھا فیصلہ کیا ہے ایک ہفتے بعد میں بھی وہاں گیا لیکن اس کے ابو کی موجودگی میں ایسا کچھ نہیں کر سکتا تھا سائقہ ان بہت پریشان اور خاموش رہتی تھی جس کا ذکر باجی نے مجھے اس روز کر دیا کہ پتا نہیں یہ کیوں مرجھاتی جا رہی ہے میں اس کی حالت دیکھ کر خود بھی بہت پریشان تھا اور سائقہ نے مجھے دو روز بعد ایک میسج کر کے تڑپا دیا کہ کہا تھا ناں گاوٴں کے اس پاگل لڑکی کو برباد نہ کر دینا آ دیکھ میں کیسے برباد ہو رہی ہوں اسی دن سائقہ کی امی کو اس کا ہسبنڈ ڈاکٹر طاہر کے پاس لے گیا اور سائقہ کو زینت کی امی کے گھر چھوڑ گئے تھے بہت دنوں بعد سائقہ کی مجھ کو بات ہوئی اور میں نے اس تفصیل سے سمجھایا چند دن بعد ہی اس کے پیپر شروع ہونے والے تھے لیکن سائقہ نے شکوہ کیا کہ اس سے پڑھائی نہیں ہوئی تھی میں کہا کہ کوئی موقع جیسے ملتا میں آپ کو سیٹ کر دونگا بولی ایک موقع ہے میرے پاس ۔۔۔ میں نے کہا بولو ۔۔۔ سائقہ بولی پھر تم بہانہ نہیں بناؤ گے میں نے کہا یار میں بہانے نہیں بناتا حالات کو دیکھ کر چلتا ہوں آپ بولو ۔۔۔ سائقہ نے کہا جس دن سکول جاتے ہوئے ہمارے ساتھ رخسانہ نہیں ہو گی آپ مجھے اور زہرا کو کہیں لے جانا میں نے کہا زہرہ کون ہے بولی جو سفید برقعے میں تھی اور آپ کے لئے انڈے لیکر آئی تھی میں نے اس سے کہا کہ آپ اپنا راز کیوں کسی کے سامنے عیاں کرتی ہو بولی۔کچھ نہیں اسے میرا اور زینت کا سب پتا ہے اور وہ خود بھی بستی کی شاپ والے انکل سے ایسا کرتی تھی بہت پہلے جب پردے میں بھی نہیں تھی ۔۔ میں حیران ہوا زہرا پندرہ برس کی تھی اور کلاس 9th میں تھی میں سائقہ سے کہا کہ کوئی مسئلہ نہ بنے یہ دیکھ لو باقی مجھے کوئی اعتراض نہیں میں آپ کی خاطر سب کر لوں گا ۔۔۔ دو دن بعد رات کو سائقہ نے میسج کیا کل رخسانہ سکول نہیں جائے گی میں نے اسے تیار ہونے کو کہا میں صبح ساڑھے پانچ بجے گھر سے نکل چکا تھا اور میری گاڑی فراتے بھرتی مین روڈ پر سائقہ کی بستی کی طرف بڑھ رہی تھی میں نے گاڑی کو مین روڈ سے اس کچے رستے پر ڈالتے ہوئے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا سائقہ۔کو گھر سے نکلنے میں ابھی بیس منٹ باقی تھے میں نے گاڑی سائید پر روک دی میں نے اگلی سیٹ پر پڑے شاپر سے لوشن کی بڑی بوتل اور کنڈومز کی ڈبیہ اپنی سیٹ کے پیچھے لگی جالی میں رکھ دی اور جوس کا ایک ڈبہ نکال کے پینے لگا ان دنوں موسم کافی خوشگوار ہو چکا تھا پھر میں نے گاڑی آگے بڑھا دی اور سائقہ کے سکول کو کراس کر کے آگے چلا گیا بستی سے تقریباً ایک کلومیٹر پہلے میں نے گاڑی کو زمینوں میں اتار کر اس کو موڑتے ہوئے دوبارہ مین روڈ کی۔طرف منہ کرکے اس کا سوئچ آف کر دیا اور ساتھ والی فرنٹ سیٹ پر ٹانگیں رکھ کر پیچھے دیکھنے لگا اس جگہ درخت کچھ زیادہ تھے کچھ دیر بعد اس کچھ رستے پر دور سے سفید اور کالا برقعے قریب آتا جا رہے تھے گاڑی انہوں نے دیکھ لی تھی اور انکے قدموں کی رفتار تیز ہو چکی تھی ایک ٹریکٹر اس کو کراس کرتا میری گاڑی سے گزر کر اگے چلا گیا اور ٹریکٹر نظر آنے تک وہ آہستہ چلتی قریب آتی رہی گاڑی کے قریب آ کر سائقہ نے رک کر ادھر گرد کا جائزہ لیا اور دوسری طرف آ کر گاڑی کا پچلا گیٹ کھول دیا ساتھ آنے والی سفید برقعے میں ملبوس زہرہ عجلت میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر آ کر میری سیٹ کے پیچھے گسک گئی سائقہ نے زہرہ کے ساتھ بیٹھتے ہوئے گیٹ بند کر دیا اور ہانپتے ہو کہا چلو۔۔۔۔۔۔۔ میں گاڑی کو قدرے سپیڈ سے اس کچے رستے پر دوڑاتا اس کے سکول کے سامنے سے مڑتے ہوئے آگے جانے والے ٹریکٹر کو کراس کر گیا میں نے نے ہاتھ پیچھے کیا تو سائقہ نے میرے ہاتھ کو پکڑ کر اپنا نقاب اتارا میرے ہاتھ کو کسنگ کرتے ہوئے الجھی سانسوں میں بولا آئی لو یو ۔۔۔ پھر میں نے اس کے ہاتھ کو چوم کر چھوڑ دیا اور اپنا ہاتھ زہرہ کی طرف بڑھا دیا ایک لمحے کے وقفے کے بعد سائقہ نے زہرہ کا ہاتھ پکڑ کر میری ہاتھ میں دے دیا اس کا رنگ گورا تھا لیکن اس پر گوشت کی کمی کی وجہ سے اس کا ہاتھ قدرے لمبا لگ رہا تھا میں تھوڑی دیر اس کی نازک پتلی انگلیوں کو آہستگی سے مسلتا رہا پھر اس کو کسنگ کر کے چھوڑ دیا مخالف سمت سے لڑکیوں کے گروپس سکول کی طرف آ رہے تھے یہ دونوں آگے والی سیٹوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھی تھیں گاڑی کے بیک اور سائیڈ شیشے سیاہ تھے اور ان سے باہر کی طرف سے اندر کچھ نظر نہیں آتا تھا سکول کی چھٹی تک میرے پاس تقریباً پانچ گھنٹے کا وقت تھے اور میرے گھر تک دو اور دو چار گھنٹے لگ جانے تھے اور اس وقت میں گھر تک ان کو نہیں لا سکتا تھا مین روڈ پر بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد میں نے گاڑی کو لفٹ سائیڈ پر چھوٹی سڑک پر موڑ لیا اور کچھ دیر بعد اس سڑک سے بھی رائٹ سائیڈ پر اس سڑک سے اتار دیا گاڑی تھوڑے اونچے ٹیلوں والے اس بڑے میدان نما بنجر زمینوں میں ہچکولے کھاتی آگے بڑھ رہی تھی چھوٹی خودرو جھاڑیاں وقفے وقفے پر جھنڈ بنائے کھڑی تھی اس چھوٹی سڑک سے تقریباً دو کلومیٹر ان بنجر زمینوں میں فاصلہ طے کرنے کے بعد میں نے گاڑی ایک ٹیلے پر روک دی جہاں سے چاروں طرف تقریباً ایک کلومیٹر تک ان جھاڑیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا سائقہ نے اپنا برقعہ اتار دیا تھا اور مسکراتے ہوئے آگے آنا چاہا رہی تھی لیکن میں نے اسے روک دیا اور میں خود پچھلی سیٹ پر چلا گیا زھرا ابھی تک سفید ٹوپی والا برقعہ پہنے بیٹھی تھی میں نے شاہر سے تین بوتل جوس اور چپس کا ایک بڑا پیکٹ نکالا اور اور سائقہ کے بعد زھرا کو جوس دیتے ہوئے ہنس کے بولا اس کو تو اب اتار دو اس نے مسکراتے ہو اپنے برقعے کا نقاب والا پلو اٹھا کر اپنے سر پر رکھ دیا سائقہ نے اس کے برقعے کو پکڑ کر ٹوپی سر سے اتارتے ہوئے کہا اس ٹوپی کو اتارو ابھی میرا ماموں آپ کو ایک اور ٹوپی پہناتے ہیں ۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی ماموں میری دوست کو ٹوپی پہناؤ گے ناں ؟؟؟ میں نے کہا پہتو تمھیں پہناتا ہوں اس آپ کہو گی تو اس کو بھی پہنا دونگا زھرا کا چہرہ تھوڑا کمزور تھا لیکن اس کے لب بہت خوبصورت تھے اس کی آنکھوں میں کاجل لگا تھا اس کا جسم بھی کمزور تھا لیکن حیرت انگیز طور پر اس کے بوبز سائقہ سے بھی بہت بڑے تھا اور اس کی نیلی قمیض بوز پر کافی ٹائٹ ہو رہی تھی سائقہ ہمارے درمیان میں بیٹھی تھی اور چپس کھانے سے زیادہ توجہ اس کی میرے پینٹ میں بنتے ابھار میں تھا میں زھرا سے باتیں کرکے اسے ریلکس کرنے کی کوشش کر رہا تھا والے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی مجھے اس جگہ خوف محسوس ہو رہا ہے میں نے کہا خوف کی کیوں بات ہے جب کچھ ہے نہیں جہاں تو خوف کیسا ہے ؟؟؟ زھرا بولی کوئی آ گیا تو ۔۔۔ سائقہ بولی آنے والے کو تم راضی کر لینا اور کیا چاہیے ہو گا اسے میں نے کہا یہ راضی کر سکتی ہے کسی کو ابھی تو چھوٹی ہے ۔۔سائقہ بولی اووووووو یہ اتنی چھوٹی تھی اور دکان والے چاچا کو خود جا کر راضی کرتی تھی زھرا نہیں اپنی کہنی سائقہ کی سائیڈ میں مار کر اسے چپ رہنا کو کہا سائقہ نے چپس کا پیکٹ اور جوس کا ڈبہ رکھ دیا تھا اور میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں بھر کر تھوڑی اوپر اٹھ گئی اور کسنگ کرنے لگی تھی زہرہ نے بھی جوس کا ڈبہ رکھ دیا اور آس پاس کا جائزہ لینے لگی تھی اس کے چہرے پر خوف کے اثرات موجود تھے سائقہ میری جھولی میں بیٹھ گئی تھی میں کے ہپس کو سہلاتا ہوا ادے کسنگ کر رہا تھا اور زھرا کی بیچینی بڑھتی جا رہی تھی وہ بار بار پہلو بدل کر کبھی باہر دیکھنے لگتی تو کبھی سائقہ کے ہپس پر پھرتے میں ہاتھوں کو دیکھتی تھی اس کے جسم میں کپکپاہٹ صاف نظر آ رہی تھی میں سائقہ کی قمیض اتارنے لگا تو زھرا کے چہرے پر ہوائیں اڑنے لگیں تھی اور وہ کھلے ہونٹوں کے ساتھ بےچینی کی آخری حدوں کو چھونے لگی تھی وہ سائقہ کے بازو کو پکڑ کر کانپتی آواز میں بولی قمیض تو۔۔۔ نہ اتارووووو سائقہ نے مسکرا کر اس کو آنکھ ماری اور اپنی قمیض کے ساتھ اپنی بریزر کو بھی اتار کر گئیر لیور کے پاس پھینک دیا زھرا پاگلوں کی طرح سائقہ کو مڑ کر آگے سے دیکھتی تو کبھی تھوڑا اوپر اٹھ کر آس پاس کو جائزہ لینے لگی میں سائقہ کو زھرا کی گود میں لٹا کر اس کے بوبز پر جھک گیا اور اپنوں بائیس ہاتھ کو زھرا کے موٹے بوز پر رکھ کر ان کو دبانے لگا زھرا کے سسکیاں کے بیچ لمبی سی وائی ی ی ی ی نکلی اور اس نے اپنے ہاتھ میرے ہاتھوں پر ٹکا دئیے زہرہ کی وائی سن کر سائقہ نے اپنے سر کو تھوڑا اوپر کر کے زہرا کو دیکھا اور مسکرا دی سائقہ میری شرٹ کے بٹن کھول چکی تھی میں نے اپنے کندھوں سے شرٹ اتارتے ہوئے نظر دوڑا کر آس پاس کا جائزہ لیا دور کہیں چھوٹے اور دھندکے سے دو اونٹ جاتے دیکھائی دئیے جا نے آگے ایک سیاہ نقطہ حرکت کرتا دیکھائی دیا میں نے دوبارہ سے سائقہ کے بوبز کو اپنے ہاتھوں میں بھرا اور اپنی انگلیوں سے اس کے گلابی نقطے جیسے نپلز کو انگلیوں سے مسلنے لگا سائقہ کی سسکیوں کے ساتھ زہرا کی وششششش نکل گئی وہ وہ اپنی ایک انگلی کو چوستے ہوئے اپنے دوسرے ہاتھ سے اپنے بوبز مسلنے لگی اور اسی لمحے میں نے زہرا کی قمیض کے اندر ہاتھ بڑھا کر اس کے بوبز پر لے گیا زہرا سسک گئی اور اس نے اپنا ہاتھ قمیض کے اوپر میرے ہاتھ پر جما لئے میں نے اپنا سینہ سائقہ پر ٹکا دیا اور زہرا کی قمیض اتارنے لگا زہرا ایک بار پھر گھبرا گاڑی کے باہر کا جائزہ لیتی ہوئی اس کی قمیض اوپر اٹھاتے ہاتھوں کو ہاتھ لگاتی جا رہی تھی قمیض بوبز کے پاس جا کر رک گئی میں زہرا کو بولا قمیض اتار دو اس نے تےز سانسوں کے بیچ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے قمیض اتار دی اور بریزر پر ہاتھ رکھ کر مجھے تکنے لگی میں نے سائقہ کے گول بوبز کو باری باری اپنے منہ میں بھرا اووپا ہ ہ ہ ہ کی آواز کے ساتھ چھوڑ دیا میں نے زہرا کو سائقہ پر جھکا کر اس کے بریزر۔کی ہک کھول دی اور میں سائقہ کی سفید شلوار کو اتارنے لگا سائقہ نے ہاتھ میری پینٹ کے بیلٹ کی طرف بڑھائے لیکن میں نے اسے رکنے کا اشارہ کر دیا براؤن بڑے دائرے کے بیچ نتے ہوئے چھوٹے نپلز کے ساتھ زہرا اپنے بوبز نکال چکی تھی میں نے سائقہ کے جسم پر ہاتھ پھیرا اور اس کی ببلی پر تھپکی دے کر اپنے ہاتھ زھرا کی شلوار کے لاسٹک پر ڈال دئیے میں اس کی شلوار نیچے کھینچنے لگا اور وہ سیٹ سے ہپس کو تھوڑا اٹھا کر میری مدد کر رہی تھی وہ اب باہر دیکھنے سے زیادہ سائقہ کے فل ننگے جسم کو رشک بھری نظروں سے دیکھنے کے بعد اپنے کمزور جسم کو سر جھکائے دیکھنے لگی تھی اس کی شلوار گھٹنوں تک کھینچنے کے بعد میں نے اسے اتارنے کا اشارہ دیا زہرا کا قد سائقہ سے تھوڑا بڑا تھا زہرا کے شلوار اتارنے کے بعد میں نے اس کے کپڑوں کو ڈرائیونگ سیٹ کی طرف اچھال دیا اور سائقہ کی ٹانگوں کے بیچ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے بیلٹ کھولنے کا اشارہ کیا اور میں نے اردگرد نظریں دوڑا لیں بہت سکون اور خاموشی تھی سائقہ نے میری پینٹ کو تھوڑا نیچے کر لیا تھا میں باری باری پینٹ کو اپنی ٹانگوں سے نکال کر آگے اچھال دیا اور زہرا کا ہاتھ پکڑ کر اپنی انڈرویئر کے لاسٹک پر رکھ دیا سائقہ نے جیسے ہی میری اںڈرویئر کو نیچے کیا ببلو کسی مست سانپ کی طرح اکڑ کر نکلا اور ادھر ہلتے ہوئے پھنکارنے لگا پھٹی آنکھوں اور کھلے منہ کے ساتھ کبھی مجھے اور کبھی ببلو کو دیکھے جا رہی تھی شاید اس کا میرے ببلو جیسے کسی ہتھیار سے واسطہ نہیں پڑا تھا سائقہ کے ہاتھوں میں کھیلتے ببلو کو دیکھ کر وہ بہت گھبرا چکی تھی اور ساتھ اس کی سانسوں میں تیزی آ گئی تھی سائقہ نے مسکراتے ہوئے دھیمے لہجے میں پوچھا لوشن ؟؟؟ میں نے ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے لگی جیب میں ہاتھ ڈالا اور لوشن کی بڑی بوتل سائقہ کر تھما دی سائقہ نے اس کا ڈھکن کھول کر پھینک دیا اور مجھے دیکھتے ہوئے اپنی پتلی کمر کو بل دیا میں نے سائقہ کو بغل میں ہاتھ ڈال کر زہرا کی جھولی میں اس کا سر رکھ دیا اور مسکراتے ہوئے زہرا کے بوبز کو تھوڑا آگے کر کے اس کا نپل سائقہ کے ہونٹوں پر رکھ دیا سائقہ قہقہہ لگاتے ہوئے منہ دوسری طرف پھیر لیا میں نے سائقہ کی بھری بھری ٹانگوں کو اپنے رانوں پر سجا لیا ببلو نے زور زور کی انگڑائیاں لینی شروع کر دیں سائقہ نے لوشن کے بڑی مقدار ببلو پر گرا دی جو موٹی لکیروں کی شکل میں اس کے پیٹ پر گرنے لگی زہرا کے لئے یہ سین حیران کن تھا اور ببلو اور سائقہ کے چھوٹے جسم کو دیکھ کر اگلا سین جلدی دیکھنا چاہتی تھی زھرا آنکھیں جھپکائے بغیر کھلے منہ کے ساتھ لرزتے جسم کے ساتھ لوشن میں لت پت ببلو کو آہستہ آہستہ سائقہ کی ببلی کے ہونٹوں میں اترتا دیکھ کر جسم کو ایسے اکڑا رہی تھی جیسے ببلو اس کے پیٹ میں اتر رہا ہو میں ساکت پڑی سائقہ کے معصوم چہرے خو دیکھتا ببلو کو آگے پھلاتا جا رہا تھا سائقہ نے میری سائیڈوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ببلو کے چھ انچ سے آگے جانے کے بعد سائقہ کا منہ آہستہ آہستہ کھلتا جا رہا تھا میں نے راستے میں رکے بغیر ببلو کو اپنی منزل مقصود تک پہنچا دیا تھا میں نے جھک کر اس کے ہونٹ چوسنے شروع کر دئیے اور اس کی سانسوں کے بحال ہونے کا انتظار کرنے لگا تھوڑی دیر بعد سائقہ ریلکس ہو گئی اور میں نے اپنی کمر کر اہستہ سے حرکت دینی شروع کر دی میں نے گاڑی کے پچھلے شیشے کے ساتھ رکھے ا۔ دونوں کے سکول بیگز کو ایک سائیڈ پر کرتے ہوئے اس طرف بھی بہت دور تک نظام دوڑا لی اور زھرا کو اپنے بوبز آگے لانے کا بولا میں سائقہ کو جھٹکے لگاتے زہرا کے بوبز چاسنے لگا زہرہ اس وقت بنا پانی کے مچھلی جیسے تڑپ رہی تھی لیکن سائقہ میں 9۰5' انچ کا تگڑا ببلو پورا اترتے دیکھ کر اس کا تھوڑی دیر پہلے ببلو کو دیکھ کر پیدا ہونے والا خوف ختم ہو چکا تھا اور اب وہ خود پورا ببلو اپنے اندر لینے کو بےتاب ہو رہی تھی زھرا کو پوری طرح تڑپانے کے بعد میں نے اپنے ہونٹ سائقہ کے ہونٹوں میں جوڑ دئیے سائقہ کی ریشمی ببلی میں لوشن کی نفاست بھرا ببلو اکیلے مزے لوٹ رہا تھا زہرا انتظار کرتے تھک چکی تھی اور اب پیاس کے ساتھ مایوسی بھی اس کے چہرے پر عیاں تھی سائقہ کے جسم میں اکڑاہٹ کےساتھ حرکت پیدا ہو چکی تھی میں نے بھی سائقہ کے بڑھتے مزے کو دیکھ کر اپنے جھٹکوں میں تھوڑی تیزی بھر لی تھی سائقہ نے اپنے ہاتھ میرے کندھوں پر جوڑ لئے تھے وہ اپنے بھاری ریشمی ہپس کو جھٹکے کے ساتھ ساکت کرتے اوووووووو وشششششششش وشششششش وشششش کرتی جسم کو ڈھیلا چھوڑنے لگی میں اس کی آنکھوں کو چومتے ہوئے اپنا ہاتھ زہرا کی ببلی کی طرف بڑھا گیا زہرہ نے وائی وائی کرتے ہوئے میرے ہاتھ کو ایسی رانوں میں دبا لیا سائقہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے میرے سینے کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی پھر میں نے اسے اٹھنے کا اشارہ کیا اور ببلو کو آہستہ آہستہ نکالنے لگا سائقہ سیٹ سے اتر کر اپنے ریشمی ہپس میری باڈی سثٹچ کرتے ادھر ادھر دینے لگی تھی اور میں نے زھرا کی ٹانگوں کو پکڑ کر اسے سیٹ پر گھسیٹ لیا میں نے جھکے کر سائقہ کے ریشمی ہپس پر کس کیا اور اسے زھرا کے سر کی طرف آنے کا اشارہ کیا سائقہ زہرا کے سر کو گود میں لیکر بیٹھ گئی اور بولی ماموں یہ میری بہت پیاری دوست ہے اسے بھی میری طرح پورا مزہ دینا اور کنجوسی نہ کرنا میں نے زہرا کی ٹانگیں تھوڑی اوپر اٹھائیں تو اس نے اپنی تین انگلیوں پر اپنا تھوک لگایا اور اسے اپنی ببلی کے ہونٹوں پر مل دیا سائقہ ہنستے ہوئے بولی رواج کے مطابق چلا کرو آج کل لوشن کا رواج ہے میں نے ہنستے ہوئے سائقہ کے گال پر تھپکی دی اور لوشن کی بوتل نیچے سے اٹھا کر کچھ لوشن زہرا کی ببلی پر گرا دیا اور اپنے ببلو کو ببلی کے ہونٹوں میں برش کرتا اندر اتارنے لگا ببلو کی موٹی ٹوپی کمزور سی زہرا کے اندر اتری تو اس کی ٹانگیں اکڑا لیں میں نے ادھر رک کر اس کی ٹانگوں کو ڈھیلا کیا مسکراتی سائقہ نے اپنے ہاتھ کی مٹھی بند کرکے مجھے جھٹکا مارنے کا اشارہ کیا میں نے زہرا کے چھوٹے ہپس پر ہاتھ پھیرے اور غباروں جیسے بھولے بوبز کو تھوڑا چوس کر اس کی ٹانگوں کو پکڑ کر ایک لمحے کا وقفہ دیا اور جھٹکے کے ساتھ آدھے سے زیادہ ببلو کو تنگ گلی میں اتار دیا زہرا کے حلق سے ہلکی چیخ نکلی اور وہ میرے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر زور سے دھکیلنے لگی ۔۔۔وائی وائی وائی ۔ماموں ۔۔۔وششش ماآآآ ماموں اشششششش ۔۔۔۔۔ سائقہ اس۔کی۔کندھوں کو زور سے پکڑے ہوئے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا کر ہنس رہی تھی زہرا میرے نیچے سے پھسل جانا چاہتی تھی لیکن یہ اس کے بس کی بات نہیں تھی ببلو کسی بہت ہی ٹائٹ جگہ میں پھنسا ہلنا بھول گیا تھا سائقہ بولی نہ۔ماموں نہ ایسے تو نہیں کرو اتنی چھوٹی سی سہیلی ہے میری ۔۔۔۔۔
جاری ہے
0 Comments