گھر میں دو کنواریاں
قسط 11
، پہلے تو میں اسکے ہاتھ ہٹانے لگی
لیکن پھر میں نے سوچا جب رضوان یہ سب کچھ
دوسری لڑکیوں کے ساتھ کر رہا ہے تو
میں کیوں نا انجوائے کروں۔ لہذا میں نے علی
کو روکنے کی بجائے اپنی گانڈ کو اور بھی
ہلانا شروع کر دیا۔ میرا یہ رسپانس دیکھ کر
علی کو اور حوصلہ ہوا اور اب اسنے اپنے ہاتھ مضبوطی کے ساتھ میری گانڈ پر رکھ
دیے اور اپنے ہاتھوں سے میری گانڈ کو
اپنی مرضی سے ہلانے لگا۔ اب میں یہ سب انجوائے کر رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد
رضوان کا ایک اور دوست میرے پاس آیا اور میر ا
ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف موڑ لیا اور علی کسی
دوسری لڑکی کی طرف چال گیا۔
مجھے اس لڑکے کا نام تو نہیں معلوم تھا مگر میں نے ڈانس جاری رکھا اور یہ لڑک ا
مجھ سے علی کے مقابلے میں زیادہ فری تھا۔ اس نے فورا ہی اپنا بازو میری کمر کے
گرد رکھا اور مجھے اپنے قریب کر کے
ڈانس کرنے لگا۔ اب میرا ایک ہاتھ اس لڑکے
نے اپنے ہاتھ میں لےرکھا تھا اور میرا دوسرا ہاتھ اسکے کندھے پر تھا جب کہ اسکا
دوسرا ہاتھ میری کمر پر اور نظریں میرے
مموں پر تھیں۔ کچھ دیر ڈانس کرنے کے بعد
اسکا ہاتھ بھی میری گانڈ پر چال گیا اور
میری گانڈ پکڑ کر اسنے مجھے اپنے ساتھ اور
بھی مضبوطی سے لگا لیا۔ مجھے اسکے لن کا ابھار محسوس ہوا جو میرے ممے کا
ابھار دیکھ کر کھڑا ہو چکا تھا۔ پھر اسنے میرا منہ دوسری طرف کیا اور اب میری کمراسلڑکےکی طرفتھی اسنے اپنا ہاتھ میرے پیٹ پر رکھا ہوا تھا اور دوسرا ہاتھ میرےکولہے پر رکھ کر انہیں ہال رہا تھا۔
اسکی پوری کوشش تھی کے میری گانڈ کو اپنے لن
پر پھیرے جیسے باقی لڑکیاں کر رہی تھی۔ تھوڑی سی جھجھک کے بعد میں نے بھی
اپنی گانڈ ایک بار اسکے لن پر پھیری۔ اس ڈانس کے دوران میری شرٹ کا سینے کےاوپر واال بٹن بھی کھل گیا تھا جس کی وجہ سے میرے مموں کا ابھار اور کلیوج بہت
واضحنظر آرہے تھےاور سرخ رنگ کا برا بھی تھوڑا سا نظر آرہا تھا۔ کچھ دیر ڈانس
کرنے کے بعد میوزک بند ہوگیا اور ڈانس ختم کر دیا سب نے۔
اب ایک سائیڈ پر کھانا لگنے لگا۔ رضوان
بھی میرے پاس آیا اور پوچھا کہ انجوائے کر
رہی ہو پارٹی تو میں نے بتایا کہ ہاں مزہ آرہا ہے۔ اسنے میرا کھلا ہوا بٹن دیکھا او ر بولا واہ کیا جلوے دکھا رہی ہو۔۔۔ میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا کہ وہ بس ڈانسکرتےہوئےکھل گیا اور بند کرنے لگیمگر رضوان نے منع کر دیا کہ کھلا رہنے دو
ھی پھر بٹن بند نہیں کیا۔ اب کھانا لگ چکا تھا اور سب سیکسی لگ رہی ہو۔ ۔
لوگ کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ کھانا کھانے کے دوران ایک اور لڑکا بھی
بیسمینٹ میں آگیا اور ہم سب کے ساتھ
گرمجوشی سے مال۔ اب تمام کپل اکٹھے بیٹھے
کھانا کھا رہے تھے۔ ہکا پھلکا کھانا کھانے کے بعد گیم کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا۔ گیم کا نام تھاDare or Truth
اس گیممیں سب لڑکیاں اپنے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ ایک لڑکی جو
زیادہ ہی بولڈ تھی وہ تو اپنے بوائے فرینڈ
کی گود میں بیٹھی تھی، رضوان نے مجھے بھی اشارہ کیا
رضوان بہت خوش ہوا۔ سب سے پہلے ایک
لڑکی سے پوچھا گیا کہ وہ کیا سیلیکٹ کرے
گی؟ ٹرتھ یا پھر ڈئیر۔ اس نے ٹرتھ سیلیکٹ کیا تو
اس سے سوال پوچھا گیاکہ کیا وہ
اپنے بوائےفرینڈ سے حقیقی پیار کرتیہے یا صرف ٹائم پاس۔ تو اسنے ہنستے ہوئے
اپنے بوائے فرینڈ کی ایک فرینچ کس کی اور کہا کہ ٹائم پاس۔ حقیقی پیار ابھی اسکو نہیں ہوا۔
پھر دوسی لڑکی نے ڈئیر سیلیکٹ کیا تو اسکو کہا
گیا کہ وہ شیلہ کی جوانی پر ڈانس کر
کے دکھائے۔ وہ فورا ہی اٹھ کھڑی ہوئی اور اسکے لیے گانا لگایا گیا۔ جس پر اس نے
بالکل کترینا کیف کی طرح ڈانس کیا اور سب نے تالیان بجا کر اسکو داد دی۔
پھر ایک لڑکی نے ٹرتھ سیلیکٹ کیا تو اس
سے پوچھا گیا کہ اسنے آج تک کت نے لڑکوں
کے ساتھ سیکس کیا ہے؟؟؟ تو اسنے بھی اپنے بوائے فرینڈ کی طرف دیکھا اور بڑے فخر سے بتا دیا کہ 3 لڑکوں کے ساتھ وہ
سیکس کر چکی ہے جس پر تمام لڑکوں نے
ہوٹنگ کی اور کہا ہمیں بھی موقع دو
اوروہ لڑکی بھی سب کو انگوٹھا دکھا کر
انکارکرتی رہی۔
اسی طرح اور لڑکیوں کو بھی ڈئیر اورٹرتھ دیے گئے۔ میری باری آئی تو میں نے ڈئیر
سیلیکٹ کیا۔ جیسے ہی میں نے ڈئیر کا کہا
تو علی فورا بولا کے رضوان کے علاؤہ یہاں
موجود کسی بھی لڑکے کی گود میں بیٹھ کر اسکو پورے
2 منٹ تک فرنچ کس کرو۔
میں یہ سن کر فورا بول اٹھی کہ یہ کیسا
ڈئیر ہے مگر سب نے کہا کہ آپ انکار نہیں کرسکتی ہماری مرضی ہم جو مرضی کریں۔ میں نے رضوان کی طرف شکایتی نظروں سےدیکھا کہ انہیں منع کرے مگر رضوان نے بھی کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ میں کیا کر
سکتا ہوں تم نے ہی ڈئیر کرنے کا کہا ہے
تو اب انکی مرضی یہ جو مرضی کریں۔ میں
کچھ دیر تو خاموشی سے کھڑی رہی مگر پھر سوچا کہ جب رضوان دوسری لڑکیوں کو
کس کر رہا تھا تو میں کیوں نا کسی اور لڑکے کو کس کروں؟ اور ویسے بھی جب رضوان کو اعتراضنہیں تو پھر کیامسئلہ ہے۔ میں نے تمام لڑکوں کی طرف دیکھا سب
میری طرف فرمائشی نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ میری گود میں آکر بیٹھو۔
میں نےپہلے علی کی گود میں بیٹھنے کا سوچا مگر
پھر جس لڑکے کے ساتھ بعد میں ڈانس
کیا تھا اسکی طرف بڑھنے لگی اور اسکی آنکھوں میں چمک آگئی۔ وہ ایک سٹول نما
چئیر پر بیٹھا تھا میں اسکے پاس گئی اور اپنی ٹانگیں کھول کر اسکی گود میں بیٹھ گئی۔ اسکو سرسے پکڑکر اسکےہونٹ اپنے قریب کیے اور اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر انکو چوسنے لگی۔
اسنے بھی بھرپور رسپانس دیا اور وہ بھی
میرےہونٹوں کو چوسنے لگا۔ چند ہی لمحوں
نے اسکے لن نے بھی رسپانس دینا شروع کر
دیا اور مجھے اپنی گانڈ پر اسکے لن کا
دباو محسوس ہونے لگا مگر میں نے کسنگ
جاری رکھی۔ 2منٹکی کسنگکےدوران
باقی کے لوگ مسلسل تالیاں بجاتے رہے اور
شور کرتے رہےاور 2 منٹ کی کسنگ سے میری چوت بھی گیلی ہوچکی تھی۔ اور میں
اپنی زبان بھی اس لڑکے کے منہ میں ڈال
چکی تھی جسکو وہ بہت مزے سے چوس
رہا
تھا۔ 2 منٹ پورے ہوتے ہی میوزک سٹارٹ ہوگیا اور سب لوگ دوبارہ سے ڈانس
فلورپر جا کر ڈانس کرنے لگے۔ ہم دونوں بھی اٹھے اور ڈانس فلور پر پہنچ کر ڈانس کرنے
لگے۔ ہم دونوںکےجسمکسنگ کرنے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی گرم تھے اس لیے
اب میں بھی دوسری لڑکیوں کی طرح بال جھجھک بولڈ ڈانس کر رہی تھی۔ بار بار میری
گانڈ اسکے لن سے ٹچ ہورہی تھی جسکو ہم دونوں ہی انجوائے
کر رہے تھے۔ موقع ھی رکھ دیا جس کو اسنے
دیکھ کر میں نے چند لمح وں کے لیے
اسکے لن پر اپنا ہاتھ بہت انجوائے کیا۔
پھر میں علی کے پاس چلی گئی اور اسکے
ساتھ ڈانس کرنے لگی۔
میں نے بھی مختلفلڑکوں کےساتھ ڈانس کیا اور انکے لن اپنی گانڈ پر محسوس کیے۔کافی دیر یہ سلسلہ جاری رہا نہ
رضوان کو میری فکر تھی اور نہ مجھے رضوان کی فکر۔ لیکن جب کافی دیر گزر گئی تو مجھے گھر کا بھی خیال آیا دیر
ہورہی تھی ، میں رضوان کے پاس گئی تو اسنے میری گانڈ پر ہاتھ رکھ کر ویسے ہی ڈانس کرنا شروع
کر دیا جیسے وہ باقی لڑکیوں کے ساتھ کر
رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کے گھر سے دیر
ہورہی ہے چلو چلیں۔ اسنے اسرار کیا کہ ابھی کچھ دیر اور رکو ابھی تو پارٹی لیٹ
نائٹ چلے گی مگر میں نے بھی واپسی پر
اصرار کیا تو چارو ناچار رضوان کو چلنا
پڑا۔
وہ سب دوستوں سے مال اور انسے اجازت لیکر مجھے لیکر بیسمینٹ سے نکل آیا۔
جیسے ہی بیسمینٹ سے نکلے رضوان نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچااور میرے ہونٹ چوسنے لگا۔ میں بھی اپنی گانڈ پر مختلف لن محسوس کرکے اس
وقت
گرم تھی میں نے بھی کسنگمیں ساتھ
دیا، کچھ ہی دیر بعد میرا کھلا ہوا بٹن کھول کر
رضوان نے اپنے ہونٹ میرے مموں کے
ابھاروں پر رکھ دیے جو برا سے نظر آرہے
تھے اور ساتھ ہی میرے مموں کو اپنے
ہاتھوں سے پکڑ کر دبانے لگا اور بولا کہ تم
بہت سیکسی ہو آج تم نے تمام لڑکوں کے
لن کھڑے کیے ہیں۔ مجھے رضوان کے منہ
سے یہ سن کر بہت اچھا لگا کہ میرے
جسم کے ابھار کسی بھی لڑکے کا لن کھڑا کر
سکتے ہیں۔ رضوان نے میری شرٹ کے
بٹن کھول کر میرا برا بھی اتارنا چاہا مگر
یہ مناسب جگہ نہیں تھی اور دیر بھی کافی
ہورہی تھی تو میں نے رضوان کو منع کر
دیا
اور گھر چلنے کو کہا۔ کچھ دیر مزید میرے مموں پر کسنگ کرنے کے بعد رضوان کاجنون کم ہوا تو وہ مجھے لیکر کار تک
گیا۔ ہم دونوں کار میں بیٹھے اور گھر کی طرف
جانے لگے۔ راستے میں میںنے اپنی
شرٹ کے بٹن بند کیے اور دوبارہ سے
شال اپنےاوپر لے لی۔ راستے میں رضوان نے مجھ سے
پوچھا کہ ندیم کی گود میں بیٹھ کر
کسنگ کرنے کا مزہ آیا؟ تو مجھے پتا لگا کہ اس لڑکے کا نام ندیم تھا۔ میں نے کہا کہ تمہیں شرم نہیں آئی تمہیں میرا ساتھ
دینا چاہیے تھا اور منع کرتے ان لوگوں کو تورضوان ہنس پڑا اور بولا کہ یار میرے
تمام دوست ہائی کلاس فیمیلیز سے ہیں تو انکےلیے یہ معمولی بات ہے۔ وہاں منع کرنا عجیب لگتا سب مجھے کہتے کہ تم بھی ہماری
گرل فرینڈز کو کس کرتے ہو تو تمہاری گرل
فرینڈ یا منگیتر ہمیں کس کیوں نہیں کر
سکتی۔ تو میں نے رضوان کو کہا کہ مزہ تو آیا مگر جو مزہ تمہاری کس میں اور
تمہارے ہونٹ چوسنے میں ہے وہ اسمیں نہیں۔ میری یہ بات سن کر رضوان بڑا
خوش ہوا مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کسنگ نے میری چوت گیلی کر دی تھی۔ رضوان نے مجھے گھرچھوڑا اور کچھ
دیر بیٹھنے کے بعد واپس چال گیا۔ دن گزرتے
گئے اور رضوان گاہے بگاہے گھر آتا رہتا۔
اسکو جب بھی موقع ملتا وہ مجھے پکڑ لیتا
اور کسنگ شروع کر دیتا، میرے ممے دباتا، شلوار میں ہاتھ بھی ڈالتا اور چوتڑوں کو
بھی دباتا۔ مگر ابھی تک میں نے اسکو
اپنے ممے نہیں دکھائے تھے اور نہ ہی چوت
اورگانڈ دکھائی تھی۔ البتہ جیسے ہی تھوڑا سا بھی موقع ملتا وہ اپنا لن نکال کر میرے
سامنے کر دیتا اور میں اسکو قلفی سمجھ کر
منہ میں لیتی اور دل بھر کر اسکے چوپے لگاتی۔ اسکے ٹٹوں سے کھیلتی انکو منہ
میں لیتی اور چوپے لگا لگا کر اسکے لن کاجوس نکال دیتی۔
اب گرمیوں کے دن تھے اور میرا کالج بھی بند تھا تو دوستوں سے ملنا جلنا بھی کمہوگیا تھا۔ سارا دن گھر میں بیٹھی بور
ہوتی رہتی تھی۔ ایک دن جب رضوان ہمارے گھر
آیاہوا تھا تو میرے کالجکی دوست سائرہ بھی گھر آگئی۔ سائرہ کا تعلق بہت امیر
گھرانے سے تھا۔ وہ ہمیشہ گاڑی میں کالج
آتی تھی کالے رنگ کی مرسڈیز چمکتی ہوئی
جب کالج گیٹ کے سامنے رکتی تو ڈرائیور فوری سے پہلے اترتا اور سائرہ کے لیے
دروازہ کھولتا سائرہ کسی مہارانی کی طرح گاڑی سے نکلتی اور ڈرائیور گاڑی کا
دروازہ بند کر کے گاڑی واپس لے جاتا اور
جب سائرہ نے واپس جانا ہوتا تو وہ ڈرائیور
کوکال کرتی اور ڈرائیورجھٹ سے گاڑی لے کر کالج کے
گیٹ کے سامنے پہنچ جاتا۔
سائرہ کافی حد تک مغرور لڑکی تھی اور
لڑکوں سے فلرٹ کرنا اسکا شوق تھا۔ مگر
کسی بھی لڑکے کو وہ ضرورت سے زیادہ فری نہیں ہونے دیتی تھی۔ وہ یہ چاہتی تھی
کہ وہ ہر لڑکے کو اپنی مرضی سے ٹریٹ کرے۔ جب سائرہ چاہے اسکے ساتھ فلرٹ
کرے اور جب چاہے اسکو کسی جوتی کی طرح اتار کر سائڈ پر پھینک دے۔ وہ اپنے حسن کےجلوے دکھا کرلڑکوں کو گرماتی تھی مگر کبھی اپنا جسم کسی لڑکے کےحوالے نہیں کیا تھا۔ کالج میں اسکی
دوستی میرے ساتھ بھی اتفاق سے ہوگئی کالج ک ا
پہلا دن تھا اور وہ کالس روم میں آئی تو
اسکو میرے ساتھ والی سیٹ ہی خالی ملی۔ اور
اکثر وہ اسائنمنٹ بھی میری ہی کاپی کرتی
تھی اس لیے اس کی میرے سے دوستی ہوگئی۔
سائرہ پہلے بھی بہت بار ہمارے گھر آچکی تھی
مگر یہ اسکابڑا پن تھا کہ اسنے کبھی
گھر آتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی اور کوئی نخرہ نہیں کیا تھا۔ لیکن میںاسکے گھر کبھی نہیں گئی تھی۔ اسکا
ڈرائیور اسے چھوڑ کر واپس چال گیا تھا۔ سائرہ
آتے ہی مجھ سے گلے ملی پھر امی سے ملی اور رضوان پر
نظر پڑی تو اسنے میری طرف سوالیہ
نظروں سے دیکھا کہ یہ کون ہے تو میں نے رضوان کا تعارف کروایا۔
سائرہ رضوان سے بھی بڑی زندہ دلی سے ملی اور آگے بڑھ کر ہاتھ مالیا۔ میں سائرہکے لیےچائے بنا کر الئی اور ساتھ میں
نمکو اور بسکٹس وغیرہ رکھے۔ دوپہر کا
ٹائم
تھا تو سائرہ نے بتایا کہ اسکی بھابھی
بھی آئی ہوئی ہے اور اس نے مجھے دعوت دی
کہ میں اسکے گھر چلوں اسکی بھابھی
سے بھی ملوں۔ میں تو پہلے ہی اسکا گھر
دیکھنا چاہتی تھی اس نے آج تک کبھی دعوت
ہی نہیں دی تھی۔ میں نے فورا حامی
بھری اور امیسے اجازت مانگی تو امی
نے کہا کہ اپنے ابو سے فون کرکے پتا کر
لو۔
یہ کام میں نے سائرہ کو کہا، سائرہ نے
میرے موبائل سے ابو کو فون کیا اور اپنی
خواہش کا اظہار کیا۔ ابو پہلے سائرہ سے
بہت بار مل چکے تھے اور جانتے تھے لہذ ا
ابو نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی پوچھا کہ جاو گی کیسے اور
کونپل کی واپسی کیسے ہوگی؟ تو سائرہ
نے کہا کے میں ڈرائیور کو بلوا لیتی ہوں اور
اسی کےساتھ کونپل واپسآجائے گی یا
پھر رضوان بھائی بھی گھر پر ہیں تو رضوان
بھائی ہمیں لے جائیں اور واپسی کونپل کو لے بھی آئیں گے۔ ابو نے یہ بات مان لی
کیونکہ ابو نہیں چاہتے تھے کہ میں کسی
بھی ڈرائیور کے ساتھ اکیلی واپس آوں ۔ ابو
نے رضوان کو فون کیا اور کہا کہ میرے آفس
آکر اپنی موٹر سائکل مجھے دے جاو اور
میری گاڑی لے جاو۔ ابو کا آفس گھر سے محض 2 کلومیٹر ہی دور تھا۔ رضوان فوراہیآفسسےگاڑی لے آئے اور ہم 30
منٹ بعد سائرہ کے گھر کے سامنے تھے۔ سائر کا گھر کیا تھا بس ایک محل تھا۔
شہر سے باہر ایک بڑی حویلی تھی جسکا اونچا گیٹ اور گیٹ پر 2 گن مین کھڑے
تھے اور اندر داخل ہوئے تو ایک بڑی سی روڈ تھی
جو کم سے کم 300 میٹر لمبی تھی اور
اسکے ارد گرد بڑا لان تھا جس میں درخت اور
پودے لگے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا
جیسے ہم کسی بادشاہ کے گھر آگئے ہوں۔ ایک
سائیڈ پرایک بڑا سا گیراجتھا جس میں
کوئی 5 کے قریب لمبی لمبی کاریں اور لینڈکروزر کھڑی تھیں اور انکے سامنے
ہماری گاڑی کوئی کھلونا لگ رہی تھی۔ رضوان
بھی یہ شان و شوکت دیکھ کر ایک دم دنگ رہ
گیا تھا۔ اور میری بھی آنکھیں کھلی کی
کھلی رہ گئیں تھیں۔
ہم نے ایک سائڈ پر
گاڑی کھڑی کی تو سائرہ ہمیں لے کر اندر چلی
گئی۔یہ ایک بڑا ہال نما کمرہ تھاجس میں
صوفے رکھے تھے اور ایک سائڈ پر ڈائنگ
ٹیبل رکھا تھا۔ ہمارے اندر جاتے ہی ایک
پینٹ شرٹ میں ملبوس شخص دوڑتا ہوا آیا اورسائرہ کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا
ہوگیا اور حکم کا انتظار کرنے لگا۔ دور سے آتا ہوا
تہ مجھے یہی لگا کہ یہ سائرہ کا بھائی
ہوگا لیکن جس طرح سے وہ کھڑا تھا وہ ملازم
تھا۔ سائرہ نے اسکو کہا کہپہلےرضوان
صاحب اور کونپل میم کے لیے پانی لیکر آو
اسکے بعد انکے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرواو اور پانی میرے کمرے میں ہی لے
آنا۔ وہ ج بی بی جی کہتا ہوا الٹے قدموں واپس چال گیا۔سائرہ نے ہمیں اپنے پیچھے آنے کا کہا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔ اسکا
کمرہ بھی بہت اچھے انداز میں دیکوریٹد تھا۔ کسی ماہر انٹیریر ڈیکوریٹر سے کمرہسیٹکروایا گیا تھا۔ ایک سائدِ پربڑے سے
شیشے والی کھڑکی تھی جسکے باہر نیچے
ایک سوئمنگ پول نظر آرہا تھا۔ جس میں
صاف شفاف نیال پانی نظر آرہا تھا۔ سائرہ نےہمیں یہیں بیٹھنے کو کہا اور بولی میں بھابھی کو بالا لوں۔ یہ کہ کر وہ باہر چلی گئی
اور کچھ ہی منٹ بعد دروازے پر ناک ہوئی اور وہی
ملازم ٹرے میں پانی لے کر آن کھڑ ا
ہوا۔ اسنے ٹرے پہلے رضوان کےآگے کی
اور پھر میرے آگے کی۔ اور خالی ٹرے لیکر
مؤدب انداز میں گلاس خالی ہونے کا ویٹ کرنے لگا۔ ہم نے پانی پی کر خالی گلاس
واپس رکھے اور وہ ایسے ہی واپس چال
گیا۔ کچھ ہی دیر بعد سائرہ کمرے میں داخلہوئی تو اسکے ساتھ ایک اور لڑکی تھی
جو سائرہ کی بھابھی تھی۔ سائرہ نے اس سے
میرا اور رضوان کا تعارف کروایا تو وہ
بڑی گرمجوشی کے ساتھ مجھ سے گلے ملی
اوررضوان سے بھی ہاتھ مالیا۔اوراس
نے مجھے بتا یا کہ اسنے میرے بارے میں
بہت سنا ہے سائرہ سے۔ سائرہ کی ٹوٹل 3 یا 4 ہی
دوست تھیں ملتان میں جن میں سے
ایک میں بھی تھی لہذا اس نے میرا تذکرہ
اپنی بھابھی سے کیا تھا۔اب سائرہ نے اپنی
بھابھی کا بھی تعارف کروایا، اسکا نام سمیرا
تھا۔ جی ہاں وہی سمیرا
جسکا ذکر میں نے اپنی دوسری کہانی
"تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے" میں کیا تھا۔ سائرہ نے بتایا کہ سمیراکا تعلق
اسالم آباد سے ہے اور یہ اپنی چھٹیاں گزارنے ہمارے
ہاں آئی ہے۔ گھر میں اس وقت ہم 4 لوگوں کے علاؤہ صرف ملازم تھے۔ کچھ دیر ہم
آپس میں باتیں کرتے رہے۔ بہت خوشگوار ماحول میں ہم نے وقت گزارا، رضوان کو
ھی بوریت کا احساس نہیں ہوا کیونکہ
سمیرا اور سائرہ دونوں ہی بلا جھجک رضوان
سے بات کر رہی تھیں اور ہم چاروں ایسے
خوش گپیوں میں مصروف تھے جیسے
سب
ایکدوسرے کو عرصے سے جانتےہوں۔
سمیرا خاص طور پر بہت اچھے اخلاق کیمالک تھی اور رکھ رکھاو والی لگ رہی
تھی۔ کچھ دیر بعد ملازم نے آکر اطلاع دی
کہ کھانا تیار ہے تو ہم چاروں نے نیچے
جا کر کھانا کھایا۔ کھانا بہت ہی پر تکلف تھا اور
بہت اقسام کی ڈشز میز پر موجود تھیں۔
کھانا کھانے کے بعد سائرہ نے مجھے کہا کہ چلو سوئمنگ کرتے ہیں۔ میں سوئمنگ
کرنا نہیں جانتی تھی تو سائرہ نے کہا کوئی بات
نہیں ہمارا پول گہرا نہیں ہے تم نہیں
ڈوبتی اس میں۔ گرمی بہت ہے تو سوئمنگ پول میں نہا کر تھوڑا فریش ہوجائیں
گے۔میں نے حامی بھر لی۔ سمیرا بھی تیا ر تھی۔ مگر مسئلہ
رضوان کا تھا کہ وہ اکیال تھا۔
جاری ہے