Ishq Aawara - Episode 34 part 2

عشق آوارہ 


قسط 34 پارٹ ٹو



اس نے ہونٹ اللگ کیے اور بولیں جان جیسے پہلے کر رہے تھے نا ویسے کرو نا۔۔کرتا نا ایسے زیادہ مزہ لینا نا میں نے دوبارہ اسکے ہونٹوں کو لپس میں لیا اور اس بار سہی جما کر پش کیا۔۔ میرے ہونٹوں کے اندر اسکی چیخ پھنس سی گئی ۔۔ ٹوپہ اسکی کنواری پھدی کے لبوں کو چیرتا اندر جا پھنسا تھا۔۔ افففف اسکی پھدی اتنی ٹائٹ جتنی ہوسکتی تھی۔۔اسکاجسم لرزا میں کچھ دیر رکا اور اسے سہلایا۔۔اور پھر پس کیا لن تباہی مچاتا تھوڑا اور کھسکا۔۔ وہ میرے نیچے تڑپی مچلی میں نے اگلےپش میں آدھا گھسا دیا جیسے ہی آدھا اسکے اندر گیا اس کے ہونٹ میرےہونٹوں سے پھسلے اور اسکی ایک تیز چیخ پورے لاونج میں گونج اٹھی اووئیءی ماااااں میری۔۔۔میں وہیں رکا رہا وہ کراہتی رہی اور میں اسکو سہلاتا رہا۔۔تھوڑی دیر بعد وہ کچھ نارمل ہوئی میں نے وہیں ہلکا ہلکا موو کرنا شروع کیا اسکی پھدی کی دیواریں جیسےمیرےلن کو جکڑے ہوے تھیں۔۔ اسکی پھدی سے شائد منی شائد خون رس رہا تھا ہلکی روشنی میں اندازہ نہیں کر سکا اسوقت۔۔میں نے لن کو ہلکا سا باہر کھینچا اور دوبارہ اتنا ہی اندر کیا وہ پھر تیز کراہی اوووہ مائی گااااڈ۔اس نے مزے کی باتیں سنیں تھیں شائد اسے کیا پتہ تھا مزے سے پہلے درد ہے۔۔آہستہ آہستہ میں لن کو آدھے تک اندر باہر شروع کر دیا وہ اب بھی کراہ رہی تھی آہستہ آہستہ اسکی کراہوں میں مزہ آنے لگا اب وہ مستی والی سسکیاں بھر رہی تھیں ۔ ااااف اووووئی آااااہ ااااہ کرتی ۔۔ اسکی پھدی کی دیواروں نے لن کو قبول کر لیا تھا۔۔ آاااا یسسسس ااااففففف آاااہ کھل گئی میری آج افففف ۔۔میں اسے رواں کرتا گیا۔لن ٹوپی تک باہر آتا اور آدھا تک جاتا۔۔ اب وہ خود بھی حرکت کر رہی تھی ۔۔میں نے اسکی ٹانگوں کو پھیلایا اور اسکےکان کی لو کو چوسا اور پوچھا سارا مزہ آ رہا نا۔۔ ہممم آااااہ بوہہت افففف ۔۔تو سارہ کر دوں سارا۔۔۔ آاااہ اففف ابھی رہتا ہے کیا اس نے سسک کر پوچھا۔۔ ہممم بس تھوڑا سا۔۔ اووووہ کتنا بڑا ہے ۔۔اتنا بہہہت ہے نا افففف۔۔ جاان ایسے مزہ نہیں آتا نا ۔۔ سارہ کو سارا دینا۔۔ہممم ۔۔آااہا اچھا پھر اچانک سے کر لینا ایکبارہی افففف۔۔ لن کو اشارہ ملا میں تھوڑا اوپر کوہوا اسکےگالوں کو سہلاتے اسکےلبوں پر ہتھیلی کو رگڑا آرام سے اور اسبار آدھے تک آیا اور ایک سیکنڈ رکا ہونٹوں کو اسبار ہتھیلی سے ڈھانپا اور فائنل سٹروک مارا۔۔ لن پھدی کوچیرتا جڑ تک جیسے ہی اندر گیا اسکی تیز چیخ میری ہتھیلی نیچے دب گئی ۔۔ میں کچھ دیر رکا جب اس کا رونا کچھ رکا میں نے دوبارہ سےآدھا کھینچ کر دوبارہ مارا۔۔اس نے میری ہتھیلی کو زور سے کاٹا لیکن اس وقت کچھ ہوش نا تھی۔۔دو تین بار ایسے کیا تو اسکی پھدی کی سانسیں اکھڑنے لگیں ۔۔میں نے فل باہر نکالا اور پھر فل اندر مارا۔۔ اسکی بلند سسکی ہاااااے مر گئی نکلا لیکن اب وہ قدرے نارمل تھی۔۔میں نے پورےپر ہاتھ رکھا میرا وقت قریب تھا لیکن اسے بھی پورا کرنا تھا میں نے اسکے نپلز کو انگلیوں سے مسلنا شروع کیا اور اندر باہر جاری رکھا نپلز مسلنے سے اسکی کراہوں میں اب مستی آ گئی اور کچھ دیر بعداسکی پھدی نے رس اگلنا شروع کر دیا۔۔وہ اففف آااا کرتی چھوٹنے لگی میں اسکے اندر چھوٹنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا وہ کنواری تھی ابھی لوگوں کی نظر میں میں نے باہر نکالا اور اسکی رانوں میں ہی تیز تیز کرنا شروع کیا وہ مدہوش میرے ساتھ چمٹی ہل رہی تھی اور تیز سسکیوں کے ساتھ میرےلن نے اپنا زہر پھینکنا شروع کر دیا

کافی دیر دونوں ایسے مدہوش پڑے رہے۔۔ پھر وہ اٹھی اور افففف کرتی دوبارہ لیٹ گئی۔۔ ہاااے نعیم مجھ سے اٹھا بھی نہیں جا رہا میں اٹھا اور بڑی لائٹ کو آن کیا۔۔ اففف ہمارے نیچے کی ساری چادر لہو سےبھری ہوئی تھی اسکی رانوں پر بھی خون کے نشان تھے ایسے روشنی میں وہ یکدم شرما گئی۔۔چودنے کے بعد میں نے اسکا جائزہ لیا وہ کمال سیکسی تھی اسکی سفید ملائم ٹانگیں سمٹی ہوئی تھیں میں اسکے پاس جا کر اسکی ٹانگوں کو کھولا تو اس نے اونہوں نعیم لائٹ ہے۔۔اوو یار دیکھنے دو مجھے۔۔ نا تم نا دیکھو تم بہت ظالم ہو اففف مجھے اتنا درد ہو رہا نا۔۔ بڑی مشکلوں سے اسکی ٹانگوں کو کھولا افففف اسکی سرخ سفید پھدی کے ہونٹ جیسے چرے ہوئے تھے میں نے آرام سے ہاتھ لگایا تو وہ سسکی اففف نعیم۔۔مجبورا میں اسے اٹھا کر کموڈ تک لایا اور شاور کھول کر صرف نیم گرم پانی سے اسکی پھدی کو ٹانگوں کو صاف کیا۔۔چائے بنا کر ساتھ پیناڈول دی۔۔اسکا رنگ سرخ اور جسم تپ رہا تھا۔۔ افففف نعیم اتنا درد ہوتا ہے مجھے پتہ نا تھا۔۔ ہی ہی میں ہنسا اور بولا مزہ بھی آیا نا۔۔ بولو نا وہ شرما کر بولی ہاں بہت آیا۔۔میں نے کہا آگے اور بھی مزہ آئے گا پہلی بار ہی درد ہوتا صرف۔۔میں نے اسکا ہاتھ سہلایا آااہ افففف صبح میری اسائنمنٹ تھی اسے بےوقت ٹیسٹ یاد آیا۔۔ اوہو آج تمہیں اصل سبق سکھایانا یہی بہت۔۔میرے ایسے سہلانے اور ننگے جوان جسم نے لڑ کو پھر نیم بیدارکیا جیسے ہی اسے احساس ہوا اس نے پھرتی سے کمبل ہٹایا نیم اکڑا لن تیز روشنی میں اسکےسامنے تھے۔۔ ااااہ مائی گاڈ۔۔ اٹس لائک پورن مووی نا اسکےمنہ سے پھسلا۔۔ میں نے اسکی طرف دیکھا تو وہ جھینپ کر بولی ایک آدھ بار دیکھی تھی روزی لائی تھی کہیں سی ۔میں ہنس پڑا اور کہا چل خیر ہے۔۔ اس نے ہاتھ بڑھایا اور لن کو چھو کر بولی افففف یقین نہیں آ رہا یہ میں نے اندر لیا تھا۔۔ لن اسکے ہاتھ کے لمس سے جگمگ جگمگ جاگ چکا تھا۔۔ میں نے کہا اب تیز روشنی میں کریں گے نا تو دیکھ لینا کیسے لیا۔۔ جی نہیں اب کچھ نہیں ہوگا۔۔ کیا مطلب ۔۔ بس ایک بار کی گرلفرینڈ۔۔ اوہ بدھو مطلب ابھی نہیں ابھی تو سمجھو مجھ سے ہلا نہیں جا رہا۔۔میں اسکو ایزی کر کے لٹایا اور اسکے ساتھ لیٹ کرباتیں کرتے کرتے کب سویا پتہ نہیں۔۔ صبح میری آنکھ تیز سورج کی روشنی سے کھلی سامنے والے روشندان سے آتی روشنی میری آنکھوں پر پڑ رہی تھی میں نے وقت دیکھا آٹھ بجنےوالےتھے۔۔ اوہ شٹ ساڑھے آٹھ بجے بیلا نے آنا تھا میں نے کمبل ہٹایا اسکا ننگا گورا بدن اور گانڈ نظر آئی ۔۔بہت مشکل سےاسےاٹھا کر لاڈ سے سمجھایا اور اسکے فلیٹ تک اسکو سہارا دیتے لٹا کر آیا۔۔اسکو ہلکا بخار تھا ایسے اسکو چھوڑ کر جانا بھی مشکل تھا لیکن اس نے خود ہی مجھے بھیجا کہ دن چڑھے ویسے بھی روم میں اکھٹے رہنے سے مسلہ بن سکتا تھا۔۔میں واپس آیا اور دس منٹ بعد بیلا آ ٹپکی۔۔کیا ہوا تمہیں آنکھیں لال کیا ہوا کچھ نہیں یار جسم ٹوٹ رہا عجیب سا ۔۔ میں نے بہانہ بنایا۔۔ اوہو چلو تم کالج نا جاو آج بلکہ میں بھی نہیں جاتی۔۔ جی نہیں تم جاو اور آ کر مجھے بتاو کیا کیا لیکچر ملے اب کچھ عملی سوچنا مجھے بہت جلد۔۔ کیوں ۔۔بس مجھے جلد ہی پاوں پہ کھڑا ہونا ہے ۔۔ اوہو کہیں شادی کا ارادہ تو نہیں جناب کا۔۔ ہاں شائد ایک بندی ملی ہے جانے اس نے میری بات کا کیامطلب لیا وہ جلدی سے اچھا میں جاتی ہوں کہ کر نکل گئی۔۔مجھے بعد میں اندازہ ہوا لیکن اب کیا ہوسکتا تھا اسکےجانے کے بعد میں نے جلدی سے رات والی خونی😜 چادر چھپائی اور دوبارہ جا لیٹا۔بیلا نے تو شام کو آنا تھا میں بے فکر سویا پڑا رہا۔۔ایک بجے کے قریب میری آنکھ کسی کےجھنجوڑنے سے کھلی اٹھیں بھائی یہ ناصر تھا ۔۔ لائٹ نہیں تھی وہ دستک دے دےکر تنگ آ کے دیوار پھلانگ کر اندر آیا۔جلدی سے تیار ہو جائیں آپکے لیے خوشخبری ہے۔۔ کیا میں نےہڑبڑا کر پوچھا۔۔نائلہ اور عمبرین آ رہیں ہیں ادھر بس پندرہ منٹ میں یکدم پلان بنا شاپنگ کا تو اسطرف پرانی درزن عمبرین کی۔۔ وہ ادھر بیٹھیں مجھےتولگا جیسے ہر طرف پھول کھل گئے جلدی سے نہایا سب سیٹ کیا اور منتظر۔۔پانچ دس منٹ بعد میرے سامنے وہ چہرہ تھا جسے میں تمام تر آوارگی کے باوجود شدت سے سچا چاہتا تھا کافی دیر مل کر باتیں کرتے رہے۔۔پھر نائلہ اور عمبرین اوپر کو گئیں سیڑھیوں کے موڑ پر عمبرین نے مڑ کر دیکھا جیسے کہہ رہیں آو نا اور میں ناصر کو وہیں رکنے کا کہہ کراوپر کو دوڑا

نائلہ نے مجھےدیکھا تو عمبرین کو کہنی مار کرمتوجہ کیا۔۔ عمبرین نے مصنوعی غصےسے کہاتم کدھر اچھا آ گئےہوتو چلو آ جاو ۔۔ وہ اوپر ایک بڑےکمرے کا دروازہ کھولتے ہوے بولیں یہ فیملی گیدرنگ ہال تھا۔۔ دس پندرہ بندوں کی سیٹنگ ۔ سامنے دیوار پر مختلف فیملی تصویریں ۔۔عمبرین کافی دیر ہمیں اس گھر کی باتیں سناتی رہی۔۔ایسے میں نائلہ کو میں نے اشارہ کیا کہ وہ جاے یہاں سے۔۔اس نے الٹا شوخی سے کندھے اچکائے۔۔عمبرین اپنے دھیان آگے آگے تصویریں دکھا رہی تھی یہ اس فنکشن کی یہ اس کی۔۔ اور میں دھیمے لہجے میں اسکی منت کر رہا تھا اور وہ مجھے تنگ کر رہی تھی کہ ایسی کونسی بات جو اکیلے کرنی۔۔عمبرین کی بہ نسبت وہ کافی شوخی تھی۔۔خدا خدا کر کےوہ بہانے سے کھسکی اور ہم اکیلے ہوے ۔۔میں انکے پیچھے چلتا انکے بلکل پاس گیا اور کہا سرکار مہربانی وہ پیچھے مڑیں اور مجھے بلکل پاس دیکھ کر گڑبڑا کر کھسکیں ۔۔میں نے انکا ہاتھ تھاما اور کہا نائلہ جا چکی۔۔ اوہو یہ نائلہ کی بچی نا جب سے شادی ہوئی اسے زیادہ مستی چڑھی ہوئی بتاتی اسکو۔۔ اچھا بتالینا نا میری بات تو سنیں میں اور آگے بڑھا۔۔شہزادے وہ آ سکتی نا وہ پھر پیچھے ہٹیں اور پیچھے شوکیس سےجا لگیں ۔۔میں انکےسامنے کھڑا ہوا اور کہا یہاں سے دروازہ نظر آتا ہے مجھے دھیان نا۔اور انکے ماتھے پرجھک کر بوسہ دیا سرکار آپ آئی دل زندہ ہو گیا۔۔میں پیارسےسرگوشیاں کرتا رہا وہ سنتی سناتی رہیں۔۔ اچھا اب تم جاو نا۔۔ بسسس ایک انعام دیں نا ۔۔ ہااااکیسا انعام۔۔ بسس دیں میں نے بازو شوکیس کے ساتھ ٹکا کر انکو جیسے قید کر لیا۔۔افففف زبردستی سے انعام نہیں لیتے نالائق۔۔ بس میں ایسے ہی لیتا ہم نرالے میاں اب دیں نا۔۔انہوں نے آنکھیں بند کیں اور میرے ساتھ آ لگیں۔۔جیسے بازووں میں کل جہان آ گیا۔۔ایکدوسرےمیں سمائےہوئے انکا دلکش جسم مسحور کن خوشبو انکی سانسیں جیسے سکون سکون سکون۔۔میں نے انکا چہرہ اوپر کیا اور جھک کر بہت پیار سے انکے لبوں کو چھوا۔۔ وہ لرزیں جسم شوکیس سے ٹکرایا ۔۔شوکیس کے اندر رکھے برتنوں کی جلترنگ ہوئی۔۔انکی آنکھیں بند تھیں میں دوبارہ جھکا اور بہت سکون سے ہونٹوں کا رس پینے لگا۔۔ انکا جسم لرز رہا تھا وہ میرے ساتھ چپکی تھیں جب برتن پھر بجے میں چونکا اور میری نظر پھر کر دروازہ تک رکی ایسےلگا جیسے دروازے کے پردے کے پاس کوئی ہے ۔۔میں واپس جھکا اور انکے چہرے کوچومتے چومتے نظر گھمائی ۔۔ دروازے کے آگے پردوں کی درز سےکوئی دیکھ رہا۔۔میری نظر پردے کے نیچے تک گئی ۔۔ جوتی نے چغلی کھائی کہ وہ کون ہے۔۔تھوڑی دیربعد عمبرین الگ ہوئیں انکا چہرہ لال اور آنکھیں نشیلی تھیں۔۔میں انہیں بس دیکھتا ہی رہ گیا۔۔ کچھ دیر بعد وہ لوگ نکلنے لگے۔۔ناصر عمبرین کے ساتھ اوپرسے سامان اٹھانے گیا لاونج میں نائلہ اور میں رہ گئے بس۔۔ نائلہ مجھے کن اکھیوں سے دیکھ رہی تھی۔۔میں نےکہا ایک گر کی بات بتاوں۔۔ہاں بولو ۔۔ پردے کے پیچھے سے بات سننی ہو پاوں لازمی چھپاتے ہیں۔۔ اسکا رنگ تو جیسے لال پڑ گیا اور وہ شرم سے لال اوپر کو بھاگی۔۔جب وہ نکلنے لگے تو نائلہ تھوڑا سست ہوئی اور بولی میں ایسے تجسس نہیں کرتی آج کی ایکوجہ تھی جو کبھی بتاوںگی اس نے منہ چڑایا اور نکل گئی



جاری ہے

*

Post a Comment (0)