Ishq Aawara - last Episode 43 part 2

عشق آوارہ


آخری  قسط پارٹ 2



بہت دنوں بعد مجھے سرکار کا جلوہ دکھائی دیا۔۔۔انکے حسن پر سوگواریت کا رنگ انہیں اور بھی دلفریب کر رہا تھا۔۔ جیسے ہی ہماری نظریں ٹکرائیں ۔۔ چند لمحے جمیں اور ان نظروں نے مجھے انکی کیفیت سمجھا دی ۔۔ وہ یقینا ایک دوراہے سے گزر رہیں تھیں۔۔۔تقدیر انہیں ایک عجیب مرحلے پر لے آئی تھی ۔۔۔اس لمحاتی کیفیت کے بعد وہ چونک کر جلدی سے اندر کمرے میں چلی گئیں۔


میڈم عمبرین اور آنٹی تینوں اندر کمرے میں تھیں ۔۔ میں اوپر چھت پر چلا آیا۔۔۔ اسی کمرے میں جہاں میرا قیام رہا۔۔ اس کمرے سے یادگار یادیں وابستہ تھیں۔۔ اسی کمرے میں عمبرین سرکار سے میری الفت کا آغاز ہوا تھا۔۔ سامنے ہی وہ انٹرکام دھرا تھا جو ہماری سرگوشیوں کا گواہ تھا۔۔ اسی کمرے میں آنٹی نے مجھے پہلی بار سیکس کا سبق دیا تھا۔۔ یہیں دلاور کے راز کھلے تھے اور یہاں سے ہی کومل کے ساتھ سیکس کو آنٹی نے دیکھاتھا۔۔۔میں انہی سوچوں میں گم کافی دیر مستقبل کے بارے سوچتا رہا۔۔۔میری اگلی ساری گیم کا دارومدار اب میڈم رفعت کے ہاتھ تھا اورمجھے قوی امید تھی کہ وہ کچھ کر گزریں گی۔۔۔انکی سفارت اور مدد کے بغیر کچھ ممکن نا تھا۔۔عمبرین سرکار اور بیلا دونوں مختلف مزاج کی کھٹن خواتین تھیں۔۔ عمبرین سرکار کسی سمندر کی طرح پرسکون گہری اور بیلا شوریدہ سر دریا۔۔کی طرح جو سیلاب کی طرح بڑھتی چلی آ رہی تھی۔۔۔کیا یہ دریا بھی اس سمندر میں ضم ہو جاے گا۔۔ یہ ایک پہیلی تھی جسے سلجھانا اب ملکانی کے ہاتھ تھا


کافی طویل نشست کے بعد ملکانی وہاں سے رخصت ہوئیں۔واپسی نکلتے ہی میں نے فورا سو سوال کر دئیے ملکانی میری بیتابی پر خوب ہنسیں اور بولیں ذرا حوصلہ کرو لیکن میرے اندر اس وقت حوصلہ ہی تو نہیں تھا ۔۔ وہ ستاتے ہوئے بولیں کہ پاگل نہیں بنو نعیم کہا ہے نا کچھ کر لوں گی میں نے عمبرین کے ساتھ ہلکا دوستانہ کر لیا ہے ۔ اگلی بار تمہارے بغیر آونگی ۔۔۔ ابھی عدت میں ڈیڑھ مہینہ پڑا دھیرج رکھو اور رہ گئی بیلا تو تم ایک کام کرو ؟ لیکن میری بات کو غور اور حوصلے سے سننا ۔۔۔تم تو یونیورسٹی آتے نہیں لیکن بیلا آتی ہے میں نے طریقے سے اسے ٹیسٹر لگایا ہے ۔۔۔ جہاں تک مجھے لگتا اسے بس کریز ہے تمہارا۔۔ کہ تم کیوں اس پر توجہ نہیں دیتے اس نے یہ زنانہ لباس پہننا اور انداز دکھانا اسی لیے شروع کیا کہ تم اسے لڑکی سمجھو۔۔تم ایک ٹائٹل ہو اس کے لیے شائد۔۔۔وہ بات کرتی گئیں اور مجھے یاد آتا گیا کہ جب جب میں اسکی طرف تھوڑا بڑھا اسکے چہرے پر چمک آئی اور اس نے خالص مشرقی لڑکی کی طرح سمٹنا چاہا۔۔۔ لیکن اسکی شادی کی خواہش لوو یو کہنا۔۔میڈم نے کہا وہ تمہیں بڑھاوا دیا۔۔۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہو اگر تم اس دن نا رکتے اور اسے فک کر دیتے تو اسے زیادہ تسلی ہوتی کہ تم اسکے حسن کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔یہ لوو نہیں کریز ہے ۔۔۔ تو اب کیا کرنا چاہیے مجھے میں نے الجھے ہوے انداز میں ان سے پوچھا۔۔ وہ کچھ دیر چپ رہیں اور بولیں ۔۔اب تم اس کی طرف بڑھو ۔۔ اسے ایسا لگے جیسے اس نے تمہیں فتح کر لیا ۔۔ اور اسے فک کر دو انہوں نے جیسے میرے سرپر بم پھوڑا۔۔ واٹ کیا کہہ رہیں ہیں آپ۔۔ میں سہی کہہ رہی ہوں ۔۔ اسکے بعد دیکھتے ہیں اگر اسکا جنون اور کریز یہی رہا تو اگلی چال چلیں گے۔۔اور اگر نا رہا تو بات ویسے بھی آسان۔۔ ویسے جہاں تک مجھے لگتا بیلا کےوالد شائد اسے باہر بھیجنا چاہتے ۔۔اسےٹالا جاسکتا ہے ۔۔ لیکن میڈم یہ دھوکہ ہوگا سیاست اور وہ بھی بیلا سے نہیں ہوگی ۔۔ اوہو کم آن ۔۔ کیسی سیاست اگر اسے پھر بھی تمہارا جنون رہا تو اسے اپنانے کا پلان کریں گے نا۔۔تم ایسے سمجھو وہ چاہتی کہ اسکا ٹائٹل خود اسکی طرف بڑھے۔۔۔ اس کے پیچھے پھرے جیسے سب لڑکیوں کے بوائے فرینڈز ہوتے ۔۔تم ایکبار میری مان کر دیکھو تو۔۔ انہوں نے مجھے الجھا کر رکھ دیا

وہ مجھے سمجھاتی گئیں اور ایک لمبی بحث کے بعد میں انکے نکتہ نظر سے متفق ہو گیا۔۔عجب ہی سین تھا۔۔ آنٹی نے مجھے عمبرین کے لیے اکسایا۔۔ ملکانی نے بیلا کے لیے۔۔ کومل نے رابعہ کےلیے اور روزی نے سارہ کے لیے ۔۔ اگلے دن میں نے میڈم کی چلی چال کو آگے بڑھایا اور کالج چھٹی کے وقت بیلا کو لینےپہنچ گیا۔۔ وہ تو جیسے مجھےدیکھ کر خوشی سے پاگل ہو گئی۔۔۔ واپسی پر بائیک پر میرے ساتھ لگی اسکی تھوڑی تھوڑی دیر بعد کھلکھلاتی ہنسی اور اسکا ساتھ لگنا۔۔ بتا رہا تھا کہ اسے ایسے میرےپیچھے آنا بہت اچھا لگا۔۔ میں سارےراستے اسکے حسن کے قصیدے پڑھتا گیا ۔۔اور مستانی باتوں سے اسے بھگوتا گیا ۔۔۔ راستے میں اسے فروٹ چاٹ کھلانےکے لیے رکا ۔۔۔دوپہر کا وقت تھا ہم کیبن میں آمنےسامنے جب میں نے میز کے نیچےسے اسکے پاوں پر پاوں رکھ کر ہلکا سا مساج کیا ۔۔ میرےپاوں کا انگوٹھا اسکے پاوں پر گول گول۔گھوم رہا تھا اور اسکی سرخ ہوتیں نگاہیں اور چہرے کی جھلمل۔۔میں اسے باور کرا رہاتھا کہ اسکےتوبہ شکن حسن نے مجے بہکا کر رکھ دیا تھا۔۔۔ میں اٹھا اور اسکی ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا وہ جیسے گھبرائی اور بولی ادھر جا کر بیٹھو شرافت سے ۔۔ ویٹر آ سکتا کسی بھی وقت یعنی زنانہ زبان میں اسے پاس آنے کانہیں ویٹر کے آنے کا ڈر تھا۔۔ میں اسکی طرف جھکا اور بہکتے ہوے کہا میرےاندر آگ لگ چکی بیلا۔۔ میرا دل کرتا کہ ایک حسین وقت ہو اور اب میں تمہیں ٹوٹ کر پیار کروں پتہ کیسے۔۔ کیسے اس نے سرگوشی میں پوچھا۔۔ تمہارے انگ انگ پر ہونٹوں سے نشان بناوں تمہیں مدہوش کر دوں افففف اس نے سسکی لی ۔۔تم میں گم ہو جاوں بس۔ میری سرگوشیاں اسے مست کرتی جا رہیں تھیں۔۔۔ میں نے اپنے گرم ہونٹ اسکے ہونٹوں کےساتھ نرمگی سے ٹچ کیے اور بولا ۔۔ جہاں دھڑکا نا ہو بس ہم ہوں بس ہم ۔۔۔ چلو گی میرے ساتھ۔۔ ایک نئی دنیا دریافت کرنے میں چاہتا ہوں کہ میں بیلا کو دریافت کروں بہکے ہاتھوں سے ۔۔آج تک بولانہیں ڈرتا رہا۔۔۔ آج بول دیا ۔۔۔میں جی جان سے چھونا تمہیں۔۔ میرا مخصوص مردانہ انداز میرا قرب میرے الفاظ اسے وہ دےرہے تھے جسکی اسےچاہ تھی یعنی میں اسکی طرف بھاگوں۔۔اور وہ مجھے ترسا ترسا کر بھگا بھگا کر سیراب کرے۔۔۔بولو نا میں نے اسکے ہونٹوں کو پھر بس چھوا ۔۔ جیسے اسے للچا رہا ہوں اب۔۔اسکےاندر میٹھی آگ جلاتا ہوا۔۔ تم نے یہ روپ مرے لیے بدلا نا تو اب میرا فرض کہ میں اس کی قدر کروں اسے عقیدت سے چھووں۔۔۔وہ سرگوشی میں بولی دور بہہہت دور ۔۔ میں نے کہا ہاں جہاں کوئی نا ہو بس ہم ۔۔۔ اک جنگل اک کٹیا اور ہم۔۔ باہر تیز بارش اندر جذبوں کی بارش ۔۔ بس اکبار مجھے اس حسن کو چھونا جس کو چھونے کا خواب مجھے کب سے جھلسا رہا۔۔بولو نا۔۔ اس نے خمار آلود آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بولی ۔۔۔میں بھی چاہتی ہوں تم مجھے کھوجو۔۔اس نے جواب دے دیا تھا۔۔ اس سے پہلے کہ اور مستی ہوتی ویٹر کے قدموں کی چاپ ہمیں محتاط کر گئیاگلے کچھ دن میں کسی نا کسی بہانے بیلا سے رابطے میں رہا ۔۔ایک اتوار میں اور میڈم انکےگھر لنچ پر مدعو تھے جب میڈم نے اگلی چال چلی اور بیلا کو اکسایا کہ نعیم تمہیں ٹرپ پر نہیں لے گیا نا ابھی تک۔۔ یہ گویا بیلاکو یاد دلا گیا کہ میڈم کو چکوال لیجاتے وقت اس سےوعدہ ہوا تھا اسےمری گھمایا جاے گا۔ اب تو بیلا نے ضد پکڑ لی کہ بس اب جلدی جانا ۔۔۔ اور میں اسے چڑاتا گیا۔۔واپسی پرمیں نے میڈم سے شکوہ کیا تو وہ کہنے لگیں بدھو ہی تم ۔۔ میں تمہیں موقع دے رہی ہو ۔ جاو اور اسے وہ دےدو جو اسے چاہیے ۔۔۔لیکن ایسےاسکے گھر والےجانےدیں گے اسے میرےساتھ۔۔ وہ مسکرا کر بولیں ۔۔ تمہارےساتھ نہیں ہمارے ساتھ۔۔بس تم چھوڑو کیا یاد کرو گے ملکانی کیسے ساتھ دیا تمہارا انہوں نے میرا ہاتھ سہلاتے ہوےکہا۔۔ اب بھول نا جانا مجھے۔۔ میں نے الٹا شکوہ کیا اور کہا ایسالگتاآپکو ۔۔ آپکا نشہ اسکی لت لگ گئ مجھے۔۔ جانتی تو ہیں مجھے بیلا کہاں مجھےویسے مست کر سکتی جیسے آپ جھیل سکتی۔۔ انہیں مطمئن کرنا بھی ضروری تھا میری بات سے وہ جیسے دہک اٹھیں اور بولیں ۔۔تم بھی تو ایسے ہو ہر کوئی کہاں ملکانی کو جھیل سکتا اور یہ بیلا اس پر ہاتھ ہولا رکھنا میں نے بہکتے ہوے کہا پھر ہاتھ سخت کہاں رکھوں ۔۔ وہ بلش ہو کر بولیں ادھر کی رپورٹ دو گے نا تو ہاتھ سخت بھی رکھوا لیں گے ۔۔


اور یہ چند دن بعد کی شام تھی۔۔بیلا اورمیڈم رفعت کالج ٹرپ پر مری پہنچ چکیں تھیں اورمیں ان سے الگ کسی نوعمر عاشق کی طرح بیلا کی چاہ میں سب سے ہٹ کر مری موجود تھا۔۔اس چھپن چھپائی میں بھی ایک کریز تھا۔۔موسم ابر آلود تھا شام کے سائے پھیل رہے تھے جب میں ڈھیٹ عاشقوں کی طرح اس ہوٹل کے سامنے موجود تھا جہاں کالج ٹرپ کا قیام تھا۔۔ بیلا نےبڑی مشکل سے میڈم سےاجازت لی کہ وہ میرےساتھ الگ سے گھوم سکےاور جرمانہ وصول کر سکے ۔۔۔باقی کالج کےسامنے اسے اپنی خالہ کے گھر جانا تھا جنکا قریب ہی ریسٹ ہاوس تھا۔۔بیلا میرے ساتھ دو گھنٹوں کے لیے آئی تھی لیکن کیا واقعی دو گھنٹوں کے لیے آئی تھی یہ میں جانتا تھا کہ کیا کرنا


اسے ادھر ادھر پھرا کر ڈنر کروا کر میں گھومتے گھماتے اس ریسٹ ہاوس لے آیا جو ملک نواز کا تھا اور جہاں سے ہمیں میڈم کا کچھ ضروری سامان لینا تھا۔۔ دونوں اپنے اندر جذبوں کا طوفان لیے ہلکی بارش میں بھیگتے۔۔۔ کانپتےہاتھوں سے میں نے ریسٹ ہاوس کا دروازہ کھولا اور اندر پہنچ کر سکون کا سانس لیا۔۔ پہاڑی بارش کے اچانک حملے نے ہمیں بھگو کر رکھ دیا تھا۔۔ اندر قدرے سکون آور ماحول تھا


باہر بارش رفتار پکڑ چکی تھی۔۔۔اففف نعیم مجھے بہت ٹھنڈ لگ رہی بیلا نے میرے ساتھ لگ کر کپکپاتے ہوے کہا۔۔ادھر ادھر ہاتھ مار کر میں نے لائٹ جلائی اور بہت احتیاط سے خشک کپڑا لیکر بیلا کےبالوں اور چہرے کو صاف کیا۔۔۔ کتنا رومانی موسم ہے نا میں نے سرگوشی کی ہم تم اور یہ بارش۔۔ بیلا ہمممم کرتے میرےاور ساتھ چپکی ۔۔پتہ ہے تمہارے جادو نے مجھے پاگل کر دیا ہے میں نے اسکے گرد اپنے بازو قدرے سخت کرتے ہوے کہا ۔۔دو دل مل کر دھڑک رہےتھے۔۔۔ بھیگے جسم ایک دوسرے کو دہکا رہے تھے۔میرے ہاتھوں کی گستاخیاں بڑھتی جا رہی تھیں اور وہ خالص لڑکیوں کی طرح گریز اور سپردگی دونوں رنگوں سے سج رہی تھی۔۔۔ اسکے ہاتھ بھی مجھے روکتے تو اسکی سسکیاں مجھے بتاتی کہ رکو مت۔۔ میں نے سرگوشی کی دیکھا جو چاہا تھا ویسا ہوا نا۔۔ دور دور تک مری کا جنگل یہ ریسٹ ہاوس اور باہر بارش۔۔ اندر بھی بارش برسنے کو برس جاوں ۔۔۔ میری بہکتی سرگوشی نے اسےاور سسکایا۔۔اسکی ہولے سے آواز آئی ہم تو کب سے اس انتظار میں کہ کب برسو تم ۔۔ تم دیکھا ہی نہیں ہمیں اور میں نے جھک کر اسکا شکوہ اپنے ہونٹوں میں سمو لیا۔۔دونوں کے ہونٹ ایکدوسرےکی پیاس بجھا رہےتھے۔۔ہاتھوں کی مستیاں بڑھتی گئیں گیلے کپڑے اترتے گئے اور سلگتے جسم آپس میں ٹکرانے لگے۔۔میرےاندر کی آوارگی پوری شدت سے بیدار ہو چکی تھی ۔۔میں نے اسے بازووں میں اٹھایا اور چلتا ہوا چومتا ہوا بیڈ تک لایا۔۔۔دونوں کی شرٹس جانے کدھر بکھر چکیں تھیں۔۔ اسکے چونتیس نمبر بوبز جیسے بلند چوٹیاں اور میرے ہاتھ جیسے کوہ پیما جو انہیں سرنگوں کر رہے تھے سر کر رہے تھے چوٹیوں کی شان نپلز کو مسل رہےتھےاور اسکا کنوارا بدن جیسے تڑپ رہا تھا۔۔یہاں تک ہم پہلے بھی ایکدوسرے کو دریافت کر چکےتھے آج مجھے آگے بڑھنا تھا۔۔ میرے ہاتھ اسکے سینے سے پیٹ تک پھر رہے تھے اور کسی بجلی کی طرح میرے ہاتھ اسکے پیٹ کو رگڑتے اسکے گیلے لاسٹک کو توڑتے اسکی رانوں کے درمیان ۔۔ آااااہ نعیم نوووو اسکی سسکی گونجی لیکن اب نعیم بھڑک چکا تھا میرے ہاتھ اسکی گداز رانوں کے لمس سے جل رہے تھے ۔۔۔ اسکی رانیں آپس میں مل چکی تھیں ۔۔ جیسے روکنا چاہتی ہوں اور جسم جیسے اور اکسا رہا ہو۔۔ہاتھ کے نیچے جلتی بھٹی تھی گویا۔۔ یہ گستاخ لیکن تجربہ کار ہاتھ تھے۔۔ جلد ہی ہاتھ کی گستاخیوں نے رانوں کےشکنجےکو کھول ڈالا ۔۔ اور ہتھیلی جوانی کی کنواری سیپ پر جم گئی۔۔سیپ آگ بگولا تھی ہلکا رس برس رہا تھا اور ہاتھ کا مساج بیلا کو مکمل مدہوش کر چکا تھا۔۔

ایک دوسرے کو دریافت کرنے کا 

سفر تیزی سے جاری تھا۔۔سب حجاب اتر چکے تھے۔۔ایک کمبل کے نیچے دو جوان اور بےحجاب جسم ایک دوسرےکو سلگا رہے تھے۔میں نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھا۔۔ لن جو ایک نئی کنواری پھدی کو کھانے کے لیے کسی ناگ کی طرح پھنکار رہا تھا یہ ناگ تو آنٹی اور ملکانی جیسیوں کو حیران کر گیا وہ تو بیلا تھی جیسے ہی اسکا ہاتھ لن پر لگا بیلا تڑپ کر اٹھی اور بےساختہ بولی اففففف نعیم اتنا بڑا ۔۔۔میں نے زبان سے جواب دینے کی بجاےاسکےبوبز کو اور چوسا۔۔۔ہانڈی ابل چکی تھی بس کھانا باقی تھا۔۔۔میرےلن کی کیپ اسکی پھدی کو چھو رہی تھی اور بیلا کرنٹ کھاتے تڑپ رہی تھی۔میں اٹھا اور اسکے اوپر آتا اسکی رانوں کے درمیان جم گیا۔۔ آااہ نہیں کرو نا ۔۔ آہہ بسسس نا اسکی سرگوشیاں سسکیاں لیکن میں کہاں سننےوالا تھا۔۔ جیسے ہی میری نظر بیلا کی پھدی پر پڑی میں حیران رہ گیا۔۔کنواری گلابی پھدی جسکے ہونٹ آپسی ملے پھڑک رہے تھے ۔۔میں نے لن کا ٹوپہ اسکی پھدی پر رکھا ۔۔ آہ پھدی گویا ٹوپے کے پیچھے چھپ ہی گئی۔۔ مجھے کچھ پریشانی ہوئی کہ جانے اسکا کیا حشر ہو جب اسکی سرگوشی گونجی آہ نعیم آرام سے ۔۔ یہ اشارہ تھا۔میں نے آہستگی سے دباو بڑھایا۔۔ اففف ٹوپے نے پھدی کے ہونٹوں کو کھولا اور اٹک گیا۔۔ ایک سریلی سسکی گونجی ۔۔ مجھے پتہ تھا کہ پہلے کچھ لمحے اسکےلیے عذاب ہونے ۔۔میں نے ہلکا سا دباو اور بڑھایا۔۔پھدی کے ہونٹ کسی گلاب کی طرح کھلتے جارہےتھے اور بیلا کی بلند آہیں سسکیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔۔ تب میں نے اس کی نفسیات سے کھیلا اوربولا۔۔ مجھے پتہ تھا تم کمزور سی لڑکی مجھے برداشت نہیں کر سکو گی ابھی بس کیپ ہی گئی تو یہ حال تمہارا۔۔ یہ گویا بیلا کے اندر کی مغرور اور ضدی لڑکی پر حملہ تھا۔۔اس نے مجھے دھکا دیا اور میرے اوپر آتی گئی۔۔۔ اسکے ہاتھ میرے شانوں پر جم چکے تھے ۔ لن کی کیپ پر اس نے پھدی جمائی اور آنکھیں بند کر کے ہونٹوں کو ہونٹوں میں جکڑ کر اس نے تیزی سے نیچے کو موو کی۔۔ افففف لن جیسے تباہی مچاتا آدھے تک اندر گڑ گیا۔۔ اسکی بےساختہ چیخ نکلی ۔۔ لیکن اس وقت رحم کرنا اسکا جنون توڑنے کے مترادف تھا۔میں نے جوابی اسکے شانوں کو تھاما اور پوری قوت سے اسے نیچے کھینچا۔۔ ایک دلدوز بلند چیخ کے ساتھ لن اسکی سیل پھاڑتے جڑ تک گھس چکا تھا۔۔ اسکی چیخیں پورے کمرے میں گونج اٹھیں۔۔ میں اسےایسے بٹھاے پیچھے کو بیڈ پر گراتا اوپر آیا۔۔۔اسکی ٹانگیں کمر کے گرد اور لن پھدی۔میں جیسے پیوست ہوچکا تھا۔میں نے لن کو ہلکا سا کھینچا۔۔ پھدی جیسے کھلتی ہوئی کھلی ۔۔آدھے تک لن باہر نکالا۔۔ لن پر لگی سرخی اسکے کنوارپن کے خاتمے کی نشانی تھی۔۔میں نے اسبار قدرے آرام سے پش کیا۔۔وہ میرے بوجھ کے نیچے کسمسائی۔۔اسکے ہونٹ کھل چکے تھے اور آنکھیں آنسو برسا رہیں تھیں۔۔یہ بیلا ہی تھی جو ایسا کر گزری تھی۔۔آہستہ آہستہ درد پہ مزہ چھانے لگا۔۔ پھدی نے فطرت سے مار کھائی اور لن کو تنگ راستہ دینے لگی۔اسکی کراہیں لذت والی سسکیوں میں ڈھلنے لگیں۔۔ اسکے ناخن میری کمر کو کھرچنے لگے۔۔اور گہری سانسوں کے ساتھ اس نے پہلی بار ڈسچارج ہونے لگی اسکا جسم جیسے پھڑک رہا تھا۔۔ آہستہ آہستہ وہ نارمل ہوئی اور میں نے آہستگی سے لن باہر نکالا۔۔۔جیسے ہی لن باہر نکلا اسکی پھدی سے خون اور منی بہہ کر نکلنے لگی۔اسکی پھدی واضح چر چکی تھی اور وہ نڈھال۔۔۔۔ میں نے درد دیا تھا مجھے ہی مداوا کرنا تھا۔۔ میں اٹھا اور بیڈ شیٹ سے ہی اسکی پھدی کو صاف کیا ۔۔وہ ہولے ہولے کراہنے لگی۔۔۔کچھ دیر بعد جب وہ سنبھلی تو میں اسے چومتے پھر اوپر آیا۔۔اسبار اسکے جوش میں عجب لطف تھا۔۔ جیسے ایک امیزنگ میچ ہو۔۔ وہ رات ایک دوسرے کو جتاتے ہراتے تھکاتے گزری۔۔۔کمرہ اسکی سسکیوں اور میری سرگوشیوں سے گونج رہا تھا۔۔ بیڈ کی چوں چوں اور میری شدتیں۔۔تھک ہار کر نڈھال مست جب ہم دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں گم ہوے سرگوشی میں بولی آج میں بہت خوش ہوں ۔۔ مجھے پہلی بار کسی نے لڑکی سمجھ کر ٹریٹ کیا۔۔ اب مجھےکوئی خلش نہیں کوئی کسک نہیں۔۔اب میں آرام سکون سے آسٹریلیا جا سکتی بہن کے پاس۔۔ مجھے آگے وہاں پڑھنا۔۔ اسکی بات نے جیسے ملکانی کی بات پرمہر لگا دی۔۔۔اورمیں ۔۔ تم اس نےکہا ہم اچھے دوست ہیں جب میں واپس آئی تب دیکھیں گےکیا دکھاتا وقت ملکانی نے جو کہا وہ کر دکھایا۔۔۔بیلا آسٹریلیا جا چکی تھی۔۔ایک طویل انتظار کے بعد ملکانی آنٹی اور عمبرین کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔۔اور شاہدرے والے گھر کو بیچ کر عمبرین آنٹی اور انکل کے ساتھ شفٹ ہو چکیں تھیں۔۔ اسی گھر میں میرا عمبرین سے نکاح ہوا۔۔ایسا نکاح جو خفیہ تھا جب تک حالات مناسب نا ہوتے۔۔میں فیکٹری میں ہی رہتا ہوں ۔۔ ہر ویک اینڈ میں ملازم پیشہ خاوند کی طرح گلبرگ جاتا ہوں۔۔ہمارےنکاح کا ملکانی ناصر انیلا آنٹی اور میری اماں کو پتہ ہے بس۔۔۔اماں جو اپنے نعیم کی ویران ہوتی نگاہوں کو بسانے کے لیے مان گئی۔۔۔کبھی کبھی ملکانی فیکٹری میں آ جاتیں ہیں اور میں حسب وعدہ انہیں سخت ہاتھ لگا کر انہیں ریلیکس کر دیتا ہوں۔۔وقت گزرتا گیا۔۔ اگلے سال انکل کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی اور وہ کچھ دن کی بیماری کے بعد انتقال کر گئے۔۔۔آنٹی تو گویا بلکل بوڑھی ہو چکیں۔۔اس واقعے کو چھ سال گزر چلے۔۔۔بیلا آسٹریلیا ہی ہے اور ملکانی کہتیں ہیں کہ اگر بیلا واپس آ کر کریزی ہوئی تو اس سے بھی شادی کر لوں۔۔ اوپن میرج ۔۔ جسا سب کو پتہ ہو۔۔ پورا ہفتہ فیکٹری کی مصروفیات کے بعد ۔۔۔ ویک اینڈ پر جب عمبرین میری بانہوں میں ہوتی ہے۔۔جب میں پورے شرعی حق سے اسے چھوتا ہوں تو یقین کریں وہ سکون ملتا ہے جو کہیں نہیں ملا۔۔


اور یہ جولائی دو ہزار اکیس ہے۔۔ہمارے پیار کی نشانی عالیان اڑھائی سال کا ہوچکا ہے۔۔۔ یہ ہے میری داستان ۔۔ میرے عشق کی میری آوارگیوں کی


The End

*

Post a Comment (0)