Itmenan aur besakooni - Episode 1

اطمینان اور بے سکونی



قسط ۱



‎یہ واقعہ میرے ابو کے پرانے دوست کی بیٹی مریم کے ساتھ بتائے جانے والے لمحات کے بارے میں ہے مریم کے ابو

‎سرگودھا کے ایک بڑے زمیندار ہیں ان کی دو بیٹیاں ہیں جن میں سے ایک کی شادی لندن میں ہوئی ہے جبکہ دوسری لاہور میں ایک پرائیویٹ بنک میں ملازمت کرتی ہے اور آج کل لاہور کے ایک وویمن ہاسٹل میں قیام پذیر ہے یہ کوئی تین سال پہلے کی بات ہے جب مریم نے ایم اے اکنامکس کے بعد گھروالوں سے ملازمت کے لئے کہا گھر والوں نے کافی سمجھایا کہ ان کے ہاں کون سی چیز کی کمی ہے جو وہ ملازمت کرنا چاہتی ہے لیکن وہ نہ مانی اور ملازمت کی ضد پر اڑی رہی آخر کار اس کے گھر والوں کو اس کی ضد کے آگے ہار ماننا پڑی مریم نے سرگودھا سے ہی کسی بنک میں ملازمت کے لئے آن لائن اپلائی کیا جس پر اس کو انٹرویو کے لئے لاہورکال کیا گیا انٹرویو کے لئے اس کے والد صاحب اس کے ساتھ آئے مریم کے ابو کو معلوم تھا کہ میں لاہور میں رہتا ہوں انہوں نے لاہور میں قیام کے لئے میرے ابو کو کہا کہ وہ مجھے اپنے ہاں ٹھہرنے دیں میرے ابو نے مجھے سے بات کی جس پر میں نے ان کو کہا کہ جب مرضی آجائیں یہ آپ کا اپنا گھر ہے جس پر وہ مریم کے ساتھ لاہور آگئے وہ اکتوبر یا نومبر کی بات ہوگی جب مریم اور اس کے ابو اپنی گاڑی پر صبح صبح میرے گھر آگئے مجھے ان کی آمد کے بارے میں میرے ابو نے رات کو ہی آگاہ کردیا تھا میں ان لوگوں کے انتظار میں ہی تھا جب وہ لوگ آگئے میں نے اپنے نوکر کو ان لوگوں کو ناشتہ دینے کے لئے کہا اور خود دفتر چلا گیا شام کو گھر آیا تو

‎ان لوگوں سے بات چیت ہوئی ان لوگوں نے بتایا کہ انٹرویو میں کئی امیدوار تھے اور مریم کو کل پھر آنے کو کہا گیا ہے بات چیت کے دوران مریم نے کم ہی گفتگو کی میں نے بھی مریم سے زیادہ بات چیت کرنے اور فری ہونے کی کوشش نہیں کی ویسے بھی مریم میں کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی کہ میں اس میں زیادہ انٹرسٹ لیتا وہ ایک عام شکل وصورت کی مالک سانولے رنگ کی لڑکی تھی لیکن اس میں ایک خاص بات اس کو دوسری لڑکیوں سے برتری دیتی تھی اس کا قد قریباً پانچ فٹ آٹھ نو انچ ہوگا وہ کھڑی ہوتی تو اس کا قد میرے برابر معلوم ہوتا میرا قد پانچ فٹ دس انچ ہے اس کے قد کے علاوہ اس میں کوئی ایسی خوبی نہیں تھی جس کوبیان کیا جاسکے اس کی عمر بائیس تیئس سال کے قریب ہوگی خیر رات کو دس بجے کے قریب میں نے ان لوگوں سے سونے کے لئے اجازت لی اور اپنے کمرے میں آکر سو گیا اگلے روز میں ابھی سویا ہوا تھا کہ وہ لوگ انٹرویو کے لئے نکل گئے میں شام کو دفتر سے آیا تو معلوم ہوا کہ مریم کو سلیکٹ کرلیا گیا ہے اور وہ آئندہ ماہ کی یکم تاریخ سے بنک کو جوائن کررہی ہے میں نے مریم اور اس کے والد صاحب کو مبارکباد دی مریم جاب ملنے کی خوشی میں کافی خوش تھی جبکہ اس کے والد صاحب کو زیادہ خوشی نہیں ہوئی تھی اس رات بات چیت کے دوران مریم کے ابو نے کہا کہ لاہور میں مریم رہائش کہاں رکھے گی تو میں نے ان کو کہا کہ لاہور میں وویمن ہاسٹل کافی زیادہ ہیں جہاں مریم کو آسانی سے رہائش مل سکتی ہے لیکن مریم کے ابو زیادہ مطمیئن نہیں تھے تاہم میری طرف سے تسلی کے بعدانہوں نے مریم کو ہاسٹل میں رہائش کی اجازت دے دی اگلے دو تین روز ان لوگوں نے ہاسٹل میں خالی جگہ ڈھونڈنے کے لئے خرچ کئے اس حوالے سے میں نے بھی ان لوگوں کی کافی مدد کی لیکن کسی اچھے ہاسٹل میں فوری طور پر جگہ نہ مل سکی ہر جگہ سے ناکامی کے بعد مریم کے ابو مایوس ہوگئے اور انہوں نے مریم کو کہا کہ جب تک اس کو کسی اچھے ہاسٹل میں رہنے کے لئے جگہ نہیں مل جاتی وہ جاب جائن نہ کرے لیکن مریم نے کہا کہ وہ اس جاب کو کسی صورت بھی نہیں چھوڑے گی تو اس کے ابو نے کہا کہ تو پھر تم رہو گی کہاں تو اس نے فوری طورپر یہ کہہ دیا کہ جب تک کسی اچھے ہاسٹل میں جگہ نہیں ملتی وہ اسی گھر میں رہ لے گی یہ سن کر مجھے کافی دھچکا لگا کیوں کہ اس کے رہنے سے میری پرائیویسی ختم ہوجاتی لیکن میں یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ ان لوگوں سے کافی پرانی شناسائی ہے اور میرے انکار پر ان کو افسوس ہوگا اس کے علاوہ مجھے یہ امید تھی کہ مریم کے ابو کسی صورت بھی اس کو ایک جوان لڑکے کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دیں گے میری امید کے بالکل عین مطابق مریم کے ابو نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا لیکن اس پر مریم نے کہا کہ ابو کیا ہوا جو میں چند روز اس گھر میں رہ لوں گی اس میں حرج ہی کیا ہے جس پر مریم کے ابو کو ہتھیار ڈالنا پڑے انہوں نے میرے سامنے ہی یہ بات فون پر میرے ابو کے ساتھ کردی جس پر انہوں نے بھی کہا کہ ٹھیک ہے مریم چاہے تو یہاں ساری عمر رہ لے ویسے بھی شاکر اس کا ”بھائی “ ہی تو ہے ہاسٹل کی بجائے اسی گھر میں زیادہ ٹھیک رہے گا ویسے بھی مریم کو کون سا ساری عمر جاب کرنی ہے جو سال چھ مہینے جاب کرنی ہے یہیں رہ لے ان کی اس بات پر میں بہت پریشان ہوگیا لیکن میں اپنے ابو کی بات سے کسی صورت بھی انکار نہیں کرسکتا تھا میں اس بات کی مخالفت میں چاہتے جتنے بھی دلائل دیتا ابو اپنی بات کو کسی صورت بھی رد نہ کرنے دیتے اور مجھے ”نافرمان“ کا خطاب الگ سے مل جاتااس کے علاوہ مجھے ان کی یہ بات ماننا بھی پڑتی سو میں خاموش ہوگیا مریم کی رہائش کا مسئلہ ”حل “ ہونے پر یہ لوگ اگلے روز ہی سرگودھا چلے گئے مریم کو دوہفتے بعد ہی دوبارہ آنا تھا دوہفتے بعد مریم دوبارہ اپنے والد محترم کے ساتھ دوبارہ یہاں آگئی اس کے والد صاحب دو دن لاہور میں میرے گھر ہی رہے اس دوران وہ میری عادات کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیتے رہے کہ ان کی بیٹی کو یہاں کوئی خطرہ تو نہیں اس دوران انہوں نے مریم کو سوزوکی مہران گاڑی خرید کر دی تاکہ وہ دفتر آسانی سے جاسکے اس کو بسوں ویگنوں میں دھکے نہ کھانا پڑیں اس کے بعد وہ واپس سرگودھا چلے گئے واپس جاتے ہوئے انہوں نے مجھے مریم کا خیال رکھنے کی تاکیدبھی کی ان کے جانے کے بعد میں اپنی روٹین پر آگیا میں نے یہ خیال دل سے نکال دیا کہ اس گھر میں میرے علاوہ کوئی جوان لڑکی بھی رہتی ہے لیکن میں نے گھر میں کوئی ایسا کام نہ کرتا جس سے مجھ پر ”بدچلن“ ہونے کا الزام لگ سکتا تھا مریم کی جاب سٹارٹ ہوئی تو وہ جو کپڑے پہنتی تھی اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوسکتا تھا لیکن آٹھ دس روز بعد ہی اس کے کپڑے سکڑنا شروع ہوگئے وہ اپنے لئے سرگودھا سے جو کپڑے لائی تھی وہ اس نے بیگ میں رکھ دیئے جبکہ اپنے لئے نئے کپڑے خریدے جس کو وہ پہنتی تو دیکھنے والے کی نظر اس پر ٹھہر جاتی اور خواہ مخواہ شہوت آجاتی میرے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا لیکن میں نے اس پر کچھ بھی ظاہر نہ ہونے دیا کہ میں اس کی تبدیلی کا کوئی نوٹس لے رہا ہوں جب کبھی میں دفتر سے جلدی واپس آجاتاتو مریم سے گپ شپ بھی ہوجاتی اکثر اوقات گپ شپ کا موضوع سیاست ہوتا مریم نے یہاں آنے کے بعدپہلے دن سے کھانا پکانے کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا جبکہ دوسرے کام بدستور نوکر ہی کرتے تھے مریم نے مجھے اس بات کا بھی پابند کردیا تھا کہ میں کھانا گھر سے کھاﺅں اگر کبھی میں باہر سے کھانا کھاتا تو اس پر وہ باقاعدہ ناراض ہوتی جس پر پہلے پہل مجھے حیرانگی بھی ہوئی لیکن میں خاموش رہا وہ مجھے شروع شروع میں شاکر صاحب کہہ کر بلاتی لیکن آہستہ آہستہ صاحب کا لفظ ختم ہوگیا اور صرف شاکر رہ گیا چند ہی دنوں میں ہم دونوں آپس میں کافی حد تک گھل مل گئے تھے اکثر اوقات میں اس کو ہاسٹل میں جگہ ملنے کے بارے میں پوچھتا تو وہ کہتی کہ تلاش کررہی ہوں جلد مل جائے گی ایک روز میں نے حسب معمول کھانے کے بعد بات چیت کے دوران اس سے پھر ہاسٹل کے بارے میں پوچھا تو اس کے منہ سے خلاف توقع الفاظ سننے کو ملے اس نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ ایک جوان آدمی کی کیا پرائیویسی ہوتی ہے لیکن آپ اپنی سرگرمیاں ایسے ہی جاری رکھ سکتے ہیں جیسے میں یہاں پر موجود ہی نہیں ہوں آپ کو اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں نے اس کو جواب دیا کہ میری پرائیویسی زیادہ یہ بات اہم ہے کہ جوان لڑکا لڑکی ایک گھر میں رہتے ہیں اس پر لوگ باتیں بنائیں گے جس پر اس نے مزید حیرانگی کی بات کی کہ” لوگوں کو کرنے دیں باتیں جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی“اس کی یہ بات سن کر میں چپ سا ہوگیا اس رات کافی دیر تک باتیں کرتے رہے پھر رات کو گیا رہ بجے کے قریب میں اپنے کمرے میں چلا گیا اور وہ بھی اپنے لئے مخصوص کمرے میں چلی گئی بیڈ پر جاتے ہی آج پہلی بار میں نے مریم کے بارے میں کسی اور انداز میں سوچا میرے ذہن میں عجیب عجیب سے منصوبے جنم لینے لگے خیر میں نے ان تمام خیالات کو رد کردیا اور سو گیا اگلے روز ہفتہ تھا میں ابھی دفتر میں ہی تھا کہ مریم کا موبائل پر فون آگیا اس نے کہا کہ ممکن ہوتو آج جلدی گھر آجائیں میں نے ایک خاص چیز بنارہی ہوں میں بھی فارغ ہی تھا گھر چلا گیا گھر پہنچا تو مریم گاجر کا حلوہ بنا رہی تھی مجھے نہیں معلوم کہ اسے کس نے بتا دیا کہ مجھے گاجر کا حلو ہ اچھا لگتا ہے اس کے علاوہ ایک اور بات جس نے مجھے حیران کردیا وہ مریم کا لباس تھا آج اس نے میری الماری سے میری بلیک ٹی شرٹ نکال کر پہنی ہوئی تھی لگتا تھا وہ ابھی ابھی نہا کر نکلی ہے ٹی شرٹ کے نیچے اس کے ممے بتا رہے تھے کہ اس نے برا نہیں پہنا ہوا نیچے میرا ٹراﺅزر اور میرے ہی جوگر پہنے ہوئے تھے میرے گھر پہنچتے ہی اس نے کہا کہ کیسی لگ رہی ہوں میں نے اس سے کہا کہ یہ اچھی بات نہیں کہ کسی کے کپڑے نکال کر پہن لئے جائیں تو کہنے لگی کہ میں کوئی نہیں اب اس گھر کی فرد ہوں اور اس گھر کی ہر چیز پر اس وقت تک میرا بھی حق ہے جب تک میں یہاں قیام پذیر ہوں جس پر میں خاموش ہوگیاخیر شام کو چھ بجے کے قریب ہم دونوں نے کھانا کھایا اور پھر باتیں کرنے لگے اس دوران مریم نے کہا کہ کیا ہم لوگ بور سے ٹاپک پر بات چیت کرتے رہتے ہیں چلو آج شطرنج کھیلتے ہیں میں نے بھی حامی بھر لی میں اچھی خاصی شطرنج کھیل لیتا ہوںاور کافی عرصہ سے کبھی موقع نہیں ملا تھا میری ہاں پر مریم اٹھی اور اپنے کمرے میں گئی جہاں سے شطرنج اٹھا لائی ہم نے بازی لگائی میرے لئے یہ امر حیرانگی کا باعث تھا کہ مریم شطرنج کی اچھی خاصی پلیئر تھی وہ جارحانہ انداز میں کھیل رہی تھی جبکہ میں دفاعی پوزیشن پر تھامریم جب بھی کوئی چال چلتی اس کے ساتھ ہی ”چیک“ کی آواز لگاتی اور ساتھ ہی بازو اوپر کرکے



جاري ہے 

*

Post a Comment (0)