ads

Kali aur Kantay - Episode 2

کلی اور کانٹے 

قسط نمبر 2



کتابوں کے ورق پر وہی مووی چلنے لگتی میرے ہاتھ بےاختیار اپنے چھوٹے بوبز اور ببلی کی طرف چلے جاتے کلس روم کے فرنٹ پر پڑی ٹیچر ٹیبل مجھے اپنے سکون کا مسکن دکھنے لگی تھی میں بہت بے چین تھی سر امجد کو دیکھ میری ببلی۔پھٹک پھٹک کرتی خود بخود اندر باہر ہونے لگتی تھی میرا قد اس وقت چار فٹ تھا اور سر امجد چھ فٹ سے بھی زائد کے تھے اور مجھے سر امجد کے ساتھ مووی والا سین بنتا دیکھائی دے رہا تھا اس وقت میرے بوبز چھوٹے تھے اور میں بریزر نہیں پہنتی تھی آج میں شکیلہ کے بریزر میں بند بوبز اور پیچھے کو نکلے ہپس بہت اچھے لگ رہے تھے شکیلہ مجھے گارڈ سے گزشتہ روز سیکس کرنے کی کہانی سناتی اور مجھے بےتاب کرتی رہی اسے گارڈ کے ساتھ زیادہ مزہ آیا تھا بولتی بلال سے بہت بڑا ہے گارڈ کا اور موٹا بھی ہے میں شکیلہ سے کہنا چاہتی تھی کہ میرا بھی کچھ کرو لیکن میں ایسا کہہ نہیں سکی آخری پریڈ سر امجد کا تھا میں سر جھکا کر اس کی پاورفل باڈی کو دیکھ کر بےتاب ہو رہی تھی شکیلہ کی کہانیاں سننے کے بعد بھی میرا دل بلال کے بجائے سر امجد کی طرف تھا میں اب تک تین موویز دیکھ چکی تھیں جو مجھے شکیلہ سنڈ کر چکی تھی لیکن میرے حواس پر وہی پہلی بلیک ٹیچر والی مووی قابض تھی میرا دھیان سٹڈی کی طرف بالکل نہیں تھا سر امجد کیا بو رہا مجھے معلوم نہیں تھا اس کے انگلش بولتے لب مجھے اپنی ببلی پر کسنگ کرتے محسوس ہو رہے تھے میں اندر باہر ہونے والی اپنی ببلی پر ہاتھ رکھے صرف سر امجد کے ہلتے لب دیکھ رہی تھی ۔۔۔ چھٹی کی گھنٹی بج چکی تھی سب کلاس روم سے چلے گئے تھے میں سامان سمیٹنے میں تاخیر کر رہی تھی سر امجد کرسی پر بیٹھے موبائل پر اپنا انگوٹھا سویپ کر رہے تھے میرا دل آؤاز سے دھڑک رہا تھا مجھے لگا سر امجد وہی مووی دیکھ رہے ہیں میں آہستہ سے قدم اٹھاتی سر کی ٹیبل سے رگڑ کر گزرتی ہوئی ان کو دیکھتی جا رہی تھی وہ سر جھکائے موبائل پر نظریں جمائے اپنی مستی میں مست تھے میں روم سے باہر جانا نہیں چاہتی تھی دروازے کے پاس پہنچی تو سر امجد کے آواز میرے کانوں میں گونجی ۔۔۔۔ نازیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھاگ کر سر کے پآس جا پہنچی ۔۔ جی جی ۔۔سر۔۔۔۔۔۔ ۔۔ سر امجد حیرت سے سر سے پاؤں تک میرے لرزتے وجود کو دیکھتے بولے ۔۔۔ کیا ہوا نازیہ بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سر آپ نے مجھے بلایا ۔۔۔۔۔۔۔ سر امجد بولے نہیں نازیہ بیٹا ۔۔۔ میں نے نہیں بلایا ۔۔۔ میں نے اپنا سر جھٹکا اور آہستہ سے چلتی باہر آنے لگی سکول سے تقریباً تمام سٹوڈنٹ نکل چکے تھے میں میل ٹیچرز کو غور سے دیکھتی باہر آ گئی تھی میرے ماموں گیٹ کے پاس آ کر چوکیدار سے پوچھ رہے تھے ۔۔ مجھے دیکھتے ہوئے بولے بیٹا آج لیٹ آئی ہو ۔۔۔ طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی آپ کی ۔۔۔۔۔ میں نے اپنا سر جھٹکا اور آہستہ سے بولا بخار ۔۔۔۔۔ شام کو امی مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئی اور مجھ سے موبائل لےکر مجھے سلا دیا صبح میں قدرے فریش ہو چکی تھی امی نے سکول جانے سے منع کیا لیکن میں چلی گئی اگلے دؤ روز میں شکیلہ نے مجھے کچھ اور موویز سنڈ کر دیں میں مکمل طور پر پاگل ہو چکی تھی میرا دل چاہتا تھا میں کسی کو پکڑ لوں اور اس کا ببلو خود سے چوسنے لگوں اور زور سے اپنے اندر اتار دوں ۔۔۔۔۔۔ لیکن مکمل طؤر پر بےبس تھی سر انجد بھی اس کالے انگریز جیسے اچھے ٹیچر ثابت نہیں ہو رہے تھے میں ہر وقت اپنے بوبز اور ببلی کو مسلتی رہتی اور امی مجھے کئی بار ٹوک چکی تھی رات کو شکیلہ نے باتوں باتوں میں کہہ دیا نازیہ میں کل آپ کو بلال سے سیکس کراتی ہوں میں نے فوراً اوکے کہہ دیا پھر پوچھا کچھ ہو گا تو نہیں ۔۔۔بولی کچھ ہوتا اسے کہوں گی آپ کو پیچھے کرے مزا بھی آئے گا اور خطرہ بھی نہیں ہو گا ۔۔۔ میں نے شکیلہ کی سنڈ کی گئی اس مووی کو دیکھا جس میں ایک آدمی لڑکی کو گھوڑی بنا کر پیچھے سے کر رہا تھا میں خود کو بلال کے آگے بنی گھوڑی تصور کرتی مووی دیکھتے ہوئے بیڈ پر گھوڑی بن گئی تھی اور اپنے ہپس اس گوری کی طرح پیچھے کو ہلاتی رہی آج۔مجھے بلال بہت پیارا لگ رہا تھا مووی دیکھنے کے بعد میں نے دیکھا تو بلال کے میسج آئے ہوئے تھے میں نے ہائے کہہ دیا ۔۔۔ بولا شکیلہ نے آپ کا پیغام دے دیا ہے ۔۔۔۔۔۔ میں تو تم کو پہلے ہی کہہ رہا تھا اور تم سے بہت پیار کرتا ہوں لیکن تم مجھے لفٹ نہیں کرا رہی تھی ہماری چیٹنگ چلنے لگی شکیلہ آف لائن ہو گئی تھی بلال نے مجھے اپنے ببلو کی تصویر سنڈ کر دی اس کا سائز چھوٹا تھا لیکن بہت کیوٹ تھا بالکل گورا ۔۔۔۔ پھر اس نے بھی فرمائش کی کہ میں اپنی ببلی اور بوبز دیکھاؤں ۔۔۔ میں واش روم جا کر بہت سی تصاویر بنا لائی بلال مجھے دیکھ کے پاگل ہو رہا تھا بولا آپ کے ہپس بہت مزے کے ہیں میں آپ کو پیچھے سے کرونگا اور پانی بھی اندر ڈالوں گا تو آپ کے بوبز بھی بڑے ہو جائیں گے ۔۔۔ مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ کیا ہوتا ہے لیکن میں چاہتی تھی کہ جیسے بھی ہو مجھے وہ جلدی کرے وہ بھرے سکول میں مجھے کہاں کرے گا مجھے معلوم نہیں تھا ہاف ٹائم کے دوران کنٹین میں بلال ایک دروازے سے داخل۔ہوا اور میرے ساتھ شکیلہ کو دیکھتا ہوا دوسرے دروازے سے باہر چلا گیا شکیلہ محھے بولی بس جوس کو رکھ دو آؤ تمہیں رائل جوس پلاتی ہوں میرا جسم لرزنے لگا تھا شکیلہ مجھے واش رومز کی طرف لے گئی واش رومز کی ایک لمبی لائن تھی جس کے درمیان ایک دیوار سے اسے بوائز اور گرلز کے لئے تقسیم کیا گیا تھا شکیلہ مجھے اس آخری واش روم کے پاس لے گئی اس نے ڈراپس والی ایک چھوٹی شیشی مجھے دی جس میں سر پر لگانے والا تیل تھا آہستہ سے بولی اس واش روم میں جاؤ اور کنڈی بند کر دو وہ آ جائے گا اور تیل بلال کو دے دینا ۔۔۔ میں لرزتے بدن کے ساتھ واش روم کا ڈور بند کر کے واش روم کی دیواریں میرے ہاتھوں سے بہت اوپر تھی بس ایک منٹ بعد ہی بوائز واش روم والی سائیڈ سے بلال کے ہاتھ دیوار پر آئے اور پھر اس نے اندر جھانکا اور دیوار پر چڑھ کر نیچے اترنے لگا ہاٹ ٹائم کے شروع کے وقت میں یہاں رش ھوتا تھا اور پھر سب کنٹین کی طرف چلے جاتے تھے بلال نیچے اتر کر مجھے اپنی باہوں میں بھر گیا مجھے سکون ملنے لگا میں نے بھی اسے اپنی باہوں میں بھر لیا بلال کا قد میرے سے تقریباً ایک فٹ بڑا تھا اور وہ 16 سترہ برس کی ایج میں تھا وہ کسنگ کرتے ہوئے میری پیٹھ اپنی طرف پھیرتے ہوئے آہستہ سے بولا بس جلدی کرتے ہیں ٹائم کم ہے ۔۔۔ میں بھی یہی چاہتی تھی اس نے خود میرے ہاتھ سے تیل کی بوتل لے لی اور مجھ جھکا دیا میں نے پانی کے نل کو پکڑ لیا تھا اور ہپس اوپر اٹھا لئے تھے اور یہ سٹائل میں رات کو مووی دیکھ کر سیکھ چکی تھی بلال نے مجھے کھڑا کرتے ہوئے میرے ٹائٹ پاجامے جیسی شلوار کو گھٹنوں تک اتار کے مجھے پھر جھکا گیا اور ہلکی وش وش کی آواز سے میرے ہپس کو کسنگ کرنے لگا پھر وہ کھڑا ہو گیا اور تیل لگاتے ہوئے اپنے ببلو کو میرے ہپس کے درمیانی لکیر میں اتارنےگا گرم ببلو نے میرے پورے وجود میں کرنٹ دوڑا دئیے تھے ببلو کو میرے ہول کے منہ پر رکھا اور میرے ہپس کو پکڑ کر اپنی طرف زور سے کھینچا افففففففففف میرا ہول کٹنےگا تھا میری آواز نکلی تو بلال نے میرے ہپس پر مکا مار کر مجھے چپ رہنے کا اشارہ دیا میں نے اپنا دوپٹہ دونتوں تلے دبا دیا ببلو آگے آ رہا تھا اور میری کیفیت کچھ عجیب ہونے لگی تھی میری آنکھیں اور زبان باہر کو آنے لگے تھے اور میرا ہاتھ تڑپتی ببلی کی طرف چلا گیا تھا شاید وہ احتجاج کر رہی تھی کہ میرا حق اتھے رکھ۔۔۔۔ میں ببلی کو مسلنے لگی تھی مجھے کوئی ہوش نہیں رہا تھا میں رونا چاہتی تھی لیکن دوپٹے کو اپنے دانتوں تلے دبائے صرف خاموش آنسو ٹپکا گئی میرا اندر کٹ چکا تھا بلال نے اپنا جسم میرا ساتھ ٹکرا دیا اور آہستہ سے بولا واو نازی تیری تو بہت ٹائٹ ہے وہ میری قمیض کے اندر سے ہاتھ گزار کر میرے بوبز پر لے آیا اور ببلو کو آہستہ سے اندر باہر کرنے لگا کچھ دیر بعد مجھے اپنے اندر ریشم جیسے احساس کے ساتھ مزہ آنے لگا لیکن میں اپنی ببلی کو مسل رہی تھی بلال میرے بوبز کو کھینچ کر جھٹکے مار رہا تھا میں بھی مووی والی گوری کی طرح اپنے ہپس پیچھے دھکیلنے لگی تھی ۔۔۔ بولا واو تم تو بہت سیکسی ہو آ لو یو ۔۔۔۔کوئی دس منٹ بعد ہاف ٹائم ختم ہونے کی بل بج گئی جس کے ساتھ بلال نے اپنی سپیڈ بڑھا دی تھی اب وہ میرے ہپس کو پکڑ کر ذرا زور سے جھٹکے مار رہا تھا اور ہلکی تالی جیسی آواز مجھے مذید مدہوش کرنے لگی تھی بلال ببلو کو پورا اندر کر کے رک چکا تھا اس کی لمبی سانسوں کی آواز میرے کانوں تک آ رہی تھی ببلو اس وقت ڈنڈے کی طرح سخت ہو چکا تھا اور پھر گرم لاوا میرے اندر گرنے لگا تھا میری ببلی گیلی ہو چکی تھی مجھے بلال کا رک جانا اچھا نہیں لگ رہا تھا میں خود سے جھٹکے مارتی بولی ۔۔۔کرو۔۔۔ بلال نے اپنا ہاتھ میرے نیچے لے جا کر اپنے بائیں ہاتھ کی درمیانی فنگر میری ببلی کے ہونٹوں میں تیز تیز چلانے لگا تھا چپ چپ چپ کی ہلکی آواز میں میری آنکھیں بند ہونے لگی اور میرا جسم اکڑنے لگا دوپٹہ میرے دانتوں سے نکل گیا بلال نے اپنا دوسرا ہاتھ میرے لبوں پر رکھ کر میری آوازیں بند کر دیں تھی مجھے اب مزا آیا تھا میں سوچ رہی تھی کہ ببلو یہیں آگے ڈالنا تھا ۔۔۔۔ میں نارمل ہونے لگی تو بلال نے اپنا ببلو باہر نکالا لیا اور میری شلوار کو اوپر کرتے اور پینٹ پہن کر پانی کے نل پر پاؤں رکھ کر دیوار پھلانگ گیا میں نے اپنا لباس درست کیا اور دوپٹے سے اپنا پسینہ خشک کرتے جی چاہا رہا تھا کہ میں قہقہے لگاؤں مجھے بہت مزہ آ گیا تھا اور میں پرسکون ہو گئی تھی ۔۔۔۔ میں باہر آنے لگی مجھے اپنے ہپس کے درمیان چپک محسوس ہو رہی تھی اور چلنے میں تھوڑی دشواری بھی لیکن میں خود کو نارمل رکھتے ہوئے کلاس روم کی طرف آ گئی کلس کب کی شروع ھو چکی تھی مس طاہرہ کی ڈانٹ کھانے کے بعد میں نے بک نکال لی تھی اور آج تقریباً ایک ہفتے بعد مجھے بک پر کچھ الفاظ نظر آنے لگے تھے ۔۔۔۔۔ رات کو میں بلال کے میسج کے انتظار میں تھی اس نے آن لائن ہوتے ہی پہلا میسج کیا کہ آج تک میں 25 لڑکیوں کو کر چکا لیکن تیرے جیسا مزہ کسی نے نہیں دیا پھر اس نے مووی سنڈ کی یہ میری مووی تھی جو وہ پیچھے سے بناتا رہا اس وقت مجھے ہوش نہیں تھا مووی دیکھ کر مجھے بھی معلوم ہوا کہ واقعی میں بہت خوبصورت جسم کی مالک ہوں ۔۔۔۔۔۔ بلال بولا پھر کب کرو گی ؟؟ میں نے کہا جیسے تم بولو۔۔۔ بولا کل ؟؟؟ میں نے یس کہہ دیا وہ بہت خوش ہو گیا ۔۔۔ اگلے روز میں واش روم سے ہو خر باہر لان میں کھڑی ہو گئی تیل میں ساتھ لے آئی تھی سب کنٹین کی طرف چلے گئے تو بلال اپنے کلاس روم سے نکل کر ادھر آنے لگا میں جلدی سے واش روم میں چلی گئی کل کی نسبت آج اس نے زیادہ وقر لگایا تھا ببلو بھی آسانی سے اپنا سفر کرتا رہا بلال نے خود ہی انگلی سے ببلی کو مست کرنا شروع کر دیا تھا میں آگے پیچھے مزے کے وادیوں میں تھی اور بلال سے پہلے ڈسچارج ہو گئی اور جیسے بلال نے اپنا لاوا میرے اندر انڈیلا مجھے لگا کہ مجھے اس پانی کی بھی پیاس تڑپا رہی تھی میں پرسکون ہو گئی اور وقت پر کلاس روم آ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ہفتے میں ہم نے چار بار شاندار سیکس کیا اور مجھے بلال سے محبت ہو گئی تھی کوئی لڑکی اس کی طرف دیکھتی تو مجھے آگ لگ جاتی ۔۔۔۔ ایک ہفتے بعد گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئیں تھی اور میں بہت روئی تھی ۔۔۔۔ بلال سے دن رات چیٹنگ ہوتی تھی میں دو دن بعد ہی بےقرار ہو گئی تھی کسی جگہ سکون نہیں مل رہا تھا شکیلہ اپنے گارڈ سے ڈیلی سیکس کر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ پانچ روز بعد میں گھر سے بھاگ جانا چاہتی تھی پچھلا حصہ بہت بےتاب تھا وہ گرم لاوا پینا چاہتا تھا بلال بھی بہت بےتاب تھا اسے بھی مجھ سے پیار ہو گیا تھا اور ہمہ وقت آن لائن ہو کر مجھ سے باتیں کر رہا تھا بلال نے عہد کر لیا تھا کہ وہ شادی صرف مجھ سے کرے گا یہ میرے لئے بہت بڑی خوشخبری تھی کیونکہ اس دنیا میں بلال سب سے عزیز تر تھا اور بلال کے سوا مجھے کچھ نظر نہیں آتا تھا لیکن میرے ساتھ بلال کے بھی بہت سے مسائل تھے اور ہم شادی کر کے محبت کو پروان نہیں چڑھا سکتے تھے ہم دونوں بچے تھے اور جذبات میں آگے بڑھتے جا رہے تھے ہم کسی سے کوئی بات شئیر نہیں کر رہے تھے اور اپنی مرضی کے فیصلوں کی طرف بڑھ رہے تھے ایک روز بلال بولا نازیہ ہم لو میرج کر لیتے ہیں میں نے پوچھا تو بولا بس جس دن میرے ہاتھ زیادہ پیسے لگ گئے ہم دونوں یہاں سے بھاگ جائیں گے ۔۔ بہت دور گاؤں میں میرا دوست رہتا ہے بس وہاں جا کر شادی کرکے اپنی الگ سی زندگی گزاریں گے میں نے بلا سوچے سمجھے اسے ہاں کر دی کراچی جیسے بڑے شہر میں زندگی گزارتے ہوئے میں اس شہر سے باہر کبھی نہیں گئی تھی اور ٹی وی ڈراموں میں گاؤں کی زندگی مجھے بہت اچھی لگتی تھی ۔۔۔



جاری ہے

Post a Comment

0 Comments