میمونہ اور ثناء
قسط 38
شام ہو چکی تھی۔۔ خوش بو ہر طرف پھیل رہی تھی۔۔۔ میں نے حور سے کہا کہ میرے ساتھ ساتھ رہنا۔۔۔ حور نے مجھے کس کر پکڑ لیا۔۔ میں نے اسے وہیں کھڑے کھڑے اسے سینے سے لگا لیا اور ایک لمبی کس دی۔۔۔۔ بہت سے لوگ دیکھ رہے تھے جو خاندان کے نہیں تھے بلکہ میرے لیے اجنبی تھے۔۔۔۔ حور نے مجھے منع نہیں کیا۔۔۔ ایک خاتون آگے آئیں اور مجھ سے کہنے لگیں کہ برخوردار یہاں اس قسم کے کام عوام میں نہیں ہوتے۔۔۔ اگر آپ نے چوما چاٹی کرنی ہے تو اندر چلے جائیں۔۔۔ یہاں ہماری بہو بیٹیاں ہیں وہ پسند نہیں کرتیں۔۔۔ ابھی وہ یہ بات کر ہی رہی تھیں کہ ایک انتہائی خوب صورت اور چنچل قسم کی لڑخی ہمارے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔ مجھ سے بولی: سر آپ سر احمد ہیں نا امریکہ سے آئے ہیں نا؟ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جی ہاں میں ہی ہوں۔کہنے لگی کہ آپ بہت خوش قسمت ہیں۔۔۔ ہمارے محلہ کی سب سے پیاری اور سب سے قیمتی لڑکی سے آپ کی شادی ہوئی ہے۔۔۔ میں نے شکریہ ادا کیااور کہا کہ ہاں واقعی میں خوش نصیب ہوں اور اس کا مجھے یقین ہے۔۔۔ کہنے لگی کہ میں زرعی یونی میں پڑھتی ہوں اور آپ کے لیکچر میں بھی تھی۔۔۔ کیا کمال کا لیکچر تھا آپ کا۔۔۔ مزید کہنے لگی کہ اگر میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہوں تو آپ منع تو نہیں کریں گے؟ میں نے کہا کہ نہیں لیکن اس وقت نہیں کیونکہ اس وقت شادی کی تقریب چل رہی ہے اور ابھی واجد بھائی کا نکاح ہے اور پھر بعد میں کبھی بھی ۔۔۔ اب تو میں آپ کے محلہ کا داماد ہوں تو کسی وقت بھی آپ مجھے تنگ کر سکتی ہیں۔۔۔ اس نے بھرپور مسکراہٹ دی اور آنکھ کا ایک کونا دبا کر کہنے لگی کہ کسی وقت بھی؟۔۔ میں نے بھی آنکھ کا کونا دبایا اور کہا کہ جی بالکل کسی وقت بھی۔۔۔۔ اتنا کہہ کر اس نے کہا کہ آپ اپنا ای میل یا کوئی کونٹیکٹ دے دیجیے میں آپ سے رابطہ کر لوں گی۔۔۔ میں نے کہا کہ اوکے اور جیب سے اپنا کارڈ نکال کر اسے دے دیا۔۔۔۔ وہ شکریہ ادا کر کے چلی گئی۔۔۔۔ مجھے لگا کہ وہ مجھ سے چدوائے گی۔۔۔ حور میرے ساتھ چمٹی ہوئی تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ میں اس کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔۔۔ مجھے اس سے ایک سیکنڈ کے لیے الگ ہونا بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔۔۔۔ حور کسی کے متعلق کچھ کہنے لگی تو میں نے اسے کہا کہ پیاری بس اپنی اور میری بات کرو۔۔۔ فی الحال میں کسی کے متعلق نہ تو سوچنا چاہتا ہوں نہ ہی کسی اور کو تمہاری جگہ برداشت کر سکتا ہوں۔۔۔ حور نے میرے بازو پر بوسہ دیا۔۔۔ حور،میں اور واجد شاہانہ کے ساتھ صوفوں پر ساتھ ساتھ بیٹھ چکے تھے اس طرح کہ میں اور واجد سائڈز پر اور دونوں دلہنیں درمیان میں ہمارے ساتھ ساتھ۔۔۔ سبھی صدقے واری جا رہے تھے۔۔۔ وہ لڑکی جو مجھ سے کارڈ لے کر گئی تھی وہ سامنے موبائل میں ہماری تصاویر یا ویڈیو بنا رہی تھی۔۔۔۔اس کے چہرے پر ایک عجیب سے پراسراریت دکھائی دے رہی تھی اور اس کی مسکراہٹ ذومعنی لگ رہی تھی لیکن وہ بلا کی حسین تھی۔۔۔۔ اس کے بال لمبے گھنے اور سیاہ تھے۔۔۔ اس کی پلکیں بھی لمبی اور بھنویں عام لڑکیوںکی نسبت گھنی تھیں۔۔۔ اس کی جلد کا رنگ ایسا تھا کہ جیسے دودھ میں جامِ شیریں ملا دیا گیا ہو۔۔۔ میں اس میں کھو سا گیا تھا۔۔۔اب وہ فون پر کسی کو میسج کر رہی تھی۔۔۔ میں نے حور کے ہاتھ پر دباؤ بڑھا لیا تھا۔۔۔ میری حور کے چہرے پر بلا کا اطمنان تھا۔۔۔ اس نے مجھے تسخیر کر لیا تھا۔۔۔۔میں حقیقت میں اس کا ہو چکا تھا۔۔۔ لیکن باہر کی موجیں بھی مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔۔۔ ہم سب خوش تھے لیکن میں مطمئن تھا اور مجھ سے زیادہ مطمئن میری حور دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ نکاح ہو گیا۔۔۔ مٹھائی کھلائی گئی۔۔۔۔ کھانا ہوا ۔۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ فوراً حور کو لے کر کمرے میں چلا جاؤں اور اسے سینے سے لگا کر خاموشی سے لیٹ جاؤں اور کوئی ہمیں ڈسٹرب نہ کرے۔۔۔۔لیکن کیا کریں کہ شادی کی رسمیں ادا ہو رہی تھیں۔۔۔ ملیحہ اور فریحہ بھی فیملی سمیت آ چکے تھے اور تینوں ماں بیٹیاں میرے اور حور کے اردو گرد گھوم رہی تھیں۔۔۔ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ تینوں مجھ سے چد چکی ہیں۔۔ شمائلہ بھائی بھائی کہتے نہ تھک رہی تھی اور فریحہ اور ملیحہ انکل انکل اور باجی باجی کہہ کر لپٹ رہی تھیں اور لوگ کتنا رشک کر رہے تھے۔۔۔ سب کو یہی بتایا گیا تھا کہ میں شمائلہ کا کزن ہوں اور یہ شادی شمائلہ اور ان کے میاں نے کروائی ہے۔۔۔ سب سے زیادہ تحائف انہی کی طرف سے آئے تھے۔۔۔ فرخندہ کے لیے قیمتی ہیروں کا ہار اور بہت قیمتی ملبوسات۔۔۔ میرے لیے بہت قیمتی ہیرےکی انگوٹھی اور ملبوسات نیز گھڑی۔۔۔ مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا۔۔ ایک تنہا شخص کو سب رشتے مل گئے تھے۔۔۔ میں ان کی بہت قدر اپنے دل میں محسوس کر رہا تھا۔۔ جن حالات میں یہ تعلق بنا تھا وہ پس منظر میں جا چکے تھے۔۔۔ سب کی محبت بے لوث اور ازحد قیمتی ہو چکی تھی۔۔شمائلہ نے ٹھیک بتایا تھا کہ سیکس پارٹیز تو ہوتی ہیں لیکن ان کا تذکرہ بعد میں نہیں کیا جاتا اور سب ایک دوسرے کا احترام حد سے زیادہ کرتے ہیں اسی لیے تو یہ سیکس پارٹیاں سال ہا سال سے چل رہی تھیں اور کسی کو کسی سے کوئی اختلاف یا مسئلہ نہیں پیدا ہوا تھا۔۔۔ یہ عجیب طرح کی محبت تھی جو کہیں بھی جلن اور حسد پیدا نہیں ہونے دیتی تھی۔۔۔ حور میرے دلو دماغ اور روح پر قبضہ کر چکی تھی اور وہ میری ہو چکی تھی لیکن وہ پارٹی کے رولز کو بھی فالو کر رہی تھی اور اسے ذرا بھی حسد نہیں تھا اور نہ ہی کوئی فکر تھی کہ میں اسے چھوڑ کر کسی اور کا ہو جاؤں گا کیونکہ اس نے مجھے بتایا تھا کہ اگر ہم ایک دوسرے پر کوئی پابندی لگائیں تو خطرہ ہے کہ ایک دوسرے سے تنگ ہو کر الگ ہو جائیں اس لیے پارٹی میں یہ اصول رکھا گیا تھا کہ کوئی کسی پر کوسی قسم کی قدغن نہیں لگائے گا اور سب کو مکمل آزادی ہو گی اس لیے نہ کوئی کسی سے حسد کرے اور نہ ہی کسی کی تحقیر کرے۔۔۔ اور اس اصل پر سب خاندان قائم تھے اور اسی لیے سیکس پارٹی قائم تھی اور کامیابی سے جاری و ساری تھی۔۔۔ جب ہر پھدی اور ہر لوڑا آپس میں آزاد تھے کہ کوئی بھی کسی کے ساتھ وقت گزارے اور سب خوشی سے لگے رہیں تو کسی کو کیا حسد اور جلن ہو گی۔۔۔یہی سنہرا اصول تھا جس پر کامیابی کا دارومدار تھا۔۔۔۔۔
رات بھیگ چکی تھی۔۔۔ قریبی مہمان اور گلی محلہ والے اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔۔۔تھوڑے لوگ رہ گئے تو وہ لڑکی اور اس کی وہی ماں جس نے مجھے اور حور کو سب کے سامنے کسنگ کرنے پر منع کیا تھا ہمارے پاس آئیں اور ایک لفافہ حور کو اور ایک شاہانہ کو دیا ساتھ کچھ پھول تھے اور رخصت چاہی۔۔۔ وہ لڑکی بولی کہ وہ جلد میسج کر کے اپنے سوالات بھیجے گی۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے اور پھر وہ بھی چلے گئے۔۔۔ اب صرف وہی مہمان بچے تھے جنہوں نے رات یہیں رکنا تھا۔۔۔ سب کو ان کے کمروں میں بھیج دیا گیا۔۔۔ میں واجد ، شاہانہ اور میری حور باقی بچے تھے۔۔۔ ملیحہ نے میری حور کو اٹھایا اور کہا کہ باجی چلیں آپ کے بیڈ روم میں۔۔۔ اور شاہانہ کو فریحہ نے اٹھایا اور بیڈ روم کی طرف لے چلی۔۔۔ دونوں بیڈ رومز ساتھ ساتھ تھے اور دونوں کے درمیان اٹیچ باتھ تھا اور دونوں کے دروازے اسی اٹیچ باتھ مین کھلتے تھے۔۔۔ شاہانہ کے امی ابو اورچھوٹے بہن بھائی اور ادھر فرخندہ کے امی ابو اور نائلہ سب موجود تھے۔۔۔ شمائلہ بار بار میری بلائین لے رہی تھی۔۔۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔ کاش یہ میری سگی بہن ہوتی۔۔۔ کاش میرے اماں ابا زندہ ہوتے تو کتنا خوش ہوتے۔۔۔۔ملیحہ نے فرخندہ کوسنبھالا ہوا تھا۔۔۔ پتہ نہیں رات کا کیا پلان تھا۔۔۔ لیکن میرا دل تو یہی تھا کہ میں اور میری حور بس اور کوئی نہ ہو آج رات کمرے میں ۔۔۔ لیکن میں کسی اصول کے الٹ نہٰں چل سکتا تھا۔۔۔۔ اس لیے خاموش سے کمرے میں آ گیا۔۔۔۔ کمرے میں آ کر معلوم ہوا کہ آج کی رات ہم دونوں اکیلے گزاریں گے اور ہمارے ساتھ اور کوئی نہیں ہو گا۔۔۔ ہاں اگر ہم چاہیں تو واجد اور شاہانہ کے ساتھ مل کر رات گزار سکتے ہیں وہ بھی کوئ پابندی نہیں تھی۔۔۔ میں دل میں بہت خوش ہو گیا۔۔ ملیحہ اندر آتے ہیں مجھ سے لپٹ گئی کہ انکل آپ کی جوڑی بہت پیاری لگ رہی ہے۔۔۔ میں نے بھی اسے پیار کیا اور شکریہ ادا کیا۔۔۔ ابھی ہم الوداعی مل رہے تھے کہ فریحہ بھی آ گئی اور ملیحہ واجد کے کمرے میں چلی گئی۔۔۔ فریحہ نے مجھے پیار کیا اور کہا کہ انکل کل ملتے ہیں اور پھر فرخندہ سے گلے مل کے اجازت لے کر باہر چلی گئی۔۔ شمائلہ بھی ہم سے رخصت لے کر واجد کے کمرے میں گئی اور پھر واپس ہمارے پاس آئی اور کہنے لگی کہ شاہاننہ مجھے رکنے کا کہہ رہی ہے اس لیے میں آج رات شاہانہ کے ساتھ رہوں گی۔۔۔میں سمجھ گیا کہ واجد کا دل ہے آنٹی کی گانڈ مارنے کا۔۔۔ شمائلہ نے ہم دونوں کو کس کیا اور ملیحہ لوگوں کو رخصت کرنے باہر گئیں اور پھر واپس سیدھی واجد کے کمرے میں چلی گئیں۔۔۔ میں نے اندر سے کنڈی چڑھانا چاہی لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کسی بھی دروازے کی اندر سے کوئی کنڈی یا لاک نہیں ہے۔۔۔ میں خاموش رہا۔۔۔۔ اور کوٹ اتار کر صوفے پر بھینک دیا اور اپنی حور کو ساتھ چمٹا لیا۔۔۔ حور کو چمٹائے چمٹائے کسنگ کرتے کرتے بیڈ تک لایا اور بغیر کپڑے اتارے بیڈ پر لیٹ گیا۔۔۔ میں نے اپنی حور کے منہ میں منہ ڈالا ہوا تھا اور بس سینے سے چمٹائے چمٹائے کسنگ کر رہا تھا۔۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ رات ساری کسنگ میں ہی گزر جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔۔۔ کسنگ کرتے کرتے نہ جانے کب میں نیند کی آغوش میں چلا گیا۔۔۔۔ کیونکہ حور تو بہت دیر پہلے سو چکی تھی۔۔۔۔ وہ سوئی ہوئی ننھا سا فرشتہ لگ رہی تھی۔۔۔۔ رات کے کسی پہر مجھے لگا کہ کوئی میرا لوڑا چوس رہا ہے۔۔۔ میں نے مدھم سی روشنی میں دیکھا تو وہ شاہانہ تھی۔۔۔ میں نے اسے لگا رہنے دیا۔۔۔ حور تو بڑے سکون سے سوئی ہوئی تھی۔۔۔ جبکہ واجد کے کمرے سے شمائلہ کے چدنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔ شاہانہ ننگی ہی میرے پاس لیٹی تھی اور میرا لوڑا ننگا کر کے چوس رہی تھی۔۔۔تھوڑی دیر بعد شاہانہ میرے لوڑے کی سواری کر رہی تھی۔۔۔ میرا دل تو نہیں کر رہا تھا لیکن خاموش رہا۔۔۔ وہ اچھلتی رہی پھر مجھے بھی جو آ گیا اور میں نے اسے کتیا بنا کر چودنا شروع کر دیا۔۔۔ حور آرام سے سو رہی تھی۔۔۔ میں شاہانہ کو چود رہا تھا۔۔۔ تھوڑٰ دیر چوت می ں چودنے کے بعد میں نے اس کی گانڈ میں لوڑا ڈال دیا اور پھر جڑ تک اندر کر کے مزید زور لگایا اور اندر دھکیل کر وہیں رک گیا۔۔۔ اور مزید اندر کو زور لگانے لگا۔۔۔ میرا لوڑا مجھے اس کی گانڈ میں پھولتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔ اس کی گانڈ بہت مزے کی تھی۔۔ میں نے اس کو گانڈ مٰن لوڑا ڈالے ڈالے ہی اٹگا لیا اور اس کے کمرے میں لے گیاجہاں شمائلہ کی گانڈ واجد مار رہا تھا۔۔۔۔ دونوں کی گانڈ اب کھڑک رہی تھی۔۔۔ پھر شاہانہ نے واجد سے کہا کہ میں گانڈ میں دو لوڑے لینا چاہتی ہوں۔۔۔ یہ میرا خواب تھا کہ سہاگ رات کو دو لوڑے گانڈ میں لینے کی ٹرائی کروں گی۔۔۔ تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے واجد آ گیا۔۔۔ میں نیچے لیٹا ہوا اپنےلوڑے کو اس کی گانڈ میں ڈال کر واجد کے لوڑے کا انتظار کرنے لگا جو میرے لوڑے سے چھوٹا اور پتلا تھا۔۔۔ اچانک واجد نے اپنا لوڑا میرے لوڑے پر رکھ کر ایک دھکا مارا اور سارا لوڑا یک دم شاہانہ کی گانڈ میں گھسا دیا۔۔۔ جتنی مرجٰ گانڈو تھی لیکن ایسا لگا کہ شاہانہ کی گانڈ پھٹ چکی ہے اور اس کی چیخ نکلی جو میرے منہ میں چلی گئی کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کی زبان چوس رہے تھے۔۔۔ میں نے اس کس کر پکڑاہوا تھا اور واجد سے کہا کہ زور لگا کر سارا گھسا دو۔۔۔ میرے ذہن میں آیا کہ آج شمائلہ بہن کی گانڈ میں بھی دونوں لوڑے گھسانے کا وقت آ گیا ہے چنانچہ کوئی آدھا گھنٹہ شہانہ کی گانڈ چودنے کے بعد شمائلہ کی گانڈ کا نظارہ کیا جبکہ شاہانہ اپنی پھٹی ہوئی گانڈ کو لے کر باتھ روم میں گھس چکی تھی۔۔۔ اس سے چلا نہیں جا رہا تھا۔۔۔۔ شمائلہ کی گانڈ میں دو لوڑے گھس کر دھپا دھپ کر رہے تھے۔۔۔ کوئی بیس منٹ کی زور دار چدائی کے بعد واجد ڈسچارج ہو گیا اور پھر میں اکیلا ہی شمائلہ کی پھدی میں لوڑا ڈال کر دھمال کرتا رہا اور کوئی پندرہ منٹ اسے مزید چودنے کے بعد اس کی گانڈ میں ڈسچارج ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد ہی اپنے روم میں آ کر اپنی حور کے ساتھ لیٹ کر سو گیا۔۔۔۔
جاری ہے
0 Comments