Pathan larki - Episode 1

پٹھان لڑکی


قسط 1 


یہ کہانی بھی پہلے کی طرح سچی ہے تاہم اس کے کرداروں کے نام تبدیل کردیئے گئے ہیں تاکہ کسی کی شناخت ظاہر نہ ہوسکے یہ کہانی میرے ایک ماتحت کولیگ مظفر خان‘ اس کی بیوی روزینہ اور میری ہے اور اسے میں آپ لوگوں کے سامنے روزینہ کی زبانی پیش کررہا ہوں یہ کہانی میں روزینہ کی مرضی سے لکھ رہا ہوں پہلے تو روزینہ نے مجھے کہانی لکھنے سے منع کردیا لیکن بعد میں میری طرف سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط اور مسلسل اصرار پر اس نے اجازت دے دی اگر وہ مجھے اجازت نہ دیتی تو میں یہ کہانی کبھی بھی نہ لکھتا کہانی لکھنے کی اجازت دینے پر میں روزینہ خان کا بہت شکر گزار ہوں اور یہ کہانی بھی میں اسی کے نام کررہا ہوں

میرا نام روزینہ خان ہے اور میری عمر 27 سال کے قریب ہوگی میرا تعلق کوئٹہ کے ایک پٹھان خاندان کے ساتھ ہے میری شادی 11 سال پہلے مظفر خان کے ساتھ ہوئی تھی جو اس وقت مجھ سے دس بارہ سال بڑا ہوں گے میں بہت زیادہ نہیں تو ایوریج خوب صورت ہوں جبکہ مظفر مجھ سے زیادہ ہینڈ سم اور بھر پور مرد تھے میں اس وقت بھی کافی حد تک پرکشش جسم کی مالک ہوں جبکہ مظفر مجھ سے بہت بڑی عمر کے معلوم ہوتے ہیں کوئی بھی ہم دونوں کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ان کی بیوی ہوں مظفر ایک سرکاری محکمہ میں ملازم ہیں اور ان کی پوسٹیں شروع سے ہی کوئٹہ میں رہی ہے دو سال پہلے ان کی لاہور پوسٹنگ ہوئی اس وقت سے ہم لوگ لاہور میں رہائش پذیر ہیں پٹھان خاندانوں کی روایات کے برعکس ہمارے 3 بچے ہیں (حالانکہ کہ پٹھانوں کے دس دس بارہ بارہ بچے ہوتے ہیں) شادی کے 2 سال میں امید سے ہوئی تو خاندان میں بہت سی خوشیاں منائی گئیں لیکن میری ازواجی زندگی پر اس کے بہت برے اثرات مرتب ہوئے مظفر اب مجھ سے ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ ہی ہم بستری کرتے تھے تین ماہ ایسے ہی گزر گئے اس کے بعد مظفر میرے پاس آنے سے بھی کتراتے میں کبھی کبھی دبے لفظوں میں ان سے ان کی بے رخی پر احتجاج کرتی تو کہتے تم امید سے ہو ایسا کرنے سے بچا ضائع ہوسکتا ہے کچھ مہینوں کی ہی تو بات ہے پھر ٹھیک ہوجائے گا آخر نو ماہ گزر گئے اور میں نے ایک خوبصورت بچے کو جنم دیا سوا مہینہ گزارنے کے بعد مظفر پھر سے میرے ساتھ ہم بستری کرنے لگے مگر ان میں پہلے جیسا جوش نہیں تھا ان کی طرف سے جوش میں کمی کو میں بہت بری طرح محسوس کررہی تھی لیکن کچھ نہ کرسکی مزید کچھ عرصہ گزرا اور ہمارے ہاں دو مزید بچے پیدا ہوگئے جبکہ ہم میاں بیوی کے درمیان مزید دوریاں پیدا ہوگئیں جس کی وجہ سے میں گھر میں گھٹن سی محسوس کرنے لگی ایسے ہی ہماری شادی کو نو سال کا عرصہ گزر گیا اب مظفر عمر کے اس حصہ میں پہنچ گئے تھے جہاں وہ مہینے میں ایک آدھ بار ہی میرے پاس آیا کرتے تھے کئی بار وہ مجھے ادھورہ ہی چھوڑ کر خود مجھے سے الگ ہوجاتے تھے جس پر مجھے بہت ہی ڈپریشن ہوتی تھی میں گھٹ گھٹ کر جی رہی تھی ایک دن مظفر گھر آئے تو بہت پریشان تھے میں نے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس کی ٹرانسفر لاہور ہوگئی ہے ان کے ساتھ میں بھی پریشان ہوگئی کہ پہلے تو مہینے میں ایک آدھ بار میرے قریب آجاتے تھے سیکس نہ ہی سہی کم از کم ان کا قرب تو مجھے نصیب تھا اب وہ لاہور چلے گئے تو میں مزید تنہائی کا شکار ہوجاﺅں گی مظفر نے اپنے کئی ہمدردوں اور دوستوں کو ٹرانسفر رکوانے کے لئے کہا مگر کچھ نہ بنا آخر ایک ہفتہ کے بعد مظفر ہم سب کو چھوڑ کر لاہور آگئے لیکن اگلے ہی مہینے وہ پھر کوئٹہ گئے اور مجھے بچوں سمیت لاہور لے آئے یہاں انہوں نے ایک مناسب سا گھر کرایہ پر لے لیا اور بچوں کو ایک سرکاری سکول میں داخل کرادیا یہاں بھی مظفر مسلسل کوئٹہ تبادلہ کرانے کے لئے کوشاں رہے مگر ناکامی ہوئی کوئٹہ میں جوائنٹ فیملی اور اپنا ذاتی گھر ہونے کی وجہ سے ہمارا گزر بسر بہت اچھا ہورہا تھا مگر لاہور میں آکر ہم مظفر کی محدود تنخواہ میں ہینڈ ٹو ماﺅتھ کی پوزیشن میں آگئے مہینے کے آخر میں گھر میں سب ختم ہوجاتا


جاری ہے 

*

Post a Comment (0)