پٹھان لڑکی
3 قسط
اور تم بھی میرے ساتھ چلو گی میں خاموش رہی
اتوار کے روز مظفر نے مجھے صبح دس بجے کہا کہ تیار ہوجاﺅ آج ہمیں دوپہر کا کھانا شاکر صاحب کے ہاں کھانا ہے میں نے انکار کیا تو کہنے لگے مجھے نہیں معلوم تم جلدی سے تیار ہوجاﺅ اور میرے کپڑے بھی پریس کردو میں نہ چاہتے ہوئے بھی کپڑے چینج کرکے ان کے ساتھ چل دی ہم رکشہ لے کر شاکر صاحب کے گھر چلے گئے ان کے گھر گئے تو ایک نوکر نے دروازہ کھولا اور ہمیں ایک کمرے میں بٹھا دیا اور چائے کے ساتھ بسکٹ دیئے اس نے بتایا کہ شاکر صاحب تو ابھی گھر سے باہر گئے ہیں تھوڑی دیر تک آجائیں گے تھوڑی دیر کے بعد شاکر صاحب بھی گھر آگئے اور ساتھ میں بڑے بڑے شاپروں میں کھانا لے آئے شاپر نوکر کو پکڑا کر خود ہمارے پاس بیٹھ گئے میں یہ بات نوٹ کررہی تھی کہ شاکر بار بار میری طرف دیکھتا اور میرے جسم کا جائزہ لیتا تھا میں خاموشی سے بیٹھی رہی باتوں باتوں میں شاکر نے کہا کہ بھابھی لگتا ہے آپ یہاں ایزی فیل نہیں کررہیں میں نے انکار میں سر ہلایا تو کہنے لگا کہ پھر آپ ابھی تک خاموش بیٹھی ہوئی ہیں میرے گھر میں کوئی خاتون نہیں ہے اس لئے مجھے ہی آپ کو کمپنی دینا ہوگی آپ اپنے ہی گھر میں بیٹھی ہیں
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں میں آپ کی باتیں انجوائے کررہی ہوں “
آپ کو ہمارے دفتر کی باتوں سے کون سی انجوائے منٹ مل رہی ہے
بس ٹھیک ہے آپ باتیں کیجئے
اچھا آپ بتائیں لاہور آکر کیسا فیل کررہی ہیں
ٹھیک
بچوں کی پڑھائی کیسی چل رہی ہے
ٹھیک ہی ہے
ویسے پہلے پہل مظفر تو بہت تنگ تھا لیکن اب کافی حد تک ایڈجسٹ کرچکا ہے
”نہیں سر ایسی بات نہیں مجبوری ہے ورنہ میرا بس چلے تو ایک منٹ بھی لاہور میں نہ ٹھہروں “اس بار میری بجائے مظفر نے جواب دیا
یار نوکری میں تو ایسا ہوتا ہے
ہاں سر مگر آپ کچھ کیجئے نہ
میں کیا کرسکتا ہوں
سر آپ چاہیں تو میری ٹرانسفر دوبارہ کوئٹہ ہوسکتی ہے
مظفر تم کو معلوم ہے کہ پالیسی کتنی سخت ہوگئی ہے میں فی الحال کچھ بھی نہیں کرسکتا ہاں اگر تم کہوں تو میں کراچی یا اسلام آباد کے لئے ٹرائی کرسکتا ہوں
سر نہیں ابھی بہت مشکل سے یہاں تھوڑا سا دل لگا ہے وہاں پھر جاکر نئے سرے سے شروع کرنا پڑے گا
ہاں یہ تو ہے
لیکن سر آپ کوشش ضرور کیجئے گا
ٹھیک ہے
اب پھر شاکر نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ بھابھی مظفر آپ کو آﺅٹنگ پر بھی لے کر گیا ہے یا نہیں
نہیں میں نے خود ہی کبھی ان سے نہیں کہا اور ویسے بھی میری عادت ہی ایسی ہے کہ کم ہی گھر سے نکلتی ہوں کوئٹہ میں تو اپنے رشتہ داروں کے ہاں بھی جانے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا تھا اور بڑوں سے اجازت لینا پڑتی تھی یہاں تو پھر بھی کبھی کبھی مظفر مجھے کہیں نہ کہیں لے جاتے ہیں میں اب کافی حد تک خود کو ایزی فیل کررہی تھی لیکن شاکر کی نظریں اب بھی مجھے میرے جسم کے اندر جانکتی ہوئی محسوس ہوتی تھی
لیکن بھابھی یہ لاہور ہے اور یہاں خود کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے یہاں کے ماحول کے حساب سے رہنا پڑے گا
میں پھر خاموش ہوگئی
کھانا کے دوران مظفر اور شاکر باتیں کرتے رہے اور میں خاموشی سے بیٹھی تھوڑا بہت کھاتی رہی کھانا بہت لذیز تھا کھانے کے بعد ہم پھر کمرے میں آبیٹھے جہاں آکر شاکر نے کہا کہ اب کھانا تو کھا لیا ہے آج چائے بھابھی کے ہاتھ کی پیئں گے
مظفر نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ روزینہ تم چائے بنا لاﺅ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور شاکر میری رہنمائی کرتے ہوئے کچن تک لے آیا اور مجھے دودھ چائے اور چینی دے کر خود کمرے میں جابیٹھا میں چائے لے کر کمرے میں گئی تو دونوں قہقہے لگا رہے تھے
” واہ چائے تو بہت مزیدار ہے “شاکر نے پہلا گھونٹ لیتے ہی بول دیا
”ہاں بھئی ہماری بیگم کھانا بھی بہت اچھا بناتی ہیں لیکن ہمارے روائتی کھانے شائد آپ پنجابی لوگ پسند نہ کریں “مظفر نے جواب دیا
نہیں یار تم نے کبھی دعوت ہی نہیں دی ہم کیسے کھا سکتے ہیں بھابھی کے ہاتھ کے پکے کھانے ویسے مجھے افغانی کھانے بہت پسند ہیں
نہیں سر آپ جب دل چاہے آجائیں
ٹھیک ہے کسی دن پروگرام بنائیں گے
ہاں ٹھیک ہے لیکن سر آنے سے ایک دو دن پہلے بتا دیجئے گا
ٹھیک ہے
مظفر اور شاکر دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اس دوران شاکر کبھی کبھی مجھے بھی مخاطب کرلیتا جبکہ میں صرف ہوں ہاں میں جواب دیتی جبکہ شاکر بار بار مجھے بار بار گھور رہا تھا باتوں باتوں میں شام کے چار بج گئے اب مظفر نے شاکر سے اجازت لی تو شاکر اندر سے دو پیکٹ اٹھا کر لایا اور مجھے تھما دئےے اور کہا کہ بھابھی یہ میری طرف سے آپ کے لئے گفٹ ہیں آپ پہلی بار میرے گھر آئی ہیں جلدی میں بازار سے صرف یہی لا سکا ہوں اور مظفر یہ تمہارے لئے ایک پیکٹ اس نے مظفر کے ہاتھ میں دے دیا
”سر اس کی کیا ضرورت تھی “مظفر نے پیکٹ پکڑتے ہوئے کہا
نہیں نہیں یار آپ لوگ پہلی بار میرے گھر آئے ہو پھر معلوم نہیں زندگی کہاں لے جائے
اس کے بعد شاکر ہم کو گھر تک چھوڑنے آیا اور گھر کے دورازے تک چھوڑ کر خود چلا گیا
گھر آکر میں نے مظفر سے کہا کہ میں آئندہ کبھی کسی کے گھر نہیں جاﺅں گی تم نے دیکھا تمہارا باس مجھے کس طرح گھور رہا تھا لیکن مظفر نے کہا کہ شاکر ایسا آدمی نہیں ہے بہت اچھا ہے دفتر میں مجھے کبھی بھی محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں اس کا ماتحت ہوں اور تم کو خواہ مخواہ ہی ایسا محسوس ہورہا ہے اس کے بعد مظفر نے تینوں پیکٹ خود ہی کھول دیئے دوپیکٹس میں ہم دونوں کے سوٹ تھے جبکہ ایک میں میرے لئے جیولری تھی کافی مہنگی معلوم ہوتی تھی مظفر نے دیکھ کر کپڑوں اور جیولری کی تعریف شروع کردی اور مجھ سے کہا کہ کس دن شاکر صاحب کو اپنے گھر کھانے کو مدعو کروں میں نے کہا کہ جس دن مرضی کرلیں مگر میں ان کے سامنے نہیں جاﺅں گی مظفر نے جواب دیا نہ جانا تمہاری مرضی اگلے اتو ار کو ٹھیک رہے گا میں نے کہا ٹھیک ہے مظفر جمعہ کے دن گوشت اور کچھ فروٹ وغیرہ گھر لے آئے اور کہا کہ پرسوں شاکر صاحب آرہے ہیں اور تم اچھا سا کھانا پکا
جاری ہے