پیاسی عالمہ
قسط ۲
لیکن اس سب کے باوجود بھی میں نے ہمت ہارنے سے انکار کردیا اور یہ سوچنے لگا کہ اس حسن کی دیوی سے تعلق کیسے استوار کیا جائے ۔ مجھے قاری صاحب پر رشک آنے لگا کہ ایسی خوش بدن حسینہ جن کے بستر کی زینت بنتی تھی
چند دن بعد شام کے وقت امی جان نے مجھے بریانی کی پلیٹ ڈھک کر دی کہ قاری صاحب کے گھر دے آؤ۔ میں جب قاری صاحب کے گھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔ عصر کا وقت قریب تھا اور شاید قاری صاحب مسجد کے لیے نکل چکے تھے ۔ دروازہ کھٹکھٹانے کے ایک منٹ بعد صائمہ کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی ، کون ہے ؟
میں عماد ہوں ۔ امی نے بریانی دے کر بھیجی ہے ۔ وصول کرلیں ۔ میں نے کہا
چند سیکنڈ بعد دروازہ کھلا ۔ صائمہ نے اپنے دوپٹے سے چہرہ ڈھک رکھا تھا ۔ پلیٹ پکڑاتے ہوئے بےاختیار میرا ہاتھ اس کی انگلیوں سے ٹکرا گیا اور وہ جھینپ کر پیچھے ہوگئی
ایک منٹ ٹھہرو میں پلیٹ واپس لا دیتی ہوں۔ صائمہ نے کہا اور اندر چلی گئی
ایک منٹ بعد وہ لوٹی اور اس نے خالی پلیٹ مجھے تھمائی
قاری صاحب کہاں ہیں آج ؟ اس سے قبل کہ وہ دروازہ بند کرتی میں نے پوچھا ۔
مسجد گئے ہیں عصر پڑھانے ۔ صائمہ نے کہا
اوہ اچھا ۔ میں بھی کہوں اس وقت گھر موجود نہیں ۔ پہلے تو قاری صاحب ہی دروازہ کھولتے تھے ہمیشہ ۔ میں نے جان بوجھ کر بات جاری رکھنے کے لیے کہا
تم مسجد جاؤ تو تمہیں پتا ہو کہ یہ وقت عصر کا ہے ۔ صائمہ کے لہجے میں ہلکی سی سرزنش تھی
میں جو اتنا نیک ہوتا تو قاری صاحب کی طرح میرا رشتہ بھی اتنے اچھے گھرانے میں ہونا تھا ۔ میں نے کہا ۔ جس پر وہ ہلکی سی ہنسی
سمجھ رہی ہوں تمہاری اب شادی کی عمر کے لیکن تمہارے گھر والے توجہ نہیں دے رہے ۔ میں شازیہ ( امی ) سے بات کروں گی کہ تمہارے رشتے کا کچھ سوچیں اب ۔ عاصمہ نے کہا
بہت شکریہ ۔ امی جان ایک آپ ہی کی سنتی ہیں ۔ میں نے کہا ۔ پلیٹ سنبھالی اور واپس چل پڑا ۔ میں بات کو مزید طویل نہیں کرنا چاہتا تھا کہ کہیں گلی میں آتے جاتے کوئی دیکھ سن نہ لے
صائمہ کے ساتھ میں بات چیت کا آغاز کر چکا تھا لیکن اس کے شباب کی لذتوں کو پانے میں ابھی کئی مراحل باقی تھے
اس کے بعد دو ہفتے گزر گئے نہ تو میرا صائمہ سے سامنا ہو سکا اور نہ کوئی بات
پھر ایک شام کو کچھ ایسا ہوا کہ جس کی مجھے توقع نہ تھی ۔ ہوا کچھ یوں کہ میں اپنے پراپرٹی آفس سے واپس گھر لوٹ رہا تھا کہ جب قاری صاحب کے گھر کے نزدیک سے گزرتے ہوئے کچھ انتہائی مدہم سی آوازیں میری سماعت سے ٹکرائیں ۔ میں دیوار کے بالکل نزدیک ہو گیا اور اپنا موبائل ہاتھ میں پکڑ کر نظر موبائل پر جما دی کہ جیسے میں کوئی میسج پڑھ رہا ہوں ۔ اور ساتھ ہی میں نے اپنے کان ان آوازوں پے دھر دیے جو گھر میں سے آ رہی تھیں ۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے دو لوگوں میں کوئی جھگڑا یا تلخ کلامی چل رہی ہو ۔ گو کہ وہ آوازیں بہت دھیمی تھیں یعنی گھر کے اندرونی سے ابھر رہی تھیں پر اتنا صاف ظاہر تھا کہ قاری صاحب کا کسی سے جگھڑا چل رہا ہے ۔ دوسری آواز زنانہ تھی جو کہ صائمہ کے سوا اور کس کی ہو سکتی تھی ؟
میں ان کے الفاظ نہیں سمجھ پارہا تھا لیکن ان دونوں کی آواز میں موجود غصے کو سمجھ پارہا تھا ۔ کچھ دیر بعد خاموشی چھا گئی ۔ اور میں سوچ میں ڈوبے ذہن کے ساتھ اپنے گھر کے دروازے کی طرف بڑھ گیا
اس واقعے کے بعد میں کافی دیر تک اس سوچ میں ڈوبا رہا کہ آخر ان دونوں کے بیچ ایسا کیا اختلاف ہوگیا کہ یوں جھگڑے تک نوبت آ پہنچی حالانکہ قاری صاحب تو اپنی متانت و نرم دلی کی وجہ سے خوب مانے جاتے تھے
اور مجھے ان پر غصہ بھی آرہا تھا کہ ایسی حور سی بیوی پر غصہ کررہے تھے کہ جیسی لڑکی کی تمنا ہر کوئی کرتا ہے
اس کے بعد ایک ہفتہ تک صائمہ زارہ کو پڑھانے گھر نہ آئی ۔ میں نے امی کو زارہ سے بات کرتے سنا کہ صائمہ میکے گئی ہوئی ہے
پھر ایک ہفتے بعد قاری صاحب ایک دن کے لیے اپنے ایک شاگرد کو اپنی جگہ امامت کی زمہ داری دے کر چلے گئے ۔ اور شام کے وقت ہی ان کی واپسی ہو پائی
اگلے دن صائمہ پھر سے زارہ کو پڑھانے واپس آ گئی ۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ قاری صاحب صائمہ کو لینے اس کے گھر گئے تھے
اب صائمہ پھر سے زارہ کو پڑھانے باقاعدگی سے آنے لگی تھی ۔ لیکن اگلے ہی ہفتے پھر سے ایک غیر متوقع واقع ہوگیا ۔ میں شام کے وقت گھر کا کچھ سودا سلف لانے کے لیے بازار جانے کی خاطر گھر سے نکلا تو قاری صاحب کے گھر کے نزدیک سے گزرتے وقت مجھے پھر سے لڑائی جھگڑے کی کچھ دھمیی سے آوازیں سنائی دیں
اور اب کی مرتبہ اس جھگڑے کا دورانیہ بھی زیادہ تھا ۔ اب یہ بات تو صاف ظاہر ہو چکی تھی کہ کچھ عرصے سے قاری صاحب اور صائمہ کے درمیان معاملات اچھے نہیں چل رہے تھے ۔ لیکن اس کی وجہ کیا تھی اس کا مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا ۔ اس وقت تو میں بازار کی سمت چل دیا تاہم میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ صائمہ سے ضرور پوچھوں گا
اور پھر مجھے چند دن بعد صائمہ سے بات کرنے کا موقعہ مل ہی گیا ۔ ہوا کچھ یوں کہ اگلے ہفتے امی کی ایک کزن کی شادی تھی ۔ اور شادی میں شرکت کے لیے گھر والوں کو کپڑوں وغیرہ کی شاپنگ کرنے جانا تھا ۔ چنانچہ امی نے مجھ سے کہا کہ قاری صاحب کے گھر پیغام دے آؤں کہ صائمہ کو بتا دیں آج شام ہم گھر نہیں ہوں گے آج پڑھانے نہ آئیں
لیکن میں نے جان بوجھ کر یہ پیغام نہیں دیا
میں نے کیونکہ چند دن پہلے ہی دو نئے جوڑے سلوائے تھے اس لیے مجھے نہ تو نئے کپڑوں کی ضرورت تھی نہ ہی شاپنگ پر جانے کی
اس طرح گھر والے شاپنگ پر چلے گئے اور میں گھر ہی رک گیا
حسب سابق میں نے بیٹھک کا وہ دروازہ اندر سے کھول دیا جو باہر گلی میں کھلتا تھا
اور خود میں واپس اپنے کمرے میں آگیا
کچھ ہی دیر بعد صائمہ کے آنے کا وقت ہوگیا اور مجھے بیٹھک کا دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنائی دی
میں اٹھا اور بیٹھک کے گھر والے دروازے کی جانب بڑھا اور ہینڈل گھما کر اندر داخل ہوگیا ۔ توقع کے مطابق صائمہ بیٹھک میں پہنچ چکی تھی اور اپنا عبایہ اتار رہی تھی
زارہ کی جگہ وہ مجھے بیٹھک میں دیکھ کر بیک وقت حیران اور کنفیوز سی ہوگئی
زارہ کہاں ہے ؟ اس نے جھجھکتے لہجے میں پوچھا
آئی ایم سوری۔ میں آپ کے گھر بتانے آ ہی رہا تھا کہ آج زارہ کی چھٹی ہے ۔ بس زرا دیر ہوگئی بتانے میں ۔ میں نے کہا۔
اوہ اچھا ۔ میں پھر چلتی ہوں۔ صائمہ نے کہا اور دروازے کی جانب بڑھی
ایک منٹ زرا رکیے مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔ میں نے کہا اور صائمہ کے اٹھتے قدم تھم گئے
ہاں بولو ۔ صائمہ نے کہا آپ کے گھر میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے ؟ اب خیریت تو ہے ناں ؟
میں نے کہا ہاں سب خیریت ہے کیوں کیا ہوا ؟ صائمہ نے الجھے لفظوں میں کہا
دراصل ایک دو مرتبہ ایسا ہوا کہ میں گلی سے گزر رہا تھا تو آپ کے گھر سے کچھ لڑائی جھگڑے کی سی آوازیں سنائی دیں ۔ اس لیے مجھے تشویش ہورہی تھی ۔ میں نے کہا
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ ہمارے گھر سب ٹھیک چل رہا ہے ۔ اس نے تیز لفظوں میں کہا جیسے جلدی جلدی بات ختم کر کے وہاں سے نکلنا چاہتی ہو
صائمہ میری بات سنیں ۔اگر آپ کا قاری صاحب سے کوئی جھگڑا چل رہا ہے تو آپ مجھ سے شیئر کر سکتی ہیں ۔ اور صرف شیئر ہی نہیں اگر قاری صاحب کے ساتھ آپ کے معاملات ٹھیک نہیں چل رہے تو آپ مجھ سے دوستی رکھ سکتی ہیں۔ یہ راز صرف ہم دونوں کے درمیان ہی رہے گا آخر کار ہمت جٹا کر میں نے اپنے دل کی بات کہہ ہی دی
کیا بکواس کررہے ہو ؟ تم اتنے گھٹیا اور چھچھورے نکلو گے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔ لعنت ہو تمہارے اس دماغ پر جس میں ایسا خیال آیا بھی ۔ میں آج کے بعد تمہارے گھر کسی صورت نہیں آ رہی اور نہ ہی اس کے بعد تم کبھی میرے سامنے آنے یا مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرنا ورنہ میں یہ سب قاری صاحب کو بتا دوں گی اور پھر وہ جانیں اور تمہاری فیملی جانے ۔ صائمہ نے غصے سے ابلتی آواز میں کہا اور دروازہ کھول کر چلی گئی
جاری ہے
0 Comments