Sanskari family - Episode 1

سنسکاری فیملی 


قسط 1 




یہ میری پہلی کہانی ہے جو میں لکھ رہا ہو امید کرتا ہوں کے آپکو اچھی لگے 

ویسے یہ کہانی ایک کٹر ہندو فیملی کی ہیں، وہ لوگ کافی دھارمک تھے 


اب اتے ہیں کہانی کی طرف 

مین ایک ٹیکسی چلتا ہوں اور میرا نام شہزاد ہیں میری عمر ابھی 24 ہے میری ابھی شادی ہوئی ہے میں انات ہیں مرے ماں باپ بچپن میں کسی ایکسڈنٹ میں مر گیے تھے 

تو مجھ مرے چچا نے ہے پال پوس کر ہی بڑا کیا تھا ویسے چچا نے تو بہت کوشش کی کے میں پڑھ لکھ لوں پر میں بھی بڑا شراتی تھا جب تھوڑا جوان ہوا تو پڑھائی چھوڑ دی اور سارا دن آوارہ لڑکوں کے ساتھ آواردی کرتا تھا اب ٹیکسی چلا رہا ہوں 

ایک بار ہمارے پڑوسی کو کسی کی شادی پے جانا تھا میں حیران ہوا ان کے رشتدار تو تو ان کے پاس آتے جاتے نہیں تھے، مجھ پروسی نے کہا لئے جانے کو تو میں لئے تیار ہو گیا ویسے بتا دوں 

 ہمارے پروس میں ایک فیملی رہتی تھی، وہ پیلے ہندو تھے پھر مسلمان ہوئے تو اس لئے ہندؤں نے ان کو اپنے ایریا سے نکال دیا تو وہ هم مسلمان کے ایریا میں آ کے رہنے لگے 

ان کے گھر میں 

ا میاں بیوی رحمان اور نسیمہ 

۲ بیٹیاں تھی ایک زویا جو بڑی بیٹی تھی اس کی عمر 18 سال اور ایک دوسری رضیہ وہ 16 سال کی تھی 

ہم جب شادی پے جا رہے تھے چاچا رحمان نے بتایا کے ان کے والد صاحب بڑے کٹر ہندو تھے وہ بھی اُوچی ذات والے وُہ مسلمان تو دور کی بات نیچلی ذات کے ہندو سے بھی نفرت کرتے تھے 

اس ان کو یہ سب غلط لگا تو وُہ ان سے الگ ہوئے تو اور ریسرچ کی تو انھیں اسلام ہی سہی مزب لگا تو وُہ مسلمان بن گئے

تب وُہ 20 سال کے تھے ان کے باپ انھیں پولیس اٹھوایا اور بہت مارا کے وُہ پھر ہندو بن جائے پر چچا رحمان نے کہا مارنا ہے مار دو میں مسلمان بن کر ہے مروں گا 

ان کی ماں کے کہنے پر اِسکے باپ نے انھیں چھوڑ دیا اور گھر چھوڑ جانے کا کہا 

تو وہ گھر چھوڑ کر چلے گیے 

پھر انہوں نے کام کیا مزدوری کی اپنا گھر بنایا پھر ایک شادی کی اور اب ماشاءاللہ خوش ہیں 

وُہ بتاتے ہیں کہ انکے بھائی تو انسے رابطے میں ہیں پر والد صاحب بات نہیں کرتے 

آج انکے بھائی کے بیٹے کی شادی تھی تو وہاں جا رہے ہیں 

چچا رحمان نے کہا انکا دل تو نہیں تھا جانے کا پر کیا کرے انکی ماں نے ضد کی ہے آنے کی اس وجہ سے جا رہے ہیں 


ہم جسیے ہی شادی ہال پوچھے تو انکل اور ان کی فیملی تو اندر شادی ہال میں چلے گے میں بھی گاڑی پارک کر میں ان پیچھے اندر چلا گیا، جیسے اندر آیا تو دیکھا شادی تو بڑی تھی بہت لوگ تھے ان میں کجھ تو مسلمان بھی شاید ان کاروبار کی وجہ سے مسلمانوں کو بھولایا تھا وہ ان پارٹنر تھے شاید، ان کے بیٹھے اور کھانے کا الگ انتظام تھا جو شاید مسلمان ہی سنبھال رہے تھے میں جب جا کے دیکھا تو مسلمانوں کے کھانوں میں بھی تھی سب ویجٹرن ڈشیز، میں بھی جم کے کھایا اور کھا کر ادھر ادھر چلنے لگا تبھی ایک لڑکی میرے پاس آئی اور پوچھا 

تم میرے انکل کے بیٹے ہو ؟

مین نے پہلے اس لڑکی کو دیکھا جو کافی خوبصورت تھی بہت ہی اچھا فگر تھا ان کا 

اس گلابی ساڑی پہنی ہوئی تھی، اور بلاؤز کافی شورٹ تھا مطلب کے اس لڑکی آدھے ممے تو دیکھ رہے تھے اور ممے کے بیچ کی لائن بھی کافی گہری تھی کجھ اس ممے کافی بڑے تھے 34 کے تو ھوگے اور ساڑی کا پیٹیکوٹ بھی کافی نیچے تھا اگر تھوڑا اور نیچے کرتی تو گانڈ اورچوٹ کی لائن دیکھنے لگ جاتی ، اس کو دیکھ کر میرے لن میں کھڑا ہونے لگا تھا 

تبھی اس پھر سے آواز آئی : آؤ ہیلو کہاں گم ہو گے 

آپکی کی آنکھوں میں ! آؤ سوری کیا پوچھا آپ نے، میں اس کے جسم سے دیان ہتا کر اس پوچھا 

میں نے پوچھا آپ ہیں میرے انکل کے بیٹے ، اس اپنی ساری کو ٹھیک کرتے ہوئے پھر پوچھا 

نہیں ان کا بیٹا تو نہیں ہوں ،،،،، پر چچا رحمان بتا رہیں تھے کے ان کے آبا مطلب تمہارے ڈاڈا کافی کٹر ہندو ہیں ل، پر لگ تو نہیں رہا ، میں نے اس مموں کو گھورتے ہوئے کہا 

اچھا کیوں نہیں لگ رہا، اس نے میری آنکھوں میں گھورتے ہی پوچھا 

میں اس تھوڑا قریب ہوا اور کہا ، آپکے کپڑوں سے 

اس نے کمر کے ہاتھ رکھ کر کہا کیا ہوا میرے کپڑوں کو ؟

میں تھوڑا اور قریب ہوا اور کہا اپکا بلاؤز دیکھو اور ساڑی بھی بہت ہی نیچے باندھی ہے 

تو وہ تھڑی چڑٹی ہوئی بولی کیوں کیا ہوا میرے بلاؤز اور ساڑی کو ؟

آپکے کافی چھوٹا ہے اور یہ دیکھو آپکے چوچی کر قریب جو دائرہ ہوتا ہے اس کی ہلکی سے لائن دیکھ رہی ہے، میرے یہ کہنے سے اس جلدی سے اپنی بلاؤز کی طرف دیکھا اور اوپر کھینچنے لگی تو میں نے کہا نا کھنچے نہیں تو نیچے سے دیکھنے لگے گے 

ہو غصّے سے منہ بناتی ہوئی جانے لگی اور جب وہ میرے قریب سے گذری تو میں اس کے کان میں کہا "ویسے آپکے اس نظارے نے میرا کھڑا کر دیا تھا "

اس نے کچھ نہ کہا آؤر آگے چل دی، تھوڑی آگے جا کر پھر پیچھے مڑ کر دیکھا تو میں نے اپنا ہاتھ لن کی طرف بڑھا دیا اس کی نظریں بھی میری لن کی طرف ہی تھی، اس کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور آگے چل دی 

تبھی میں بھی اگے بڑھا اور اس سے پوچھا اہکواہنے انکل کے بیٹے سے کام تھا ؟

کام تو نہیں اسے ہی تم ان کے ساتھ آئے اس لئے ہوجھا ؟ اور ان تھوڑا دور دور کھانا کھا رہے تھے اور بیٹھ رہے تھے اس لئے پوچھا، اس چلتے ہوئے جواب دیا 

ویسے میں ان کا بیٹا تو نہیں ہر ان اپنی گاڑی میں یا لئے کے آیا ہوں، میں نے جواب دیا 

تو ٹیکسی والے ہو ، اس مجھ پر ٹنس کرتے ہوئے کہا 

آپ کہہ سکتی ہو میں نے اس کو اسی ہی ٹون میں جواب دیا 

اس نے پھر کچھ سوچ کر پوچھا ؛ کیا تم میری کزن کے منگیتر ہو؟

میں نے ایک آھہہہ بھری اور کیا کاش ہوتا،۔ ویسے آپکے خاندان کی ساری لڑکیاں تم جیسی خوبصورت ہوتی ہیں ؟

کیا مطلب ؟ اس حیرت سے پوچھا 

مطلب کہ جیسے آپ بھی ماشاءاللہ کافی خوبصورت ہو اور آپکی کنزنن بھی خوبصورت ہیں ؟ میں نے اس سمجھنے والے انداز میں بتایا 

کیا تم میرے ساتھ فلڑٹ کر رہے ہو ؟ میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا 

فلڑٹ نہیں میں تو آپکی تاریف کر رہا ہوں، کہ آپ خوبصورت ہو ویسے آپ اپنے کزنوں سے بھی زیادہ خوبصورت ہو ؟ میں نے مسکراتے ہوئے کہا 

اچھا تو آپکو میری کیا چیز خوبصورت لگتی ہے ؟ اس سوال کیا 

اپکا سب کچھ ہی خوبصورت لگتا ہے ، مین نے کہا 

اور اس سب کچھ میں سب سے زیادہ کیا خوبصورت ہے ؟ اس پھر سے پوچھا 

سب زیادہ تو آپکی کالی نشلی آنکھیں ،یہ کسی کو بھی مدہوش کر سکتی ہیں، میں اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا

اور ؟ اس ہلکے اور مدہوش آواز میں کیا 

اور آپکے گُلابی اور رسیلے ہونٹ ۔۔۔

اور ؟

اور آپکی کالی زلفیں ۔

اور ؟

اور ۔۔۔ آپکی یہ مموں کے گہری لکیر ۔۔۔اور بتاؤں ؟ میں نے اس سے پوچھا 

او۔۔۔۔۔ 

میں نے پھر کہا ایک پرسنل سوال کروں ؟

ہاں ہوچھ لو . اس نے جواب دیا 

آپ نے برا نہیں پہنی ہوئی ہے نہ ؟ میں اس کے مموں کے گھورتے ہوئے پوچھا 

اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور بس اتنا کہا :ہہہہہہہممممم

اور پینٹی بھی ؟ میں پھر پوچھا 

وہ تو پہنی ہے ہر تم نے تو ایک سوال کا پوچھا تھا ؟ اس جواب دیتے ہوئے طنز ٹوکا 

چلو سوری .. ایک اور کام کرو گی ؟میں نے پھرسے کہا 

ہاں تمہیں معاف کیا ! کونسا کام ؟ اسنے شروتی انداز میں کہا 

وہ آپکے آنکل والوں سے ہوچھ کر بتاؤں گی کے اور کتنی دیر لگے گی ؟ میں نے اس کیا 

ابھی تو بیت دیر ہوگی ابھی پھڑے بھی نہیں ہوئے، اس نے کہا

پھر میرا کیا ہوگا میں بور ہو جاؤں گا ۔ میں کیا 

تم اور بور ہو جاؤ ۔ مجھ تم جیسے لوگ بور ہوتے ہوگے ۔ میں نے کہا 

کیوں بھائی مجھ جیسے کیوں بور نہیں ہو سکتے ، اکیلا بندھا کہیں کوئی بھی بور ہو جاتا ہے. میں نے کہا 

اکیلے کہا ہو میں ہوں نا، اس نے کہا 

آپ نہیں جا رہی ہیں؟ مین نے پوچھا 

اگر رکنے کی وجہ دی تو شاید نا جاؤں ؟ میری طرف دیکھ کر کہا 

کونسی وجہ چاہئے ؟ میں نے پوچھا 

جیسے ۔۔۔ سنگریٹ ۔ اس نے جواب دیا 

سنگریٹ! اس کے لئے تمہیں میری گاڑی میں چلنا ہوگا۔ میں نے اس کیا 

تو چلے ، اس نے کہا۔

گاڑی ..؛ وہاں کیوں ؟ اس حیرت سے پوچھا 

وہ اس لئے کے میں سنگریٹ کم ہی پیتا ہوں تو اس وقت میرے پاس نہیں ہیں، شائد گاڑی میں پڑھے ہو. میں نے بات کو کلیئر کرتے ہوئے کہا 

کچھ اور ارادہ تو نہیں ہے نا، کیوں کے تم نے ہی کہا تھا کہ تمہارا کھڑا ہو گیا تھا ۔ اس نے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا 

آپکو دیکھ کر کسی کے بھی ارادے بدل سکتے ہیں . میں نے جواب دیا 

اچھا چلو، ہاں پر اگر غلط حرکت کی تو میں چلاؤں گی ! اس نے مجھے وارننگ والے انداز میں کہا

ویسے جب تک لڑکی چلائے نہیں تب تک مزہ بھی کہاں آتا ہے ۔ میں اس کو گھورتے ہوئے کہا 

اور ہم پارکنگ کی طرف بڑھ دیئے


گاڑی تک ہوچھ کر ہم گاڑی میں بیٹھے اور میں سنگریٹ کے ڈبی سی ایک سنگریٹ نکالی اور اس جلا کر ایک کش لیتے ہوئے اس کی طرف بڑھا دی اور کہا، ایک بات پوچھو ؟

اب اور کتنی باتیں پوچھو گے ؟ اس میرے ہاتھ سے سنگریٹ لیتے ہوئے کہا 

آپ مجھے سے باتیں کرنے کیوں ائی مطلب منا کے اپ نے مجھے انکل کا بیٹا سمجھا پر آپ یہ اپنی کزنوں سے بھی تو پوچھ سکتی تھی؟ میں پھر پوچھا 

تم نا ان کی فیملی سے الگ لگ رہے تھے مجھے ایسا لگا کے تم یا تو شادی پہ آنے سے خوش نہیں ہو یا تو تم ہمارا لائف اسٹائل دیکھ ان مسلمان ہونے کا فیصلا غلط لگا، اگر وہ گھر نا چھوڑتے تو تم ایسی لائف جی رہے ہوتے اس لئے تم سے بات کرنے آئی تھی۔ اس نے اپنے منہ سے سنگریٹ کا دھواں میرے چہرے پے نکالتے ہوئے کہا 

او۔۔۔۔ ویسے کنفیوز اسی لئے تھا کے تمہارے انکل کہا کے تم لوگ بڑے ہی کٹر قسم کے ہندو ہو ، تو میں نے شادی میں مسلمان اور الگ کھانا اور آپ لوگوں کی ڈریسنگ اسٹائل اور اتنا اوپن ماحول ۔۔ میں نے اس کے ہاتھ سے سنگریٹ لیتے ہوئے کہا۔

اچھا ۔۔ وہ نا سب میرے ڈیڈ نے کیا ہے وہ نا اوپن مائنڈ ہے، ان کا بزنس بڑا ہے اس میں مسلمان بھی پارٹنر بھی ہے تو اس لئے ، ویسے میرے بڑے انکل نا بڑے دھارمک ہیں اور ڈاڈا بھی وہ نہیں چاہتے تھے پر ڈیڈ اور ڈاڈی نے یہ سب کیا اوپر سے یہ سارا خرچہ میرے ڈیڈ کر رہے ہیں تو ان کچھ نا چلی اور وہ جو میرے انکل مسلمان ہیں انھیں بھی ڈاڈا اور انکل نہیں چاھتے تھے ہر ڈیڈ آؤر ڈاڈی کے آگے ان کا کچھ نا چلا اس لئے ڈاڈا تو شادی پہ آئے ہی وہ گھر ہیں ۔اس میرے ظرف دیکھتے ہوئے کہا اور پوچھا ویسے تم سے ایک بات پوچھوں ؟ 

ایک کیوں تم ھزاروں باتیں پوچھ سکتی ہو ۔۔ میں نے اس کی طرف سنگریٹ بڑھتے ہوئے کہا 

اس نے میرے ہاتھ سے سنگریٹ لیا اور کہا، کیا تمہارا سچ میں مجھ دیکھ کر کھڑا ہو گیا تھا ؟

 میں چونکہ گیا اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا 

بتاؤ بھی ؟ اس پھر پوچھا 

ہاں ہو تو گیا تھا ! اس جواب دیا 

سچی میں، اور وہ میرے لن کی ہی طرف دیکھ رہی تھی 

اس کے اس طرح کی سوال نے میرے لن میں حرکت کر دی تھی اور وہ کھڑا ہو رہا تھا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، اگر یقین نہیں ہو رہا تو خود چیک کر لو، اور میرے لن ہے رکھ دیا اور میں نے پینٹ کر علاوہ کچھ بھی نہیں پہنا تھا تو اس کا ہاتھ میرے پینٹ کے اوپر سے میرے لن ہے لگتے ہی میرے جسم ایک کرنٹ سا لگا اور میرا جو دھرے دھرے کھڑا ہو رہا تھا وہ ایک دم سے فل کھڑا ہو گیا 

اس میرے لن ہلکا سا دبایا اور ہاتھ کھینچ کر بولی، تم پاگل ہو کیا یہ کیا بدتمیزی ہے 

بدتمیزی تو بس چیک کروا رہا تھا، اگر آپکو بدتمیزی لگی تو سوری ۔۔ میں بولا 

ویسے کیسا لگا ۔۔؟

سوری کی تو ضرورت نہیں پر ایسا کرنے سے نا تم لوگوں کا تو کھڑا ہوتا ہے ہم لڑکیوں کی گیلی ہو جاتی ہے۔ اس سنگریٹ کو گاڑی سے باہر پھینکتے ہوئے کہا 

کیوں تمہاری گیلی ہو گی کیا؟ میں نے پوچھا 

ہاں ہوئی تو ہے ایسے لوڑے کو کوئی بھی ناڑی پکڑے گی اس ہو ہی جائے گی۔ اس نے میرے ہاتھ کو پکڑ کر کہا 

سچی میں ؟ میں سوالیہ انداز میں پوچھا

یقین نہیں تو چیک کر لو، اس شرارتی انداز میں کہا 

تم نے ساڑی پہنی ہے تو مجھ لگتا ہے کار کی پچھلی سیٹ پر سہی سے چیک کر سکتا ہوں ۔۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کی چوٹ پر رکھتے ہوئے کہا 

تو چلو پچھلی سیٹ پر. وہ یہ کہتے ہوئے نیچے اوتری اور گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا 

میں دوسری سائد سے پچھلی سیٹ پہ آیا وہ ساڑی اوپر کرتی ہوئی پچھلی سیٹ پر لیٹ گی 

میں اس ساتھ دیتے ہوئے اس کی ساڑی اوپر کرنے میں مدد کرنے لگا 

جب ساڑی کافی اوپر ہوئی تو اس کی پنک (گلابی) کلر کی گیلی پینٹی دیکھی تو اس کی پینٹی سائڈ ہے ہتا کر اپنی انگلی اس بھوری کلر کی چوت جس کے ہونٹ تھوڑے موٹے تھے اور وہ بلکل صاف تھی اس پر تھوڑی تھوڑی اس کی منی لگی ہوئی تھی

اس کی لائن میں اوپر دانے والی جگہ سے نیچے سوراخ تک انگلی پھیری اور تھوڑی اندر کر کر باہر نکلی اور اس سے کہا 

گیلی تو ہیں، اور وہی انگلی منہ لے کر چوسی 

تو میری طرف دیکھ کر کہا، ابھی پورا پانی کہاں چھوڑ ہے اگر تم پینا چاہتے ہو تو نکال لو س آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا 

میں نے اس پینٹی اتاری اور اس ٹاںگیں کھول کر اپنا منہ اس کی چوٹ کے قریب لئے گیا اور ہاتھوں سے اس کی چوت کے ہونٹ کھول کر زبان نکل کر اس کی چوت کی سوراخ کے اندر زبان ڈالی۔۔ تو اس منہ آھھھھھھھ۔۔۔ سے ایک سیسکی نکلی اور وہ ہلنے لگی 

میں اس کی رانوں کو پکڑ کر اس کی چوت کی لائن میں زبان کو اوپر لے جا کر اس کے دانے پر روکا اور اس چوسنے لگا اور چاٹنے لگا ۔۔۔ 

اھھھھںںںںں اوئییییی ماں۔ ظالم کھا جاؤ مری چوت ۔۔۔ اھھھھں ض ہممممم وہ سیسکیاں لیتے ہوئے کہہ رہی تھی 

اور میں اس کی چوت کی ذائقہ کو ٹیسٹ کر رہا تھا اور ہم یہ بھی بھول گئے کے ہم پارکنگ میں کوئی بھی ہم دیکھ یا سن سکتا تھا 

تبھی میں نے مستی میں اس کی دانے کو اپنے دانتوں سے ہلکے ہلکے سے کانٹا شروع کیا ۔۔۔ جس سے اس کی چوت کا دانا باہر کو نکلنے اور ٹائٹ ہونے لگا 

آھھھھھ ظالم کھا جاؤ ۔۔ میری ۔۔۔ آھھھھھ ہممم ظالم ۔۔۔۔۔ وہ سسکیوں کے ساتھ یہ کہہ جارہی تھی 

اور اس چوت کانٹے ہوئے اس چوت کے اندر میری انگلی ڈالی ۔۔۔۔ اس چوت اندر بہت ہی گرم، ٹائٹ اور گیلی تھی 

اس کے منہ ایک بڑی سسکاری نکلی اھھھھھں۔۔۔۔۔۔۔۔ جان ۔۔۔۔ اور اندر کرو نا ظالم 

میں انگلی کو اندر باہر کرنے لگا اور اوپر اس کی چورکو کبھی چوس رہا تھا اور کابھی کانٹ رہا تھا ۔۔۔

تبھی اس نے کہا ، تمہارا نام شہزاد ہے ؟

ہاں میرا نام ،ہی شہزاد ہے ۔۔۔ میرے کہتے میرے کانوں پہ شہزاد بھائی کی آواز سنائی دی ۔۔۔




جاری ہے 

*

Post a Comment (0)