یادگار سزا
قسط 1
چوبیس سالہ مسز فوزیہ گیلانی اپنی شادی کے فوراً بعد ہی اپنے شوہر جاوید کے ساتھ پاکستان سے امریکا کے ایک شہر فریمونٹ کیلی فورنیا میں چلی گئی تھی
فوزیہ کی شادی کے بعد پاکستان کی راویتی ساسوں کی طرح فوزیہ کی ساس کی بھی یه ہی خوائش تھی کے فوزیہ شادی کے پہلے سال ہی بچے کی ماں بن جائے
مگر جاوید چوںکہ اپنی بیوی کی تنگ چوت کا مزہ زیادہ عرصے لینا چاتا تھا . اس لیے شادی ہوتے ہی جاوید نے فوزیہ کو نہ صرف پرگینیٹ نہ ہونے والی گولیاں کھلانا شروع کر دیں. بلکہ چودائی کے دوران جاوید جب بھی فارغ ہونے لگتا. تو وہ فوراً اپنے لن کو اپنی بیوی کی پھدی سے نکال کر اپنے لن کے پانی کو فوزیہ کی چوت کے لبوں یا اس کے پیٹ پر ہی خار ج کرتا تھا
فوزیہ اپنی شادی شدہ زندگی اور اپنے شوھر جاوید احمد سے بہت خوش تھی . مگر یه خوشی ایک ہفتہ قبل اس وقت ختم ہو گئی جب ملازمت کے دوران جاوید نے اپنی بھارتی آئی ٹی مشاورتی فرم سدھا ٹیکنالوجی سولیوشن انک ( ایس ٹی ایس) کے سب سے بڑے اور اچھے کلاینٹ کو اپنی غلطی اور بیوقوفی سے کھو دیا تھا
فوزیہ جانتی تھی کے اس کا شوہر جاوید آج کل اس وجہ سے بہت ہی پریشان تھا . کیوں کے اس ای ٹی مشاورتی فرم نے ہی جاوید کو اس کی قابلیت کی بنا پر دبئی سے سلیکٹ کر کے ورک ویزا پر امریکا میں نوکری دی تھی
اس کمپنی کا انڈین مالک مسٹر سنیل کمار کل شام ہی انڈیا سے واپس امریکا آیا تھا. اور آتے ساتھ ہی اس نے فون کر جاوید کو دوسرے دن جاب کے دوران ہی لنچ ٹائم میں اپنے گھر میں ملاقات کے لیے بلا لیا تھا
اپنی کمپنی کے اونر کی یه کال سنتے ہی جاوید کو اس بات کا پکا یقین ہو گیا تھا. کے مسٹر کمار سے ہونے والی یه پہلی ملاقات ہی جاوید کے لیے آخری ملاقات ثابت ہو گئی. اور جاوید کو اپنی غلطی کا خمیازہ نوکری سے چھٹی کی صورت میں بگتنا پڑے گا. یه ہی وجہ تھی کے اگلی صبح جاب پر جاتے ہوئے جاوید کی پریشانی میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا تھا
ادھر جاوید اپنی پرشانی میں مبتلا تھا. تو دوسری طرف اس کی نہایت خوبصورت اور وفاداربیوی فوزیہ کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں تھی
اپنے شوہر کے آفس جانے کے بعد ایک سفید سلیولیسس بلاؤوس اور سیاہ کیپری میں ملبوس ھو کر مطالعہ کی میز پر بیٹھی فوزیہ اپنی تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر ایک گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی
"جاوید پچھلے کچھ ہفتوں سے بہت خوفزدہ ہے ! وہ سوچتا ہے کے اس بڑے اکاؤنٹ کو کھونے کی پاداش میں کہ مسٹر کمار اسے آج کل میں نوکری سے ضرور نکال دیں گے " اپنے شوہر کی پریشانی کے بارے میں سوچتے ہوئے فوزیہ کے دل میں اس وقت یه خیال چل رہا تھا
! مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں گا ! "فوزیہ نے سوچتے ہوۓ اپنے آپ کو امید دلائی، ہو سکتا ہے کے مسٹر کمار جاوید کو نوکری سے نکالنے کی بجاۓ صرف ایک وارننگ دے کر ہی چھوڑ دیں، ویسے جاوید کو نوکری سے ہاتھ دھونا پرے تو ان دونوں کو امریکا میں رہنے میں کافی تکلیف ہو گئی. کیوں کے ان کے گرین کارڈ جسے ایس ٹی ایس نے ہی ان کے لیے سپانسر کیا تھا،وه بھی ابھی تک نہیں آیا تھا
فوزیہ اپنی انہی سوچوں میں گم تھی کے اتنے میں اس کی نظر پاس پرے ٹیبل پر پری. جہاں ایک کاغذ پڑا ہوا تھا. جس پر اس کے شوہر جاوید نے کل رات اپنے باس کے گھر کا ایڈریس اور فون نمبر لکھا تھا.
اس کاغذ پر نظر پڑتے ہی فوزیہ کو مسٹر سنیل کمار کے متلعق کہی گئی اپنے شوہر جاوید کی بات یاد آئی " کہ سننے میں آیا ہے کے مسٹر کمار ایک بہت اچھے اورمدد کرنے والے انسان ہیں "
"اگر واقعی ہی ایسی بات ہے تو کیوں نہ جاوید سے پہلے میں خود مسٹر کمار سے مل کر انھیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کروں ، کے وہ جاوید کو نوکری سے نکالنے کی بجاے ایک وارننگ دے کر ہی چھوڑ دیں "
اپنے شوہر کو صبح پریشانی کی حالت میں جاب پر جاتے ہوۓ دیکھ کر فوزیہ خود بہت پرشان ہو چکی تھی. اسی لیے جاوید کی کی گئی غلطی کو خود سلجانے کا یه خیال اس کے دل میں اس وقت آنے لگا تھا
"مگر کہیں یه نہ ہو کے جاوید کی بجاے میرا جانا ، مسٹر کمار کو اچھا نہ لگے اور اس طرح جاوید کا کام سدھرنے کی بجاے پہلے سے زیادہ خراب ہو جائے " مسٹر کمار سے ملنے کا خیال دل میں اتے ہی فوزیہ کے دل میں اس وسوسے نے جنم لیا
مگر اس کے ساتھ ہی " جو ہو گا دیکھا جائے گا " کا سوچتے ہوے فوزیہ نے پاس پرے اس پیپر سے فون نمبر دیکھ کر اپنے شوہر کے باس کو کال ملا دی
جاری ہے