Yadgar Saza - Episode 4

‎یادگار سزا

قسط 4



‎مسٹر کمار میں اصل میں اپنے شوہر کے متلعق آپ سے بات کرنا چاہ رہی تھی ، میں جانتی ہوں کے میرے شوہر جاوید نے جو غلطی کی ہے اس کا آپ کی کمپنی کو کافی نقصان پہنچا ہے اور ہو سکتا ہے سزا کے طور پر جاوید کو آپ آج نوکری سے بھی نکال دیں ، مگراس کے باوجود میں آپ کو یه بتانا چاہتی ہوں کے جاوید اپنی اس غلطی پر بہت پرشان اور شرمندہ ہے " 

‎ یه بات کرتے ہوے فوزیہ نے التجائی نظروں سے کمار صاحب کی طرف دیکھا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوے کہا " جاوید نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا تھا کے آپ بہت اچھے اور غلطیاں معاف کرنے والے انسان ہیں ،اور اپنے شوہر کی اسی بات پر یقین کر کے میں آپ کے پاس یه ریکویسٹ لے کر آئی ہوں کے اگر ہو سکے تو میرے شوہر کی غلطی کو نظر انداز کرتے ہوے اسے ایک بار معاف کر دیں پلیز" اپنے دل کی بات کرتے ہی فوزیہ کی آنکھوں میں نہ جانے کیوں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائی. جس کی بنا پر اس کی آنکھوں میں آنسوؤں آ گے اور وہ اپنے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں پر رکھ کر وہ ایک دہم سے رونے لگی  

‎ فوزیہ کے اس طرح اچانک رونے کی اصل وجہ دراصل یه تھی کے جاوید اور فوزیہ نے دو ویک پہلے ہی اپنا گھر خریدنے کے لیے ڈون پیمنٹ کی تھی. اور اگر آج جاوید اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتا تھا. تو ان کے مالی حالات کافی خراب ہو سکتے تھے 

‎ کیوں کے اپنی اب تک کی سیونگ تو وہ لوگ پہلے ہی نیا گھر خریدنے میں خرچ کر چکے تھے . اور اب جاوید کی جاب ختم ہونے کی صورت میں ان دونوں میاں بیوی کے لیے پردیس میں اپنے گھر کا خرچہ چلانا کافی مشکل ہو سکتا تھا   

‎ مسٹر کمار سے بات کرنے کے دوران جب فوزیہ کے ذہن میں یه بات آئی . تو اپنی آنے والے مالی مشکلات کا سوچ کر فوزیہ کی آنکھوں سے آنسوؤں خود ببہ خود جاری ہو گے اور وہ اپنے ہاتھوں کو اپنے منہ پر رکھ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی 

‎ فوزیہ اپنے ہاتھوں کو آنکھوں پر رکھ کر ابھی اسی طرح رونے میں مصروف تھی . کہ اسے اپنے کندھےکی نرم جلد پر مسٹر کمار کے سخت مردانہ ہاتھوں کا احساس ہوا 

‎ مسٹر کمار کے ہاتھ کو اپنے کندھے پر محسوس کرتے ہی فوزیہ نے ایک دھم اپنا رونا بند کرتے ہوے اپنے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے ہٹا کر پیچھے کی طرف دیکھا . تو اس کی نضر اپنی چیئر کے پیچھے کھڑے کمار صاحب پر پڑی

‎ جو پیچھے سے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کرمساج کرتے ہوے اسے دلاسا دینے کی کوشش کر رہے تھے 

‎ اپنے جسم کے کسی بھی حصے پر ایک اجنبی مرد کے ہاتھوں کا لمس پہلی بار محسوس کرتے ہی شرم کے مارے فوزیہ کے جسم کو ایک جھرجھری سی محسوس ہوئی. اور اس نے بے اختیاری میں اپنے ہاتھ کو اوپر اٹھاتے ہوے اپنے کندھے پر رکھے ہوے مسٹر کمارکے ہاتھ کو اپنے جسم سے الگ کر دیا  

‎ فوزیہ کا یوں ان کا ہاتھ کو اپنے کندھے سے جٹکنے والا عمل مسٹر کمار کو اچھا نہیں لگا تھا 

‎ اسی لیے مسٹر کمار نے جسے ہی یه دیکھا کے فوزیہ نے اب رونا بند کر دیا ہے .تو وہ فوزیہ کے پیچھے سے ہٹ کر فوزیہ کے سامنے سے ہوتے ہوے دوبارہ اپنی چیئر کی طرف بڑھنے لگے 

‎ "لگتا ہے اپنے کندھے سے یوں ان کا ہاتھ کو ہٹانے کا طریقہ کمار صاحب کو شاید اچھا نہیں لگا ، اس لیے وہ شاید غصے کے عالم میں مجھ سے پڑے ہو رہے ہیں " کمار صاحب کی باڈی لینگویج کو دیکھتے ہی فوزیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا 

‎ اس لیے کمار صاحب پیچھے سے چلتے ہوئے جوں ہی چیئر پر بیٹھی فوزیہ کے عین سامنے آئے .تو فوزیہ کو نجانے کیا سوجھی کے اس نے ایک دہم سے اپنا ہاتھ آگے کرتے ہوے کمار صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ کی گرفت میں لے لیا. 

‎ " مسٹر کمار کیا ایسا کوئی طریقہ ہے کے آپ جاوید کو ایک چانس مزید دے دیں پلیز " کمار صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوے چیئر پر بیٹھی فوزیہ نے اپنے سامنے کھڑے سنیل صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک بار پھر التجا کی   

‎ " ہاں ایک چییز ایسی ہے جسے کرنے سے جاوید کی نوکری بچ سکتی ہے " فوزیہ کی بات سن کر مسٹر کمار نے فوزیہ کے ہاتھ کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے اب کی بار فوزیہ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوئے جواب دیا  

‎ "او تو پھر جلدی سے بتائیں نہ کے اس کے لیے کیا کرنا ہو گا مجھے " مسٹر کمار کے منہ سے یه بات سنتے ہی فوزیہ نے ایک دم بے چینی سے پوچھا  

‎ فوزیہ کی بات سنتے ہی مسٹر کمار اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوے فوزیہ کے ہاتھ کو اپنی طرف کھینچتے ہوے دوسرے ہی لمحے اس کے نازک اور ملائم ہاتھ کو پینٹ میں کسے اپنے لورے کے عین اوپر رکھ دیا اور بولے " تماری بات کا جواب تماری انگلیوں کے نیچے ہے " 

‎ فوزیہ تو اپنے شوہر جاوید کے منہ سےکمار صاحب کی شرافت اور اچھائی کے قصے سن کر مدد کی غرض سے یہاں آئی تھی

‎ مگربظاھر شریف نظر انے والے اس ادھیڑ عمر شخص کی اس شرمناک حرکت کو دیکھتے ہی فوزیہ پر حیرت کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا۔



جاری ہے 

*

Post a Comment (0)