Yadgar Saza - Episode 5

‎یادگار سزا

قسط 5



‎تو وہ آنکھیں پھاڑ کر مسٹر کمار کی طرف دیکھنے لگی. اور پھر کمار صاحب کے لن پر جمے اپنے ہاتھ کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے ایک دم سے فوزیہ کے منہ سے نکلا "کیا مطلب ہے آپ کا "   

‎ " تم کوئی دودھ پیتی بچی نہیں کے میری اس بات کا مطلب نہ سمجھ سکو" فوزیہ کی بات کا جواب دیتے ساتھ ہی کمار صاحب نے فوزیہ کے ہاتھ کو اپنے لن پر مزید زور سے دبایا . تو فوزیہ کے نرم ہاتھ کے لمس سے کمار صاحب کا لن جوش میں آتے ہوئے پینٹ میں تیزی سے پھولنے پھلنے لگا . جس کی بنا پر فوزیہ کو اس بات کا فوراً اندازہ ہو گیا کے کمار صاحب کا " ہتھیار" جاوید کے ہتھیار کے مقابلے میں کافی بڑا ہے 

‎ "نہیں نہیں میں یه نہیں کر سکتی ،کیوں کہ میں نے آج تک اپنے ہسبنڈ کے سوا کسی اور کے ساتھ ایسا کوئی کام نہیں کیا " کمار صاحب کی بات کا مطلب اچھی طرح سمجتے ہوئے فوزیہ نے جواب دیا . اور اس کے ساتھ ہی اس نے کمار صاحب کے لوڑے پر دبے اپنے ہاتھ کو ایک بار ان کے ہاتھ سے چھڑانے کی کوشش کی.

‎ مگر اس بار بھی کمار صاحب نے اس کی یه کوشش ناکام بناتے ہوے فوزیہ کے ہاتھ کو اپنے لوڑے پر جماے رکھا اور بولے "کوئی بات نہیں اگر پہلے کبھی نہیں کیا تو آج کر لو، کیوں کے اپنے شوہر کی جاب بچانے کے لیے میرے لن کی مٹھ لگانے کا سودا بُرا نہیں بیگم فوزیہ " 

‎ کمار صاحب کے منہ سے نکلنے والے یه گندے الفاظ سن کر فوزیہ کا پورا وجود شرم کے مارے کانپنے لگا اوروہ ایک دم بولی "نہیں مجھ سے نہیں ہو گا یه سب "    

‎ اس کے ساتھ ہی فوزیہ نے کمار صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے ایک بار پھر التجا کی "مجھے جانے دیں پلیز " اوریه کہتے ھوے اس نے چیئر سے اٹھنے کی کوشش بھی کی

‎ "اتنی بھی کیا جلدی ہے فوزیہ جی...." فوزیہ کو چیئر سے اٹھتے دیکھ کر کمار صاحب نے اپنے دوسرے ہاتھ سے فوزیہ کے کندے کو زور سے دباتے ہوئے اسے اٹھنے سے روکنے کے دوران اسے کہا  

‎ اپنے ساتھ ہونے والا مسٹر کمار کا برتاؤ اور اس کی ناجائز فرمائش سن کر فوزیہ یه بات اچھی طرح اب سمجھ ہی چکی تھی کے اس کے شوہر باس کوئی اچھا انسان نہیں ہے . مگر اس کے باوجود ایک آخری کوشش کے طور وہ بولی " مسٹر کمار جاوید کی ہیلپ کریں پلیز "

‎ یه بات کہتے ہوے فوزیہ کی آواز بھر آئی اور کمار صاحب کے شکنجے سے نہ نکل پانے کا سوچ کراس کی آنکھوں سے آنسوؤں ایک بار پھر سے پھوٹ پرے 

‎ " دیکھے بیگم جاوید ، آپ کے ہسبنڈ نے بہت بڑی غلطی کی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ہماری کمپنی کو کافی نقصان ہوا ہے . بلکہ ہمارا کسٹمر بھی ہم سے کافی ناراض ہو گیا ہے " مسٹر کمار نے فوزیہ کو ایک بار پھر یوں روتا دیکھ کر اسے سمجھانے کی کوشش تو کی . لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی ہو اپنے لن پر فوزیہ کے ہاتھ کا دباؤ بھی بڑھاتا رہا 

‎ " میں آپ کی اس بات کو سمجھ سکتی ہوں مگر آپ جو کہہ رھے ہیں وہ میرے لیے نا ممکن عمل ہے " کمار صاحب کی بات کا جواب دیتے ہوۓ فوزیہ نے اپنے ہاتھ کو اس کے لن سے ہٹانے کی ایک اور ناکام کوشش کی . مگرکمار صاحب کے ہاتھ کی مظبوط گرفت کی وجہ سے اس بار بی وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکی 

‎ " فوزیہ جی آپ کی اطلاع کے لیے آپ کو بتا دون کے ایک سنگل مرد ہونے کا ناطے چونکہ میرے اپنے کوئی بچے نہیں، اسی لیے یہ کمپنی مجھے اپنے بچوں کی طرح عزیز ہے ، میں ایک کاروباری آدمی ہوں، اورجس مقام پر آج میں ہوں ، اس مقام تک میں کوئی بھی چیز فری میں کسی کو دے کر نہیں پہنچا جا سکتا ، جس کام کے لیے آپ میرے پاس آئی ہیں ، میرے لیے یه بھی ایک کاروباری ڈیل ہی ہے ، اپ مجھ سے ایک بڑی چیز مانگ رہی ہو ، بدلے میں آپ سے میں اتنی ہی بڑی چیز کی ڈیمانڈ کر رہا ہوں، آپ چاہیں تو میری آفر کو رد کر سکتی ہیں ، اس صورت میں آپ کو ابھی کے ابھی یہاں سے جانا ہو گا ، کیوں کے میرا وقت بہت قیمتی ہے اس لیے میں اپنا وقت ویسٹ کرنا پسند نہیں کرتا" اس کے ساتھ ہی مسٹر کمار نے اپنے لن پر پڑے فوزیہ کے ہاتھ کو ہٹا کر اس کی گود میں رکھ دیا. تو فوزیہ کو سکون سا محسوس ہوا اور اس نے رونا بند کر دیا  

‎ فوزیہ کے ہاتھ کو پنیٹ میں تنے اپنے لن سے ہٹاتے ہی مسٹر کمار ایک لمحے کی خاموشی کے بعد دوبارہ بولے " فوزیہ جی آپ یہاں سے جانے میں اب آزاد تو ہیں ، مگر یہاں سے باہر نکلنے سے پہلے یه بات اچھی طرح جان لیں، کہ آپ کے یہاں سے باہر نکلنے کی صورت میں آپ کے شوہر جاوید کو نوکری کی برخاستگی کا لیٹر شام سے پہلے پہلے ان کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا، اور چونکہ آپ کے شوہر کو ان کی غلطی کی بنا پر نوکری سے نکالا جائے گا، اس وجہ سے نہ صرف انھیں اگلی نوکری ملنا بہت مشکل کام ہو گا ،بلکہ اس نوکری سے نکالے جانے کی صورت میں آپ اور اپ کے شوہر کو تیس دن کے اندر اندر امریکا چھوڑ کر واپس پاکستان بھی جانا ہو گا "  

‎ " یه کہہ تو سہی رہا ہے ، کہ اگر جاوید کو اس نوکری سے نکال دیا گیا، تو اسے کوئی اور جاب ملنا بہت ہی مشکل ہو گا، مگر اس کے باوجود مجھے سمجھ نہیں آ رہی کے آخر کروں بھی تو کیا کروں ، کیوں کے اگر اٹھ کر چلی جاتی ہوں ، تو شوہر کو نہ صرف جاب سے نکال دیا جائے گا ، بلکہ ہمیں امریکا بھی چھوڑنا پڑے گا ، اور یہاں سے باہر نہ جانے کا مطلب یه ہو گا مسٹر کمار کی بات مانتے ہوئے میں ایک نیک اور شریف بیوی سے ایک گشتی عورت بننا قبول کر لوں" مسٹر کمار کی ساری بات سن کر فوزیہ ایک دم سے سوچ میں پڑ گئی. اور وہ قید میں نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو زنجیروں میں جکڑا ہوا محسوس کرنے لگی۔




جاری ہے 

*

Post a Comment (0)