ڈاکٹر ہما۔ قسط 10

ڈاکٹر ہما 


قسط 10 


زمان نے اسکی ٹانگوں کو کھولا اور نیچے بیٹھ کر اپنے ہونٹ اسکی گلابی چوت پر رکھ دیئے۔ زیب کے منہ سے سسکاری نکل گئی۔ زمان نے اپنی زبان اسکی چوت پر چلاتے ہوئے اسکی چوت کو چاٹنا شروع کر دیا۔ کبھی اپنی زبان کو اسکی چوت کے اندر لے جاتا۔ اور اندر س چاٹنے لگتا۔ اور کبھی اسکی چوت کے دانے کو اپنی زبان کی نوک سے سہلانے لگتا۔ زیب کا لذت کے مارے برا حال ہو رہا تھا۔

وہ زمان کے سر کو اپنی چوٹ پر دبا رہی تھی۔ اسکے بالوں کو کھینچ رہی تھی۔ اور اپنی ٹانگوں کو اسکے پیچھے لپیٹ رہی تھی۔ اسکے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں۔

زمان کھڑا ہوا اور اپنی پینٹ کھولنے لگا پینٹ کو اپنے جسم سے نیچے سرکانے کے بعد اپنا انڈرویئز بھی اتار دیا۔ اسکا لوڑا زیب کے سامنے لہرانے لگا۔ زیب فور ہی اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ بنا اسکے لنڈ کو چھوئے اسکی ٹوپی کو چوما اور پھر اپنا منہ کھول دیا۔۔ زمان نے آہستہ سے اپنا لن اسکے منہ کے اندر رکھ دیا۔ زیب نے اسکی ٹوپی کے نچلے حصے پر اپنی زبان پھیرنی شروع کر دی زبان کی نوک سے لن کے نچلے حصے کو سہلانے لگی۔ زمان نے بھی آہستہ آہستہ اپنا لوڑا زیب کے منہ کے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ خود کو آگے پیچھے کرتے ہوئے۔۔ زیب نے اپنے ہونٹوں کو اسکے لوڑے کے گرد بند کر لیا اور اسکے لن کو چوسنے لگی۔ اپنے منہ کو آگے پیچھے کرتی ہوئی۔ اسکا دوسرا ہاتھ زمان کے ٹٹوں کو سہلانے لگا۔ ان سے کھیلنے لگا۔۔ زمان نے اپنا ہاتھ زیب کے سر پر رکھا اور اپنا لوڑا اسکے منہ کے اندر باہر کرنے لگا۔ لن کی ٹوپی زیب کے حلق سے جاکر ٹکراتی۔

چند منٹ تک زیب کو اپنا لوڑا چسوانے کے بعد زمان نے اسے صوفے پر بی سیدھا کیا۔ اور اسکی ٹانگوں کو پھیلا کر اپنے لوڑے کو اسکی چوت پر رگڑنے لگا۔ اوپر نیچے کو گھسنے لگا۔ اسکی چوت کے دانے کو سہلانے لگا۔ زیب کی تھوک سے زمان کا لوڑا گیلا ہو گیا تھا۔ اب اسکی چوت کا پانی بھی اسکے لوڑے کو گیلا کرنے لگا

زیب۔؛ ڈال دو اندر اب پلیز۔ اور نہیں ترپاؤ 

زمان مسکرایا۔اور اپنے لوڑے پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اپنے لوڑے کی ٹوپی کو اسکی چوت کے اندر سرکا دیا۔ زیب کے منہ سے ایک سسکاری نکل گئی۔ اب زمان نے بنا رکے اپنا لوڑا اسکے چوت کے اندر پورے کا پورا اتار دیا۔ دونوں کے بال ایک دوسرے سے ٹیچ ہونے لگے۔ زمان نے اپنا لوڑا اب زیب کی چوت میں اندر باہر کرتے ہوئے اسے چودنا شروع کر دیا۔ زیب بھی اپنی ٹانگیں اٹھائے اس سے چودواہ رہی تھی۔ اسکے منہ سے آہ۔۔۔۔۔ اُووووو۔۔۔ کی آوازیں نکل رہی تھیں۔۔ زمان کا موٹا لوڑا جڑا تک زیب کی چوت کے اندر باہر ہو رہا تھا۔۔ زمان نے زیب کی ٹانگوں کو ہوا میں اٹھا کر دھنا دھن اسے چودنا شروع کر دیا۔۔ کچھ دیر کے بعد اسے صوفے پر ہی گھوڑی بنایا اور پیچھے سے اپنا لوڑا اسکی چوت کے سوراخ پر رکھا۔۔ اور اسکی گانڈ کو پڑ کر اپنا لن اسکی چوت کے اندر ڈال دیا۔۔ زیب نے ایک لبی اہہہ۔۔۔۔۔ کے ساتھ اسکا پورا لوڑا اپنی چوت میں لے لیا۔ زمان نے اب اسکی کمر کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر پیچھے سے گھسے مارنے لگا۔ ایک ہی دن میں دو نئی چوتیں پا کر زمان کا لوڑا پاگل ہو رہا تھا۔ کبھی زمان اسکی کمر کو چھوڑ کر اپنے ہاتھ آگے لے جا کر اسکے مموں کو پکڑ کر دھکے مارنے لگتا۔۔ قریب 15 منٹ تک زمان اسکی چدائی کرتا رہا۔ اس دوران زیب کی چوت نے دو بار پانی چھوڑا۔ اور آخر کار زمان کے لن نے بھی اپنا پانی زیب کی چوت میں نکال دیا۔۔ دونوں صوفے پر ایک دوسرے کی بانہوں میں لیٹ گئے۔


زمان اسکے نپل سے کھیلتے ہوئے بولا؛ تم بھی کنواری نہیں ہو؟؟ وہ نرسز کے بارے میں ٹھیک ہی کہتے ہیں نا پھر کہ نرس کنواری نہیں ہوتی۔


زیب مسکرائی؛کیوں۔۔ آجکل تو آپکی لیڈی ڈاکٹرز بھی کنواری نہیں ہوتیں جناب۔


زمان مسکرایا؛ ہاں یہ تو ہے۔


زیب؛ ویسے زمان صاحب. آج کے دور میں تو کنواری۔ سیل پیک چوت تو بس قسمت والوں کو ہی ملتی ہے۔


دونوں مسکرانے گے تھوڑی دیر ریسٹ کرنے کے بعد زمان نے ایک بار پھر زیب کو چودا اور پھر وہ اسے ہوسٹل چھوڑ آیا۔


ہاسپٹل جانے کے لئے آج تو ہما سپیشل تیار ہو رہی تھی۔ اس نے ایک خوبصورت سا شلوار قمیض نکال کر پہنا۔ جسکا گلا بھی تھوڑ گہرا ہی تھا۔ اور بنا جھکے ہی اسکی چھاتیوں کی درمیانی کی لکیر نظر آ رہی تھی۔ اور جھکنے پر تو اسکے موں کا کچھ حصہ بھی آسانی سی دیکھا جا سکتا تھا۔ نیچے سے اس نے ٹائٹ سا برینڈ برا پہنا تھا۔ہاف کپ جسکی لائننگ اسکی پتلی شرٹ کے اوپر سے صاف دکھ رہی تھی۔۔ اور صاف پتہ چلتا تھا کہ اسکی برا نے اسکے آدھے مموں کو ڈھانچا ہوا ہے۔۔ روٹین سے زیادہ اس نے میک اپ بھی کیا تھا۔ اور آج تو ہما قیامت ہی لگ رہی تھی۔ اسکے ہونٹوں کی سرخی دیکھ کر کسی کا بھی دل انکو چومنے کے لیے مچلنے سے نہیں رہ سکتا تھا۔۔ تیار ہو کر خود کو آئینے میں دیکھا تو ہما مسکرا دی۔۔ اور خود سے ہی بولی

ہما ڈارلنگ۔۔ آج تو تم چدنے سے نہیں بچ سکتی۔

اور ہما خود بھی کونسا بچنا چاہتی تھی۔ وہ جس راہ پر چل نکلی تھی وہ اسکو انجوائے کرنے لگی تھی۔


رات کو جب انور نے ہما کو ہاسپٹل میں ڈراپ کیا تو ہما کے ذہن میں ایسے ہی خیال آیا کہ اسکا شوہر خود اسے ایک دوسرے مرد کے ساتھ سیکس کرنے کے لیے چھوڑ کر جا رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے ہما کو تھوڑی شرمندگی محسوس ہوئی اور خود کو غلط پایا۔ لیکن پھر اسے خیال آیا کہ انور بھی تو ذرا سا موقع ملنے پر یہی سب کچھ کرنے والا ہے نا۔۔ تو پھر میں ایسا کیوں نا کروں۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اپنی شرمندگی کو جھٹک کر دور کیا اور پھر ہاسپٹل کے اندر چلی گئی۔۔


زیب آ چکی تھی۔ جیسے ہی اس نے ہما کو دیکھ تو اپنے ہونٹ سیکٹر کر سیٹی بجائی۔ جس سن کر ہما شرما گئی۔۔


زیب؛ ڈاکٹر ہما آج تو لگتا ہے کہ مکمل تیاری کرکے آئی ہوئی ہیں ڈاکٹر زمان کو پورے پورے مزے دینے کے۔ میرا تو دل کر رہا ہے کہ ان سے پہلے میں خود آپکے ان رسیلے ہونٹوں کا رس چوس لوں۔


ہما اسکے خطرناک ارادوں کو دیکھ کر فور وہاں سے کھسک گئی۔۔ اور اپنے کمرے میں آگئی۔ ڈاکٹر زمان شاید ابھی نہیں آیا تھا۔۔ وہ اپنے آفس میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی کہ رشید صفائی کرنے کے لیے آگیا۔ رشید بھی اس ہاسپٹل کا ایک کریکٹر تھا۔ 40-35 سال کا ہٹا کٹا مرد تھا۔۔ درمیانہ قد۔ لیکن مضبوط بھاری بھرکم جسم کالا سیاہ رنگ۔ ایک کان میں چاندی کی بالی پہنی ہوئی تھی۔ پان اور سگریٹ اسکی عادت تھی۔۔۔ موٹے کالے ہونٹ۔۔ اور سیاہ چہرہ ۔۔ بہت ہی بدصورت آدمی تھا یہ رشید جیسا اس کا حلیہ تھا ویسی ہی اسکی نوکری تھی۔ ہاسپٹل میں کلینر کی نوکری کرتا تھا یعنی جمعدار۔ سرکاری جاب بھی تھی یہاں نائٹ پر پارٹ ٹائم ڈیوٹی کرتا تھا۔۔ سرکاری ہسپتالوں کا یہ نچلا عملہ تو بس شکاری ہی ہوتا ہے۔۔ جیسے ہی کوئی خوبصورت لڑکی نظر آئی اسکے اردگرد منڈلانے لگتے ہیں اور اکثر اوقات تو یہ لوگ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اپنا شکار قابو کرنے میں۔۔ رشید بھی ایسی ہی چیز تھا۔۔ بہت ہی ٹھرکی اور ہوس سے بھر ہوا۔ کسی بھی لڑکی کو تاڑنے سے باز نہیں رہتا تھا۔ چاہے وہ کوئی نرس ہو، کوئی لیڈی ڈاکٹر

اور ڈاکٹر ہما تو اس کی پسندیدہ لڑکی تھی۔ وہ ہمیشہ ہی اسکی خوبصورتی پر اپنی لاڑ ٹپکاتا ربتا تھا۔ ہما کو بھی اس بات کا احساس تھا۔ اس لیے وہ اسکو نا پسند کرتی تھی۔ اسے دیکھتے ہی اسکے ماتھے پر بل پڑ جاتے تھے۔ کیونکہ اسکی نظریں اسکے جسم کو ناپتی رہتی تھیں۔۔ اسی وجہ سے ہما اس سے نفرت کرتی تھی۔۔


اب بھی کمرے میں صفائی کرنے آیا تو ہما کو دیکھنے لگا۔ اسے بھی احساس ہوا کہ آج ہما ہر روز سے کچھ زیادہ ہی خوبصورت لگ رہی ہے۔ اسکی نظریں بار بار ہما کی ننگی ہو رہی ہوئی گوری گوری پنڈلیوں پر جا رہی تھیں۔۔ صفائی کرتے ہوئے وہ رہ نہیں پایا اور بول ہی پڑا

میڈم جی ۔۔ آج تو آپ بہت پیاری لگ رہی ہو۔


ہما نے چونک کر اسکی طرف دیکھا۔۔ اور ناگواری سے بولی؛ تم کو اس سے کیا مطلب؟ تم اپنے کام سے کام رکھو۔۔


رشید؛ وہ میڈم جی میں تو ویسے ہی کہہ رہا تھا۔ جو سچ بات ہے میں نے کہہ دی بس


ہما؛ اپنی اوقات میں رہا کرو۔۔۔ سمجھے۔۔ اور آئندہ میں تمھارے منہ سے ایسی بات نہ سنوں ار


رشید چپ کر گیا۔ اور اپنا کام کرنے لگا۔ مگر اسکی ہوسناک ٹھرکی نظریں کہاں باز آنے والی تھیں۔ وہ ابھی بھی بار بار ہما کے جسم کو ہی تار رہی تھی۔ آخر اس کا کام مکمل ہوا اور وہ کمرے سے نکل گیا۔۔ تھوڑی دیر میں ہما کو ایک سینئر ڈاکٹر کے ساتھ آپریشن تھیٹر جانا پڑ گیا۔ اس نے اپنے آفس میں اپنے کپڑے اتارے اور انکو کھونٹی پر لٹکا کر آپریشن تھیٹر کا لباس پہن لیا اور اندر چلی گئی۔ رشید نے بھی ہما کو آپریشن تھیڑ جاتے ہوئے دیکھا تو ماحول سازگار دیکھ کر وہ ہما کے آفس میں کھسک آیا۔۔ وہاں اسے ہما کا لباس نظر آیا۔ ۔ وہ فوراً آگے بڑھا اور اسے کھونٹی پر سے اتار لیا۔ اسے اپنے ہاتھوں میں لے کر ائی خوشبو سونگھنے لگا۔ ہما کے لباس کی خوشبو کو سونگھتے ہی رشید کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ بہت ہی پیاری اور مست خوشبو آرہی تھی۔ ہما کے جسم کی خوشبو بھی اس میں تھی اور اسکے پرفیوم کی بھی۔


رشید نے ہما کی شلوار کو پکڑا اور اسکی چوت والے حصے کو اپنی ناک سے لگا کر سوکھنے لگا۔ وہاں پر تو صرف ہما کی چوت کی خوشبو تھی۔ بھینی بھینی ۔۔ مست کر دینے والی۔۔ جتنا وہ سونگھتا جاتا اتنی ہی اسکی ہوس بڑھتی جاتی۔ اسکا لوڑا بھی اکڑنے لگا تھا۔۔ اس نے اپنا لوڑا باہر نکالا اور ہما کی شلوار کو اپنے کالے لوڑے پر لپیٹ کر اسے رگڑنے لگا۔ ملائم شلوار کی رگڑائی سے اسے بے حد مزہ آرہا تھا۔۔ لوڑے پر سے کپڑا پھسلا جارہا تھا۔۔۔ اور رشید دوسرے ہاتھ سے ہما کی قمیض کو سونگھ رہا تھا۔ اسے احساس تھا کہ اگر اسکا پانی ڈاکٹر ہما کے کپڑوں پر لگ گیا تو اسکے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ آخر اس نے خود پر قابو پایا اور پھر ہما کے کپڑے واپس لٹکا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔

ہما واپس آئی اور آکر اپنے کپڑے پہنے لگی تو اسے احساس ہوا کہ اسکے کپڑوں پر کافی سلوٹیں پڑی ہوئی ہیں۔ ہما کو کچھ سمجھ نہیں آئی۔ وہ اپنے کپڑوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ اپنی شلوار پر ایک جگہ اسکو ایک چھوٹا سا سرخ سرخ نشان نظر آیا۔۔ وہ حیران ہوئی اور اسے دیکھنے لگی کہ یہ کس چیز کا شان ہو سکتا ہے۔ کوئی بلڈ ہے یا کچھ اور جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے خاموشی سے اپنے کپڑے پینے اور باہر آگئی۔ باہر آئی تو رشید پھر اسکو دیکھ رہا تھا۔ اسکا لوڑا یہ سوچ کر بی ٹائٹ ہونے لگا کہ ابھی کچھ دیر پہلے وہ ڈاکٹر ہما کی چوت کی خوشبو سونگھ چکا ہے۔ اور اسکی شلوار سے اپنی مٹھ بھی ماری ہے۔۔ ہما نے جب رشید کو پان چباتے ہوئے دیکھا تو ایک لمحے کے لیے اسے خیال آیا کہ کہیں یہ اسکے پان کا نشان تو نہیں ہے۔۔ ہو بھی سکتا ہے کہ اس کمینے نے اندر جا کر میرے کپڑوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہو۔ ہما کی نظروں میں خود بخود ہی اسکے لیے غصہ آگیا۔ ۔ مگر وہ اسے کچھ نہ بولی۔ آخر کہتی بھی کیا۔۔ کیونکہ اسے خود یقین نہیں تھا۔

رات کے 2 بجے تو سب طرف سکون ہی سکون ہو گیا۔۔ رشید بھی حسب معمول کہیں پڑ کر سو چکا ہوگیا۔ مگر ڈاکٹر ہما، زمان اور زیب جاگ رہے تھے۔۔ زمان نے ہما کا ہاتھ پکڑا اور آج پھر سیکنڈ فلور کی طرف لے جانے لگا۔۔ ہما نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور مسکراتی ہوئی اسکے ساتھ چل پڑی۔ لفٹ کے اندر جاتے ہی زمان نے ہما کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔۔ ہما کسمسائی

تھوڑا صبر تو کرنا۔۔۔ میں کہیں بھاگی تو نہیں جارہی نا۔ تمھارے ساتھ ہی جارہی ہوں نا۔

مگر زمان کہاں اسے چھوڑنے والا تھا۔ اتنی سی دیر کے لیے بھی اسکو چومتا رہا۔۔


اندر کمرے میں جاتے ہی اس نے ایک بار پھر سے ہما کو اپنی بانہوں میں لیا اور اسکی کمر کو سہلاتے ہوئے اسکی گانڈ کو دبانے لگا۔۔ پھر اس نے ہما کی شرٹ کو پکڑ کر اوپر کو اٹھاتے ہوئے اسے اتار دیا۔ ہما کا اوپر جسم نگا ہوگیا۔۔ اسکے ممے آدھے اسکی برا میں سے چھلک رہے تھے۔۔ جیسے ہی زمان کی نظر ان پر پڑی تو وہ نیچے جھک کر اسکی چھاتیوں اور انکے درمیان کی لکیر کو چومنے لگا۔ ہما نے بھی اس کا سر اپنے سینے پر دبا لیا۔۔ اور لذت سے آنکھیں بند کر لیں۔۔ زمان نے ہما کی برا کے ایک کپ کو نیچے کھینچا اور اسکا ایک مما ننگا کر لیا۔۔ اور اسکے گلابی نیل کو منہ میں لے کر چوسنے لگا۔۔ پھر اپنے دانتوں کے بیچ میں لیا اور انکو آہستہ آہستہ کاٹنے لگا۔۔ ہما کا مزے سے برا حال ہو رہا تھا۔۔ کچھ ہی دیر کے بعد ہما نے بھی اپنا ایک بازو زمان کی گردن کے پیچھے ڈالا اور دوسرا ہاتھ نیچے لے جا کر اسکے لوڑے کو پکڑ لیا۔ اور اسکی پینٹ کے اوپر سے ہی اسکو سہلانے لگی۔۔ جب اسکی تسلی نہیں ہوئی تو اس نے زمان کی پینٹ کی بیلٹ کھولی اور اسکی پینٹ کو نیچے سرکا دیا۔ اور اپنا ہاتھ اسکے اندرویئر کے اندر ڈال کر اسکے لوڑے کو پکڑ کر باہر کھینچ نکالا۔ اور اپنی مٹھی میں لے کر اسکے اکڑے ہوئے لوڑے کو مسلنے لگی۔۔


زمان نے ہما کے مموں پر سے اپنا منہ ہٹایا۔۔ اور ایک بار پھر ہما کے ہونٹوں کو چومنے لگا۔۔ پھر اسکے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے نیچے کو بٹھانے لگا۔ ہما اسکا مطلب سمجھ رہی تھی۔۔ وہ بھی بنا مزاحمت کیے نیچے بیٹھ گئی۔ زمان کا اکڑا ہوا لن ہما کے چہرے کے سامنے لہرا رہا تھا۔ ہما نے مسکرا کر زمان کی آنکھوں میں دیکھا اور اسکے گورے چلے لوڑے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔ اور اپنے ہونٹ آگے لے جاکر اسکے ٹوپے کو چوم لیا۔۔ پھر اپنی زبان باہر نکال کر اسے چاٹنے لگی۔ ہما نے زمان کے لوڑے کی ٹوپی کو چاٹنے کے بعد اسے نیچے سے اوپر تک اپنی زبان سے چاٹا شروع کر دیا۔ اسکے لوڑے کو اپنے تھوک سے گیلا کرنے لگی۔ کبھی اسے منہ کے اندر لیتی اور اپنا سر آگے پیچھے کرتی ہوئی اسکا لوڑا اپنے منہ میں اندر باہر کرنے لگتی۔ اسکے حلق اور منہ سے اسکا گاڑھا گاڑھا تھوک نکل نکل کر اسکے لوڑے پر لگ رہا تھا۔۔ اور ہما کی مستی بھی بڑھتی جارہی تھی۔ وہ بار بار اسکے لوڑے کو اپنے منہ میں لیتی اور اسے چوستی۔

کبھی کبھی زمان دھکا لگاتا تو اسکا لوڑا ہما کے حلق سے بھی ٹکراتا۔۔ تھوڑی ہی دیر میں دونوں اپنے اپنے لباس سے بے نیاز ہو کر چدائی میں مصروف ہو گئے۔ آج پھر ہما کو بے حد مزہ آیا تھا۔


ہما کو چودنے کے بعد زمان نے کپڑے پہنے اور کمرے سے نکل کر نیچے آگیا۔۔ کچھ دیر تک آرام کرنے کے بعد ہما نے بھی اُٹھ کر اپنے کپڑے پینے اور اپنا حلیہ درست کر کے باہر نکل آئی۔ جیسے ہی وہ لفٹ کی طرف بڑھی تو اسے برآمدے کے آخر میں رشید کھڑا نظر آیا۔۔ جیسے ہی ہما کی نظر اس پر پڑی تو وہ ٹھٹک گئی۔ گھبرا گئی۔ اسکے چہرے کا رنگ ہی جیسے اڑ گیا۔ اور دور کھڑا رشید ہما کو دیکھ کر اپنے پیلے پیلے دانت نکال مسکراتا رہا۔۔


جاری ہے

*

Post a Comment (0)