ڈاکٹر ہما۔ قسط 11

اکٹر ہما 


قسط 11 


ہما نے اپنی ہمت اکٹھی کی اور جلدی سے لفٹ میں داخل ہو کر نیچے اتر آئی۔۔ اسکا دل بڑی بری طرح سے دھڑک رہا تھا ایک انجانے خوف سے۔۔


زیب نے ڈاکٹر ہما کی آڑی آڑی رنگت اور گھبرایا ہوا چہرہ دیکھا تو فور اس سے پوچھنے لگی۔


زیب۔ کیا ہوا ڈاکٹر ہما۔۔ آپ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہیں۔


ہما۔ نہیں نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔


زیب مسکرائی۔۔ کہیں ڈاکٹر زمان نے کچھ زیادہ ہی زور سے گھسے تو نہیں مار دیئے۔


اسکی اس بات پر ہما مسکرائی اور سے بازو پر ایک ھلکی سی چپت ماری۔ بڑی بے شرم ہو تم نا۔۔


زیب مسکرا کر ہم کی گانڈ کو سہلاتی ہوئی بولی۔ یہ بھی ٹھیک کہی آپ نے۔۔ ڈاکٹر زمان سے چدوا کر آپ خود آرہی ہو اور بے شرم میں ہو گئی۔۔ اچھا انصاف ہے جی آپ کا۔


اسکے اس انداز سے بات کرنے پر ہما ہسنے لگی۔ اسے رشید والی بات بھولنے لگی۔ اور وہ نارمل ہونے لگی


زیب۔ ڈاکٹر ہما۔ ویسے میرے پاس بھی ایک بات ہے آپکو بتانے والی۔


ہما۔۔ ہاں ہاں بتاؤ جلدی۔۔ 


زیب تھوڑا جھجلنے کی اداکاری کرتی ہوئی۔ وہ آج صبح میں نے بھی کر لیا۔


ہما خوش ہوتی ہوئی۔ واؤ۔۔ زبردست اپنے منگیتر کے ساتھ ۔


زیب۔۔ نہیں۔۔ کسی اور کے ساتھ۔۔


ہما۔۔ جلدی بتاؤنا کس کے ساتھ کیا ہے تم نے۔


زیب۔ آپ ناراض تو نہیں ہو نگی نا۔


ہما حیرانگی سے۔۔ بھلا میں کیوں ناراض ہونے لگی۔۔ جلدی بتاؤ کون ہے وہ لکی جس نے تمھاری لی ہے۔


زیب۔۔ وہ بھی وہی ہے جس نے آپ کی لی ہے ڈاکٹر ہما۔


ہما نے ایک لمحے کے لیے سوچا۔ اووووو واؤؤؤؤؤ م۔۔ یعنی کہ زمان کے ساتھ۔۔۔۔زبردست


زیب۔ جی ڈاکٹر ہما۔ ڈاکٹر زمان کے ساتھ۔ آپ ناراض نہیں ہوئیں نا؟


ہما اسے اپنے بانہوں میں بھرتی ہوئی بولی۔۔ ارے میں بھلا کیوں ناراض ہونے لگی۔۔ مزے کرنے پر تو سب کا ہی حق ہے نا۔۔ جیسے تم مجھے کہتی ہوتی ہو۔


یہ کہتے ہوئے ہما نے زیب کے ہونٹوں کو چوم لیا۔۔ زیب نے بھی ہما کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ اور اسکو چومنے لگی۔


چند لمحوں کے بعد ہما نے اسے پیچھے ہٹایا اور بولی۔۔ چلو اب مجھے بتاؤ کیسے ہوا یہ سب اور کہاں۔



زیب نے ہما کو ساری بات تفصیل سے بتادی۔۔


ہما۔ ۔ تو تم اسکے گھر پر گئی تھی اسکے ساتھ ۔۔


زیب نے ہاں میں سر ہلایا۔۔ 


ہما کو ایک بار پھر سے رشید کا خیال آیا۔ ہاں باہر ہی ٹھیک ہے ویسے۔۔۔ یہاں روز روز کرنے سے کسی کو پتاںبھی تو چل سکتا ہے نا۔۔


زیب۔۔ ڈاکٹر ہما۔۔ آپ چلو گی ڈاکٹر زمان کے گھر پر۔۔


ہما۔۔ سوچوں گی یار۔


زیب نے ہما کے نپل پر چٹکی کاٹی۔۔ چوت میں تو ابھی بھی آپکے کھجلی ہو رہی ہوگی اور نخرے دیکھو ذرا۔۔۔۔


ہما اس بات پر بسنے لگی۔ اور دونوں ایک بار پھر ایک دوسرے کی بانہوں میں سما گئیں۔ اتنے میں زمان اندر داخل ہوا۔۔ اور دونوں کو ایک دوسری کی بانہوں میں دیکھ کر مسکرانے لگا۔ دروازہ بند کر کے انکی طرف بڑھا۔۔ دونوں الگ ہو چکی تھیں۔۔ زمان نے دونوں کے درمیان صوفے پر اپنے لیے جگہ بنائی اور اسکے بیچ میں بیٹھ گیا۔۔ اور اپنے بازو دونوں طرف پھیلا کر دونوں کو اپنے ساتھ چپکا لیا۔۔ نہ ہما نے کوئی مزاحمت کی اور نہ ہی زیب نے ۔۔ زمان نے اپنے ہونٹ ہما کی طرف کیے اور اسکے ہونٹوں کو چوم لیا۔۔ ہما بھی اسکا ساتھ دینے لگی۔۔ اور دونوں ہی ایک دوسرے کو کس کرنے لگے ۔۔۔ زیب دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ اور اسکا ہاتھ زمان کی ران کو سہلا رہا تھا۔۔۔ کچھ دیر تک ہما کو کس کرنے کے بعد زمان نے اپنا منہ اس سے بنایا اور اب زیب کی طرف متوجہ ہو گیا۔۔ اور اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ کر اسے چومنے لگا۔ ہما نے اپنا ہاتھ بڑھا کر زیب کے ممے پر رکھ دیا۔۔ اور اسے آہستہ آہستہ دبانے لگی۔ اسکی نظریں بار بار دروازے کی طرف جا رہی تھیں۔۔ کہ کوئی آ نہ جائے۔۔


زمان نے زیب کی یونیفارم کی شرٹ کے بٹن کھولے۔ اور اپنا ہاتھ اندر ڈال کر اسکے ممے کو سہلانے لگا۔۔ زیب کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔ ہما بھی زمان کے ساتھ چپکی ہوئی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ اسکا ہاتھ اب زمان کی پینٹ کے اوپر سے ہی اسکے لوڑے پر تھا۔ جو اکڑا ہوا تھا اور وہ اسے سہلانے لگی۔۔ زیب نے بھی اپنا ہاتھ زمان کے لوڑے پر رکھا اور اسکی زپ کھول کر اس لن باہر نکال لیا۔ زمان کا لوڑا ننگا ہوتے ہی ہما نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔۔ اور ہاتھ کو اوپر نیچے کرتے ہوئے اسکو سہلانے لگی۔۔ زمان نے اپنا ہاتھ ہما کے سر کے پیچھے رکھا اور اسکا سر نیچے کو کھینچ لیا۔ ہما نے بنا کوئی مزاحمت کے اپنا منہ نیچے لے جا کر زمان کے لوڑے کو چوم لیا۔۔ اور اسکے ٹوپی پر زبان پھیرنے لگی۔۔ اتنے میں زمان نے زیب کا چہرہ بھی اپنے لوڑے پر بھی جھکا دیا۔۔ اس نے بھی اپنا ہاتھ زمان کی ران پر رکھا اور اسکے لوڑے کے نچلے حصے کو اپنی زبان سے چاٹنے لگی۔ نیچے سے اوپر تک۔۔۔ اور اوپر سے نیچے تک۔۔ ہما نے زمان کے لوڑے کی ٹوپی کو چومتے ہوئے اسے اپنے منہ میں لیا اور چوسنے لگی۔ پھر اسے اپنے منہ سے نکال کر زیب کی طرف بڑھا دیا۔۔ جسے زیب نے فور ہی اپنے منہ میں لیا اور چوسنے لگی۔ ہما اسکے لوڑے کو سہلاتی ہوئی زمان کی طرف دیکھنے لگی۔۔ مسکراتی ہوئی۔۔ زمان نے اسکے ہونٹوں کو چوم لیا۔


کچھ دیر تک ہما اور زیب باری باری زمان کے لوڑے کو چوستی رہیں۔۔ اور اس سے پہلے کے بات کچھ آگے بڑھتی ۔۔ دروازے پر دستک ہوئی۔۔ سب چونک اُٹھے۔۔ اور جلدی جلدی اپنا اپنا الیہ درست کرنے لگے زمان اُٹھا اور اپنی پینٹ کی زپ کو بند کرتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا اور جاکر دروازہ کھول دیا۔


سامنے رشید کھڑا تھا۔۔۔


زمان نارمل انداز میں بولا۔۔ کیا بات ہے رشید ۔۔


رشید سر وہ ایک ایمرجنسی آئی ہے اسے چیک کر لیں۔۔



رشید کی آواز سن کر ہما ایک بار پھر سہم گئی تھی۔ مگر اس نے کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔۔ زمان اور زیب


باہر آگئے ایمرجنسی مریض کو دیکھنے کے لیے۔۔ اور ہما اندر ہی رہ گئی۔۔ 


اسے اکیلا دیکھ کر رشید اندر آگیا۔۔ اور اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کپڑے سے ٹیبل صاف کرنے لگا۔ اور ساتھ ہی پان سے لال پہلے ہو رہے اپنے دانت نکال کر مسکراتا ہوا ہما کو دیکھنے لگا۔ ہما بھی اسکی نظروں کو محسوس کر رہی تھی۔ مگر چپ تھی۔ 


وہیں رکے رکے رشید نے اپنی جیب میں سے سگریٹ نکالی اور اسے ماچس سے جلا کر کش لگانے لگا۔


ہما کو اس کی اس حرکت پر غصہ آیا۔ یہ کیا بدتمیزی ہے رشید۔ میں نے کتنی بار تم کو منع کیا ہے کہ میرے سامنے اور آفس کے اندر آکر سگریٹ نہ پیا کرو۔۔


رشید نے ایک لمبا کش لیا اور دھواں فضا میں چھوڑتا ہوا بولا۔۔ میڈم جی۔۔ سگریٹ تو ڈاکٹر زمان صاحب بھی پیتے ہیں۔ انکو تو آپ نے کبھی نہیں روکا۔

رشید کے منہ میں پان بھی تھا جسے وہ چبا بھی رہا تھا۔۔ اور ہما کی طرف دیکھ رہا تھا۔ 


ہما غصے سے ۔۔ تمکو زمان سے کیا مطلب ۔۔ تم اپنی اوقات میں رہا کرو۔۔ ورنہ ۔۔


رشید پھر بنستا ہوا بولا۔ ورنہ کیا میڈم جی۔۔۔ مجھے نکلوا دیں گی کیا آپ یہاں سے۔۔ ہاں ہاں نکلوا دیں مجھے۔۔ تاکہ آپکا راستہ صاف ہو جائے ۔۔


ہما۔ کیا بکواس کر رہے ہو۔۔ کونسا راستہ۔۔ ہما نے اس سے سختی سے نپٹنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ اسے خود پر سوار نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔


رشید مسکرایا۔۔ وہی میڈم جی۔۔ اوپر والے آفس میں جانے کا راستہ۔۔ زمان صاحب کے ساتھ۔


ہما اپنی جگہ سے اُٹھی۔۔ اور رشید کی طرف بڑھی۔ اور اپنا ہاتھ اٹھا کر اسے تھپڑ مارنے لگی۔۔ رشید نے اپنی طرف آتا ہوا اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ اسکی کلائی سے۔۔ اور ہستے ہوئے بولا۔


رشید۔ نا نا۔۔ میڈم جی۔ ایسا نہیں کرنا۔۔ ہاتھ نہیں اٹھانا میرے پر۔ یہ بات مجھے بہت بری لگتی ہے 


یہ کہتے ہوئے رشید نے اپنا چہرہ ہما کے چہرے کے قریب لاتے ہوئے سگریٹ کا دھواں اسکے چہرے پر چھوڑ دیا اور پھر اسے چھوڑ کر دفتر سے باہر جانے لگا۔۔


ہما تو اسکی اس حرکت سے ساکت ہو چکی تھی۔ اسکے پیچھے سے بولی۔ کل ہی میں کمال صاحب سے تمہاری شکایت کروں گی۔۔


رشید دروازے پر رکا۔۔ ٹھیک ہے کر دیں۔۔ مگر کمال صاحب سے پہلے تو آپکے شوہر نے آنا ہے نا۔ ۔ یہ کہہ کر رشید مسکراتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔۔ اور ہما وہیں صوفے پر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔



صبح جب ہما انور کے ساتھ جانے کے لیے ہاسپٹل کے گیٹ پر آئی تو اسکے پاؤں جیسے زمیں نے جکڑ لیے ہوں سامنے اسے کار سے نکل کر کھڑا ہوا انور نظر آیا۔۔ اور اسکے سامنے رشید کھڑا اس سے کچھ باتیں کر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر ہما کا تو جیسے دل ہی اچھل کر سکے حلق میں آگیا۔۔ انور اور رشید نے بھی ہما کو دیکھ لیا تھا۔ مگر وہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے باتیں کرتے رہے۔ ہما کو لگا کہ رشید اسکے شوہر کو سب کچھ بتا رہا ہے اسکے اور زمان کے بارے میں۔۔ یہی خوف اسکو کھائے جارہا تھا۔۔۔ انور نے ہما کو آنے کا اشارہ کیا۔۔ ہما بوجھل قدموں کے ساتھ انکی طرف بڑھی۔۔۔ انکے پاس پہنچی تورم رشید نے ہاتھ اپنے ماتھے پر رکھ کر اسے سلام کیا۔۔


رشید سر مجھے اپنا کارڈ دے دیں۔۔ میں آپ کو فون کر دوں گا۔۔


انور نے اپنی جیب سے کارڈ نکال کر اسے دے دیا۔۔ ہما خاموشی سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔۔ حالانکہ اسے یہ سب ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔۔ اس نے انور کے چہرے کی طرف دیکھا۔۔ مگر اسے اسکے چہرے پر کوئی غصے کے آثار نظر نہیں آئے۔۔ 


انور ۔۔ چلو جلدی چلیں۔۔ آج پھر نا ڈاکٹر زمان آجائیں تمکو بلانے کے لیے۔


رشید نے ہما کی سائیڈ کا دروازہ کھولا اور ہما کار میں بیٹھ گئی تو رشید نے دروازہ بند کیا اس دوران اسکی نظریں ہما کی نظروں سے ملیں۔۔ اور اس نے مسکرا کر اپنی ایک آنکھ دبا دی۔۔ ہما نے فور ہی اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیا۔۔ اور انور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔


ہما کا دل گھبرا رہا تھا کہ پتہ نہیں رشید نے انور سے کیا بات کی ہے۔ وہ اس سے پوچھنا چاہ رہی تھی۔ مگر ہمت نہیں کر پا رہی تھی۔ آخر رہ نہیں پائی۔

ہما۔ کیا کہ رہا تھا رشید۔ ہما نے بڑے ہی نارمل سے انداز میں پوچھا۔۔


انور ۔۔ کچھ نہیں یار ۔ بس کہہ رہا تھا کہ کوئی کام ہو تو بتائیں وہ پارٹ ٹائم کرنا چاہتا ہے…


ہما نے انور کے چہرے کی طرف دیکھا۔ جیسے اندازہ لانا چا رہی ہو کہ وہ کچھ چھپا تو نہیں رہا۔ مگر وہ کچھ بھی اندازہ نہ لگا سکی۔۔۔


گھر آکر انور بیڈ روم میں چلا گیا۔۔ اور ہما لباس تبدیل کر کے کچن میں آگئی چائے بنانے کے لیے۔۔ اسکا دل ابھی بھی مطمئن نہیں ہو رہا تھا۔۔ آخر اس نے اپنا فون اُٹھایا۔۔ اور رشید کا نمبر ملانے لگی۔۔ دوسری بیل پر ہی رشید نے فون اُٹھا لیا۔۔

رشید۔۔ جی میڈم جی ۔ ہمیں کیسے یاد کر لیا آپ نے ۔۔ آج تو ہماری قسمت ہی جاگ پڑی ہے۔


ہما بنا ادھر ادھر کی بات کیے سیدھی بات پر آتی ہوئی بولی۔۔ تم انور سے کیا باتیں کر رہے تھے۔۔؟؟؟


رشید ہنسا۔ ۔ اوہ۔۔ ہو۔۔۔ تو آپ اس وجہ سے پریشان ہیں۔۔۔ بے فکر رہیں میڈم جی میں نے کوئی بھی ایسی ویسی بات نہیں کی۔ اگر آپ چپ رہیں گی تو میں بھی چپ رہوں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے آپ سے یعنی کہ سب کچھ آپکے تعاون پر ہی ہے میڈم جی۔۔۔ بابا ۔۔۔ وہ ہنسنے لگا۔


ہما۔ یو شٹ اپ ۔۔۔ باسٹرڈ ۔ یہ کہتے ہوئے ہما نے فون بند کر دیا۔ اسے ایک بات کی تو تسلی ہو گئی تھی کہ انور سے رشید نے کوئی بھی بات نہیں کی تھی۔ لیکن ابھی اسے اس بات کا بھی یقین نہیں تا کہ وہ کیا کچھ جانتا ہے اسکے اور زمان کے بارے میں۔۔۔

مگر جو بھی ہو ہما نے خاموشی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ بات کو بڑھانا نہیں چاہتی تھی۔ اور آئندہ رشید کو منہ نہ لگانے کا پکا ارادہ کر لیا۔۔۔۔۔


جاری ہے

*

Post a Comment (0)