امینہ اور اُن کا بیٹا
قسط نمبر 1
جنگیں - کسی صورت بہتری نہیں لا سکتیں۔ لیکن جہاں ہر مشکل کے بعد آسانیاں ہیں وہیں کبھی کبھی جنگ جیسی آزمائش میں بھی کچھ نئے رشتے،نئے جذبات جنم لے سکتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ امینہ اور اُن کے بیٹے کے ساتھ ہوا۔
امینہ نے اپنی پیشانی سے پسینہ صاف کیا۔ اس کے کپڑے گرمی کی وجہ سے پسینے میں بھیگے ہوئے تھے۔ بھیگے کپڑوں میں وہ بنکر کے سیمنٹ کے فرش پر بیٹھ گئی۔ فرش اسے ٹھنڈا لگا۔ فون میں وقت دیکھا۔ رات کے دو بج رہے تھے لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا جو کہ مٹی اور دھول کی وجہ سے خراب ہونے لگا تھا۔ پانی کی بوتل سے ایک گھونٹ پانی پیا جس میں آدھے سے بھی کم پانی بچا تھا۔ امینہ کی عمر چالیس سال تھی۔ پچھلے اکیس سال سے وہ بصرہ میں رہ رہی تھی۔
اس کے شوہر بصرہ کی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ امینہ کا اپنا تعلق تو ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا لیکن ان کے شوہر شادی کے بعد اسے بصرہ لے آئے تھے۔ ان کی شادی اکثر شادیوں کی طرح والدین کی مرضی سے ہی ہوئی تھی۔ امینہ نے بنکر کی ہلکی سی لائٹ ارد گرد نظر دوڑائی۔ فرش پر جگہ جگہ لوگ بیٹھے تھے۔ کچھ فیملیاں بھی تھیں۔ کچھ سو رہے تھے تو کچھ اپنے اپنے فون کو گھور رہے تھے کہ شاید انہیں حالات سے متعلق کوئی اپڈیٹ مل سکے۔ امریکہ کی افواج نے عراق پر قبضہ کرنے کیلئے ان کے ملک پر حملہ کر دیا تھا۔ دور کہیں دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ اگرچہ دور ہی سہی لیکن دھماکے بہت زور کے تھے کیوں کہ بنکر کا فرش ہر دھماکے سے لرز اٹھتا تھا۔
امینہ کو ہر چہرے پر خوف نظر آیا۔ اس کا اپنا دل بھی خوف سے بھر گیا تھا۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور روکنے کے باوجود اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ اس نے ہاتھ میں موجود تسبیح کو زور سے پکڑ لیا اور دعا کرنے لگی۔ "یا اللہ میرے عبدل کو محفوظ رکھنا۔ پلیز" اپنے بیس سالہ بیٹے کا سوچ کر وہ بے چین ہو گئی۔ کاش وہ ان کے پاس ہوتا۔ امینہ نے فرش پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔ دو سال پہلے امینہ نے اپنی بیکری بند کی اور عبدل کو میسج کیا: "میں شاپنگ مال کی طرف جا رہی ہوں۔ تمہاری کلاسز ختم ہو گئیں؟" "جی۔ میں وہیں ملتا ہوں آپ کو" عبدل کا جواباً میسج آیا۔ عبدل کا پورا نام تو عبداللہ تھا لیکن پیار سے امینہ اسے عبدل ہی کہتی تھی۔
وہ رات کے کھانے کیلئے کچھ چیزیں خرید رہی تھی جب عبدل وہاں پہنچا۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔
عبدل نے اپنی ماں کو پھول پیش کئے اور گلے سے لگا لیا۔
عبدل: شادی کی سالگرہ مبارک ہو امی۔
امینہ: شکریہ بیٹا۔ ایک تم ہی ہو ہو جو یاد رکھتے ہو
عبدل: اوہو امی ٹینشن نہ لیں۔ ابھی بھی وقت ہے۔ ہو سکتا ہے ابو آپ کو سرپرائز دے دیں۔
عبدل نے کندھے اچکا کر اپنی ماں سے کہا۔
عبدل: یہ کیا ہے؟
امینہ: اوہ یہ رات کے کھانے کیلئے کچھ چیزیں ہیں۔ میں نے تمہاری دادی سے بات کی تھی اور ان سے رس ملائی بنانے کی ترکیب سیکھ لی تھی۔ آج وہی بناؤں گی۔ تمہارے ابو کو بہت پسند ہے۔ اللہ کرے پسند آ جائے۔
امینہ نے جواب دیا۔ امینہ نے چیزیں ٹرالی میں ڈالیں اور عبدل سے کہا:
امینہ: میں نے ابھی اور چیزیں خریدنی ہیں۔ تم نے کچھ لینا ہے تو لے لو۔ ساتھ میں بک سٹور بھی ہے۔
عبدل: جی امی میں نے سکیچ بک اور کچھ کلر پینسل لینی ہیں۔
عبدل یہ کہہ کر باہر نکل گیا اور امینہ لیڈیز سیکشن میں داخل ہو گئی جہاں نائٹی اور بیڈ روم میں پہننے کیلئے سیکسی چیزیں دستیاب تھیں۔ امینہ چاہتی تھی کہ آج کی رات اپنے خاوند کو کچھ سیکسی پہن کر دکھایا جائے۔ اس کے ذہن میں کچھ خاص تھا۔ کچھ دیر ڈھونڈنے کے بعد مل ہی گیا۔ اس نے اپنے سائز کے مطابق ایک بھورے رنگ کا سوٹ پسند کیا جس میں جالی دار ڈیزائن اور لیس لگی ہوئی تھی۔ امینہ کا سائز بھی تو اچھا خاصہ تھا۔
✅چھاتیاں چھتیس
✅کمر بتیس
✅اور کولہے چھتیس۔
امینہ نے وہ سیکسی ڈریس بھی شاپنگ ٹرالی میں ڈال لیا۔ مزید چیزوں کو سرسری سا دیکھتے ہوئے اسے خیال آیا کہ ایک نائٹ گاؤن بھی لے لے کیونکہ چھونے پر اس کا کپڑا بہت نرم اور ریشمی لگ رہا تھا۔ سب سے آخر والے ریک کے پاس ایک لڑکی کھڑی تھی۔
امینہ اسے کے قریب پہنچی تو وہ بول اٹھی۔
سیلز گرل: میڈم اگر آپ کو کوئی پرائیویٹ چیز چاہیے تو ہمارے پاس وہ بھی دستیاب پیں۔
امینہ کو پہلے تو سمجھ نہیں آئی کہ اس کا مطلب کیا ہے لیکن جب لڑکی نے ایک خفیہ دروازہ کھول کر دکھایا جہاں مختلف قسم کے سیکس ٹوائز الماریوں میں سجے ہوئے تھے، تو امینہ نے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر سوچا کہ کیا اسے کوئی نیا کھلونا لینا چاہیے۔ ایک سرد آہ بھر کر اس نے لڑکی کو منع کر دیا۔ اس کے پاس پہلے ہی کافی کھلونے تھے۔
ربڑ کے لن جو اندر ڈالنے پر وائبریشن پیدا کرتے تھے۔ اس نے سوچا یہ پھر کسی وقت لے گی۔ آج تو وہ کسی اور مشن پر تھی۔
رات کو آٹھ بجے اس کا شوہر یونیورسٹی سے لوٹا۔ چہرے پر غصہ اور پیشانی پر لکیروں سے پتہ چلتا تھا کہ موڈ ٹھیک نہیں ہے۔ امینہ ڈنر ٹیبل پر اس کا انتظار کر رہی تھی جسے اس نے اپنے شوہر کی پسندیدہ ڈشوں سے سجایا ہوا تھا۔
بہت رومانوی منظر تھا۔ صبح یونیورسٹی جاتے ہوئے ان کے شوہر کے رویے سے ایسا لگا تھا کہ جیسے اسے یاد ہی نہیں کہ آج ان کی شادی کی سالگرہ ہے۔ اب جب وہ واپس آیا تو اب بھی ایسا ہی لگ رہا تھا کہ اسے سالگرہ یاد نہیں۔
عباس: میں نے کچھ پیپر چیک کرنے ہیں
امینہ کے شوہر نے کہا اور کھانا اٹھا کر سٹڈی روم میں لے گیا۔
امینہ اکیلی ٹیبل پر بیٹھی رہ گئی۔ کھانا بھی اکیلی ہی کھانا پڑا اسے۔ بعد میں رات کو بیڈ روم میں جب وہ سونے کی تیاری کر رہے تھے تو امینہ ایک شاپنگ بیگ اٹھا کر باتھ روم میں گھس گئی۔ اس کا شوہر، عباس پہلے ہی بیڈ میں لیٹا اپنے لیپ ٹاپ پر کچھ کام کر رہا تھا۔ امینہ نے غسل خانے کا دروازہ بند کیا اور کپڑے اتار دئیے۔ شیشے میں اپنا ننگا سراپا دیکھ کر امینہ خوش ہوئی۔
✅پانچ فٹ چھ انچ کے قد میں وہ عام عورتوں سے ذرا لمبی تھی۔
سفید دودھیا رنگ جیسا عرب خواتین کا ہوتا ہے۔ عمر میں اپنی عمر سے کم لگتی تھی۔ اس کی وجہ اس کا روز واک کرنا تھا۔ اپنی بیکری ہونے کے سبب اس نہ صرف اسے کچن میں زیادہ وقت صرف کرنا پڑتا تھا بلکہ گاہوں سے بھی واسطہ پڑتا تھا۔ اسی لئے امینہ اپنی خوبصورتی کا خیال رکھتی تھی۔ امینہ نے اپنے گہرے کالے رنگ کے بالوں میں برش پھیرا۔ اس کے بال اس کی کمر کے درمیان تک پہنچتے تھے کیونکہ امینہ نے ہئیر سٹائل ہی ایسا بنایا ہوا تھا۔
چہرے پر ہلکا سا میک اپ کیا۔ اپنی جلد پر موسچرائزر لگاتے ہوئے کچھ وقت اپنے چھتیس سائز کے خوبصورت مموں اور براؤن نپلز کو سہلایا۔ اپنی چوت سے بالوں کو وہ پہلے ہی تراش چکی تھی اور ساتھ ہی بازوؤں اور ٹانگوں پر ویکس بھی۔
👙آنے والے لمحات کی خوشی دل میں لئے اس نے اپنی نئی برا اور پینٹی پہنیں۔ اسے امید تھی کہ تین مہینے کا بنا سیکس عرصہ آج ختم ہو جائے گا۔ جالی دار برا اور پینٹی پہن کر اوپر سے امینہ نے اپنی روزمرہ پہننے والی نائٹی زیب تن کر لی اور بیڈ روم میں داخل ہو گئی۔
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے وہ عباس کی جانب بڑھی جو ابھی تک لیپ ٹاپ میں ہی نظریں دھنسا کر بیٹھا تھا۔ بیڈ پر عباس کے ساتھ بیٹھ کر امینہ نے عباس کے گال کو چوم لیا۔ عباس نے شاید پہلی مرتبہ مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
عباس: یہ تم کیا کر رہی ہو؟
عباس کے لہجے میں شک تھا۔ بیڈ پر گھٹنوں کے بل کھڑی ہو کر امینہ نے آہستہ آہستہ نائٹ گاؤن اتارا اور اپنی نئی خرید شدہ برا اور پینٹی اور اپنا جسم اپنے شوہر کو پیش کیا۔
امینہ: شادی کی سالگرہ مبارک
امینہ نے مسکرا کر کہا۔
عباس نے ہممم کی آواز نکالی اور اپنی توجہ واپس لیپ ٹاپ کی طرف کر لی۔ امینہ اس کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی اور اس کے سینے میں انگلیاں پھیرنے لگی۔ عباس کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اس کے کان کے قریب منہ کر کے انتہائی سیکسی آواز میں سرگوشی کرنے لگی۔
امینہ: عباس۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ تمہاری چاہت ہے۔ میری لے لو۔ مجھے اپنی بنا لو
امینہ نے لیپ ٹاپ بند کر کے پیچھے کھینچ لیا۔
عباس: بس کرو امینہ۔ تمہارا مسلہ کیا ہے؟
عباس نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
عباس: تمہیں کب سمجھ آئے گا مجھے ان بچگانہ چیزوں سے کوئی رغبت نہیں۔ اور شادی کی سالگرہ میں ایسا کیا خاص ہے کہ ہر سال اتنا اہتمام کیا جائے؟
امینہ تو جیسے سن ہو کر رہ گئی تھی۔ آنکھوں سے آنسو نکلنے کو بے تاب تھے۔
عباس: اور یہ کیا رنڈیوں جیسا لباس پہنا ہے تم نے۔ تمہارا دماغ تو نہیں خراب۔ کچھ شرم کرو۔ تم ایک بالغ لڑکے کی ماں ہو۔ خدا کا واسطہ ہے اپنا جسم ڈھانپو جا کے۔
عباس نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور واپس سٹڈی روم میں چلا گیا۔
امینہ بے چاری آنکھوں میں آنسو لئے پھر سے اکیلی رہ گئی۔ وہ ایک اچھی بیوی بننے کیلئے ہر ممکن کام کرتی تھی لیکن عباس کی طرف سے تعریف کا ایک لفظ بھی کبھی نہیں آیا تھا۔ تعریف نہ سہی کبھی ہمدردی کا ہی کوئی بول کہہ دے بندہ لیکن نہیں۔
امینہ کا خوبصورت چہرہ، سیکسی جسم اور خوبصورت بال اجنبیوں اور دوستوں کے دل میں تو ہلچل پیدا کر سکتے تھے لیکن عباس کو ان سب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اتنے سال اکٹھے رہ کر اب امینہ کو کچھ عرصہ سے احساس ہو چلا تھا کہ عباس کو اس سے کوئی محبت نہیں۔ اس نے محض اپنے والدین کی خوشی کی خاطر شادی کی تھی، بچہ پیدا کیا تھا اور بس۔ اسے کبھی امینہ سے پیار ہوا ہی نہیں تھا۔
اس کی جاب، اس کی پروفیشنل لائف ہی اس کی تمام تر زندگی تھی۔ دیکھا جائے تو عملی طور پر وہ یونیورسٹی میں ہی رہتا تھا کیونکہ اتنا لیٹ گھر آ کر صرف سوتا ہی تھا یا کام میں جتا رہتا۔
امینہ بیڈ سے اتری اور نائیٹ گاؤن پہن کر بوجھل قدموں سے چل کر بالکونی کا دروازہ کھول کر ٹیرس پر کھڑی ہو گئی۔ یہاں سے شہر کی چکا چوند روشنیاں اور آسمان دیکھتی وہ وہیں کھڑی رہی۔ آنسو اس کے چہرے پر بہہ رہے تھے، کالے رنگ کا آئی لائنر اب آنسوؤں میں بہہ رہا تھا۔ اچانک اسے محسوس ہوا جیسے کوئی پیچھے کھڑا ہے۔ مڑ کر دیکھا تو عبدل کافی کے دو کپ ہاتھ میں تھامے کھڑا تھا
عبدل: بھول گئے ابو؟
عبدل نے پوچھا۔
امینہ: جو کچھ ہوا وہ محض بھول جانے سے بدتر تھا
عبدل نے کافی کی چسکی لی اور کہنے لگا:
عبدل: امی وہ ایسے ہی ہیں۔ میں تو یہ تسلیم کر چکا ہوں اور جب سے تسلیم کیا ہے میری زندگی سکون میں ہے۔ سالوں سے انہوں نے میری سالگرہ یاد نہیں رکھی۔ شاذ و نادر ہی ان سے میری بات ہو پاتی ہے۔ نہ میری تعلیم میں انہیں کوئی دلچسپی ہے نہ میری آرٹ میں۔ مجھے ان سے کوئی توقع نہیں ہے اب۔ میرا خیال ہے آپ بھی اگر توقعات نہ رکھیں تو بہتر ہے
امینہ نے سر ہلایا اور اپنے بیٹے کو دیکھ کر جواب دیا:
امینہ: اُنھیں تو مجھے سمجھانا چاہئے اور یہاں دیکھو میں اپنے بیٹے سے سبق لے رہی ہوں کہ زندگی کیسے گزارنی ہے۔
یہ کہہ کر امینہ اداس سی ہنسی ہنس پڑی۔
امینہ: ویسے تم کب سے اتنے میچور ہو گئے ہو؟
امینہ نے عبدل کے بالوں میں شفقت سے ہاتھ پھیرا۔
عبدل مسکرایا۔
امینہ: پتہ نہیں ہماری فیملی کو کیا ہو رہا ہے۔ عباس کو خیال کرنا چاہیے۔ ایک اچھا باپ ایک اچھا شوہر بن کر رہنا چاہیے۔
امینہ نے کہا۔
اس کے لہجے میں اس قدر اداسی تھی کہ عبدل اپنی ماں سے لپٹ گیا۔
عبدل: آپ پریشان نہ ہوں امی۔ میں ہوں نا
امینہ نے بھی اپنے بیٹے کو کس کے تھام لیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
اسے خوشی تھی کہ کوئی تو تھا جو اس سے محبت کرتا تھا، اس کا خیال رکھتا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کو اور زور سے تھام لیا لیکن اچانک اسے محسوس ہوا جیسے وہ ہوا میں ہاتھ ہلا رہی ہے۔
آنکھیں کھولیں تو دیکھا اس کے پاس کوئی بھی نہیں تھا۔ یہ سب اس کا تخیل تھا۔ دور دور تک شہر کی روشنیاں ایسا منظر پیش کر رہی تھیں جیسے گلیوں اور سڑکوں پر آگ لگی ہوئی ہو۔
امینہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ آنکھیں مسل کر ادھر ادھر دیکھا۔ بنکر میں سب سو رہے تھے۔ فون پر چار بجے کا وقت تھا۔ ایک کونے میں ایک چھوٹا بچہ رو رہا تھا جسے اس کی جواں سالہ ماں چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس ماں نے اپنی پانی کی خالی بوتل کی طرف مایوسی سے دیکھا اور بے چینی سے آس پاس دیکھنے لگی۔
امینہ سے رہا نہ گیا۔
وہ اٹھی اور اپنی بوتل کے آخری چند گھونٹ اس عورت کو دے دئے تاکہ وہ اپنے بچے کی پیاس بجھا سکے۔ اس عورت نے امینہ کی طرف شکر گزار نظروں سے دیکھا۔
امینہ واپس اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گئی۔ عبدل کا نمبر ملایا لیکن ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا۔ گزشتہ صبح سے عبدل کا نمبر بند جا رہا تھا۔ جب جنگ شروع ہوئی تھی تو عبدل اپنے کسی دوست کے گھر گیا ہوا تھا جبکہ عباس یورپ میں سٹڈی کے سلسلے میں مقیم تھا۔
امینہ نے عباس کا نمبر ملایا۔
امینہ: عبدل کا نمبر ابھی تک نہیں مل رہا۔ میں بہت پریشان ہوں.
امینہ کی آواز میں درد تھا۔
عباس: پریشان نہ ہو۔ وہ ٹھیک ہو گا۔ حکومت سویلین لوگوں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکالنے کے انتظامات کر رہی ہے۔ میں تمہیں اپنے سٹوڈنٹس کے کچھ نمبر بھیج رہا ہوں۔ ان سے رابطے میں رہنا اور کہیں جانا مت۔
امینہ عباس سے بات کرنے کے بعد پھر سے لیٹ گئی اور عبدل کے بارے سوچتے ہوئے سونے کی کوشش کرنے لگی۔
🗓️آٹھ ماہ پہلے ۔۔۔
امینہ شلوار قمیض پہنے باورچی خانے میں کھڑی ناشتہ بنا رہی تھی۔
عباس یونیورسٹی جا چکا تھا۔
کچھ منٹ بعد عبدل صرف ایک نیکر پہنے باورچی خانے میں داخل ہوا۔ اس نے اپنے ننگے بدن پر چمکتے ہوئے پسینے کے قطرے تولیے کی مدد سے صاف کئے۔
🏋️♂️کچھ ماہ سے اس نے روز صبح ورزش کو اپنا معمول بنا لیا تھا۔
انیس سال کی عمر میں اس نے اپنے چھ فٹ کے جسم کو خوب توانا کر لیا تھا۔ چوڑی چھاتی اور کندھے، پیٹ پر ورزش کرنے سے سکس پیک بن گئے تھے۔
عبدل نے پیچھے سے اپنی امی کو پکڑ لیا اور اس کے گال پر بوسہ دے کر گڈ مارننگ کہا۔ امینہ مسکرائی اور جواباً عبدل کے گال پر بوسہ دے کر ناشتہ بنانے لگی لیکن عبدل نے اپنی گرفت اور مضبوط کر دی۔ امینہ کو اپنے کولہوں کے درمیان کوئی سخت چیز محسوس ہوئی۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا۔
گزشتہ کچھ ہفتوں سے عبدل کے رویے میں خوشگوار تبدیلی آئی تھی۔ ویسے تو امینہ کو فخر تھا کہ اس کی بیٹا ہمیشہ سے ہی اس سے بہت محبت کرتا ہے لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے تو بہت شدید انداز میں اپنی محبت کا اظہار کرنے لگا تھا۔ ہر روز صبح یہی معمول تھا کہ وہ کچن میں ناشتہ بنا رہی ہوتی تو عبدل پیچھے سے آ کر پکڑ لیتا اور گال چوم کر گڈ مارننگ امی کہتا۔ جواباً امینہ بھی اس کا گال چوم کر گڈ مارننگ کہتی۔
امینہ کو اپنے بیٹے کا والہانہ محبت کرنا پسند تھا لیکن ایک دن اسے اپنے کولہوں میں اپنے بیٹے کا لن محسوس ہوا تو وہ چونک کر رہ گئی۔
دل میں خوش ہوئی کہ اس کا بیٹا جوان ہو گیا ہے۔ انیس سال کی نئی نئی جوانی ہے اور اس عمر میں تو ویسے بھی لڑکوں سے جوانی سنبھالی نہیں جاتی۔
امینہ نے وہ واقعہ نظر انداز کر دیا لیکن پھر ہر روز تواتر سے یہی بات دہرائی جانے لگی۔
آج بھی یہی ہوا تھا۔
عبدل اسے پیچھے سے پکڑے کھڑا تھا۔ اپنے بیٹے کا گرم گرم جسم اپنے جسم سے مس ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کی خوشبو امینہ کے نتھنوں میں گھس رہی تھی اور اس کا لن کپڑوں کے اوپر سے امینہ کو کولہوں کی دراڑ میں۔
❌لیکن...... یہ سب سراسر غلط تھا۔
جب سے پہلی بار ایسا ہوا تھا، امینہ سوچ رہی تھی کہ عبدل کو بٹھا کر اس سے سنجیدگی سے بات کرے۔ آج اس نے اپنے اندر ہمت پیدا کی اور گلا کھنکار کر بات شروع کی۔
امینہ: عبدل...بیٹا میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔
عبدل: جی امی؟... کیا بات ہے؟
امینہ: پہلے مجھے وہ کیچپ کی بوتل اٹھا کر دو اوپر والے خانے سے۔
عبدل: اچھا امی
عبدل نے اپنی ماں کو چھوڑا اور کیچپ اٹھانے کیلئے بائیں جانب مڑا۔
امینہ نے نظر چرا کر عبدل کے نیکر کی طرف دیکھا اور ایک کرنٹ سا اس کے پورے بدن میں دوڑ گیا۔
عبدل کا نیکر لن کی جگہ سے اچھا خاصہ ابھرا ہوا تھا۔
🗨️امینہ کیس سوچ: توبہ کتنا بڑا ہے اس کا
🗨️امینہ کیس سوچ: نہیں ایسا نہیں سوچنا چاہیے ۔ میرا بیٹا ہے وہ تو
امینہ نے دل ہی دل میں خود کو روکا۔
عبدل نے کیچپ کی بوتل اپنی امی کو پکڑا دی اور خود ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھ گیا۔
امینہ نے دل ہی دل میں جملے بنانے کی کوشش کی کہ بات شروع کیسے کرے۔ اس نے سوچا کیا واقعی یہ بات اتنی ضروری ہے۔ نفی میں جواب پا کر اس نے بات نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور عبدل سے اس کی پڑھائی کے متعلق پوچھنے لگی۔
عبدل اسے بتانے لگا اور وہ پھر سے ناشتہ بنانے میں مصروف ہو گئی لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ سوچتی جا رہی تھی کہ اسے کبھی نہ کبھی عبدل سے یہ بات کرنی ہی پڑے گی کہ یوں ماں کو پیچھے سے پکڑنا جبکہ لن کھڑا ہو، یہ سخت غیر اخلاقی حرکت ہے۔
امینہ نے سوچا اسے پہلی یا دوسری بار ایسا کرنے پر ہی عبدل کو سمجھانا چاہئے تھا لیکن اسے عبدل کا یوں گال پر چومنا بہت پسند تھا۔ ایک بیٹا ہی تو تھا جو اس سے پیار کرتا تھا اور پیار کا اظہار بھی کرتا تھا۔
سوال یہ تھا کہ آیا امینہ بیٹے کے پیار کی خاطر اس کا لن نظر انداز کر دے یا پھر اسے سمجھائے اور پھر پیار سے بھی جائے۔ ہو سکتا ہے عبدل اس بات کا غلط مطلب لے لے اور ماں سے دور کو جائے۔
امینہ نے یہی فیصلہ کیا کہ فی الحال عبدل سے کوئی بات نہیں کرے گی کیونکہ اس میں حرج ہی کیا ہے آخر؟ ویسے بھی کونسا وہ جان بوجھ کر رہا تھا۔ نادانستگی میں تو ایسے کام ہو ہی جاتے ہیں اور اسے اپنے بیٹے کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے بیٹے کے پیار اور محبت سے محظوظ ہونا چاہیے۔
🗓️واپس آج کے دن۔۔۔۔
صبح صادق کا وقت تھا جب بنکر میں لوگ بیدار ہونا شروع ہوئے۔
امینہ نے اپنے بیگ میں دیکھا تو ڈبل روٹی کے دو سلائس مل ہی گئے۔ خشک اور سوکھے ہونے کے باوجود امینہ نے کسی نہ کسی طرح حلق سے اتار ہی لئے کیونکہ بھوک بہت شدید تھی۔
مسز حلیمہ امینہ کے پاس آ بیٹھیں۔ وہ امینہ کی پڑوسن تھیں اور ہمیشہ بہت اچھے سے ملی تھیں امینہ اور عبدل سے۔
مسز حلیمہ: پریشان نہ ہو امینہ۔ عبدل سمجھدار لڑکا ہے۔ وہ یقیناً محفوظ ہو گا.
مسز حلیمہ نے امینہ کے کندھے دبا کر پیار سے تسلی دی۔امینہ نے سر ہلا کر شکریہ کا اظہار کیا۔
مسز حلیمہ: یہاں جنگ زور پکڑنے والی ہے۔ تم اکیلی ہو۔ میری مانو تو ملک سے نکل جاؤ .
مسز حلیمہ نے امینہ کو مشورہ دیا۔
امینہ: اپنے بیٹے کے بغیر کبھی نہیں جاؤں گی
امینہ کے لہجے میں مضبوطی تھی اور ان کی آنکھوں میں حوصلہ۔
🗓️چار ماہ پہلے۔۔۔
امینہ بیکری وقت سے پہلے بند کر کے گھر آ گئی تھی اور اپنے لئے کافی کا کپ بنا کر کھڑکی کے پاس بیٹھی باہر کے منظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچانک اس کی نظر کھڑکی کے ساتھ میز پر پڑی عبدل کی سکیچ بک پر پڑ گئی۔
امینہ نے ہمیشہ عبدل کی آرٹ کی تعریف کی تھی اور عبدل کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
😲کافی کا کپ نیچے رکھ کر اس نے سکیچ بک اٹھائی، پہلا صفحہ پلٹا اور بے اختیار منہ سے "اوہ" نکل گیا۔
اس کے چہرے سے شدید حیرت عیاں تھی۔
سکیچ بک کے صفحات پر ایک عورت کی مختلف پوز میں ننگی تصاویر تھیں۔ یہ تصاویر پنسل سے بنائی گئی تھیں۔
◀️ایک پوز میں عورت پاؤں پر پاؤں رکھے صوفے پر بیٹھی تھی۔
◀️ایک اور پوز میں وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔
◀️اگلے صفحے پر، وہ عورت کھلکھلا کر ہنس رہی تھی جبکہ اس کا ہاتھ اپنی ٹانگوں کے درمیان تھا۔
◀️ایک اور صفحے پر وہ عورت شاور کے نیچے تھی اور نہا رہی تھی اور پانی اس کے بدن پر بہہ رہا تھا۔
امینہ کو پتہ تھا کہ یہ عورت کون ہے۔
اس عورت کو تو وہ روز آئینے میں دیکھتی تھی۔
پہلے چند صفحات سے ایسا لگتا تھا جیسے پریکٹس کی گئی ہو۔
جیسے عبدل اپنی ماں کی تصویر پرفیکٹ بنانے کیلئے بار بار سکیچ بنا رہا ہو۔
لیکن جیسے جیسے امینہ صفحات پلٹتی گئی، سکیچ واضح ہوتے گئے اور عورت کا چہرہ امینہ سے مشابہ ہوتا چلا گیا۔ امینہ کا منہ خشک ہو گیا۔ اسے لگا جیسے اس کی عزت لوٹ لی گئی ہو۔ غصے سے اس کے بدن میں آگ لگ گئی۔ اس کا دل چاہا سکیچ بک کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دے اور اس کے صفحات کو جلا کر راکھ کر دے۔
لیکن اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
غصہ ذرا ٹھنڈا ہوا تو پھر سے سکیچ بک کے صفحات پلٹنے لگی۔ تصاویر سے ایسا احساس ہوتا تھا کہ عبدل نے اگرچہ اس کے ننگے پوز بنائے ہیں لیکن سب ہی پوز بہت باوقار تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ تصاویر میں وہ کوئی فاحشہ نظر آ رہی تھی بلکہ اکثر تصاویر میں وہ نارمل روٹین کے کاموں میں مصروف تھی بس فرق یہ تھا کہ عام زندگی میں وہ یہ کام کپڑے پہن کر کرتی تھی لیکن عبدل کے سکیچ میں یہ سب کچھ ننگی ہو کر کر رہی تھی۔
عبدل کی آرٹ امینہ پہلے بھی دیکھ چکی تھی اور وہ بہت اچھا آرٹسٹ تھا لیکن جو سکیچ آج اس نے دیکھے تھے، ادبی نقطہ نگاہ سے یہ سکیچ عبدل کے بہترین سکیچ تھے۔ یقیناً اس نے بہت محنت سے بنائے ہوں گے۔ ہر سکیچ دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا تھا کہ جیسے عبدل نے پوری کوشش کی ہے کہ اپنی ماں کو خوبصورت ترین دکھا سکے۔ ایک بات پر امینہ حیران تھی کہ عبدل نے تو اسے کبھی ننگی نہیں دیکھا لیکن سکیچ میں اس نے امینہ کے ممے، چوتڑ اور حتیٰ کہ پھدی تک ٹھیک بنائے تھے۔
صرف سوچ کر اتنے اچھے سکیچ بنانا عبدل کے بہترین آرٹسٹ ہونے کی علامت تھی۔ اگرچہ سکیچ امینہ کے جسم سے سو فیصد مطابقت نہیں رکھتے تھے لیکن بہرحال کافی حد تک ملتے جلتے تھے۔ امینہ کا غصہ بہت کم ہو گیا تھا اور وہ صفحات پلٹ کر سکیچ دیکھتی چلی جا رہی تھی۔
🥵کچھ صفحات کے بعد آنے والے سکیچ نے امینہ کی سانس جیسے روک ہی دی۔
ان سکیچز میں نہ صرف امینہ ننگی تھی بلکہ عبدل بھی تھا اور وہ دونوں مختلف پوزیشنوں میں پیار کر رہے تھے۔
◀️پہلے سکیچ میں امینہ صوفے پر ننگی ٹانگیں پھیلا کر بیٹھی تھی جبکہ عبدل کا چہرہ اس کی ٹانگوں کے درمیان تھا۔ سکیچ میں امینہ کا منہ ایسے کھلا ہوا تھا جیسے وہ مزے سے "آہ" کی آواز نکال رہی ہو اور اس کی انگلیاں صوفے کے کپڑے میں ایسے گڑی ہوئی تھیں جیسے وہ جنسی طور پر شدید مشتعل ہو بلکہ ڈسچارج ہونے والی ہو یا ہو رہی ہو۔ عبدل نے واقعی بڑی محنت کی تھی ان سکیچز پر۔ دونوں کے جسم کی رنگت بھی سکیچ میں مختلف دکھائی تھی، ہلکے سے فرق کا بھی خیال رکھا تھا۔
◀️اگلے سکیچ میں عبدل کو امینہ کے نپل چوستے ہوئے دکھایا گیا تھا جبکہ امینہ کے ہاتھ عبدل کے بالوں پر تھے۔
◀️آخری سکیچ میں امینہ ٹانگیں اٹھائے بیڈ پر لیٹی تھی جبکہ عبدل اپنا سخت لن اس کی پھدی میں ڈال رہا تھا۔
امینہ نے سکیچ بک بند کر دی اور واپس میز پر رکھ دی۔
🗨️امینہ کی سوچ: یہ سب میرا قصور ہے۔ مجھے اس سے پہلے ہی بات کر لینی چاہیے تھی۔ میرے بات نہ کرنے سے اس کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور وہ اس حد تک پہنچ گیا ہے۔
امینہ سوچتی رہی۔
اس کی کافی ٹھنڈی ہو چکی تھی لیکن وہ خود گرم ہو چکی تھی۔
🫧عبدل کے سکیچ دیکھ کر امینہ کو اپنی ٹانگوں کے درمیان چپچپاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔
وہ وہیں بیٹھی سوچتی رہی کہ آخر کیسے اپنے بیٹے سے بات کرے اور اسے سمجھائے کہ یہ سب انتہائی غلط ہے۔
جاری ہے