Amina aur is ka beta - Episode 2

‏امینہ اور اُن کا بیٹا  


قسط نمبر 2



🗓️آج کا دن...


🔫امینہ کی آنکھ فائرنگ کی آواز سے کھلی۔ 


وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی۔ 


بنکر کے باقی مکین بھی اٹھ چکے تھے یا اٹھ رہے تھے۔ مسز حلیمہ بنکر کے داخلی دروازے کے قریب کھڑی تھیں۔ انہوں نے امینہ کو اپنی پانی کی بوتل دکھائی اور پاس آنے کا اشارہ کیا۔ امینہ اپنی بوتل تھامے مسز حلیمہ کے پیچھے چل پڑی۔ 


مسز حلیمہ: ہماری فوج آ گئی ہے اور امریکیوں سے بہت بہادری سے لڑ رہی ہے۔


مسز حلیمہ نے امینہ کو سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بتایا۔ 


امینہ: کیا باہر جانا جان کیلئے محفوظ ہے؟


امینہ نے احتیاطاً پوچھا۔


مسز حلیمہ: ہم زیادہ دیر باہر نہیں رکیں گے


مسز حلیمہ نے امینہ کو جواب دیا۔


اگرچہ اندھیری رات نہیں تھی لیکن آسمان پر ستارے بھی کچھ زیادہ تعداد میں روشن نہیں تھے۔ 


صبح قریب تھی لیکن لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ان کے ملک پر تاریکی چھا گئی ہے۔ بنکر والی بلڈنگ سے نکلنے پر انہیں فائرنگ کے ساتھ بم دھماکوں کی آوازیں بھی آنے لگیں۔ مسز حلیمہ نے بلڈنگ کے باہر لگے ایک نلکے کی طرف اشارہ کیا جہاں سے ان دونوں نے جلدی سے اپنی اپنی بوتل پانی سے بھر لی۔ 


مسز حلیمہ: چلو اب اندر چلیں۔ جلدی آؤ 


مسز حلیمہ نے کہا کیونکہ اب کی بار دھماکے کی آواز بہت قریب سے آئی تھی۔ امینہ نے فون نکال کر عبدل کو کال ملانی چاہی لیکن سگنل نہ آنے پر مایوس ہو کر مسز حلیمہ کے پیچھے بنکر میں داخل ہو گئی۔


🗓️چار ماہ پہلے۔۔۔


عبدل کی سکیچ بک دیکھے دو دن گزر چکے تھے لیکن امینہ نے اپنے رویے سے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ اسے سکیچ بک کے بارے میں علم ہو چکا ہے۔ وہ عبدل سے اس کے متعلق بات تو کرنا چاہتی تھی لیکن عیدالفطر کی وجہ سے اس نے یہ معاملہ موخر کر دیا تھا اور ساری توجہ عید کی تیاری پر مرکوز کر لی تھی۔ 


🎉عید کی شام اس نے بہت خوبصورت پیلے رنگ کی ساڑھی پہنی۔ اسے نہ جانے کیوں عربی سے زیادہ پاکستانی اور بھارتی لباس پسند تھے۔عباس حسب معمول آج کے دن بھی یونیورسٹی اور لائبریریوں کے چکر میں مشغول تھا۔ چھٹی کے باوجود وہ یونیورسٹی میں ریسرچ کیلئے گیا تھا کیونکہ اس کے بقول شاید اس کی ریسرچ میں وقفہ نہیں آ سکتا تھا۔ ویسے بھی عباس کو کونسا کسی تہوار میں دلچسپی تھی۔ امینہ کمرے سے باہر آئی تو عبدل بالکونی میں تیل سے جلنے والے لیمپ لگا رہا تھا۔ ساتھ کچھ موم بتیاں بھی تھیں۔ اس نے کریم کے سے رنگ کی شیروانی پہن رکھی تھی جس میں وہ بہت خوبصورت اور ہینڈسم لگ رہا تھا۔ 


امینہ کے آنے کی آہٹ سن کر وہ دیکھنے کیلئے مڑا اور وہیں ساکت ہو کر رہ گیا.


امینہ: کیا ہوا ؟


امینہ نے پوچھا۔ اسے لگا شاید کچھ غلط ہو گیا ہے۔


عبدل: اف امی۔ آپ کتنی پیاری لگ رہی ہیں.


امینہ: تم بھی بہت اچھے لگ رہے ہو۔


امینہ بیٹے کی تعریف پر بے اختیار مسکرا اٹھی۔


آج امینہ نے بیکری پر سپیشل مٹھائی بنائی تھی۔ عبدل کے ساتھ جا کر اس نے اپنی بلڈنگ کے کچھ اپارٹمنٹس میں وہ مٹھائی تقسیم کی اور عید کی مبارکباد دی۔ پھر وہ بلڈنگ کی چھت پر گئے اور آتش بازی کے مظاہرے کو دیکھنے لگے۔ دونوں خوب ہنسے اور عید کا دن اچھے سے منایا۔ایک موقع پر جب امینہ دور کوئی آتش بازی کا مظاہرہ دیکھ رہی تھی تو عبدل نے امینہ کو پیچھے سے پکڑ لیا اور گالوں پر چوم لیا۔ 


امینہ نے برا نہیں منایا۔ 


وہ آج خوش تھی کیونکہ عید کا دن تھا۔ رات کو خوب اچھا سا ڈنر تھا جو ماں بیٹے نے ٹی وی پر فلم دیکھتے ہوئے کیا۔جب رات جو عباس گھر آ کر سو گیا تو امینہ نے عبدل سے بات کرنے کے متعلق اپنا ذہن بنایا۔ اسے امید تھی کہ اس بات چیت سے وہ عبدل کی ذہنیت تبدیل کر دے گی اور اس معاملے کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دے گی۔ کس کس طرح سے وہ بات کا آغاز کر سکتی ہے، امینہ یہی سوچتے ہوئے عبدل کے کمرے کی طرف قدم بڑھا رہی تھی۔


سوچوں میں مگن وہ عبدل کے دروازے تک پہنچ گئی۔ دستک دینا ہی چاہتی تھی کہ اسے احساس ہوا کہ دروازہ پورا بند نہیں ہے بلکہ ہلکی سی دراڑ ہے جہاں سے ہلکی سی روشنی باہر آ رہی ہے۔ کمرے میں اندھیرا تھا لیکن ایک طرف کچھ روشنی تھی۔ امینہ نے آہستہ سے دستک دی اور عبدل کا نام پکارا لیکن کوئی جواب نہ آیا۔بے آواز دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا تو وہ کھل گیا لیکن اندر کا منظر دیکھ کر امینہ کے قدم وہیں رک گئے۔ 


عبدل اپنے ڈیسک پر ادھ ننگے جسم کے ساتھ بیٹھا تھا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا لن مسل رہا تھا۔ کانوں میں ہیڈ فون لگے تھے اور سامنے لیپ ٹاپ پڑا تھا۔ اس کے نچلے دھڑ پر کوئی کپڑا نہیں تھا۔ ڈیسک پر رکھے لیپ ٹاپ میں جو ویڈیو چل رہی تھی اس میں کوئی اور نہیں ، امینہ ہی تھی۔ امینہ فوراً پہچان گئی کہ یہ ویڈیو تین سال پرانی ہے جب وہ سب امینہ کی ایک پاکستانی دوست کی شادی میں پاکستان گئے تھے۔ ویڈیو میں امینہ، عبدل اور کچھ اور لوگ تھے جو اکٹھے ساحل سمندر پر گئے تھے۔ امینہ نے کرتی پہن تھی اور ایک کیپری نما پینٹ۔ ساحل سمندر پر اسے بہت مزہ آیا تھا۔ امینہ پبلک میں اپنے جسم سے متعلق ہمیشہ خیال رکھتی تھی لیکن اس دن شاید امینہ سے کچھ چوک ہو گئی تھی کیونکہ اس نے سیاہ رنگ کی برا کے اوپر سفید کرتی پہن لی تھی جو پانی کی لہروں سے بھیگ گئی اور اس کی چھاتیوں کی لکیر اور برا واضح ہو گئی تھی۔ 


وہ تو پانی سے باہر نکلنا چاہتی تھی کیونکہ اسے شرم آ رہی تھی لیکن اس کی دوستوں نے اسے پکڑ کر رکھا تھا اور نکلنے نہیں دیا تھا۔ عبدل نے اپنا ہاتھ لن سے ہٹا کر لیپ ٹاپ پر کوئی چیز ایڈجسٹ کرنے لگا اور اس چھوٹے سے وقفے میں امینہ کو اپنے بیٹے کا سخت لن نظر آ گیا۔ یہ تو اس کے شوہر کے لن سے بھی بڑا تھا۔ ایک لمحے کو تو وہ بھول ہی گئی کہ سامنے اس کا بیٹا ہے۔ اتنے بڑے لن کو دیکھ کر امینہ کے منہ میں بے اختیار پانی آ گیا۔ سیکس کی بھوکی امینہ بھول گئی کہ وہ کہاں کھڑی ہے۔ وہ تو بس اپنے بیٹے کو لن ہلاتے دیکھتی چلی جا رہی تھی۔


ویڈیو میں امینہ اور دوسری لڑکیاں پانی کی لہروں میں کھیلتی نظر آرہی تھیں۔ امینہ کا پورا لباس تر ہو چکا تھا اور اس کے بڑے بڑے ممے بھیگے لباس میں بہت سیکسی لگ رہے تھے۔ عبدل کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور ایک ہاتھ سے ٹٹے سہلانے لگا جبکہ دوسرا ہاتھ لن پر پھیرنے لگا۔ اوپر نیچے اوپر نیچے اپنے لن پر عبدل کا ہاتھ پھرتے دیکھ کر امینہ کی آنکھیں وہیں چپک کر رہ گئیں۔ ویڈیو میں ایک سین ایسا آیا جب امینہ ساحل کی ریت سے کوئی سیپی اٹھانے کیلئے جھکی اور اس کی چھاتیوں کی لکیر اور مموں کا کچھ حصہ نظر آ گیا۔ 


عبدل کیلئے یہ حد تھی۔ 


🫧🫧"آہ" کی آواز کے ساتھ اس کے لن سے منی کا فوارہ نکلا جو ہوا میں اڑ کر اس کے ہی پیٹ پر گرا۔ وہ لن رگڑتا رہا اور منی کے جھٹکے لگتے رہے۔ سر کرسی کی پشت سے لگا تھا اور آنکھیں بند تھیں۔ 


شاید وہ اہنے خیالوں میں اپنی ماں کو ہی تصور کئے ہوئے تھا۔ 


امینہ نے چپکے سے دروازہ بند کیا اور واپس اپنے کمرے میں لوٹ آئی۔ 


عباس سو چکا تھا۔ 


امینہ کے اندر تو آگ بھڑک رہی تھی۔ اپنے سگے بیٹے کو اپنی ہی ویڈیو پر مٹھ مارتے دیکھ کر اور اس کا لمبا اور موٹا لن دیکھ کر امینہ کے جذبات شدید بھڑک گئے تھے۔ اسے پتہ تھا کہ شوہر تو اس کی پیاس بجھائے گا نہیں اس لئے اس نے سائڈ ٹیبل کی سب سے نچلی دراز سے اپنا چھ انچ کا ربڑ کا لن نکالا جو وائبریشن بھی کرتا تھا۔ یہ عبدل کے لن سے کافی چھوٹا تھا۔خاموشی سے بستر سے اٹھ کر وہ غسل خانے میں گئی اور ننگی ہو کر باتھ ٹب میں بیٹھ گئی۔


 پہلی بار وائبریٹر ڈلڈو کو پھدی پر چھونے سے اس کے منہ سے "آہ" نکل گئی جو کہ آہوں کے ایک سلسلے میں تبدیل ہو گئی۔ 


امینہ اپنے خیالات میں بیٹے کے لن کا تصور کرتے ہوئے پہلے وابریٹر ڈلڈو پھدی کے دہانے پر پھیرتی رہی اور پھر اندر ڈال دیا۔ اس نے دانستہ کوشش کی کہ بیٹے کے بارے میں نہ سوچے لیکن جو لن وہ دیکھ چکی تھی اس سے سوچ ہٹتی ہی نہیں تھی۔ بلاآخر عبدل کے لن کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے امینہ نے اسی کا تصور کرتے ہوئے وہ ربڑ کا لن اپنی پھدی میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ 


🫧🫧وائبریشن کی وجہ سے مزہ دوبالا تھا اور وہ خود بھی انتہائی مشتعل تھی اس لئے جلد ہی ڈسچارج ہو گئی لیکن اتنا زبردست ڈسچارج وہ زندگی میں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔


🗓️واپس آج کا دن...


بنکر میں سب کے چہروں پر خوف طاری تھا کیونکہ باہر سے فوجیوں کی گاڑیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ 


کچھ ہی دیر میں فوجیوں کی آوازیں بھی آنا شروع ہو گئیں اور قدموں کی آوازیں بھی۔ سب کی سانس اٹکی ہوئی تھی ڈر کے مارے۔ جب بنکر کا دروازہ کھلا اور عراقی فوج اندر داخل ہوئی تب سب کی سانس بحال ہوئی۔ 


اس کے بعد تو ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ 


سب لوگ فوجیوں سے اپنے پیاروں کا پوچھنے لگے۔ امینہ کو ان کے جوابات سے اندازہ ہوا کہ عراقی فوج نے امریکی افواج کو زبردست مزاحمت دی ہے اور انہیں روک کر رکھا ہوا ہے۔ شہر کے زیادہ تر مقامات پر عراقی فوج کا ہی قبضہ تھا لیکن فوجیوں کو امریکی افواج کی جانب سے شدید حملے کی توقع تھی اس لئے وہ شہر کو سویلین آبادی سے خالی کروانا چاہتے تھے تاکہ جانی نقصان کم سے کم ہو۔


اگلے کچھ منٹ افراتفری میں گزرے کیونکہ ہر کوئی اپنا سامان پیک کر کے بھاگنے میں مشغول تھا۔ 


کافی لوگوں کی اپنے بچھڑے فیملی ممبرز سے فون پر بات کروائی گئی۔ امینہ نے ایک فوجی سے نزدیک ترین ریلوے اسٹیشن کا پوچھا تاکہ وہ عبدل تک پہنچ سکے لیکن فوجی نے اسے بتایا کہ وہ علاقہ تو جنگ سے شدید متاثر ہے۔ وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ امینہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور ناامیدی نے اسے آ گھیرا۔ مسز حلیمہ نے امینہ کو حوصلہ دیا۔ 


امینہ نے سر ہلا کر اپنے جذبات پر قابو پایا، 


آنسو پونچھے اور مسز حلیمہ کو الوداع کہا۔ امینہ نے بھی اپنا بیگ پیک کیا اور بنکر سے باہر آ گئی۔ پورا شہر سنسان معلوم ہوتا تھا۔ صرف فوجیوں کی گاڑیاں ہی موجود تھیں۔ رہائشی اور کمرشل عمارتیں دھوئیں سے کالی ہو چکی تھی۔ سڑک پر جگہ جگہ ملبہ پڑا تھا۔ درختوں کے صرف ڈھانچے باقی تھے وہ بھی کالے سیاہ۔ امینہ نے ایک نظر ایک اونچی سی بلڈنگ پر ڈالی جہاں اس کا اپارٹمنٹ ہوا کرتا تھا اور اب کچھ بھی نہیں تھا۔ 


پھر وہ اپنا بیگ اٹھا کر عبدل کی تلاش میں پیدل ہی نکل کھڑی ہوئی۔



*

Post a Comment (0)