امینہ اور اُن کا بیٹا
قسط نمبر 3
🗓️دو ماہ پہلے...
امینہ صوفے پر اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھی فلم دیکھ رہی تھی۔
اس نے عبدل کے کندھے پر سر رکھا ہوا تھا اور عبدل پیار سے اس کی کمر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔
بیٹے کے ساتھ لگ کر بیٹھنا امینہ کو بہت اچھا لگ رہا تھا۔ عباس کو یورپ گئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔ عراق اور امریکہ کی جنگ کا خطرہ بڑھتا جا رہا تھا۔ خطرات کے بادل سر پر منڈلا رہے تھے۔ امریکہ کی طرف سے مسلسل الزام تراشیاں کی جا رہی تھیں کہ عراق کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں جبکہ عراق اس بات سے انکاری تھا۔
عباس کو ایسے حالات میں گھر پر ہونا چاہیے تھا لیکن اسے گھر سے زیادہ اپنی ریسرچ اور پیشے کی پرواہ تھی۔
یورپ بھی وہ کام کے سلسلے میں ہی گیا تھا۔ عباس کے جانے کے بعد سے عبدل امینہ سے کچھ زیادہ ہی فری ہو گیا تھا۔ پہلے تو صرف گالوں پر چومتا تھا اب پیچھے سے پکڑ کر گردن پر بھی چومنے لگا۔ امینہ کو اس کا لن اب بھی اپنے چوتڑوں میں محسوس ہوتا جب وہ پیچھے سے پکڑتا۔ لیکن صرف یہی نہیں ، عبدل اپنی امی کو شاپنگ کیلئے بھی لے کر جاتا، ریسٹورنٹ سے اچھے اچھے کھانے کھلاتا اور اس کی خوبصورتی کی خوب تعریفیں کرتا۔
امینہ نے سب وسوسے نظر انداز کر کے اپنے بیٹے کی صحبت سے لطف اٹھانے کو ترجیح دی۔
ایک ہی تو بیٹا تھا اس کا۔
عبدل جب اس کا اتنا خیال رکھتا تو امینہ کو لگتا جیسے وہ اپنی جوانی میں لوٹ آئی ہو۔ وہ بہت خوش تھی سوائے اس وقت کے جب عبدل اسے پکڑ کر اس کے چوتڑوں میں اپنا لن رگڑتا۔ اس وقت امینہ پر احساس گناہ غالب آ جاتا اور وہ سوچنے لگتی کہیں وہ عبدل کی انجانے میں حوصلہ افزائی تو نہیں کر رہی لیکن عبدل کا پیار دیکھ کر اسے روکنے کی ہمت نہ کر پاتی۔
جب بیٹھے بیٹھے تھک گئی تو امینہ صوفے پر ہی لیٹ گئی اور ٹانگیں عبدل کی گود میں رکھ دیں۔ ایسے ٹانگیں اوپر کرنے سے اس کا ریشمی لباس ٹانگوں سے اوپر چڑھ گیا اور گھٹنے نظر آنے لگے۔ عبدل نے فوراً اپنی امی کی ننگی ٹانگوں کو گود میں رکھ کر ہاتھ ان کا مساج کرنا شروع کر دیا۔ چند منٹوں میں ہی امینہ کو اپنے پاؤں کے نیچے عبدل کا لن سخت ہوتا محسوس ہونا شروع ہو گیا۔ اس نے پاؤں ذرا سا ہلایا تاکہ لن کو محسوس کر سکے لیکن ایسے ہلایا کہ عبدل یہی سمجھے کہ پاؤں کی پوزیشن ٹھیک کی ہے۔
امینہ کے دل میں احساس گناہ بھی تھا اور ساتھ شرارت بھی۔
عبدل مساج کرتا رہا اور امینہ اس کے لن کو بڑا ہوتا محسوس کرتی رہی۔ دونوں کی نظریں ٹی وی پر ہی تھیں۔ امینہ کے ہونٹوں پر تب بے اختیار مسکراہٹ آ گئی جب عبدل نے تھوڑا سا اوپر ہو کر اپنا نیکر ایڈجسٹ کیا۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ لن کھڑا ہو گیا ہے اور نیکر میں جگہ کم ہے۔ جب فلم ختم ہوئی تو امینہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ترچھی نگاہوں سے اس نے دیکھ لیا تھا کہ عبدل کے نیکر میں اتنا بڑا ابھار ہے اور ذرا سا حصہ گیلا بھی ہے۔
🫧شاید کچھ قطرے نکل گئے تھے۔
نا جانے امینہ کے دل میں کیا آئی کہ اس نے عبدل کو بتایا کہ وہ نہانے جا رہی ہے اور آہستہ آہستہ اٹھلا کر غسل خانے کی طرف قدم اٹھانے لگی۔
دانستہ اس نے دروازہ پورا بند نہیں کیا۔
اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور گہری ہو گئی جب غسل خانے کے شیشے میں عبدل قریب آتا نظر آیا۔ وہ یقیناً غسل خانے کے دروازے کے باہر کھڑا تھا۔
امینہ نے اپنے بال کھول دیئے اور شیشے میں عبدل کی پرچھائیں دیکھتے ہوئے اپنے جسم سے رات کو پہننے والی ریشمی نائٹی اتار دی۔ اس نے سیاہ رنگ کی برا پہن رکھی تھی۔ اس کا رویہ ایسا تھا جیسے اسے یہ پتہ ہی نہ ہو کہ عبدل اسے دروازے کی دراڑ سے دیکھ رہا ہے لیکن اسے یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ دیکھ رہا ہے۔ اسی لئے اس نے اپنی پشت دروازے کی طرف کر رکھی تھی تاکہ اپنے بیٹے کو پیچھے سے نظارہ کروا سکے۔ آنکھ کے کونے سے شیشے میں دیکھا تو عبدل نیکر سے اپنا لن نکال رہا تھا۔
امینہ چوری چوری دیکھتی رہی۔
عبدل کا لن بہت سخت لگ رہا تھا اور وہ اس پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیر رہا تھا۔ امینہ کے پورے بدن میں کرنٹ دوڑ گیا اور وہ سوچنے لگی کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ جان بوجھ کر سب کچھ آہستہ آہستہ کر رہی تھی۔ ہاتھ پیچھے لے جا کر اپنی برا کا ہک کھولا اور آرام سے اپنے کندھوں پر سے برا اتار دی۔
اب پوری ننگی کمر عبدل کی نظروں کے سامنے تھی۔
امینہ نے اس کی آنکھوں میں یکدم پیدا ہونے والی چمک دیکھ لی تھی۔ وہ مسکرا اٹھی جب اس نے دیکھا کہ عبدل کا ہاتھ اپنے لن پر اب تیزی سے چل رہا تھا۔ امینہ نے اپنے مموں پر ہاتھ رکھے اور پاؤں اٹھا کر باتھ ٹب میں داخل ہو گئی۔ عبدل کی طرف پشت کئے ہوئے ہی اس نے پردہ کھینچ کر سامنے کر دیا۔ اب وہ عبدل کی نظروں سے اوجھل تھی۔
اف۔ اس کے ذہن میں آندھیاں چل رہی تھیں۔
اس نے فوراً اپنی گیلی پینٹی اتاری اور پردے کے اوپر سے باہر غسل خانے میں پھینک دی۔ شاور کھول کر پانی کے نیچے کھڑی ہو گئی۔ بہتے پانی نے اس کے جنسی جذبات پر کچھ مرہم رکھی اور وہ ٹھنڈی ہوئی۔
اب اسے احساس ندامت نے گھیر لیا اور وہ سوچنے لگی کہ وہ یہ کیا کر بیٹھی۔ محض اپنے جنسی جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر۔
کچھ دیر ایسی ہی سوچیں اس کے ذہن میں آتی رہیں لیکن شاور ختم ہوتے ہی اس نے سر جھٹکا جیسے ان سب سوچوں کو دماغ سے جھٹک رہی ہو اور اپنے گورے بدن کو تولیے میں لپیٹ کر پردہ ہٹا کر باتھ ٹب سے باہر آ گئی۔ دروازہ ویسے ہی تھوڑا سا کھلا تھا جیسے امینہ نے چھوڑا تھا لیکن نہ تو عبدل نظر آ رہا تھا اور نہ امینہ کی پینٹی۔
🗓️آج کا دن...
عبدل کے دوست کا گھر جہاں وہ گیا تھا صرف تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا لیکن اب سڑکوں اور گلیوں میں آزادانہ چلنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔
جنگ کی تباہی کے آثار دیکھ کر امینہ اداس ہو گئی۔
سڑکوں پر جلی ہوئی بسیں اور گاڑیاں اور کالی تباہ شدہ عمارتیں۔ امینہ کو کچھ اور لوگ بھی نظر آئے جو ملبے میں راستہ بناتے چل رہے تھے۔ کچھ دور فوجی ان سویلین کی رہنمائی میں مصروف تھے۔ سڑک کنارے فوجی کیمپوں میں بھی کچھ سویلین بیٹھے تھے۔ ان کی اکثریت زخمی تھی اور انہیں دیکھ کر یہی لگتا تھا جیسے سب کچھ کھو بیٹھے ہوں۔ کچھ دور ایک ایک بوڑھی عورت ایک لاش سے لپٹ کر بے تحاشا رو رہی تھی۔
امینہ کانپ کر رہ گئی۔
وہ اپنے بیٹے کو زندہ تلاش کرنا چاہتی تھی۔ تیز تیز قدم اٹھاتی وہ عبدل کے دوست کے گھر کی طرف بڑھنے لگی۔
🗓️ایک ہفتہ پہلے۔۔۔
امینہ بیکری بند کر کے اپنے اپارٹمنٹ کی طرف پیدل روانہ ہو گئی۔
آج کا دن بہت مصروف گزرا تھا۔ سڑکوں پر افراتفری تھی اور ہر کسی کے منہ پر جنگ کے ہی چرچے تھے۔ پچھلے چند دنوں سے لوگ اندھا دھند خریداری میں مصروف تھے اور روزمرہ ضروریات زندگی کی اشیا اپنے گھروں میں ذخیرہ کر رہے تھے۔
امینہ کی بیکری آئیٹم بہت جلدی بک گئی تھیں۔ اس نے بیکری پر ایک اسسٹنٹ رکھا ہوا تھا لیکن گاہگوں کا اتنا رش تھا کہ ان سب کی ضروریات پوری کرنا ناممکن تھا۔ جتنا اس سے اور اس کے اسسٹنٹ سے ہو سکا انہوں نے گاہگوں کو چیزیں بنا کر مہیا کیں لیکن اب شام ہو رہی تھی اور امینہ کو بھوک لگی تھی اس لئے وہ بیکری بند کر کے اپارٹمنٹ جا رہی تھی۔
سارا دن کام کر کے وہ تھک بھی تو گئی تھی۔ جب اس نے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولا تو اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔ ڈرائنگ روم کی صفائی ہو چکی تھی اور کمرے میں تازہ پھولوں کی مہک پھیلی ہوئی تھی۔ ڈائننگ ٹیبل پر بھی خوشبودار موم بتیاں رکھی ہوئی تھیں اور بہت رومینٹک سیٹنگ کی گئی تھی۔
عبدل نے ہاتھ کے اشارے سے اپنی امی کو خوش آمدید کہا۔
امینہ: یہ سب کیا ہے؟
امینہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ سے اس کی خوشی عیاں تھی۔
عبدل: یہ سب آپ کیلئے ہے امی۔ آپ ہمیشہ کہتی تھیں نا کہ ابو نے آپ کو کبھی کینڈل لائٹ ڈنر نہیں کروایا۔
امینہ: یہ تو اچھی بات ہے۔ مجھے ویسے بھی بہت بھوک لگی ہے
عبدل: آپ ہاتھ منہ دھو لیں۔ میں کھانا لگاتا ہوں
امینہ نے نوٹس کیا کہ عبدل نے بہت شاندار کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ڈنر کی مناسبت سے۔
امینہ اپنے کمرے میں آئی اور جلدی سے شاور لے کر الماری کھنگالنے لگی۔ عبدل نے اتنی شاندار ڈریسنگ کی تھی تو امینہ بھی اس کے مطابق بہترین ڈریسنگ کرنا چاہتی تھی۔ اس نے سبز رنگ کا گاؤن نما لباس منتخب کیا جو کہ اس کے سیکسی فگر کو بہت اچھے طریقے سے نمایاں کرتا تھا۔ اس لباس کی آستینیں نہیں تھیں اور گلا کافی کھلا تھا۔ یہ مغربی طرز کا لباس تھا اور امینہ کے اسے پسند کرنے کی وجہ عبدل کا بھی مغربی طرز کے مردانہ لباس کو زیب تن کرنا تھا۔ چونکہ عبدل نے ٹو پیس سوٹ پہن رکھا تھا اس لئے امینہ بھی اس لباس میں اس کے ساتھ بہت اچھی لگتی۔ اور یہ لباس تھا بھی بالکل نیا۔ خریدا تو امینہ نے کافی عرصہ پہلے تھا لیکن آج تک کبھی پہننے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔
امینہ نے اپنا ہئیر سٹائل بھی تبدیل کیا۔ کالے سیاہ بالوں کے گچھے بنا کر سر پر پی باندھ لئے جس سے اس کے کندھے اور گردن صاف نظر آنے لگے۔ میک اپ اور پرفیوم لگا کر وہ عبدل کے پاس ڈنر ٹیبل پر آ گئی۔ عبدل نے کسی جنٹل مین کی طرح اٹھ کر فوراً کرسی پیچھے کر کے امینہ کو بیٹھنے کا موقع دیا۔
عبدل: امی آپ بہت بہت بہت پیاری لگ رہی ہیں۔
عبدل کے چہرے کے تاثرات سے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ اپنی ماں کی خوبصورتی سے کس قدر متاثر ہوا ہے۔
ڈنر بہت مزیدار تھا۔ عبدل کے ہاتھ میں واقعی بہت ذائقہ تھا۔
کھانا کھا کر عبدل نے فرج سے ایک بوتل نکالی اور اور تھوڑی تھوڑی دو گلاسوں میں انڈیل دی۔ امینہ کو پتہ تھا کہ یہ شراب ہے لیکن اس نے منع نہیں کیا۔
بیٹے نے اتنا اچھا ڈنر کروایا تھا تو شراب پی کر کیوں نہ خوش ہوا جائے۔
ویسے بھی امینہ کافی لوگوں کو جانتی تھی جو شراب پیتے تھے۔ ایک کے بعد ایک گلاس پیتے گئے۔ باتیں کرتے گئے۔ ہنستے مسکراتے ایک دوسرے کو دیکھتے وقت گزرتا گیا۔
🕺💃چند گلاسوں کے بعد عبدل نے اپنی امی سے ڈانس کا پوچھا۔ میوزک تو اس نے پہلے ہی لگا رکھا تھا۔ امینہ ڈانس کیلئے اٹھی تو عبدل نے اسے اپنی باہوں میں کھینچ لیا۔ عبدل نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی ماں کی کمر پر رکھا اور اس کا بایاں ہاتھ اپنے کندھے پر۔ ہلکی ہلکی موسیقی پر ان کے قدم تھرکنے لگے۔ شراب کے نشے نے ہر چیز کا لطف دوبالا کر دیا تھا۔ امینہ کو اپنی ننگی کمر پر عبدل کا ہاتھ رینگتا محسوس ہو رہا تھا۔ اس کے ہاتھ کا لمس اپنی کمر پر بہت بھلا معلوم ہو رہا تھا اور امینہ کے سوئے جذبات بھی جگا رہا تھا۔
امینہ کو عبدل کی سانسیں اپنے گالوں پر محسوس ہوئیں۔ عبدل نے منہ آگے کر کے اپنی ماں کے گال چومے اور پھر گردن چومنے لگا۔ گردن کے ساتھ کندھوں پر بھی بوسے ثبت کر دئے۔ امینہ نے شدت جذبات سے آنکھیں بند کر لیں اور عبدل کی محبت سے لطف اٹھانے لگی۔ اس کے جذبات واقعی بیدار ہو رہے تھے اور سانسیں تیز ہو گئی تھیں۔
عبدل بدستور اس کے ننگے کندھوں اور گردن کو چومے جا رہا تھا۔ امینہ کو اپنی ٹانگوں کے درمیان نمی محسوس ہوئی۔ اس کا دل کر رہا تھا کہ کوئی اسے بے دردی سے چود ڈالے اور ایسا زبردست ڈسچارج کروائے کہ اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ امینہ نے فوراً اپنی اس سوچ پر خود کو ملامت کی لیکن کتنی دیر تک آخر۔ ضمیر کی آواز شراب کے نشے میں دب گئی اور امینہ جذبات میں بہنے لگی۔ اسے یہ پرواہ نہ رہی کہ وہ اپنے سگے بیٹے کی بانہوں میں ہے۔ اسے تو بس یہ چاہت تھی کہ اسے چاہا جائے، شدت سے چاہا جائے اور پھر چودا جائے۔
وہ اپنے بیٹے کے سامنے اپنا جسم پیش کرنے کو تیار تھی۔
رات انہیں جہاں لے جائے، امینہ جانے کیلئے تیار تھی۔ جب گانا ختم ہوا تو عبدل نے ہونٹ اپنی ماں کے کان کے قریب لا کر سرگوشی کی:
عبدل:آئی لو یو امی۔ میں آپ کو اپنا بنانا چاہتا ہوں
میوزک ختم ہو گیا، کمرے میں خاموشی طاری ہو گئی۔
عبدل کے الفاظ امینہ کے کانوں میں گھنٹہ گھر کے گھنٹے کی طرح گونج رہے تھے۔
شاید ابھی بھی امینہ کے اندر مزاحمت باقی تھی۔
اس کے بیٹے نے کھل کر اس سے وہ سب کچھ کہہ دیا تھا جو پچھلے چند ماہ سے ان دونوں کو اذہان پر سوار تھا اور جس منزل کی جانب وہ آہستہ آہستہ بڑھ رہے تھے۔ لیکن اب یہ بات چھپی نہیں رہی تھی۔ ایک دم سے امینہ کا سارا نشہ ہوا ہو گیا۔ اس کے جذبات کی جگہ اب ندامت اور گناہ نے لے لی۔
وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔
عبدل کے چہرے پر اب بھی محبت اور چاہت کے آثار تھے۔
امینہ نے ہاتھ بلند کیا اور ایک زوردار تھپڑ عبدل کے گال پر رسید کیا۔
امینہ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور چہرے پر غم کے تاثرات۔ وہ جانتی تھی کہ تھپڑ مارنا عبدل کیلئے زیادتی تھی کیونکہ بات جہاں تک پہنچ گئی تھی وہ اکیلا اس کا ذمہ دار نہیں تھا۔
امینہ کو اپنے آپ سے گھن آنے لگی، اپنے گزشتہ خیالات سے گھن آنے لگی۔
عبدل نے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔
اس کا ہاتھ اپنے گال پر تھا جس پر امینہ کی انگلیوں کے نشان چھپ گئے تھے۔
عبدل کے چہرے پر حیرت تھی۔
اس نے ایک دم سے نظریں امینہ سے ہٹائیں اور بغیر کچھ کہے سر جھٹک کر تیز تیز قدم اٹھاتا گھر سے نکل گیا۔
امینہ ڈرائنگ روم کے صوفے پر اکیلی بیٹھی رہ گئی۔
رات گئے عبدل کا میسج آیا کہ وہ رات اپنے دوست کے گھر ہی رہے گا۔ امینہ بوجھل قدموں سے اٹھ کر بیڈ روم کہ جانب چلی۔ نیند آنکھوں سے دور تھی۔ بستر پر لیٹی سوچتی رہی کہ اس نے یہ کیا کر دیا۔ اس کا دل چایا عبدل سے معافی مانگ لے لیکن فون کرنے کی ہمت نہ کر پائی۔
نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔
صبح اس کی آنکھ سائرن کی آواز سے کھلی۔ سائرن کے ساتھ جنگی جہازوں کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔
امریکہ نے آخرکار عراق پر حملہ کر ہی دیا تھا۔
جاری ہے