Amina aur is ka beta - Episode 4

‏امینہ اور اُن کا بیٹا     


قسط نمبر 4


امینہ بلآخر اس علاقے میں پہنچ گئی جہاں عبدل کے دوست کا گھر تھا۔ 


پورا علاقہ ہی تباہی کی تصویر تھا۔ 


امینہ دیوانہ وار ادھر دیکھ رہی تھی۔ کوئی ایک گھر بھی مکمل حالت میں نہیں تھا۔ سب عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔ لکڑی اور کنکریٹ کے کالے پتھر جگہ جگہ بکھرے ہوئے تھے۔ چند افراد زخمیوں کی مدد کیلئے زخمی افراد کو ڈھونڈ رہے تھے۔ امینہ نے اپنے بیگ وہیں زمین پر پھینکے اور خالی ہاتھ عبدل کو تلاش کرنے لگی۔ اس کے دوست حبیب کا گھر بھی تباہ ہو چکا تھا۔ صرف دیواریں ہی باقی بچی تھیں۔ امینہ کو شدید مایوسی نے گھیر لیا اور وہ اونچی آواز میں روتے ہوئے عبدل کو پکارنے لگی۔  


عبدل: امی 


امینہ کا رونا تھم گیا اور اس نے مڑ کر آواز کی سمت دیکھا۔ 


عبدل تباہ شدہ گھر کی دیوار کے پیچھے سے نکل کر اس کی طرف آ رہا تھا۔ 


کچھ لمحات دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، پھر دوڑ کر ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ اپنے بیٹے کو اپنی بانہوں میں پا کر امینہ بہت خوش ہوئی۔ اس نے خوب بھینچ کر عبدل کو اپنے ساتھ چپکا لیا۔ کچھ دیر ایسے چپکے رہنے کے بعد امینہ اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھنے کیلئے پیچھے ہوئی۔ خوشی سے اس کی ہنسی نکل گئی اور اس نے عبدل کے گالوں اور پیشانی کو چوم لیا لیکن عبدل نے امینہ کو اپنے قریب کیا اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر چوم لیا۔ 


یہ پہلی مرتبہ تھا کہ اس نے اپنی ماں کے ہونٹ چومے تھے۔ امینہ حیران تھی لیکن اسے برا نہیں لگا۔ اس کا بیٹا محفوظ تھا اور اس کی بانہوں میں تھا، اس کیلئے یہی اہم تھا۔ امینہ نے عبدل کے یوں چومنے کے جواب میں خود اس کے ہونٹ نہیں چومے تھے لیکن پیچھے بھی نہیں ہٹی تھی۔  


عبدل: مجھے لگا شاید ہم اب کبھی نہ مل سکیں گے۔


امینہ: مجھے بھی


 دونوں پھر سے ہنس پڑے اور ایک دوسرے سے چپک گئے۔ 


کچھ دیر بعد عبدل نے اپنی ماں کے بیگ اٹھائے اور اسے دیوار کے پیچھے راستے سے تہہ خانے میں لے گیا۔ یہ تہہ خانہ بھی بنکر نما تھا لیکن جس بنکر سے امینہ نکل کر آ رہی تھی، یہ اس سے کہیں بہتر تھا۔ 


یہاں بستر، ریفریجریٹر ، کھانے پینے کی اشیاء کا وافر سٹاک تھا۔  


عبدل: ہم تینوں جنگ کے آغاز سے ہی یہاں چھپ گئے تھے اور جو کچھ بچا سکے وہ ہم یہاں لے آئے۔


عبدل نے اپنی ماں کی آنکھوں میں تجسس دیکھ کر وضاحت کی اور پھر اس کا اپنے دوست حبیب اور اس کی ماں لبنی سے تعارف کروایا۔ 


حبیب بیس سال کا تھا اور قد میں عبدل سے کچھ بڑا تھا۔ جسامت میں بھی خوب طاقتور معلوم ہوتا تھا۔ گوری چمڑی، کالے بال اور بھوری آنکھوں کی وجہ سے وہ کافی خوبصورت لگ رہا تھا۔ پچھلے کچھ سالوں میں امینہ نے عبدل کی زبانی حبیب کا کئی مرتبہ ذکر سنا تھا لیکن اس سے پہلے صرف ایک بار وہ حبیب سے ملی تھی۔ 


حبیب عبدل کا بہترین دوست تھا۔ وہ ہمیشہ حبیب کا ذکر بھائیوں کی طرح ہی کرتا تھا۔ حبیب کی ماں لبنی قد کاٹھ میں لمبی تھی اور جسامت میں بھری بھری سی۔ اس کے بال گھنگریالے تھے۔ امینہ کو دیکھ کر وہ آگے بڑھی اور مسکرا کر امینہ کو گرم جوشی سے گلے لگا لیا۔  


لبنی: اللہ کا شکر ہے آپ محفوظ ہیں۔ ہم سب بہت پریشان تھے


امینہ لبنی کی اپنائیت سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ 


اس کے لہجے سے ہی خلوص ٹپکتا تھا۔  


امینہ: میرے عبدل کا خیال رکھنے کا بہت شکریہ


امینہ نے لبنی سے کہا۔  


لبنی: شکریہ تو مجھے عبدل کا ادا کرنا چاہیے۔ بہت ہی پیارا بچہ ہے۔


لبنی نے جواب دیا۔  


حبیب: السلام علیکم ۔ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ عبدل آپ کے بارے ہی باتیں کرتا رہتا ہے۔ کاش ہم بہتر حالات میں ملے ہوتے۔


حبیب نے امینہ سے کہا۔ امینہ نے جواباً سر ہلا کر اسے شکریہ کہا اور لبنی کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے لیا۔ 


امینہ کے بیگ ایک کونے میں رکھے گئے تھے۔ دونوں لڑکے آپس میں کچھ بات چیت کرتے رہے اور پھر پانی کی تلاش میں تہہ خانے سے باہر نکل گئے۔ 


باہر امدادی کارروائیاں جاری تھیں اور خوراک کے پیکٹ بانٹے جا رہے تھے۔ عراقی فوج بھی علاقے میں پہنچ چکی تھی۔ امینہ نے فون نکالا لیکن سگنل نہیں آ رہے تھے۔ 


لبنی: یہاں سارے ٹاور تباہ ہو چکے ہیں۔ انجینئر مرمت کر رہے ہیں لیکن ابھی سگنل نہیں آئیں گے۔


لبنی نے امینہ کو بتایا۔ وہ امینہ کے سامنے بیٹھ گئی تھی۔ شاید اس کی نیت باتیں کرنے کی تھی۔ 


لبنی: مجھے عبدل نے بتایا کہ آپ کے شوہر یورپ گئے ہوئے ہیں۔ اب تو پروازیں بھی بند ہیں۔ آپ نے کیا سوچا ہے؟


امینہ: عباس کا کہنا ہے وہ اپنے سٹوڈنٹس کو عراق سے نکلوانے کیلئے کوششیں کر رہا ہے۔ ہم بھی ان سٹوڈنٹس کے ساتھ ہی عراق سے نکل جائیں گے۔


امینہ نے لبنی کو بتایا۔  


لبنی: میں نے اپنے مرحوم شوہر کے ایک دوست سے درخواست کی ہے۔ اگر وہ مان گیا تو مجھے اور حبیب کو اپنی گاڑی میں ترکی تک لے جائے گا۔ وہاں میرے کچھ رشتے دار ہیں۔ میری مانیں تو آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ یورپ وہاں سے قریب ہی ہے۔


لبنی نے امینہ کو تجویز دی۔


امینہ: شکریہ لبنی لیکن پہلے میں عباس کے سٹوڈنٹس سے بات کر لوں۔ پھر ہی ہوئی فیصلہ کر سکتی ہوں۔" 


لبنی: چلیں۔ اگر آپ نے ہمارے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تو بہت مزہ آئے گا۔ ہم سارا رستہ باتیں کریں گے 


لبنی نے تو ابھی سے منصوبہ بندی کر لی تھی۔ 


امینہ لبنی کی سادگی اور ملنساری پر مسکرا اٹھی۔  


اگلے چند دن وہ چاروں بنکر میں ہی رہے۔ عبدل اور حبیب ذیادہ وقت ایک ساتھ گزارتے۔ امینہ سمجھتی تھی کہ دونوں کو پتہ ہے کہ بچھڑنے کا وقت قریب ہے اور ہو سکتا ہے کئی سالوں تک ملاقات نہ ہو سکے اس لئے ان کی دوستی اور بھی مضبوط ہو گئی ہے۔ 


لبنی کی شکل میں امینہ کو ایک مخلص دوست میسر آ گئی تھی۔ لبنی اور حبیب کے درمیان بہت محبت تھی۔ حبیب اس کا واحد سہارا تھا۔ لبنی نے اسے بتایا کہ شوہر کی وفات کے بعد حبیب نے کیسے اسے سہارا دیا ورنہ وہ تو غم سے مر ہی گئی ہوتی۔ 


حبیب ویسے بھی کافی میچور لگتا تھا۔ اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتا تھا۔ امینہ نے یہی قیاس کیا کہ باپ کی بے وقت موت نے بچے کو جلدی میچور کر دیا۔  


گزارے لائق خوراک اور پانی کا بندو بست ہو رہا تھا۔ سگنل بھی کچھ دن میں بحال ہو گئے۔ امینہ نے عباس کو فون کر کے حالات سے آگاہ کیا۔ عباس نے اسے بتایا کہ انٹرنیشنل میڈیا پر خبریں ہیں کہ امریکہ کی افواج تیزی سے عراق کے شہروں پر قبضہ کرتی جا رہی ہیں اور امن کی تمام تر کوششیں بے سود ہیں۔ جب سے امینہ یہاں آئی تھی، عبدل سے تنہائی میں بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ بچھڑ کر دوبارہ ملنے کی خوشی اپنی جگہ لیکن امینہ کو اب بھی عبدل کی آنکھوں میں اس دن کے تھپڑ کا دکھ نظر آتا تھا۔


 ساتھ ہی اپنے لئے بے پناہ محبت اور چاہت بھی۔ 


شاید اس دن اپنے بیٹے کی خواہش کو ریجکٹ کرنا امینہ کی غلطی تھی۔ عبدل نے اس رات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا تھا۔ نہ ہی اس نے اپنی ماں کو چھونے کی کوشش کی تھی سوائے اس وقت کے جب امینہ اور وہ بچھڑنے کے بعد ملے تھے اور عبدل نے امینہ کو ہونٹوں کو چوما تھا۔ 


امینہ مطمئن تھی۔ 


کم از کم اس کا بیٹا اس کی نظروں کے سامنے تو تھا۔ رہی بات ناراضگی کی تو اس کا ارادہ تھا کہ عراق سے یورپ پہنچ کر وہ عبدل کو منا لے گی۔ امینہ کے یہاں پہنچنے کے پانچویں دن اس کی آنکھ جلدی کھل گئی۔ عبدل اپنے بستر پر سو رہا تھا۔ لبنی اور حبیب بنکر سے غائب تھے۔ امینہ کو حیرت ہوئی کہ کہاں چلے گئے۔ 


دن بھر وہ فائرنگ کی آوازیں سنتے رہے تھے اور تہہ خانے میں چھپے رہنا ہی انہیں محفوظ لگا تھا۔ لیکن اب فضا میں خاموشی تھی، سناٹا تھا۔ محتاط ہو کر وہ بستر سے اٹھی اور بنکر سے باہر نکل آئی۔ صبح کا موسم سرد تھا۔ سورج ابھی نہیں نکلا تھا لیکن ہلکی سی روشنی افق پر پتہ دیتی تھی کہ بس نکلنے میں کچھ ہی دیر باقی ہے۔ گھر تباہ ہو چکا تھا۔ بس دیواریں کھڑی رہ گئی تھیں۔ امینہ کو اس کھنڈر نما گھر سے کچھ آوازیں آتی محسوس ہوئیں۔  


پر تجسس ، وہ بے آواز قدم اٹھاتی آواز کی جانب بڑھی۔ ایک دیوار میں ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے اندر جھانک کر دیکھا تو وہ جیسے پتھر کی ہو گئی۔ 


اسے اپنی آنکھوں کے سامنے منظر پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ حبیب تباہ شدہ کمرے میں پتلون نیچے کئے کھڑا تھا اور لبنی اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی اپنے بیٹے کا لن چوس رہی تھی۔ 


امینہ کے دل کی دھڑکن یکدم بڑھ گئی اور وہ وہیں زمین پر بیٹھ کر گہری سانسیں لینے لگی۔ 


🗨️امینہ کی سوچ: ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟


امینہ نے اپنی آنکھیں مسلیں۔ اپنے جسم پر چٹکی بھری۔ لیکن وہ خواب نہیں دیکھ رہی تھی۔ یہ حقیقت تھی۔ ایک بار پھر اس نے سر اوپر کر کے کھڑکی سے جھانکا۔ 


شاید یہ ان کا ڈرائنگ روم تھا۔ 


کمرے کی چھت اور ایک دیوار گر گئی تھی لیک۔ تین دیواریں قائم تھیں۔  


حبیب نے دیوار سے ٹیک لگا رکھی تھی اور اپنی ٹی شرٹ اوپر کی ہوئی تھی جس سے اس کے پیٹ پر بنے ورزشی نشانات نظر آ رہے تھے۔ پتلون اور انڈر وئیر گھٹنوں تک نیچے کئے، وہ اپنی ماں کے منہ میں لن دئیے سرور میں کھویا تھا۔ 


آنکھیں بند تھیں اور منہ سے "آہ" "آہ" کی ہلکی ہلکی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ 


لبنی نے اپنے گھٹنے زمین پر تھوڑے سے ٹھیک کئے۔ شاید اسے پتھر چبھ رہے تھے۔ 


لبنی کے سینے پر سے بھی قمیض اوپر تھی اور اس کے ممے باہر تھے۔ 


🔥جب اس نے اپنی پوزیشن تھوڑی ایڈجسٹ کی تو ممے بھی ہلے تھے۔ 


اس کا ایک ہاتھ اپنے بیٹے کے پیٹ پر جبکہ دوسرا پیچھے چوتڑوں پر تھا اور منہ لن پر جسے وہ آگے پیچھے کر کے مسلسل چوس رہی تھی۔  


لبنی نے چند سیکنڈز کیلئے اپنے بیٹے کا لن منہ سے نکالا۔ لن تھوک سے چمک رہا تھا۔ 


لبنی نے حبیب کی طرف دیکھنے کیلئے منہ اوپر کیا اور دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنس پڑے۔ 


لبنی نے لن کو نیچے سے چاٹنا شروع کر دیا۔ حبیب نے کچھ کہا جو امینہ نہ سن سکی لیکن اس کے کہنے پر ہی شاید لبنی نے لن دوبارہ منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا تھا۔


امینہ یہ سب دیکھ کر حیران تو تھی لیکن یوں ایک ماں کو اپنے بیٹے کی خدمت کرتے ہوئے دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکی۔ 


چاہنے کے باوجود وہ واپس بنکر میں نہیں گئی بلکہ انہیں دیکھتی رہی۔  


لبنی نے اپنے منہ کی رفتار بڑھا دی۔ اس نے اب ایک ہاتھ سے لن کو جڑ سے پکڑ رکھا تھا جبکہ مسلسل منہ لن پر آگے پیچھے کر رہی تھی۔ حبیب کے منہ سے آہیں بھی تیز ہو گئیں اور پھر اس نے آنکھیں زور سے بند کر لیں اور اس کے جسم کو جھٹکے لگنے لگے۔ 


🫧🫧امینہ سمجھ گئی کہ وہ ڈسچارج ہو رہا ہے۔ 


وہ اپنی ماں کے منہ میں ہی ڈسچارج ہو گیا تھا۔ 


لبنی نے بھی اپنے بیٹے کے لن سے نکلنے والی ساری منی غٹا غٹ پی لی تھی۔ ایک قطرہ بھی ضائع کئے بغیر۔  


امینہ چپ چاپ بنکر میں لوٹ آئی لیکن اب اس کے ذہن پر بس حبیب اور لبنی ہی تھے



جاری ہے 

*

Post a Comment (0)