Amina aur is ka beta - Episode 5

‏امینہ اور اُن کا بیٹا      


قسط نمبر 5


🗓️آج کا دن


اس دن پہلی بار امینہ کو عبدل کے ساتھ تنہائی میسر آئی جب دوپہر کو لبنی اور حبیب تہہ خانے سے باہر گئے۔ 


جو کچھ صبح امینہ دیکھ چکی تھی، وہ اب بھی صدمے کی سی کیفیت میں تھی۔ 


اس نے کوشش کی تھی کہ اپنا رویہ نارمل رکھے تاکہ حبیب اور اس کی ماں کو شک نہ ہو کہ وہ انہیں صبح دیکھ چکی ہے۔ لبنی اور حبیب کے جانے کے بعد امینہ عبدل کے پاس جا بیٹھی جو اپنے فون میں مصروف تھا۔  


امینہ: میری تمہارے ابو کے سٹوڈنٹس سے بات ہوئی ہے۔ وہ اب بھی چھپے ہوئے ہیں اور تب تک چھپے رہیں گے جب تک نکلنے کا کوئی محفوظ انتظام نہیں ہو جاتا 


امینہ نے عبدل کو بتایا۔ 


عبدل نے بس "ہونہہ" میں جواب دیا اور نظریں فون پر ہی گاڑے رکھیں۔ 


عبدل: کب تک مجھ سے بات نہیں کرو گے؟


امینہ نے پوچھا۔ 


عبدل: کیا مطلب؟


 عبدل نے سوال کے جواب میں سوال پوچھ لیا۔ 


امینہ: مطلب تمہیں اچھی طرح پتہ ہے۔ ایکٹنگ بند کرو اب


 عبدل نے نظریں اٹھا کر امینہ کی آنکھوں میں دیکھا۔ امینہ کو اس کی آنکھوں میں درد، کرب اور اداسی نظر آئی۔  


عبدل: امی میں کیا کہوں آپ سے۔ آپ جانتی ہیں کہ میں آپ کے بارے میں کیسے جذبات رکھتا ہوں۔ آپ کو شاید یہ برا لگتا ہے۔ شاید آپ کو لگتا ہے یہ گناہ ہے۔ لیکن میں کیا کروں؟


 یہ کہہ کر عبدل نے نظریں دوسری سمت کر لیں اور خلا میں گھورنے لگا۔ 


عبدل: خیر جو بھی ہے، مجھے ویسے بھی زیادہ دیر تک اپنے زندہ رہنے کی امید بھی نہیں ہے۔


عبدل نے ویسے ہی خلا میں گھورتے ہوئے کہا۔ 


امینہ: ایسے نہ کہو۔ میں تمہیں دوبارہ نہیں کھو سکتی۔ کبھی نہیں 


امینہ نے عبدل کو اپنی بانہوں میں کھینچ لیا۔ عبدل نے اپنا چہرہ اپنی ماں کے سینے میں دفن کر دیا۔ 


عبدل: امی میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔ میں اپنی ساری زندگی آپ کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔ آپ سے پیار کرنا چاہتا ہوں


 عبدل کی آواز سے اس کی محبت کا بخوبی پتہ چل رہا تھا۔ 


امینہ: ایسے پیار کرنا چاہتے ہو جیسے حبیب اور اس کی ماں آپس میں کرتے ہیں؟


 امینہ کی بات پر عبدل چونک گیا۔ اس نے امینہ کی طرف دیکھا اور اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر امینہ سب سمجھ گئی۔ 


امینہ: میں نے انہیں آج صبح دیکھا تھا۔ لبنی حبیب کے سامنے دو زانو بیٹھی تھی۔۔۔


اس سے آگے امینہ کچھ نہ کہہ سکی۔ 


امینہ: وہ... وہ آپس میں پیار کرتے ہیں


عبدل نے سر ہلا کر آہستہ سے کہا۔ 


امینہ: تمہیں پتہ تھا؟


امینہ نے پوچھا۔ 


عبدل: یہ سب دو سال سے چل رہا ہے لیکن مجھے حبیب نے اپنی اٹھارویں سالگرہ پر بتایا تھا آج سے کوئی دس ماہ پہلے۔ وہ نہ بتاتا شاید اگر میں اسے یہ نہ بتاتا کہ میں اپنی ماں کے عشق میں گرفتار ہوں۔


 امینہ: تم چاہتے ہو ہم بھی ان کی طرح ہو جائیں؟


 امینہ نے پوچھا۔ 


عبدل: کیا یہ بری بات ہے؟ 


عبدل نے جواباً پوچھا۔ 


امینہ: عبدل۔۔۔۔ یہ غلط تو ہے نا۔ ۔۔۔ گناہ بھی ہے۔۔۔ معاشرہ بھی برا سمجھتا ہے۔


عبدل: امی گناہ صرف ایک لفظ ہے۔ ویسے بھی ابو کو تو آپ کی پرواہ نہیں ہے تو پھر میں ابو کی کمی کیوں پوری نہیں کر سکتا؟


امینہ دوسری طرف دیکھنے لگی۔ عبدل جواب کی امید پر اپنی ماں کا چہرہ تکتا رہا لیکن وہاں خاموشی چھائی رہی۔ عبدل اٹھا اور خاموشی سے باہر نکل گیا تاکہ امینہ تنہائی میں اچھی طرح سوچ سکے۔ 


اس رات کھانے کے بعد لبنی نے امینہ سے باہر چلنے کو کہا۔ امینہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو لبنی نے اسے ایک چھوٹی سی بوتل دکھائی اور آنکھ بھی ماری۔ امینہ مسکرا کر اس کے پیچھے بنکر سے باہر آ گئی۔ 


رات خاموش تھی۔ 


نہ جانے آج کیوں کوئی آواز نہیں تھی۔ نہ کوئی فائرنگ نہ کوئی دھماکہ حتیٰ کہ دور دور تک آسمان پر بھی کوئی راکٹ نظر نہیں آ رہا تھا۔ دونوں عورتیں کھنڈر نما گھر میں ایک جگہ دیکھ کر بیٹھ گئیں۔ لبنی نے بوتل سے منہ لگا کر ایک چسکی بھری اور بوتل امینہ کو پکڑا دی۔ امینہ نے بھی ایک چسکی لی جس سے اسے ایک عجیب سا لطف ملا۔ 


لبنی: ان دنوں ترکی کا موسم بہت شاندار ہو جاتا ہے۔ ہمارا وہاں بہت بڑا باغ تھا۔ میں وہاں اپنے کزنز کے ساتھ کھیلتی تھی بچپن میں۔ 


لبنی نے مسکراتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔ 


لبنی: اگر میں ترکی پہنچ سکی تو اہنے پرانے گھر کو دوبارہ آباد کروں گی


لبنی نے بات جاری رکھی۔  


امینہ: لگتا ہے آپ نے پوری منصوبہ بندی کر رکھی ہے


امینہ نے مسکرا کر جواب دیا۔ کچھ دیر وہ دونوں خاموش سے باری باری چسکیاں لیتی رہیں اور بوتل ایک دوسرے کو تھماتی رہیں۔ 


لبنی: مجھے پتہ ہے صبح آپ نے ہمیں دیکھ لیا تھا


لبنی کی بات نے جیسے امینہ پر بجلی گرا دی۔  


امینہ: اوہ۔۔۔ آآآآئی ایم سوسوسوسوری۔۔۔ لبنی میرا یہ یہ مقصد نہیں ۔۔۔" 


امینہ کی آواز میں ہکلاہٹ پیدا ہو گئی۔  


لبنی: ٹینشن نہ لیں۔ کوئی مسلہ نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے دیکھ ہی لیا۔


لبنی نے امینہ کو تسلی دی۔


امینہ: میں سمجھی نہیں۔


امینہ واقعی نہیں سمجھی۔ 


بھلا لبنی کیوں ایسا چاہے گی کہ امینہ انہیں دیکھے۔ 


لبنی نے اداسی بھری نظروں سے امینہ کو دیکھا اور پھر کہنے لگی۔


لبنی: کیا آپ کو اپنے بیٹے کی آنکھوں میں اپنے لئے پیار نظر نہیں آتا؟ اس کی محبت، اس کی چاہت۔ آپ بھی اسے چاہتی ہیں۔ ہیں نا؟


امینہ نے نظریں پھیر لیں۔ لبنی سے نظریں ملانے کی ہمت وہ کر نہیں پا رہی تھی۔ اسے ڈر تھا کہیں لبنی اس کی آنکھوں کے ذریعے اس کی روح میں نہ جھانک کر دیکھ لے جہاں عبدل کیلئے محبت کا سمندر موجزن تھا اور جس حقیقت کو امینہ اب تک خود بھی جھٹلاتی آئی تھی۔  


امینہ: آپ کو کیسے پتہ کہ عبدل کے میرے بارے میں کیا جذبات ہیں؟ 


امینہ نے آہستہ سے پوچھا۔ 


لبنی: عبدل اور حبیب بھائیوں کی طرح ہیں۔ میں اور حبیب تو پہلے سے جسمانی تعلق قائم کر چکے تھے۔ حبیب کو عبدل پر شک تھا کہ وہ بھی اپنی ماں سے پیار کرتا ہے۔ حبیب نے اپنے دوست اپنے بھائی پر بھروسہ کر کے اسے ہمارے تعلق کا بتا دیا۔ وہ عبدل کو میرے پاس لے کر آیا۔ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی تو اس نے مجھے سب کچھ بتا دیا۔


امینہ نے سر ہلایا اور پچھلے چند ماہ کے وہ سارے مناظر اس کی آنکھوں میں گھوم گئے جب عبدل اسے چومتا تھا، پکڑتا تھا اور اس کا لن پیچھے سے محسوس ہوتا تھا۔ تب تو وہ یہی سمجھتی رہی کہ اس کا لن ویسے ہی کھڑا ہو گیا ہے۔ جوانی کا تقاضا ہے۔ اول حقیقت کا تو اب پتہ چلا۔  


لبنی: جو کچھ عبدل نے ہمیں بتایا ہے اس سے تو میں یہی سمجھ پائی ہوں کہ آپ بھی عبدل کیلئے ویسے ہی جذبات رکھتی ہیں۔ جب وہ ہمیں بتاتا تھا کہ آپ اس کے ساتھ کتنی خوش رہتی ہیں جب وہ آپ کو باہر لے کر جاتا تھا۔ عبدل کی آنکھوں میں بے انتہا خوشی تھی۔ لیکن جب آپ نے اسے تھپڑ مارا تو وہ تقریباً روتا ہوا ہمارے یہاں آیا تھا۔ جیسے اس کا دل ہی ٹوٹ گیا ہو۔ 


لبنی نے اپنا ہاتھ امینہ کے ہاتھ پر رکھ کر ہلکا سا دبایا اور بات جاری رکھی۔ 


لبنی: امینہ۔ ...پ کا بیٹا آپ سے عشق کی حد تک محبت کرتا ہے۔ سچ کہوں تو ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اتنے پیارے محبت کرنے والے بیٹے ملے۔


امینہ: مجھے نہیں پتہ لبنی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ مجھے ڈر لگتا ہے


امینہ نے لبنی کو جواب دیا۔ 


لبنی: ڈریں نہیں۔ اگرچہ ہمارے معاشرے نے ہمیں ہمیشہ ڈرنا ہی سکھایا ہے لیکن یہ بھی تو سوچیں بھلا پیار کرنے میں کیا برائی ہو سکتی ہے۔ پیار اس دنیا کی سب سے خوبصورت چیز ہے۔ میں روز خوش و خرم اٹھتی ہوں کہ میرا بیٹا اور میں آپس میں محبت کرتے ہیں۔


لبنی کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ 


لبنی: اپنا بیٹا اپنے آپ سے اتنا قریب کر لینا، اپنے بیٹے کو اپنا لینا یہ دنیا کی سب سے امیزنگ فیلنگ ہے۔ بیسٹ۔ جیسے وہ میرے جسم سے نکلا تھا، آج اپنا جسم میرے جسم کے اندر ڈال کر ہم دونوں ایک ہو رہے ہیں۔ جب ہم ترکی پہنچ جائیں گے تو میں حبیب کے بچے کی ماں بھی بنوں گی۔


امینہ کی ہچکچاہٹ دیکھ کر لبنی نے اس سے کہا: 


لبنی: میرے خیال میں جو کچھ آپ کے دل میں ہے وہ آپ مجھ سے بہتر جانتی ہیں۔ مجھے امید ہے آپ صحیح فیصلہ کریں گی۔


 لبنی کے ہونٹوں پر اب بھی مسکراہٹ تھی۔ وہ امینہ کو وہاں اکیلی چھوڑ کر نیچے بنکر میں چلی گئی۔ 


امینہ اور بوتل اور رات کی تنہائی۔ امینہ سوچتی رہی۔



جاری ہے 

*

Post a Comment (0)