Amina aur is ka beta - Episode 6

‏امینہ اور اُن کا بیٹا       


قسط نمبر 6


 اگلی صبح وہ سب سو کر اٹھے تو ایک اچھی خبر ان کی منتظر تھی۔ 


عراق اور امریکہ کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو گیا تھا کہ سویلین کو جنگ زدہ علاقوں سے نکالنے کیلئے روز کچھ وقت کیلئے لڑائی روک دی جائے۔ 


امینہ اور لبنی اور ان کے بیٹے سب ہی بہت خوش تھے۔ بلاآخر وہ یہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو ہی جائیں گے۔ امینہ نے عباس کے سٹوڈنٹس کو فون کیا اور ان کے ساتھ بسوں میں اپنی اور عبدل کی سیٹیں بھی بک کروا لیں۔ لبنی نے اپنے مرحوم شوہر کے دوست کو فون کیا اس کی گاڑی میں نکلنے کا بندو بست کر لیا۔ 


ان سب نے مل کر اپنا اپنا سامان پیک کیا۔ اگرچہ گھر تباہ ہو گیا تھا لیکن لبنی اور حبیب نے کافی قیمتی چیزیں تہہ خانے میں محفوظ رکھی تھیں۔ امینہ اور عبدل تو پہلے ہی اپنے بیگ سے چیزیں نکال کر استعمال کر رہے تھے۔ ان کے پاس تھا ہی کچھ نہیں۔ اس رات بہت باتیں ہوئیں۔ خاص طور پر عبدل اور حبیب کی باتیں تو رک ہی نہیں رہی تھیں کیونکہ دو بہترین دوست بچھڑنے لگے تھے۔ 


یہ رات اس لحاظ سے بھی منفرد تھی کہ اس رات کئی راتوں کے بعد وہ سب اس امید پر سونے جا رہے تھے کہ جلد ہی ان کی مصیبتیں تمام ہوں گی اور وہ کسی پر امن جگہ پر اپنی زندگی گزار سکیں گے۔ امینہ نے جانماز بچھائی اور جان بچ جانے کی امید ملنے پر شکرانے کے نوافل ادا کئے۔ کچھ دیر میں لبنی اور حبیب بنکر کے اس کونے میں چلے گئے جہاں ان کے بستر لگے تھے۔ حبیب نے اپنا بستر درست کرنے کی بجائے اپنی ماں کے بستر میں ہی گھسنے کو ہی ترجیح دی۔ جب سے امینہ کو پتہ چلا تھا، لبنی اور حبیب آپس کے تعلقات چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے تھے۔ 


ایک ہی بستر میں سونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب وہ سو کر اٹھتے تھے تو بستر تہہ کر کے رکھ دیتے تھے اور رات کو پھر سے بستر بچھا کر سو جاتے تھے اور ایک بستر میں دو لوگوں کے سونے کا مطلب تھا کہ ایک بستر نہیں بچھانا پڑے گا۔ امینہ نے بھی عبدل سے کہا کہ بجائے ایک اور بستر بچھانے کے وہ بھی ایک ہی بستر استعمال کر لیتے ہیں کیونکہ علیحدہ بستر کیلئے انہیں اپنا پیک شدہ سامان کھولنا پڑے گا جس سے وقت ہی ضائع ہو گا۔ 


عبدل اور امینہ ایک ہی بستر میں لیٹ گئے۔ 


بنکر میں سوائے ایک مدھم سے لیمپ کے اندھیرا تھا۔ یہ لیمپ بھی لبنی والی سائیڈ پر تھا۔ امینہ سوچ رہی تھی کہ چند دنوں کی بات ہے۔ پھر زندگی دوبارہ سے اپنی ڈگر پر آ جائے گی۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ اب کب عراق واپسی ہو گی یا ہو گی بھی یا نہیں۔ عراق میں رہتے ہوئے اسے اپنا ملک اتنا پسند نہیں آتا تھا لیکن اب جب کہ وہ اسے چھوڑ رہے تھے تو اسے بہت دکھ ہو رہا تھا۔ ساری زندگی اسی ملک میں تو گزری تھی۔ 


◀️کیسے اس کی شادی ہوئی تھی۔ 


◀️کیسے اس نے بیکری شروع کی تھی۔ 


◀️کیسے بچے کی پیدائش پر انہوں نے خوشیاں منائی تھیں۔ 


◀️کیسے اس کے شوہر نے اسے ہمیشہ تنہائی دی تھی۔ 


اپنے ملک کو یوں تباہ ہوتے دیکھ کر امینہ دکھی ہو گئی۔ جہاں بھی وہ جاتے انہیں نئے سرے سے زندگی کا اغاز کرنا تھا۔ شوہر کا خیال بھی امینہ کو افسردہ کر گیا۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ اس کا کوئی شوہر بھی ہے۔ شادی شدہ زندگی جیسے ختم ہو کر رہ گئی تھی لیکن ختم ہونے کا کیا گلہ جب کہ شروع ہی نہ ہوئی ہو۔ 


پچھلے چند ماہ سے عبدل نے البتہ امینہ کو بہت خوشیاں دی تھیں۔ اسے واقعی سچی خوشی محسوس ہوتی تھی جب وہ عبدل کے ساتھ ہوتی تھی۔ وہ اور عبدل آہستہ آہستہ چند ماہ سے جس طرف بڑھ رہے تھے امینہ کو وہ سب اچھا بھی لگتا تھا لیکن اس کا احساس گناہ بار بار غالب آ جاتا تھا۔ یہی احساس گناہ ہی تو تھا جس نے امینہ کو اپنے بیٹے کے گال ہر تھپڑ مارنے پر اکسایا تھا۔ اب جبکہ وہ اپنے شوہر کے پاس لوٹنے والی تھی تو اسے کوئی خوشی محسوس نہیں ہو رہی تھی بلکہ اکتاہٹ ہو رہی تھی کہ دوبارہ وہی بے کار زندگی۔ وہی عباس کے نخرے، وہی لا پرواہی ، وہی بے رخی۔ 


ہونٹوں سے ہونٹ ملنے کی پچ پچ کی آوازوں نے امینہ کی سوچ میں خلل ڈال دیا۔ اس نے کوئی حرکت کئے بغیر اپنے کان ان آوازوں پر لگا دئے۔ 


لبنی کے بستر کی جانب سے یہ آوازیں آ رہی تھیں۔ 


لحاف کے کونے سے منہ ذرا سا باہر نکال کر امینہ نے اس طرف دیکھا۔ لیمپ کی مدھم سی روشنی میں امینہ نے دیکھا جیسے کمبل میں دو جسم حرکت کر رہے ہوں۔ اسے شرم بھی آئی لیکن مزہ بھی۔ 


یقیناً لبنی اور اس کا بیٹا ایک دوسرے کے جسم سے مزے لے رہے ہیں۔ امینہ چپ چاپ دیکھتی رہی اور سوچنے لگی کہ کیا عبدل جاگ رہا ہے اور اسے بھی یہ سب نظر آ رہا ہے یا نہیں۔ کچھ دیر ایسے ہی لبنی کا کمبل ہلتا رہا اور پھر لبنی اور حبیب کی شدت جذبات سے لبریز آہیں سنائی دیں جس کے بعد چومنے کی آوازیں۔


امینہ مسکرا اٹھی۔ 


ماں بیٹا عراق میں اپنی آخری رات انجوائے کر رہے تھے۔ امینہ کو پھر عبدل کا خیال آیا۔ وہ اب تک بالکل ساکن لیٹا ہوا تھا۔ لبنی اور حبیب کی آوازیں ذرا بلند ہو گئی تھیں۔ انہوں نے تو ہر احتیاط بالائے طاق رکھ کر کھلم کھلا چدائی شروع کر دی تھی۔ شاید انہوں نے سوچا تھا کہ امینہ اور عبدل کو تو پہلے ہی ان کے تعلقات کا علم ہے لہذا چھپانے کا بھلا کیا مقصد۔ 


لبنی کچھ زیادہ ہی گرم ہو گئی تھی کیونکہ اب امینہ کو اس کے کچھ الفاظ بھی سمجھ آنے لگے تھے۔ وہ اپنے بیٹے سے کہہ رہی تھی کہ اور زور سے چودو۔ حبیب نے رفتار بڑھا دی اور بنکر ان کے جنسی اعضا ملنے سے پیدا ہونے والی چھپ چھپ کی آوازوں سے گونجنے لگا۔ 


ماں بیٹے کا کھلم کھلا سیکس دیکھ کر امینہ کا دماغ گھوم گیا تھا۔ 


امینہ کی سوچ: : تو یہ ہے پیار۔ کیا میں اور عبدل بھی اسی جانب بڑھ رہے ہیں؟ کیا یہ ہے جو عبدل بھی کرنا چاہتا ہے؟ اور کیا میں بھی یہی چاہتی ہوں؟ 


امینہ کے ذہن میں یہ سب سوال گردش کر رہے تھے۔ 


پچھلی رات کے لبنی کے کہے گئے الفاظ امینہ کو یاد آ گئے۔ جو کچھ لبنی نے عبدل کے بارے میں کہا تھا وہ سب سچ تھا۔ اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا تھا۔ امینہ خود یہ سب عبدل کے رویے میں دیکھ چکی تھی اور محسوس بھی کر چکی تھی۔ ہمیشہ سے ہی وہ اپنے بیٹے کے اپنے لئے پیار پر بہت فخر کرتی آئی تھی۔ عبدل کی صحبت میں وہ خوش بھی بہت رہتی تھی۔ امینہ کو عبدل کا پیار چاہیے تھا اور عبدل کو اس کا۔ 


لیکن اس سے اگلا قدم کیا ہو گا یہ سوچ کر امینہ کانپ جاتی۔ یہ کوئی چھوٹی بات تو نہیں تھی۔ ذہنی دباؤ تھا اچھا خاصہ جسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ امینہ نے سوچا کہ عبدل کے ساتھ جسمانی تعلقات کے نتیجے میں اس کی شادی شدہ زندگی کا کیا ہو گا۔ اس کے شوہر کا کیا ہو گا۔ پھر خود ہی اس سوچ ہر افسردہ ہو گئی۔ اگر وہ عبدل سے تعلقات قائم کر بھی لے تو بھی وہ عباس کے پاس ہی لوٹ رہے تھے نا جہاں عبدل اور وہ کھلم کھلا ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔ ایسے چھپ چھپ کر زندگی گزارنے میں رسک تھا اور ایسی زندگی امینہ کو پسند بھی نہیں تھی۔ 


◀️تو کیا ایسے تعلقات قائم کرنے چاہئیں جن کا کوئی مستقبل ہی نہ ہو؟ 


امینہ نے خود سے پوچھا۔ امینہ کو اپنے بیٹے کے جذبات مجروح ہونے کا البتہ دکھ تھا۔ اسے پتہ تھا کہ قصور تو اس کا ہے جو ایک فیصلہ نہیں کر پا رہی۔ اسے تو بس ہاں یا ناں ایک فیصلہ کرنا تھا اور اس پر قائم رہنا تھا۔ وہ جھجھک بھی رہی تھی لیکن عبدل کو دکھ بھی نہیں پہنچانا چاہتی تھی۔ 


لبنی کی آواز یکدم بلند ہو گئی۔ وہ شاید ڈسچارج ہو گئی تھی۔ چند سیکنڈز بعد حبیب بھی ڈسچارج ہو گیا۔ آوازوں سے سب پتہ چل رہا تھا۔ امینہ نے فیصلہ کر لیا۔ اسے اپنا اور عبدل کا دل توڑنا تھا۔ عبدل کو بتانا تھا کہ وہ کبھی بھی لبنی اور حبیب کی طرح نہیں ہو سکتے۔


اگلی صبح امینہ کی آنکھ لبنی اور حبیب کی آواز سے کھلی۔ 


وہ دونوں کپڑے پہن کر تیار ہو رہے تھے۔ عبدل ابھی تک سو رہا تھا۔ 


لبنی: سوری۔ آپ کو اٹھا دیا ہم نے شور سے


لبنی نے امینہ سے معذرت کی۔ 


امینہ: کوئی بات نہیں۔ رات کافی دیر تک بھی میں جاگتی ہی رپی تھی۔


امینہ نے معنی خیز مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے کہا۔ 


لبنی: ہم سے رکا نہیں گیا۔


لبنی شرما گئی۔ 


امینہ: جا کہاں رہے ہو


امینہ نے پوچھا۔ 


لبنی: راستے کیلئے کچھ کھانے پینے کی اشیاء خرید لیں بس۔ آپ کے لئے کچھ لائیں


امینہ: اں ہمارے لئے بھی کچھ لے آنا۔


امینہ نے کہا۔ 


لبنی: اوکے۔ ہم کوشش کریں گے کہ جلدی واپس آ جائیں


لبنی اور حبیب چلے گئے۔ 


امینہ نے سوچا پھر سے سو جائے لیکن نیند نہ آئی۔ وہ بستر پر بیٹھی عبدل کو دیکھتی رہی۔ 


آج وہ دن آن پہنچا تھا جب انہیں عراق چھوڑنا تھا۔ لبنی اور حبیب نے دس بجے روانہ ہونا تھا جبکہ امینہ اور عبدل کو یونیورسٹی پہنچنا تھا جہاں سے سٹوڈنٹس کی بسیں دوپہر میں روانہ ہونی تھیں۔ 


یکایک بلند آواز میں سائرن گونجنے لگے۔ عبدل ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور امینہ بھی پریشانی میں اسے دیکھنے لگی۔ دونوں کی آنکھوں میں خوف تھا۔ دھماکوں کی آوازیں شروع گئیں۔ ان کے بنکر کے ارد گرد جنگی جہاز فضا سے گولہ باری کر رہے تھے۔ ان کا بنکر لرز رہا تھا۔ امینہ نے عبدل کو قریب کیا اور بانہوں میں بھینچ لیا اور نہ جانے کتنی دیر آنکھیں بند کئے وہ ایسے ہی چپکے رہے۔ 


جب دھماکوں کی آوازیں بند ہو گئیں تو احتیاط سے انہوں نے بنکر سے باہر قدم نکالے۔ ہوا میں گرد دھویں اور بارود سے اٹی ہوئی تھی۔ چند عمارتوں کی جو رہی سہی دیواریں پہلے کھڑی تھیں اب وہ بھی گر گئی تھیں۔ نئے ملبے کے ڈھیر بن گئے تھے۔ لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ امینہ نے خوفزدہ نگاہوں سے اپنے ارد گرد دیکھا۔ 


اچانک عبدل نے چیخ ماری اور ایک طرف دوڑ پڑا۔ امینہ گھبرا گئی اور اس کے پیچھے بھاگی۔ جب وہاں پہنچی تو دیکھا لبنی اور حبیب ایک بلڈنگ کے ساتھ تباہ شدہ فٹ پاتھ پر ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں لپٹے ہوئے تھے جیسے آخری لمحات میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا عہد کر رہے ہوں۔ 


آنکھیں بند تھیں اور بھاری بھرکم کنکریٹ بلاکس کے نیچے دبے ہونے کے سبب چہروں پر خون بہہ رہا تھا۔ سر پر بھی زخم تھے۔ 


لبنی اور حبیب بھی جنگ کی نذر ہو گئے۔



جاری ہے 

*

Post a Comment (0)