امینہ اور اُن کا بیٹا
آخری قسط
امریکہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اور سویلین آبادی کو تب نشانہ بنایا تھا جب وہ عراق سے انخلاء کی تیاریاں کر رہے تھے۔
امریکہ کے اس اقدام پر انخلاء کی تمام کاروائیاں رک گئیں۔
🪦عراقی فوج کی امدادی کارروائیاں شروع ہوئیں اور دوپہر تک لبنی اور حبیب کو ملبے سے نکال لیا گیا۔ امینہ اور عبدل نے افسردہ دل اور آنسو بھری آنکھوں سے انہیں منوں مٹی تلے دفن کیا۔
قبرستان سے واپسی پر انہیں رات ہو گئی تھی۔ واپس آ کر انہیں بنکر بہت سونا لگ رہا تھا۔ ابھی چند گھنٹے پہلے کیسے لبنی کی آوازیں اس کی مسکراہٹ اس بنکر میں گونجتی تھیں۔ حبیب اور لبنی کا پیار اور اس کی آوازیں ابھی تک امینہ کے ذہن میں تروتازہ تھیں۔
عبدل تو لگتا تھا جیسے غم سے نڈھال ہو گیا ہو۔ اپنے بہترین دوست کی موت پر اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ تسلی اور حوصلہ دینے کی امینہ کی سب کوششیں بیکار گئیں۔ قبرستان سے واپس آ کر اب وہ بستر سے پاؤں لٹکائے خاموش بیٹھا تھا۔ شاید آنسو ہی خشک ہو گئے تھے رو رو کر۔ امینہ اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔ دونوں کی نگاہوں میں ایک خالی پن تھا۔ امینہ نے ان پیک شدہ بیگز کو دیکھا جو لبنی اور حبیب نے جتنی چاہ سے پیک کئے تھے۔ لبنی کتنی پرجوش تھی اپنے بیٹے کے ساتھ نئی زندگی کے آغاز کی امید پر۔ وہ تو ایک اور زندگی کو بھی دنیا میں لانے کے خواب دیکھتی تھی۔
اپنی کوکھ سے اپنے بیٹے کی اولاد کو جنم دینا چاہتی تھی۔
ظالموں نے سب کچھ مٹی ملا دیا۔ اب وہ دونوں عراق کی سرزمین میں دفن تھے۔ امینہ زندگی کے بے یقینی پر سوچے بنا نہ رہ سکی، ایک پل ہنستا مسکراتا چہرہ، اگلے پل زندگی سے دور موت کی آغوش میں۔ آج صبح وہ بھی تو سوچ رہی تھی کہ اپنے بیٹے کے ہمراہ جنگ زدہ علاقے سے نکل جائے گی لیکن اب تو کچھ بھی نہیں معلوم تھا کہ کیا ہو گا۔
◀️کیا وہ کل تک زندہ بھی بچیں گے؟
◀️یا پھر کہیں ان کی سرد لاشیں گلیوں میں پڑی ہوں گی؟
امینہ نے عبدل کی طرف دیکھا۔ عبدل نے بھی اپنی ماں کی طرف دیکھا۔ ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر گال پر گر گیا اور نیچے بہنے لگا۔ ماں بیٹے نے ایک دوسرے کو ٹائٹ جپھی میں بھینچ لیا جیسے آج کے سانحے پر ایک دوسرے کو حوصلہ دے رہے ہوں۔ امینہ نے آہستہ سے عبدل کا چہرہ ہاتھوں میں تھاما اور اپنے قریب کر کے اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔ عبدل کی آنکھوں میں حیرانی تھی لیکن اس نے اپنی ماں کے بوسے کا بھرپور جواب دیا اور وہ دونوں ایک دوسرے کو والہانہ انداز میں چومنے لگے۔ ا
یک دوسرے کی بانہوں میں پگھلنے لگے۔
صبح جو پرتشدد گولہ باری ہوئی تھی اس کے بعد کی رات کا پرامن ہونا باعث حیرت تھا۔ رات کی خاموشی میں امینہ اور عبدل بستر پر لیٹے تھے۔۔۔۔ ننگے۔۔۔۔ ان کے کپڑے نیچے فرش پر پڑے تھے۔ امینہ ذرا سی کانپی اور عبدل کے جسم سے قریب ہو گئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو چوما، ایک دوسرے کے منہ کا ذائقہ چکھا۔ عبدل ایک ہاتھ سے اپنی ماں کے مموں کو دبا رہا تھا، اس کے نپلز مسل رہا تھا جبکہ اس کا سخت لن امینہ کے پیٹ پر ٹچ ہو رہا تھا۔ ہونٹوں کے بعد عبدل نے اپنی ماں کی گردن پر چوما اور پھر نیچے ہوتے ہوتے اس کا نپل منہ میں لے لیا۔
امینہ کے منہ سے لذت بھری آہیں نکلنے لگیں۔ اس کا ہاتھ اپنے بیٹے کے لن پر تھا اور پکڑ کر ہی اسے یقین ہو گیا تھا کہ یہ لمبائی اور چوڑائی دونوں میں اس کے شوہر سے زیادہ ہے۔ امینہ نے آرام سے پکڑ کر اپنا ہاتھ پھیرا۔ امینہ کی پھدی تو پہلے ہی تر ہو چکی تھی۔ اس سے مزید برداشت نہ ہوا اور اس نے عبدل کو اپنے اوپر سے ہٹا کر بیڈ پر چت لٹا دیا اور خود اس پر سوار ہو گئی۔
عبدل کا لن اس کی پھدی کے گیلے ہونٹوں سے ٹچ ہوا۔ امینہ نے اندر لینے سے پہلے ایسے ہی اس کے اوپر اپنی پھدی رگڑی۔ امینہ کو ایسا لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ اس کے بیٹے کا لن اس کی پھدی کے دہانے پر تھا اور اس ممنوعہ سوراخ کے اندر داخل ہونے کا متمنی تھا۔ امینہ نے خود کو مضبوط کیا۔ یہی وقت تھا اور اس عمل کے بعد واپسی ناممکن تھی۔ اس کی آنکھیں عبدل کی انکھوں سے ٹکرائیں اور وہ جھک گئی جس سے عبدل کے لن نے اس کی پھدی کے ہونٹ کھول دئے۔ وہ مزید جھکی اور اپنے بیٹے کے لن کو اپنی پھدی میں سمانے لگی۔
وہ دونوں بلند آواز میں آہیں بھر رہے تھے۔
مزہ ہی اس قدر شدید تھا۔ امینہ کی آنکھیں فرط لذت سے بند ہو گئیں۔ اپنے بیٹے کا پورا لن اپنے اندر لے کر ماں بیٹا ایک ہو گئے تھے۔ لبنی کے الفاظ امینہ کے کانوں میں گونجنے لگے اور آنسو امینہ کے گالوں پر بہنے لگے۔
امینہ نے عبدل کا لن اپنی پھدی میں جکڑ لیا۔ آہستہ آہستہ وہ اوپر اٹھی اور پھر سے اس کے لن بیٹھی۔ غم نے ان دونوں کو گھیر لیا تھا اور زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں تھا۔ اگر واقعی یہ ان کی زندگی کی آخری رات تھی تو پھر اس رات کو بھرپور بنانے کا ان دونوں نے فیصلہ کر ہی لیا تھا۔
امینہ کا دل چاہا کہ اس کے بیٹے کا لن ایسے ہی ہمیشہ اس کی پھدی میں دفن رہے۔ ایک دوسرے کو اتنی شدت سے چوما کہ جیسے نہ جانے کتنے برس کے بچھڑے ہوں۔ دونوں کے طرز عمل میں کوئی جلدی نہیں تھی۔ ایک ٹھہراؤ تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے بدن سے جی بھر کے لطف لے رہے تھے۔
عبدل کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ رہے تھے۔
نہ جانے یہ دوست کی موت کا غم تھا یا پھر اپنی دیرینہ خواہش پوری ہونے کی خوشی یا پھر دونوں۔
امینہ کو نہیں پتہ تھا۔ اس نے تو بس آنسو پونچھ ڈالے اور اسے چوم لیا۔ عبدل تھوڑا سا اٹھ کر بیٹھا اور اپنی ماں کو بانہوں میں پکڑ لیا جو اب بھی اس کے لن پر سوار تھی۔ امینہ اپنے بیٹے کے تگڑے لن کی دل ہی دل میں تعریف کئے بنا نہ رہ سکی۔ اس کی مامتا بھری پھدی میں عبدل کا لن ایسے فٹ ہوا تھا جیسے دونوں ایک دوسرے کیلئے ہی بنے ہوں۔ جیسے یہ بالکل ایک قدرتی عمل ہو اور قدرت کی یہی منشا ہو کہ ماں بیٹے کا ملاپ ہو جائے۔
یہ اس بات کا ثبوت نہیں تو کیا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کیلئے ماں بیٹا سے بڑھ کر تھے۔
کچھ دیر آہستہ آہستہ اپنے بیٹے کے لن پر سواری کرتے کرتے امینہ نے رفتار بڑھا دی۔ وہ ڈسچارج ہونے کے قریب تھی۔
عبدل: امی ۔۔۔ مجھ سے کنٹرول نہیں ہو رہا۔ میں ڈسچارج ہونے والا ہوں
عبدل; نے کہا۔
امینہ: و جاؤ بیٹا۔ ہو جاؤ۔ میرے ساتھ ہو جاؤ۔ میرے اندر ہو جاؤ۔ بس میرے ہی ہو جاؤ۔
امینہ بھی لذت کی بلندیوں پر تھی۔ ماں بیٹا نے ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھام لیا۔ عبدل کا لن امینہ کی پھدی میں پھڑک اٹھا۔ امینہ کو اس کے لن سے گرم گرم منی کا لاوا نکلتا محسوس ہوا لیکن وہ رکی نہیں اور اچھلتی رہی۔ سر پیچھے پھینک کر اس نے مزید رفتار بڑھا دی اور کچھ لمحات میں خود بھی ڈسچارج ہو گئی۔ ڈسچارج ہوتے وقت اس نے انگلیاں عبدل کے جسم میں جیسے گاڑ ہی دی تھیں اور سرور اس قدر زیادہ تھا کہ ہونٹوں سے عبدل کے کندھے پر دانتوں سے کاٹ دیا۔
پھر اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر شدت سے چومنے لگی۔
دونوں ماں بیٹا اکٹھے ڈسچارج ہوئے۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ دونوں خوش بھی تھے اور اداس بھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو قبول کر لیا تھا۔ دونوں اب ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم تھے۔
ایک دوسرے کی زندگی تھے۔
ایک سال بعد۔۔۔
سورج کی کرنیں کھڑکی سے اندر داخل ہو رہی تھیں۔
باہر باغیچہ میں پرندے چہچہا رہے تھے۔
بیڈ پر امینہ اور عبدل الف ننگے موجود تھے۔
عبدل چت لیٹا تھا اور امینہ عبدل کی ٹانگوں کے درمیان اس کا لن پکڑے تھی۔ اس نے لن کے نچلے حصے کو پیار سے چوما اور ٹوپے پر زبان پھیرنے لگی۔ عبدل کے منہ سے آہ نکلی تو وہ مسکرا اٹھی۔
وہ دونوں ترکی میں لبنی کے آبائی گھر میں تھے۔
امینہ کی یادداشت میں ایک سال پہلے کا وہ دن اب بھی تازہ تھا جب پہلی بار وہ اور عبدل جسمانی تعلق میں بندھ گئے تھے۔ اگلے دن لبنی کے مرحوم دوست کا شوہر وہاں پہنچا تھا اور لبنی اور حبیب کی شہادت کی خبر سن کر رنج سے دوہرا ہو گیا تھا۔ اس نے ہی امینہ اور عبدل کو آفر کی تھی کہ وہ چاہیں تو اس کی مدد سے عراق سے فرار ہو سکتے تھے۔ امینہ اور عبدل نے اس کی بات مان کر انہوں نے ترکی کا سفر کیا تھا کیونکہ اب دونوں ہی عباس کے پاس نہیں جانا چاہتے تھے۔
بہتر یہی تھا کہ عباس کو یہی سمجھنے دیا جائے کہ امینہ اور عبدل بھی جنگ میں مارے گئے ہیں۔
ترکی پہنچ کر انہوں نے لبنی کی کزن سے ملاقات کی تھی اور انہیں لبنی اور حبیب کی شہادت کی خبر سنائی تھی۔ لبنی کی کزن اگرچہ افسردہ تھی لیکن اس نے امینہ اور عبدل کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا۔
اب ایک سال گزرنے کے بعد امینہ اور عبدل نے لبنی کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا تھا۔ انہوں نے نہ صرف اس گھر کو آباد کر دیا تھا بلکہ باغیچہ میں لبنی کے من پسند پھول بھی اگائے تھے جن کی مہک سے سارا گھر خوشبو سے لبریز رہتا تھا۔ یقیناً لبنی اپنی ابدی زندگی میں خوش ہوئی ہو گی۔
عبدل: امی جلدی کریں۔ آج لبنی آنٹی کی پسند کا وال پیپر لگانے کیلئے وال پیپر والوں نے آنا ہے۔
عبدل نے امینہ کو سوچوں میں غرق دیکھ کر کہا۔
امینہ: لبنی کی ایک اور خواہش بھی تھی
امینہ نے عبدل کا لن منہ سے نکالتے ہوئے کہا۔
امینہ: وہ اپنے بیٹے حبیب کو اپنے بچے کا باپ بنانا چاہتی تھی۔
عبدل حیرت بھری نگاہوں سے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا جو اب اس کے لن پر سوار ہو رہی تھی۔
امینہ: مجھے اپنے بچے کی ماں بنا دو عبدل...
ختم شد 🥰