بے لباس محبت
آخری قسط
ریما حیرت ذادہ آنکھوں سے دیکھنے لگی۔۔دانیال کی ایک مٹھ کے برابر داڑھی بڑھی ہوئی تھی اس کے چہرے میں اٹریکشن تو ویسے ہی تھی پر اس داڈھی نے اس کے چہرے کو اور حسین کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
سر پر رومال باندھا ہوا تھا اور عربی کی طرح ایک سفید جبہ پہنا ہوا تھا۔ ۔
ریما اب تک پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اس کے مائینڈ میں ہزاروں سوال شکوے آنے لگے کہ وہ اچانک یہاں کیسے؟ ؟؟ وہ بھی اتنے سالوں بعد۔۔۔ ۔۔ لیکن پھر اک خیال آیا وہ سب ختم کر چکی تھی۔۔۔۔
وہ بن سوال کیے گرتے آنسوں کے ساتھ فورا اٹھی اور جانے لگی اسکا دل چاہ رہا تھا کہ دانیال سے سوال کرے گلہ کرے شکوا کرے لیکن وہ اب کسی کی امانت تھی اور اس میں وہ خیانت نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔
ریما جانے لگی اور اتنا بولی " میرے دل میں کوئی خلش نہیں خدارہ دوبارہ سامنے مت آنا میں کسی کے نکاح میں ہوں"۔۔۔
وہ یہ کہہ کر چلنے لگی۔۔۔
"جانتا ہوں" اک آواز نے پھر ریما کے بڑھتے قدموں کو رکنے پر مجبور کردیا
وہ بن مڑے ٹھہر گئی ۔۔۔۔۔
دانیال نے اک پل خاموشی اختیار کی اور پھر بولا " میں ہی ابوبکر ہوں"
ریما اک دم حیرت سے مڑی اور دانیال کا منہ دیکھنے لگی جو اس وقت خانہ کعبہ کی طرف نظر جمائے ٹہرا تھا۔۔ ابوبکر؟؟؟؟ریما نے آہستہ آواز میں کہا ۔۔۔ابوبکر نے ریما کے نورانی چہرے کی طرف دیکھا اور اپنی بچھی جائے نماز پر بیٹھ گیا پھر ریما کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خانہ کعبہ کو اک نظر دیکھا اور اک آہ بھری پھر ریما کے حیرت زادہ چہرے کو دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔۔ ۔ ۔۔
"تم جانتی ہو اس دن تمہاری زندگی برباد کرنے کے بعد میرے ساتھ کیا ہوا تھا؟ ؟؟؟ ؟
پھر اپنی زندگی سنانے لگا۔۔۔۔
ابوبکر سوشل میڈیا پر یا انجان لڑکیوں کے لیے فیک نام دانیال استعمال کرتا تھا ۔ہسپتال سے گھر آنے کے بعد اسے انداز ہو گیا کہ اب اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔۔
جس عضو خاص پر اُسے غرور تھا وہ پاس تو تھا ۔۔لیکن اس کے نفس میں کوئی طاقت نہ تھی۔ اس کے جسم میں اتنی بھی طاقت نہ تھی کہ وہ اپنے پیشاب کو بھی کچھ پل روک سکے۔
اسے بس اک احساس ہوتا کہ کچھ آرہا ہے اور وہ واش روم چلا جاتا ورنہ کپڑوں میں ہی نکل جاتا۔ ۔ وہ جانتا تھا ناجانے کتنی لڑکیوں کی زندگی خراب کر چکا ہے خاص کر ریما کی۔۔ اُسے رہ رہ کر ریما کی بد دعا یاد آتی تھی کہ تم سے اب اللہ حساب لے گا۔۔۔
➖➖➖➖
اس واقعہ کے بعد ابوبکر نے اپنے سارے سوشل اکاؤنٹس ختم کردے۔۔
آہستہ آہستہ دوستوں سے بھی دور ہوتا گیا۔ ۔
ایکسیڈینٹ میں ویسے ہی اسکے دونوں موبائل جل گئے تھے ۔۔۔
اسکے بعد اس نے دوبارہ موبائل نہ لیا۔
بس گھر میں الگ رہنے لگا۔دوست لڑکیاں سب ختم کردیے اسے خود نفرت سی ہونے لگی اور نفرت اور شرمندگی بھی اتنا کہ وہ خود کو آئنے میں نہ دیکھتا، اگر دیکھتا تو رونے لگ جاتا۔
ابوبکر کے ابو نے ابوبکر کے علاج کے لیے پاک کے ساتھ ساتھ باہر ہر جگہ اس کے ٹیسٹ روپورٹس بھیجوائے، جس نے جو علاج کہا کروایا۔کسی نے دعاؤں کا کہا سب کچھ کروایا لاکھوں پیسہ پانی کی طرح بہہ دیا اور کیسے نہ بہاتے وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا لیکن علاج لاعلاج تھا۔۔۔
وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ محلے والے اور رشتہ دار بھی اسے کھسرا تک کہنے لگے اور مزاق اڑانے لگے اک دن تو حد ہوگئی۔کچھ ٹرانس جینڈر اس کے گھر آگئے اور ابوبکر کے والدین سے مطالبہ کرنے لگے کہ اس کو اس کے ساتھ بھیج دیں لیکن اس کے ابو نے غصہ کے ساتھ سب کو نکال دیا۔۔۔۔۔
----
ابوبکر اس بات کو برداشت نہ کر سکا وہ اندر گیا اور فرنیل کی گولیں کھا لیں۔۔۔ کچھ دیر بعد جب ابوبکر کی امی اندر گئی تو ابوبکر کے منہ سے جھاگ نکلتی دیکھی اور اس کی تڑپ حالت دیکھی تو چلا اٹھی
ابوبکر کے ابو نے گاڑی نکالی اور فورا ہسپتال لے گئے۔۔۔۔۔
وقت پر ہسپتال پہنچنے کی وجہ سے ابوبکر کی جان بچ گئی۔ ۔۔
جیسے ابوبکر کو ہوش آیا ابوبکر کی مما نے ابوبکر کے پاوں پر ہاتھ رکھ دیئے اور اسے چومنے لگی۔۔۔۔ اور روتے ہوئے بولی کہ "بیٹا ہم سے کوئی غلطی ہوئی جو تو ایسا کر کے ہمیں سزا دے رہا ہے؟ ؟ اگر تجھے کچھ ہوجاتا تو ہم زندہ رہتے؟ "
۔۔۔ابوبکر کے والد نے ابوبکر کو پیار کیا اور بولے " غلطیں انسان سے ہوتی ہیں تکلیفیں انسان کا مقدر ہیں ان سے مقابلہ کیا جاتا ہے ایسے بذدل نہیں بنتے دنیا والے کچھ بھی کہیں تو آج بھی ہمارا سہارا ہے"۔۔۔
ابوبکر کو احساس ہوا کہ اس نے یہ غلط کیا۔۔
وہ صرف اپنے لیے ہی کیوں سوچتا ہے؟ ؟؟
پھر اس نے ارادہ کیا کہ آئندہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔ ۔ بلکہ اب وہ اپنی زندگی کو اللہ کے راستے پر ڈھال دے گا ۔۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ اب اس نے پنجگانہ نماز پڑھنا شروع کردی اور خود کو مصروف رکھنے کے لیے حفظ کرنا شروع کردیا ۔۔۔ ابوبکر سارہ دن مسجد میں وقت گزارتا ۔۔۔ نا کسی سے ملتا نہ بات کرتا اب اس کا ایک ٹارگٹ تھا حافظ قرآن بننا۔ ۔۔ابوبکر کی آواز ویسے ہی ماشاءاللہ پیاری تھی تو اس کے استاد اسے قرآت کے ساتھ قرآن پڑھواتے۔۔۔ جیسے جیسے وہ قرآن کو حفظ کرنے لگا اس کا شوق اور بڑھنے لگا اور دو سال میں اس نے قرآن کو حفظ کر لیا۔۔۔
حافظ قرآن بننے کے بعد ابوبکر کے استاد نے اسے عالم بننے کا مشورا دیا. کیونکہ اس عمر میں بہت کم لوگ اتنا جلدی حفظ کرتے ہیں اورخود اب ابوبکر کا مقصد سیدھے راہ پر چلنا تھا اور اس کے لیے علم کا اور ہونا ضروری تھا۔۔ اور ویسے بھی اس کے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا تو وہ جلد ہی عالم بننے کی کلاس لینے لگا اور خود بھی فارغ ٹائم قرآن پاک کے ترجمے کا مطالعہ کرنے لگا۔ ۔۔۔
وہ ان دو سے تین سالوں میں ریما کو نہ بھول سکا اکثر خواب میں اور خیال میں ریما کی بات یاد آتی اس نے ایک بار ریما کو کال کر کے معافی مانگنا چاہی ۔۔
لیکن اس کے پاس ریما کا نمبر نہ تھا وہ صرف اللہ سے دعا کرتا کہ ایک دوپہر بار اسے اس قابل بنا دے کہ وہ ریما سے معافی مانگ سکے ۔۔۔۔
وقت گزرتا گیا اور وہ عالم بنتا گیا اس کی زندگی کے چار سال اور بیت گئے اس کی عمر 33 سال ہو گئی تھی اور اب وہ عالم بننے کے آخری مراحل میں تھا ساتھ ساتھ وہ مسجدوں میں بیان اور خطبہ بھی دینے لگا۔ ۔۔
اس کے علاوہ وہ اپنے ابو کے بزنس کو بھی وقت دینے لگا۔۔۔ یہ مکمل طور پر بدل گیا تھا اس کا اندازه گفتگو بالکل نرم اور بااخلاق سا تھا۔ ۔ ابوبکر ہر کسی کی مدد کرنے میں پہل کرتا۔۔۔ اسے اب اس دنیا سے کوئی غرض نہ تھی کا وقت تھا وہ معمول کی طرح پیدل مسجد سے بیان کرکے واپس آ رہا تھا اس کا گلا اچانک خشک ہونے لگا اور شدید پیاس لگنے لگی۔۔۔ اسے پتہ تھا کہ اگلے موڑ میں کچھ فاصلے پر اک دکان ہے۔ ۔ وہ آگے بڑھنے لگا کہ اچانک اسے پیچھے سے کسی نے صدا دی اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک فقیر تھا۔ ۔ کالا لباس سبز آنکھیں سفید چھوٹی سی سی داڑھی تھی۔ ۔
لباس کافی گندا تھا ہاتھ میں اک پیالہ تھا جس میں صاف شفاف پانی تھا۔ ۔۔ ابوبکر فقیر کی صدا سن کر مڑا اور اس کے قریب گیا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نکالنے لگا۔ ۔ فقیر نے دیکھا اور بنسا اور بولا "نا پتر نا ۔۔۔۔۔
میں لینے نہیں آیا تجھے دینے آیا ہوں۔۔۔۔۔۔ لے گا؟ ؟؟؟ " یہ کہہ کر اس نے پیالے کی طرف آنکھوں کا اشارہ کیا اور پھر ہنستے ہوئے بولا ۔۔ "
بہت پیاس لگی ہے نہ تجھے ؟؟؟ لے یہ پی ۔۔۔۔
یہ کہہ کر اس نے پیالہ بڑھا دیا ۔۔
ابوبکر نے جیسے پیالہ پکڑا اور پانی پینے کا ارادہ کرنے لگا ہی تھا کہ فقیر نے منہ بھر کر اند تھوک دیا۔ ۔۔۔۔۔
اور ابوبکر کی طرف دیکھا اور سنجیدہ ہو کر بولا اب پی اپنے گناہوں کو۔۔۔۔۔
ابوبکر اسکی گول آنکھوں میں دیکھ رہا تھا فقیر کی بات سن کر اس کا جسم ٹھنڈا سا پڑنے لگا ابوبکر نے پیالہ تو تھام لیا تھا لیکن اسے اب بلکل پیاس نہ تھی اس کی زندگی میں ہزاروں فقراء آئے لیکن سب نے کچھ مانگا تھا کوئی دینے نہ آیا تھا۔ ۔۔
ابوبکر کی آنکھیں نم ہونے لگی وہ سمجھ گیا کہ وہ اس تھوک کو دیکھ کر اپنے غلیظ کاموں اور پیاس کو یاد کرنے لگا اور آسمان کی طرف دیکھنے لگا اور گرتے آنسو کے ساتھ دل میں کہنے لگا "اے اللہ بس تو مجھ سے راضی ہوجا"
اور بیٹھ کر پانی کا پیالہ پینے لگا۔۔۔۔
ابوبکر نے پیالہ خالی کر دیا وہ زاروقطار رونے لگا اسے ایسے لگا جیسے آج اس نے اپنے گند کو چاٹا ہو اور اب اس کا من صاف ہوا ہو۔ فقیر نے اک نظر آسمان کی طرف دیکھا اور قہقہ لگاتے ہوئے بولا "واہ رے مالک اُدھر وہ کامیاب ادھر یہ کامیاب۔۔۔ "
پھر ابوبکر کے پاس بیٹھا اور اس کے سر پر ہاتھ پھرا اور بولا "پتر "میں" کو مارنا بڑا|||||||| اوکھا ہے۔۔۔۔۔۔ تو اس امتحان میں پاس ہے"
ابوبکر روتے ہوئے فقیر کے گلے لگ گیا اور بولا بابا میں بہت برا ہوں میری میل ختم ہی نہیں ہوتی۔۔۔ فقیر نے اک آہ بھری اور بولا "پتر۔۔۔۔ امتحان تے ابھی اور بھی باقی ھے۔"
وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پھر بولا اچھا کیا چاہتا ہے تو؟؟؟ ؟؟؟
ابوبکر نے چہرے کو صاف کیا اور اک لمبا سانس لیا۔۔۔ پھر اک مسکرا کر بولا " بابا۔۔۔۔ رب کو منانا ہے؟ ؟؟۔۔۔۔۔
فقیر نے فوراً جواب دیا "تو اس کے بندے کو منا ۔۔۔۔۔ پھر کہا "راستہ تیرے پاس ہے۔۔۔بسسسس پہچاننا تجھے باقی ہے"
یہ کہہ کر فقیر اٹھا اور ساتھ ابوبکر کا بھی اٹھایا اور اس کا ہاتھ پکڑے اس کے چہرے پر پھونک ماری اور بولا جا تیرا روگ دور کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جا۔۔۔۔۔ جا اب۔۔۔۔۔۔چلا جا۔۔۔۔بابا دوسری طرف چل دیا اور ابوبکر دوسری طرف۔۔۔
کچھ قدم آگے جا کر ابوبکر نے پیچھے دیکھا وہاں کوئی نہ تھا۔ ۔
وہ حیران ہوا، پیچھے کی طرف آیا۔۔۔
بھاگا ادھر اُدھر دیکھا لیکن دور دور تک وہاں کوئی نہ تھا۔۔۔۔۔
گھر پہنچتے ہی ابوبکر کو تیز بخار کے ساتھ ناف والی جگہ پر تیز شدید درد ہونے لگا اتنا شدید کے وہ بے ہوش ہونے لگا ۔ ابوبکر کے ابو اسے فورا ڈاکٹر کے پاس لے گئے ڈاکٹر نے ٹیسٹ کر کے یورولوجسٹ سے کنسرن کیا ڈاکٹر نے آرجینٹ اپریٹ کی پرمیشن مانگی جس کی اجازت اس کے ابو نے دے دی۔۔۔۔۔
جب آپریٹ ہوگیا تو ڈاکٹر سب حیران تھے کہ جو پہلے ایکسڈینٹ میں وینز ختم ہو چکی تھیں ان میں دوبارہ سرکولیشن سٹارٹ ہو چکی تھی ۔۔ یہ اک کرشمہ تھا۔۔۔۔۔۔۔
اُنہوں نے ابوبکر اور اس کے والدین کو مبارک باد دی۔ ۔۔
ابوبکر جانتا تھا کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے اس نے مجھے اک اور موقع دیا۔۔۔ وہ بستر پر لیٹے ہوئے آنکھیں بند کیے اللہ کے سامنے سربہ سجود ہوگیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ ۔
وہ جانتا تھا کہ وہ اس قابل اب بھی نہ تھا
ٹھیک ہونے کے بعد اس نے ریما کو تلاش کرنے کا ارادہ کرلیا اس نے سوچ لیا کہ وہ ریما سے معافی مانگے گا اور بتائے گا کہ وہ اب بدل گیا ہے اور یہ سب صرف اس کی وجہ سے اپنا عالم کا کورس دو ماہ میں مکمل کیا اور لاہور کی طرف چل دیا۔۔۔
آج پھر وہ اپنی گاڑی پر تھا لیکن اب ارادہ خود کی غلطی کو سدھارنا تھا۔ ۔۔
وہاں پہنچ کر وہ اس جگہ پہنچا جہاں اس نے آخری بار ریما کو اک گھر میں جاتے دیکھا تھا۔ ۔۔
اتنے سالوں کے بعد یہ جگہ کافی بدل گئی تھی۔ ۔ اسے اب کنفرم یاد نہ تھا۔ ابوبکر نے اک دو دکانوں سے اس کے ابو کا پوچھا تو پتہ چلا وہ لوگ یہاں سے چلے گئے ہیں ۔۔۔
اور کہاں گئے یہ نہیں پتہ۔ ۔
ابوبکر نے اک مسجد میں نماز ادا کی اور دعا کے بعد سوچنے لگا کہ اچانک اسے فیکٹری کا نام یاد آیا جس میں اس کے ابو جاب کرتے تھے۔ ۔
لیکن وہ جانتا تھا کہ فیکٹری میں ایسے داخل نہیں ہو سکتا نہ ہی وہ ایسے ریما کے ابو کو بولا سکتاہے۔۔۔۔
پھر کچھ دیر سوچتا رہا پھر گاڑی فیکٹری کی طرف دوڑا دی۔۔۔
وہاں باہر ٹھہرے گارڑ سے کسی جاب کا پوچھا۔۔
اور ایک کاغذ پر امام مسجد یا خدمت کی درخواست لکھ کر اندد بیٹھے سپروائز کو دے دی ۔۔ اور واپس گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔۔
کچھ دن بعد سپر وائزر نے کال کہ اور پیش امام اور مسجد کی دیکھ بال کی جاب ہوجانے کی مبارک باد دی ۔۔۔
تنخواہ کا ابوبکر نے نہ پوچھا نہ اسے ضرورت تھی لیکن اسے خوشی فیکٹری میں جانے کی تھی۔۔۔
بس اس کے دل میں اتنا دعا تھی کہ ریما کے ابو مل سکیں۔۔
وہ اگلے ہی دن فیکٹری کی مسجد پہنچ گیا۔ ۔۔ پچھلے امام کے جانے کے بعد تقریباً ایک ماہ سے صفائی نہ کی گئی تھی جماعتی بس آتے ان میں کوئی بھی جماعت کرادیتا تھا۔۔۔۔
ابوبکر نے آ کر مسجد میں اک رونق لگا دی وہ عشاء کے بعد مختصرا بیان کرنے لگا۔۔ وہ فارغ وقت میں فیکٹری کے ملازمین سے ملتا ان کو نماز کی تلقین کرتا۔۔۔۔ جہاں مسجد میں دہ چار لوگ آتے وہاں اب تعداد بڑھتی گئی۔۔۔
ریما کے ابو ویسے تو اکثر مسجد کے قریب رہتے ہر روز نماز پڑھتے تھے اور ابوبکر سے مصافحہ بھی کرتے لیکن کبھی گفتگو نہ ہوئی۔ اک بار ابوبکر مسجد میں بیٹھا قرات کے ساتھ تلاوت کر رہا تھا ریما کے ابو کا گزر ہوا ابوبکر کی قرات نے اُنہیں مسجد کی طرف رجو کر دیا۔ ۔۔ وہ وہاں جا کر بیٹھ گئے۔۔۔
رکوع کے بعد ابوبکر نے اک مسکراہٹ سے سلام کیا اور گفتگو شروع کی۔۔۔
ریما کے ابو کو ابوبکر سے بات کرتے اچھا لگا اور باتوں ہی باتوں میں دل کا حال دینے لگے ۔۔ لیکن باتیں سننے بعد ابوبکر کو اندازہ ہونے لگا کہ یہ ریما کے ابو ہیں اور ریما کی بات کر رہے ہیں۔۔۔۔
لیکن ابوبکر نے ریما کی شادی کا نہ پوچھا اس کی آنکھوں آنسو بہنے لگے۔۔۔۔
اور وہ دونوں ہاتھوں سے ریما کے ابو کے پاؤں پکڑ کر زاروقطار رونے لگا ۔۔۔ ریما کے ابو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ۔۔۔
ابوبکر کہنے لگا کہ "وہ بد نصیب میں سے ہوں جس کی وجہ سے اس کی زندگی خراب ہوئی"۔۔۔
اور پھر ابوبکر نے ساری داستان سنائی ۔۔
ریما کے ابو دانیال نام سن چکے تھے جب ابوبکر نے بتایا کہ وہ دانیال بن کر اس کی زندگی میں آیا تھا تو اُن کو یقین ہوا۔۔۔۔
لیکن داستان سننے کے بعد وہ خاموش ہوگئے کیونکہ وہ سمجھ گئے کہ اسے سبق مل چکا ہے اور اب وہ نیک راستے پر ہے۔۔۔
اور جب ابوبکر نے سنا کہ ریما کی شادی ابھی تک نہیں ہوئی تو اسے فقیر کی بات یاد آئی یہ بھی اس کے لیے کرشمہ تھا وہ شکر ادا کرنے لگا اور شادی کی درخواست کی لیکن ریما کی مرضی جان کر ۔
خط کے بعد ابوبکر نے ارادہ کر لیا کہ اب وہ نکاح کے بعد ہی اس کے سامنے جائے گا۔۔۔
لیکن جب ریما نے موبائل پر دانیال کے بارے میں بات کی تب وہ سمجھ گیا کہ اس کے دل میں کوئی خلش نہیں اب وہ سرپرائز دینا چاہتا تھا جس میں ریما کے مما بابا دونوں جانتے تھے۔ اور ارادہ کیا کہ عمرہ کے بعد وہ وہیں سے ریما کے ساتھ زندگی کا سفر شروع کرے گا۔۔۔
🔥
ابوبکر نے ہی سب کے عمرہ اور ہوٹل روم کا بندوبست کیا تھا اس کا اپنا کمرہ بھی اسی ہی ہوٹل میں بک تھا جہاں ان کا بک کیا تھا اور وہ خود ایک دن پہلے آیا تھا ۔۔
ریما کو اب تک یقین نہ آرہا تھا۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ اس چہرے کو ایسا بدلہ ہوا دیکھ کر مطمئین تھی۔۔
اب اس کے دل میں سکون سا تھا ۔
جیسے آج اسے اپنی منزل ملی ہو۔ ۔۔
وہ ابوبکر کی آنکھوں کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرنے لگی۔ ۔
جیسے ہی ریما کے ہاتھ ابوبکر کے چہرے سے لگا دونوں کو اک حقیقی محبت کا احساس ہوا۔۔۔
ابوبکر نے ریما کے دونوں ہاتھوں کو تھما اور روتی آواز میں کہا " میں خود کو کبھی معاف نہ کرپاتا اگر تم مجھے نہ ملتی"۔۔۔
ریما کو اک اطمینان سا تھا وہ اللہ کا شکر ادا کرنے لگی۔۔۔۔
ابوبکر نے ریما کا ہاتھ تھما اور طواف کرنے کے لیے نیچے لے آیا اور دونوں طواف کرنے لگے۔ پھر دونوں نے شکرانے کے نفل ادا کیے اور اس جگہ چل دیے جہاں ریما کے والدین تھے۔۔۔۔
عشاء کے بعد ابوبکر نے ریما اپنے ساتھ جانے کی اجازت چاہی جیسے اس کے مما بابا نے انکار نہ کیا۔ ۔ ابوبکر نے اپنا کمرہ نفیس سا ڈیکوریٹ کر رکھا تھا۔ ۔ ریما کے پاس دلہن کا ڈرس تو نہ تھا لیکن اس کے چہرے پر جو سکون تھا وہ اس کی خوبصورتی کو نکھار رہا تھا ۔۔۔
ریما ابوبکر کے ساتھ روم میں آ رہی تھی ۔۔۔
وہ اپنی اس منزل پر بہت خوش تھی کہ اللہ نے اسی انسان کو بدل کر اس کا نصیب بنایا جس کی وہ تمنا بھی نہ کر سکتی تھی۔
وہ جان گئی کہ "بے شک وہ بہترین دینے والا ہے" وہ الحمدللہ کہتے ہوئے قدم اٹھا رہی تھی اور ابوبکر کے ساتھ اپنی ازواجی زندگی کی شروعات کے لیے تیار تھی۔
ختم شد