Be libaas Muhabbat - Episode 9

بے لباس محبت

قسط نمبر 9


ریما اسد کی بات سن کر ہنسنے لگی...


تم ؟؟؟


تم مجھے معاف کرو گے؟؟؟؟


میرے ماضی کو نظرانداز کرو گے... 


تم ؟؟؟


واہ کیا بات ہے!... 


اسد مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں ہے..


اور رہی بات گناہ کی تو وہ میں خود گناہ گار ہوں... 


میری نظر میں کوئی برا نہیں یے ہر کسی نے اپنا حساب دینا ہے... 


تم آزاد تھے .....


آزاد ہو...


میرے پاس تمہیں دینے کیلئے کچھ نہیں ہے... 


اور رہی بات خوشی کی تو وہ اسکے راستے پر منحصر ہے.. 


اور میں جس راستے پر ہوں خوش ہوں ...


اور آخری بات جو حق کے راستے پر چلتے ہوں انہیں حق والےہی سمجھتے ہیں.... 


اسد گہری سوچ میں ریما کی بات سن کر پچھلا وقت یاد کرنے لگا...


ریما اب بدل گئ تھی.ابو وہ انمول ہیرابن چکی تھی.. 


اور تراشی جا چکی تھی... 


اب اسکا کوئ مول نہیں ...


ریما اسد کے جاتے نوافل پڑھنے لگی کہ اسکا ہر راستہ حق کا راستہ ہو... 


ریما کی والدہ کو اسکی شادی کی فکر ہونے لگی. 


ریما کے والد کہتے نیک بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتی... 


ادھر عمیر کو عمر قید کی سزا ہو چکی تھی.. 


نور کی طبیعت بے چین رہتی... 


اسے ڈرگز کی عادت ہو گئی تھی... 


جسکے نہ ملنے کیوجہ سے وہ جسم فروشی کے اڈے پر جا بیٹھی تھی... 


وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں نے اسے منہ لگانا چھوڑ دیا.. 


اب وہ بھیک مانگنے پر آ گئی...


شعبان کا مہینہ چل رہا تھا .


 ایک دن ریما کے والد نے ریما مما کو کہا کہ انھوں نے فیکٹری کے موجودہ امام صاحب جو کہ عالم دین ہیں, ابو بکر صاحب کو گھر پر کھانے کی دعوت دی ہے.


اگلے دن ریما نےمشروب کے ساتھ کھانے بھی بناۓ.. ریما کے والد اور امام صاحب 


دونوں نے کمرے میں بیٹھ کر کھانا کھایا اور گھریلو امور پر باتیں کیں... اور عشاء کی نماز کے لیے چلے گئے. 


اس دوران ریما کی مما اور ریما دونوں اپنے کمرے میں رہی....


اسنےنہ امام مسجد کو دیکھا نہ سنا...


ابو بکر صاحب کچھ دن پہلے ہی فیکٹری میں امام مکرر ہوے تھے.. انکا اخلاق بہت اچھا اور ملنسار تھا. جو لوگوں کو ملنے پر مجبور کر دیتا تھا..انکی عمر 33 سال تھی اور انکی شادی نہیں ہوئی تھی.. 


ریما کے والد نےریما کی مما سے ابو بکر صاحب کی فیملی کے بارے میں بات کی.. 


اور بتایا کہ ابو بکر صاحب کے والد انکے رشتے کے سلسلےمیں گھر آنا چاہتے ہیں.. 


جسکے لئے ریما کی مما نےہامی بھری اور ریما کو اپنے کمرے میں بلایا...


اور کہا بیٹی یہ مت سمجھو کہ تم ہم پے بوجھ ہو.. 


لیکن اگر تم اجازت دو تو ایک رشتے کی بات کروں ؟؟؟؟


ریما نے کہا بابا کیسی باتیں کر ہیں.؟؟؟


آپ میرے بڑے ہیں.. آپ کہیے جو کہنا چاہتے ہیں.. 


ریما کے والد کچھ سوچ میں کے بولے 


"بیٹی جو امام صاحب اس دن گھر آئے تھے وہ تم سے شادی کرنا چاہتے ہیں.. 


تم پر کوئی زبردستی نہیں لیکن میں تمہارا فرض ادا کرنا چاہتا ہوں.. 


اور یہ رشتہ تمہارے لیے مجھے معقول لگا ہے.. 


لوگ انکی بہت عزت کرتے ہیں مجھے امید ہے کہ وہ تمہیں خوش رکھیں گے..  


ریما نے سر جھکاۓ کہا آپ میرے بابا ہیں آپ میرے لیے غلط سوچ سکتے.. 


اپکا فیصلہ مجھے منظور یے.. 


کہ کر وہ اپنےکمرے میں چلی گئی.. 


اسکا جواب سن کر انہیں اطمینان ہوا... 


شادی کی بات سن کر ریما گھبرانے لگی وہ نا محرم لوگوں کے سامنے آ آ کےتھک چکی تھی.. 


اسے لگا کہ پھر سے کوئی آزمائش ہے , وہ ہاتھ جوڑے دعا کرنے لگی.. 


اس رات اسنے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک منڈی میں ہے جہاں بہت سے لوگ اسے نوچ رہے ہیں... 


اور اسے بے لباس کر رہے ہیں.. 


اچانک سے دانیال اسے سب سے بچا لے جاتا ہے... 


ریما کی اچانک سے آنکھ کھل گئی اور وہ پسینے سے شرابور تھی. 


اسکا جسم کانپ رہا تھا.. 


اسنے ٹائم دیکھا تو تہجد کا تھا.. 


اور وہ معمول کی مطابق تہجد پڑھنے لگی...


تہجدکے بعد اسکے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے خواب یاد آتے ہی اسکو دانیال کی یاد آنے لگی... 


اسکی آنکھیں اشک بار تھیں..."اے میرے رب میں تیری رضا میں راضی ہوں مجھے ویسا بنا دے جیسے تجھے پسند ہوں, میرے دل سے دانیال اور اس دنیا کی محبت نکال دے , بس ویسا بنا دے جیسے تجھے پسند ہوں"


اچانک سے دانیال کے بار بار خیال آنے پر اسنے سوچا کہ وہ ابو بکر صاحب کو اپنے ماضی کے بارے میں ضرور بتائے گی... 


اگلے دن ریما نے اپنے ابو کو ایک خط ابو بکر صاحب کو دینے کا کہا جس میں اسکے ماضی کے بارے میں سب لکھا تھا.. 


اور کہا کہ جو انکا جواب ہو وہ آخری سمجھ لیجیے گا.  


ریما نے وہ خط ایک اور لفافے میں ڈال کر اسے گوند سے چپکا دیا تاکہ اسکے بابا نہ پڑھ سکیں.. 


ظہر کی نماز کے بعد ریما کے والد نے وہ خط ابو بکر صاحب کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ میری بیٹی کا خط ہے وہ آپ کو اپنے ماضی کے بارے میں بتانا چاہتی ہے. 


ابو بکر نے وہ خط مٹھی میں لے کر آسمان کی طرف دیکھا اور کھول کر پڑھنے لگا.. 


رات کو عشاء کی نماز کے بعد ابو بکر نے ریما کے والد کو چند باتیں کی اور جواب لکھ کر دے دیا.. 


" آپ نے تو اتنی آسانی سے سب لکھ کے دے دیا. میں خود ایک گناہ گار انسان ہوں.. 


ناہی خوب صورت اور سلیقہ مند ہوں, بس کوشش کروں گا کہ آپ کو خوش رکھ سکوں. 


بس میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے شادی کے بعد دیکھیں, کہیں مجھے دیکھ کر انکار نا کر دیں. 


اسلیے اسے میری التجا سمجھیں... 


ابو بکر نے ریما کے والد کو کہا کہ دو دن بعد میرے گھر والے نکاح تاریخ کے سلسلےمیں آئیں گے, انکا ارادہ ہو تو ہاں کر دیجیے گا... 


ریما کا جواب پڑھ تھوڑا عجیب لگا , لیکن وہ اس التجا پر راضی تھی وہ خود بھی نہیں چاہتی تھی کہ نکاح سے پہلے اسے کوئی نا محرم دیکھے... 


ریما کی فیملی دیکھنے میں ڈیسنٹ تھی..


ابوبکر کی والدہ نے اسے ابو بکر کے بارے میں بتانا شروع کیا.. 


"میرا بیٹا عالم یے وہ چاہتا ہے کہ نکاح کے بعد ہی تم دونوں ایک دوسرے کو دیکھو۔۔۔۔۔۔۔


وہ تھوڑی دیر رکیں اور پھر بولیں " میرا بیٹا جیسا بھی ہے لیکن تمہیں خوش رکھے گا "


پھر انہوں نے ریما کی مرضی جانی... 


ریما خود ہی چاہتی تھی کہ نکاح پردے میں ہو.. 


اسنے اللہ کا نام لے کر حامی بھر لی... 


اور 18رمضان کو نکاح کی تاریخ مقرر ہوئی کیونکہ اس کے بعد ریما نے اعتکاف میں بیٹھنا تھا... 


ابو بکر کی والدہ نے اسکا منہ میٹھا کروایا اور کہا رخصتی بھی جلد ہوگی بغیر کسی رسم کے. جیسے ابو بکر کو بہتر لگے گا.. 


اگلے دن فوزیہ نے ریما کو کال کر کے اسد کے بارے میں سوچنے کا کہا اور احساس دلانا چاہتی تھی ک وہ اب بدل گیا ہے... 


اور مزید کہا کہ وہ تمہیں تمہارا ماضی بھلا کر قبول کرنا چاہتا ہے جو کہ کوئی اور مرد نہیں کر سکتا... تمہاری زندگی کا فیصلہ ہے. سوچ کر تو دیکھو. 


لیکن ریما کے لیےاسد کی کوئی اہمیت نہ تھی... اسنے صاف انکار کردیا... 


اور کہا کہ آئندہ اس موضوع پر بات نہ کرے... 


ریما کے دل و دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ کوئی بھی اسکے ماضی کو بھلا نہیں سکتا... 


عشاء کی نماز کے بعد ریما سوچنے لگی کہ فل وقت تو ابو بکر نے خط پڑھ کر کچھ نہیں کہا لیکن کیا وہ شادی کے بعد اسکے جسم کی خیانت قبول کرے گا ؟؟؟؟


اگلے دن ریما کے والد نے خوش خبری سنائی کہ وہ ریما کی والدہ اور اسکے ساتھ عمرہ کے لیے جارہے ہیں عید کے بعد... 


ریما کی مما نے جب پیسوں کا پوچھا تو انہوں نے ریٹائرمنٹ سے ملنے والے پیسوں کا بتایا... 


ریما یہ بات سن کر بہت خوش ہوئی...


لیکن اسنے بابا سے کہا کہ وہ ابو بکر سے اسکے جانے کی اجازت لیں...


اور خود بھی ارادہ کیا کہ وہ نکاح کے بعد ابو بکر سے اجازت ضرور لے گی.. 


آخر رمضان کی 18 تاریخ آ گئی.. 


ابو بکر اپنے ایک انکل اور والدین کے ساتھ آ یا.


ریما اپنے کمرے میں سادہ سے لباس میں اپنی والدہ اور اپنی ایک باجی عالمہ کے ساتھ موجود تھی.. 


نکاح خواں نے پردے میں اسکا نکاح پڑھانے کی اجازت مانگی...


ریما نے اجازت دی..


ریما نے حق مہر کے علاوہ باقی شرائط سے منع کر دیا...


نکاح خواں نے ریما کو ابو بکر سے بطور نکاح تین بار قبول کرایا...


ریما کے دستخط کے بعد گواہان کے دستخط کئے گئے.. 


پھر خطبہ دیا.. ابو بکر کے مطابق نکاح پردے میں ہوا... 


ابو بکر ریما کے والد سے ملکر مسجد کی طرف چل دیے... 


کچھ دیر بعد ریما کی فیملی نے بھی اجازت چاہی... 


اور ریما سے ملنے اسکے کمرے میں آ گئی اور ملنے کے بعد کہا کہ ابو بکر جلد لینے آ ۓ گا.. 


ریما کو لگا کہ نکاح سے بعد ابو بکر اسے ملنے کمرے میں آ ئے گا لیکن اسکے جانے کا سن کے اسے حیرت ہوئی.. 


ریما نے اعتکاف میں بیٹھنے سے پہلے ابو بکر سے بات کرنے کا سوچا اور عمرے کی بات کرنے کے لیے اسے میسج کیا ابو بکر نے کوئی جواب نہ دیا 


ریما کو لگا ک اسکے دل میں کوئی بات ہے.... 


اسنے کہا اگر اپکے دل میں کوئی بات ہے تو بیشک نکاح ختم کر دیں.. میں نے اپکو عمرے کا بتانے کے لیے مسیج کیا اور میں اعتکاف بیٹھنے کا بتا رہی تھی... 


ابو بکر کا رپلائی آیا.. 


نہیں میں موبائل کم استعمال کرتا ہوں.. اور میں منزل پڑھ رہا تھا.. 


مسج نہیں دیکھا..۔۔۔۔۔۔


ریما نے عمرے کے لیے اجازت لی.. 


اور اسکا ہاں میں جواب پا ک خوش ہوئی.. 


لیکن اس نے کہا کہ آ پ بھی ساتھ چلیں.. 


ابو بکر نے کہا آپ مجھے ساتھ محسوس کر لیجے گا...


ریما نے فون رکھا اور اعتکاف کی تیاری کرنے لگی... 


عید کی نماز کے بعد ابو بکر ریما کے ک ساتھ کافی دیر مسجد میں موجود رہے...


پھر ریما کی والدہ کو کال کی لیکن ریما سے بات کیے بغیر کال بند کر دی اور کہا کہ اسے مبارک باد دے دیں.. 


ریما کو بہت زیادہ برا لگا کہ وہ اب نکاح میں ہے لیکن پھر بھی مبارکباد نئ دی.. 


ریما نے مسج کیا کہ اگر مصروف نئ تو کال پر بات ہو سکتی ؟؟؟


کوئ جواب نہ دینے پر ریما نے کال کی تو نمبر مصروف کر دیا اور دوبارا کال کرنے پر ابو بکر نےاٹینڈ کی اور آہستہ آواز میں سلام کیا 


ریما!! اسلام و علیکم!! 


کیسے ہیں ؟؟؟


ابو بکر!! وعلیکم اسلام


ریما!! عید مبارک.. 


ابو بکر! خیر مبارک... جی ؟؟


ریما! اگر تھوڑی دیر بات ہو سکتی ہو تو..... 


ابو بکر! نہی... ابو بکر ٹوٹی ہوئی آ واز میں بولا... 


ریما نے گھبراتے ہوئے کہا وہ عمرے کی اجازت چاہیے تھی.. 


بلکہ میں چاہتی ہوں ساتھ چلیں آ پ.... 


ریما ایک سانس میں بول رہی تھی کی کہیں کال نہ بند ہو جائے اور وہ ہو بھی گئی.. 


اور مسج آ یا.... کیا آ پ دانیال سےمحبت کرتی ہیں ؟؟


ریما!! میرا دل صرف اللہ کی ذات کے لئے ہے 


کیا آپ نے اسے معاف کر دیا ؟؟


ریما... میرے دل میں کوئی خلش نہیں, معاف کیا میں نے... ابو بکر نے کہا خیر میں اجازت دے دی آپ جاسکتی ہیں میں عمرے کے بعد لے جاؤں گا آ پکو.. 


مسج دیکھ کر آ ہ بھری اور موبائل مما کو دے دیا... دو دن بعد فلائٹ تھی... 


جو کہ ڈائریکٹ لاہور سے جدے کی تھی پھر آ گے مکہ جانا تھا.. اس سب وقت میں ابو بکر نے کوئی رابطہ نہ کیا.. 


شام کو چچا چچی ملنے آئے... 


جانے سے پہلے اسنے ابو بکر کو کال کی اور نمبر بند ملا...


اسے بہت برا لگا... خیر اللہ کا نام لیکر چل پری .. ائیر پورٹ پر چیکنگ کے بعد اعلان کیا گیا تو احرام باندھنے لگے... 


آ خر جہاز نے اران بھری... 


ریما ونڈو سے باہر کا منظر دیکھ رہی تھی.. ہاتھ میں تسبیح لیے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی.. جدے پہنچ کر چیکنگ, فنگر پرنٹس اور پھر تصدیق کے بعد گاڑی میں مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے.. گاڑی نے ہوٹل پر انکو روکا.. سامان ہوٹل کے کمرے میں رکھا.. 


اور عمرہ کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوگئے.. جیسے جیسے ریما کے قدم اٹھ رہے تھے ریما نے آ نکھیں بند کیے بغیر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے...


اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگی...


"میرے مالک !!!


آج تیرے گھر تیری رضا سے ٹھہری ہوں. میں اس قابل تو نہیں لیکن اپنے گناہوں کی معافی مانگتی ہوں.. اور اپنے والدین اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی معافی مانگتی ہوں.. وہ گڑگڑاتے ہوے دعا مانگتی رہی.. ریما طواف کرتے جا رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ سات سال اسے کہاں لے گئے ہیں..


جسنے پیار کہا اسنے برباد کیا.. 


اپنی بہن کو کھویا.. 


دوست نے دوستی کے مطلب کا مذاق بنایا. اسکے آ نسوں تکبیرات کے ساتھ گرنے لگے.. طواف کے بعد صفہ و مروع کا چکر لگا کے نوافل پڑھنے کے بعد ریما کے والد نے ریما اور اسکی والدہ بال ایک پور تک کاٹے...واپس ہوٹل آ نے کے بعد فرش ہو کر دوبارو فجر کی نماز کے لیے حرم روانہ ہوگئے.. یہ حرم شریف میں انکی پہلی فرض نماز تھی...ریما ایک طرف جائے نماز بچھا کر سامنے کا مناظر دیکھنے لگی.. صبح کی کرنیں پھوٹنے لگی... 


ہر طرف ہوائیں بکھرنے لگیں.. 


ایسا لگا رہا تھا جیسے پرندے بھی اللہ کے گھر کا طواف کر رہے ہوں.. جب وہ سامنے دیکھ رہی تھی تو اسے ایسے لگا کہ کوئی اسکے بائیں جانب جائے نماز بچھا کر بیٹھا ہوا ہو... اسکی جائے نماز اسکے پچھلے حصے سے ٹچ ہو رہی تھی 


ریما اس بات کو اگنور کیے سامنے دیکھ رہی تھی.. کچھ لمحے بعد ریما نے آ نکھیں بند کیں اور دعا کرنے لگی... 


اچانک اک آ واز نے خلل پیدا کیا.... 


اللہ کے گھر میں معافی ملے گی؟؟؟ریما اس آواز کو پہلے سن چکی تھی... 


اسنے جب آ نکھیں کھولیں تو اسکی آ نکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں.۔۔۔۔۔۔۔۔۔




جاری ہے

*

Post a Comment (0)