بے لباس محبت
قسط نمبر 8
اچانک شور شرابا ہونا شروع ہوگیا، پولیس نے چھاپہ مار دیا تھا. وہاں موجود تمام لوگوں نے حراست میں لے لیا تھا. ریما کو بھی تھانے لے گئے اور گھر والوں سے رابطہ نمبر لے کر فون کیا اور تمام روئیداد بتا دی. فیما کی مما اور پاپا فورا پولیس سٹیشن آگئے.
ریما اپنی مما کے سینے سے لگی رونے لگی اپنی بےگناہی
بتانے لگی اسکی مما کو اسپر یقین تھا کہ وہ ایسی گھناؤنی حرکت نہیں کر سکتی...
لیکن انسپکٹر نے انہیں جھوٹی رپورٹیں دکھا دی کہ وہ نشے اور ڈرگز میں ملوث ہے اسکے جسم میں ابھی نشاندہی ہوئی ہے....
ریما کے پاپا نے انسپکٹر کے آگے ہاتھ جوڑے کے وہ اپنی بیٹی کو تھانے میں نہیں دیکھ سکتے...
انسپکٹر ریما کو چھوڑنے پر راضی نہیں تھا.. کیونکہ وہ ریما کو بےلباس دیکھ چکا تھا... اسکی نیت ریما کے لیے خراب ہو گئی تھی.... اسنے ریما کے گھر والوں کو بھاری رقم لانے کو کہا انسپکٹر نے کہا وہ انہیں چار پانچ لاکھ لا دے باقی وہ خود سنبھال لے گا....
اسکے پاپا کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہاں سے لائیں... انہوں نے کاشف کو کال کر کے سب بتایا... کاشف نے سب کہانی سنتے ہی اسے کا نیا ڈرامہ سمجھتے ہوئے نفرت کا اظہار کیا...
آخر ریما کے پاپا اسکی مما کے کہنے پر گھر سے ریما کےجہیز کے لیے سونا اور پیسا اکٹھا کیا لانے کو کہا..... .
سب کچھ پولیس کے حوالے کرنے کے بعد وہ گھر لوٹ آئے.. مدثر نے تھانے میں ریما کی رپورٹ پڑھ لی تھی....
ریما کی ماما نے اسے گھر آنے کو کہا لیکن مدثر نے کہا رات ہو گئی ہے ابھی پھر کبھی آئے گا....
ریما کےپاپا نے بھی اسکا چہرہ پڑہتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے ابھی جاؤ...
وہ گھر آۓ اور ریما کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولے بیٹے جانے والے کو روکا نہیں جاسکتا....
وہ سمجھ گئے تھے کہ مدثر ریما کی زندگی سے جا چکا ہے......
وہ بھیگی آنکھوں سے کمرےمیں آئی..
ریما کو اپنی قسمت پر رونا آرہا تھا وہ اپنی ماں سے لپٹی موت کے آرزو کرنے لگی.....
اسے اب سمجھ میں آیا کہ خودکشی حرام کیوں ہے......
دو دن بعد مدثر کی ماں نے کال کر کے رشتہ ختم کر دیا....
ریما مدثر سے بات کرنا چاہتی تھی....
کال اٹینڈ ہونےکے بعد ریما نے کہا شکریہ....
مدثر : شکریہ کس بات کا ؟؟؟؟
ریما :یہ بتانے کے لیے کہ کتنا اعتبار ہے مجھ پر....
اس بار آزمائش میری نہیں تمہاری بھی تھی.....
مدثر : لیکن بات عزت کی تھی.. بعد میں ان بچوں کا کیا ہوتا.. ان سے شادی کون کرتا ؟؟؟
ریما : اگر میں تمہاری بیوی ہوتی اور بعد میں یہ سب ہوتا تو ؟؟؟
مدثر : تو بھی میں الگ ہو جاتا.. اور وہ خاموش ہوگیا... تھوڑی دیر بعد کال کٹ گئی....
ریما گہرائی میں کھو گئی... ابھی وہ بے گناہ ہے اور اسے سمجھنے کا پیمانہ صرف اتنا ہے ؟؟؟؟؟؟
بے گناہ ہوتے وہ مجرم بن گئی تھی....
اس واقعے کے بعد محلے والوں نے انکے گھر آنا چھوڑ دیا....
رشتے کروانے والی بھی نہیں آتی تھی...
ریما کے ابو نے گھر بیچ کر فیکٹری کے قریب ایک چھوٹا سا گھر لے لیا...
گھر کے قریب ایک دینی درس گاہ تھی جہاں قرآن پاک پڑھایا جاتا تھا....
اور بیان کے ساتھ قرآن پاک کا ترجمہ بھی پڑھایا جاتا....
تھا...
ریما نے اپنا معمول بنا لیا تھا بیان سننے کا اور قرآن پاک ترجمے کے ساتھ پرہتی تھی....
وہ لڑکی جس کے کمرےمیں میک اپ کا سامان ہوتا تھا.... ڈائجسٹ ہوتے تھے.. وہاں اب اسلامی کتابوں کا ایک زخیرہ تھا.. وہ لڑکی ساری رات موبائل استعمال کرتی تھی.. اب وہ دن رات تسبیحات کرتی....
روزانہ درس گاہ جاتے ایک فقیرنی اسے راستے میں بیٹھی گھورتی رہتی تھی...
کرن کی شادی کو چار سال گزر گئے تھے ...ایک دن اسکی کال مما کے نمبر پر آئی... اسنے کہاکہ وہ بہت بےچین ہے.. اور وہ رونے لگی... مما سے معافی مانگنے لگی.. اور بابا سے بھی معاف کرنے کا کہا...
روتے روتے اسنے ریما سے بات کرنے کا کہا...
ریما نے آواز سے اندازہ لگایا کہ اسکی آواز بہت تھکی ہوئی ہے اور وہ بیمار لگ رہی تھی..
وہ ریما کی آواز سنتے ہی رونے لگی اور معافی مانگنے لگی...
ریما نے کہا کہ اسکے دل میں کوئی خلش نہی ہے...
لیکن وہ اپنے گناہ کا اعتراف کرنے لگی...
کرن نے کہا کہ اسے ریما اور اسد کے درمیان آنے کی سزا مل رہی......
اور یہ بھی کہ اسکا دل اسکے دل جتنا بڑا نہیں ہے....
کہ یہ سب برداشت کر لوں....
میں تو اندر ہی اندر تم سے حسد کرتی رہی..
اور جب خود پر وقت آیا تو پتا چلا..
اب وہ تم دونوں کی زندگیوں سےدور جا رہی ہے...
اسد آج بھی تمہارا ہے وہ تم سےمحبت کرتا ہے مجھ سے نہیں...
ہو سکے تو اسے اپنا لینا....
زندگی رہی تو دوبارا بات ہوگی..
اللہ حافظ......
ریما بت بنے سب سنتی رہی.. کال بند ہو گئی..
اسکے دل میں کرن کے لیے کوئی خلش نہیں تھی...
اور اسد اسکے دل و دماغ میں نہیں تھا...
نہ ہی وہ اسے سوچنا چاہتی تھی۔۔۔۔
یہاں سے جانے کے بعد اسد کو پتا چلا کہ کرن کو گھر داری نہیں آتی تھی...
اسے احساس ہوتا کہ ریما اسے کتنا چاہتی تھی...
وہ بات بات پے کرن کو طعنے دیتا...
اسی ٹینشن کی وجہ سے اسکا پہلا مس کیرج ہوا اور اسکی بچہ دانی کا سائز بھی نارمل نہی تھا....
ڈاکٹر نے اسے دو سال وقفے کا کہا...
دو سال بعد دوبارہ پریگنینسی میں اسے خون کی کمی ہوئی تو دوبارا مس کیرج.. اس بار بچہ ' بچہ دانی میں ٹھہر گیا..
ڈاکٹر کو فوری آپریشن کرنا پڑا...
اب اسے احساس ہوا کہ وہ نہیں بچنے والی...
اسنے ایک بار ریما کے گھر والوں سے معافی مانگنے کا سوچا...
اسد سے بھی ریما کو اپنانے کا کہا....
اسد ریما سے کی گئی زیادتی پر شرمندہ تھا...
اور یہ کہ کرن کا خیال نہ رکھ سکا...
کرن کی وفات کے بعد اسکی تدفین وہیں کر دی............
ریما آج بھی معمول کے مطابق درس جا رہی تھی..
اسنے آج بھی فقیرنی کو اسی طر ح دیکھا تو اسکی طرف چل پڑی..
وہ ایک پرات میں باسی روٹی کے ٹکروں کو سالنوں میں مند رہی تھی..
"تم یہاں ہر وقت بیٹھی رہتی ہو تمہارا کوئی نہیں ہے کیا.؟؟؟؟
ریما نے پوچھا..
فقیرنی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر بیٹھا کربنا جواب دیے کہا...
آج بڑی دیر سے آئی.. میں کب سے انتظار کر رہی تھی....
فقیرنی نے ریما کا ہاتھ پکڑ کر نیچے بیٹھا لیا..
اسکا جواب دیے بغیر... اوپردیکھتے ہوئے بولی. " وہ آزماتا بھی اسے ہی ہے جسے وہ چاہتا ہے"
وہ ابھی اسکی بات سمجھی ہی ہوگی کہ فقیرنی نے اسکا ہاتھ پرات میں رکھ دیا...
کھا لے کھا لے سب تیرا ہی ہے...
ریما اس پرات کے قریب اسے دیکھنے لگی کہ وہ دوبارا بولی " کھا لے سب تیرا نصیب ہے... "
ریما نے آنکھیں بند کر کے پاگلوں کی طرح کھانا شروع کر دیا...
فقیرنی نے زور سےقہقہ لگایا اور کہا " یہ کامیاب ہو گئی اب توں جانے اور تیرا فیصلہ "
سٹوری اور ناول کے لیے
ریما روتے ہوئے کھا رہی تھی..
جب اسنے آنکھیں کھولیں تو وہاں کوئی نہیں تھا...
اسکے ہاتھوں میں مٹی تھی..
لیکن منہ میں سالن کا ذائقہ ابھی موجود تھا...
وہ حیرت سے اٹھی اور درس گاہ کے طرف چل دی...
کرن کی وفات کو ایک سال ہوگیا تھا..
اسد نے خود کو بدل لیا تھا.. وہ ریما سےشادی کرنا چاہتا تھا.. وہ اب ریما کی پسند کے مطابق بدلنا چاہتا تھا.. وہ پاکستان واپس آتے ہی ریماسے ملنا چاہتا تھا...
اسنے فیصلہ کیا کہ وہ ریما کی تمام غلطیوں کو بھول کر اسے اپنائے گا..
اسنےپاکستان واپس آتے گھر والوں سے ریما کے گھر جانے کا کہا..
اسکے گھر والے اس بات پر راضی نہیں ہوئے..
لیکن اسد کی ضد کیوجہ سےمان گئے.. وہ ریما کے گھر آۓ اور اسکےابو سے اسکا ہاتھ مانگا...
اختر نے بتایا کہ اسدبہت شرمندہ ہے...
ریما کے ابو نے صاف انکار کر دیا کہا اسد کا اب کوئی تعلق نہیں ہے ریما سے..
اگلے دن اسد ریما کے گھر آ گیا... ریما کے ابو گھر نہیں تھے. دروازہ کھلا تھا. اسد کھلا دیکھ کر اندر آ گیا..
سامنے ریما بیٹھی ہوئی تھی..
ریما پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گئ تھی.
وہ فوراً ریما کے پاؤں پر کر رونے لگا اور معافی مانگنے لگا..
ریما نے جلدی سے پردہ کیا اور اپنی مما کو آواز دی. وہ محرم اور نامحرم کا فرق جان چکی تھی..
اور اسد اسکے لیے نا محرم تھا..
کچھ دیر بعد ہی ریما کے ابو آگے. انہوں نے اسد کے اسطرح آنےپر غصہ کیا...
اسد اس بات پر شرمندہ تھا.. اسد نے ریما سے صرف ایک بار ملنےکا کہا اور یہ بھی کہ وہ صرف پردے میں بات سن لے... ریما کی مما نے اس سے اجازت طلب کی جو کہ اس نے دے..
اسد پردے کے پیچھے بیٹھا اپنے گناہوں کا اعتراف کر رہا تھا..
اور کہا کہ اگر وہ اسے ایک موقع دے تو وہ اسکی ساری غلطیوں کو نظر انداز کر کے اس سے شادی کر کے اسے خوش رکھے گا.. وہ ہاتھ جوڑے ریما کے جواب کا منتظر تھا...
جاری ہے