بے لباس محبت
قسط 2
اسد ریما کا چچا زاد کزن تھا عمر میں وہ کاشف کے برابر کا تھا، سفید رنگت ڈارک براؤن بال کلین شیو اور طاقت ور جسم کی وجہ سے وہ کافی ہیڈ سم اور انگریز دِکھتا تھا۔ وہ بھی دبئی رہتا تھا لیکن کاشف اور یہ الگ رہتے تھے۔ وہ پاکستان 3 سال سے نہیں آیا تھا حالانکہ اسد کاشف کا سالا بھی تھا اور ابھی جب کاشف کی شادی اس کی سگی بہن فوزیہ سے ہوئی تب اسنے چھٹی نہ ملنے کا بہانہ بنایا اور پاکستان نہ آیا۔ ۔
بچپن میں ریما اور اسد کی دوستی کافی تھی اور ویسے بھی دونوں جانتے تھے کہ ان کے گھر والوں نے ان کی شادی آپس میں ہی کرنی ہے تو دونوں ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے۔ جیسے جیسےدونوں بڑے ہوتے گئے ریما تو بے پناہ محبت کرنے لگی لیکن اسد کے دل سے ریما کی محبت کم ہوتی گئی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کے وہ اسد کو وہ کچھ کرنے کا موقع نہیں دیتی تھی جو وہ شادی سے پہلے چاہتا تھا اور اسی وجہ سے وہ اور لڑکیوں میں انٹرسٹ رکھنے لگا۔۔۔ دبئی آجانے کے بعد شروع شروع میں تو ان کی باتیں ہوتی تھیں۔ لیکن پھر اسد دبئی کی خوبصورتی میں کھو سا گیا اور ریما کو اور اگنور کرنے لگا۔ لیکن جب جب بھی اسد اکیلا محسوس کرتا یا اس کا دل کرتا وہ ریما کو میسج کال کرتا ریما ہمیشہ جواب دیتی جیسے وہ انتظار میں ہو، اسد کو اتنا یقین تھا کہ وہ چاہے جتنا ریما سے دور رہے ریما کسی اور کی نہیں ہو گی۔۔۔ اس کا پلان بھی یہی تھا کہ ابھی مزے کر لے ادھر اُدھر سے پھر شادی بھی کرلےگا۔۔۔
کرن نوٹ کرنے لگی کہ ریما اب ہر وقت خاص کر آدھی آدھی رات تک دانیال سے بات کر نے لگی ہے۔۔۔۔ پہلے ریما اسد کے ان لاہن ہونے نہ ہونے کا انتظار کرتی تھی لیکن اب وہ دانیال کے ساتھ خود کو مصروف رکھنے لگی تھی۔ ۔
ادھر دانیال اب ہر دوسری تیسری رات ریما کو کال پر رومینس کر کر کے اُسکو سکون دینے لگا۔۔ وہ تب تک سکون نہ لیتا جب تک وہ اندر سے بھیگ بھیگ کر تھک نہ جاتی اور اسی وجہ سے ریما کو صبح غسل کرنا پڑتا۔۔۔
کرن ویسے تو گہری نیند سوتی تھی لیکن اک رات یہ کال پر جب رومینس کر رہے تھے تو کرن کی آنکھ کھل گئی اور وہ ریما کے سیسکنے کی آواز کو غور سے سننے لگی "بس کرو یار بس کرو میں تھک گئی ہوں "۔۔
وہ ریما کے پاس آئی اور کمبل ہٹا دیا اور پوچھا کہ ریما کیا کر رہی ہو؟ یہ کیا ہو رہا ہے؟؟ یہ کہتے ہوئے لائٹ آن کر دی اس نے ریما کو اُوپر سے نیچے تک دیکھنے لگی جو پسینے میں شرابور تھی ۔
ریما نے جلدی سے خود کے جسم کو سمیٹا کال کٹ کی اور غصہ سے کرن کی طرف دیکھ کر بولی کیا بتمیزی ہے؟؟ تم سوئی نہیں؟؟ یہ کہتے ہوئے وہ اُٹھی، دانیال کو ویٹ کا میسج کیا اور ایک نظر کرن کو دیکھتے ہوئے ایک لمبی سانس لی اور بولی "اٹھ گئی ہو تو چائے بنا آو" یہ کہہ کر وہ فریش ہونے کے لیے واش روم چل دی۔ کرن ابھی تک حیرانگی سے اُس کے حلیے اور حالت کو پیچھے سے دیکھ رہی تھی پھر کچن میں گئی اور چائے بنانے لگی۔۔۔
ایک کپ چائے کا ریما کو بڑھاتے ہوئے وہ بھی اس کے بیڈ پر بیٹھ گئی اور ریما کے بولنے کا انتظار کرنے لگی جو خود دانیال سے میسج پر بات کر رہی تھی پھر دانیال کو بائے کہا اور موبائل سائیڈ پر رکھ کر مسکراتے ہوئے بولی "جی میڈیم تم کب اُٹھی تھی؟ " اور ساتھ میں چائے کا کپ ہونٹوں سے لگا کر سپ لینے لگی ۔ جوابًا کرن نے سوال کر دیا کہ" میں کب اور کیوں اُٹھی یہ ضروری نہیں لیکن تمہیں کیا ہو گیا ہے یار؟ کیوں تم اس گھٹیا انسان سے بات کرتی ہو جو تمہاری عزت کو مجروح کر رہا ہے۔۔"اس نے بستر کی طرف نظروں سے اشارہ کیا۔ ۔۔ کرن کچھ دیر خاموش ہوئی اور پھر سے بولی "تم جانتی ہو کہ تمہاری شادی اسد بھائی سے ہونی ہے۔۔، بلکہ ہوچکی ہوتی اگر اُن کو چھٹی ملی ہوتی ، تم خود بھی تو اسد بھائی سے پیار کرتی ہونا؟ پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "وہ پھر رکی اور پھر بولی۔ ۔۔" میں اسد بھائی کو بتاتی ہوں وہ خود تمہیں سمجھاہیں گے "وہ ریما سے موبائل لینے کا اشارہ کرتے ہوئے بولی۔۔۔
ریما نے چائے کا کپ ختم کیا اور سکون سے بیڈ کو ٹیک لگا کر کرن کو دیکھتے ہوئے بولی " اُٹھاو۔ ۔ کرو میسج اور دیکھو کتنے عرصے کے بعد وہ سین کرے گا "۔۔۔پھراک ہنہ سے اس نے گردن کو جھٹکا دیا۔۔۔اک خاموشی کے بعد بولی " یار میں نے کچھ غلط نہیں کیا، دانیال اچھا لڑکا ہے بلکہ اسد سے زیادہ اچھا ہے اسد کو میری فکر نہیں تم جانتی ہو آخری بار اُسنے خود مجھے کب کال کی؟؟؟۔۔۔۔ ہاں ٹھیک ہے ہم دونوں شروع سے ایک ساتھ رہے لیکن یار جتنا میں اُسے چاہتی ہوں مجھے اُسکے اندر اُتنا چاہ نظر نہیں آئی، وہ جب پاکستان میں تھا تب بھی جب اُسکا دل چاہتا وہ بات کرتا اور جب میں چاہتی تب۔۔۔۔۔" وہ چپ ہو گئی۔۔۔۔ اک پل کے بعد پھر بولی "مجھے کبھی کبھی لگتا ہے جیسے وہ میرے پاس ہوتے ہوئے میرے پاس نہیں ، اور اب میں اُسکو کال کروں یا میسج تو بس سین کرلینا یا اگنور کر لینا اور جواب جب دل کرے ۔۔ بس سہارے کے لیے اتنا کہ دینا کہ ہم نے ویسے بھی شادی کرنی ہے تو ابھی کیا کریں گے بات کر کے۔۔۔۔۔۔ تو یارررر تم بتاؤ میں اپنی فیلنگز کس سے شیئر کروں؟۔ ۔۔ "
ریما کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔۔ وہ کرن سے نظریں ہٹا کر آنسو کو چھپانے لگی۔ اور پھر بولی " تمہیں کیا لگتا ہے ؟؟ دانیال مجھے کیوں اچھا لگنے لگا ہے؟؟ میں اُس سے کیوں بات کرتی ہوں؟ کیا مجھے یہ سب چاہئے( وہ بستر کی سلواٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی)۔۔۔۔۔ یار وہ مجھے وقت دیتا ہے مجھے سنتا ہے میرا خیال رکھتا یے۔۔۔ کوئی ایسا پل نہیں جب میں نے کہا اور اُسنے بات نہ کی ہو کیا وہ مصروف نہیں ہوسکتا؟ اُسے میری فکر ہوتی ہے اور ہر لڑکی یہی چاہتی ہے کہ اُسے چاہنے والا اور فکر کرنے والا مرد ملے۔۔۔۔۔۔۔تم نے اسد کو بتانا ہے تو بتادو ۔۔ مجھے فرق نہیں پڑے گا۔۔۔۔۔ ویسے بھی دانیال اپنے پیرنٹس سے میری بہت جلد بات کرے گا۔"
وہ خاموش ہوگئی اور کرن نے اک لمبا سانس لیا اور کچھ سوچنے لگی پھر بولی" تمہیں لگتا ہے وہ واقعی تمہارے لیے سنجیدہ ہے؟ ؟ اور اُس کے گھر والے مان جائیں گے؟ اور یہاں امی ابو ؟؟؟"
ریما کچھ دیر سوچتی رہی اور پھر بولی "یار دانیال میرا دوست بن چکا ہے وہ ہر بات اپنی شیئر کرتا اعتبار کرتا ہے اسی وجہ سے وہ مجھے اچھا لگتا ہے۔۔ ہاں اگر اُس کے گھر والے یا ہمارے گھر والے نہ مانے تو چھوڑ دوں گی۔۔۔۔ اور اسد کے لیے بھی اسے چھوڑ دوں بلکہ ایسا قدم ہی نہ اُٹھاتی اگر وہ مجھے زرا سمجھ سکتا۔۔۔۔"
پھر ماحول کو ذرا بدلتے ہوئے اُسنے کرن کو آنکھ ماری اور پھر سے بولی ویسے تم نے میرا آج کا مزہ خراب کر دیا اور شرارتی مسکراہٹ سے ہنسنے لگی۔۔ کرن مسکراتی ہوئی اٹھی اور بولی " پتہ نہیں تمہارا کیا بنے گا لڑکی میں تو لگی سونے " کرن نے لائٹ کو بند کیا اور بستر میں جا کر سو گئی۔
ریما دل ہی دل میں اس بات سے شرمندہ تھی کہ دانیال سے بات کرتے کرتے کس حد تک پہنچ گئی کہ آج اپنی چھوٹی بہن کی نظروں میں گر گئی۔ اُسے اچانک خود سے گھن آنے لگی۔ وہ کچھ دیر سوچنے لگی پھر اُس نے موبائل اُٹھایا اور دانیال کو مسیج کیا کہ آج کے بعد ہم بات نہیں کریں گے۔۔۔ یہ کہ کر اُسنے دانیال کو واٹس ایپ ، فیس بک ہر جگہ سے بلاک کردیا اور نمبر کو بھی بلاک میں ڈال دیا اور کچھ پل رو کر من ہلکا کیا اور اسد کو کال کی لیکن اسد نے اٹینڈ نہ کی اُسنے مسنجر پر ٹیکسٹ کیا "آئی مس یو! اور آئی لو یو سو مچ" ۔۔
پھر موبائل رکھ کر سو گئی۔۔۔
دانیال کو جب ریما کا میسج آیا کے کرن جاگ گئی ہے اور اب صبح بات کریں گے تو وہ کچھ دیر سوشل میڈیا پر ٹائم پاس کرنے کے بعد سو گیا۔
صبح کو اکثر ریما کال کر کے جگاتی تھی لیکن آج جب دانیال اُٹھا کوئی کال میسج نہ تھا اُسنے واٹس ایپ دیکھا تو ڈیپی شو نہ ہورہی تھی اُسے اچانک اک شاک سا لگا کہ یہ کیا ؟ اُس نے فوراً سے کال کی لیکن کال نہ ملی اُسے اندازہ ہوگیا کہ ریما نے بلاک کردیا ہے۔۔۔دانیال کے پاس دو موبائل تھے ، لیکن اس نے ریما کو صرف ایک نمبر دیا تھا ۔۔ پہلے تو وہ کچھ دیر انتظار کرتا رہا پھر اپنے دوسرے نمبر سے کال ملا دی۔۔۔ کچھ دیر تک بل جاتی رہی پھر کال اٹنڈ ہوئی
ریما: ہیلو؟
دانیال: (اک پل خاموشی کے بعد ) ٹائم پاس کرنا تھا تو بتا دیتی، مجھ سے اچھا ٹائم پاس اور کون کر سکتا ہے۔۔۔۔ دانیال رُکا اور پھر سے بولا۔ ۔"آواز بھی پہچان لی یا وہ بھی اک رات میں بھلا دی؟"
ریما: دانیال میں تم سے اب کوئی بات نہیں کرسکتی پلیز مجھے کال نہ کرنا۔
(دانیال فوراً سے بولا)
دانیال: ریما۔ ۔۔۔۔ جان۔ ۔۔ یار ایسا کیا ہوا؟ مجھ سے کوئی غلطی ہوئی؟ ؟ میں یہاں تم سے شادی کرنا چاہتاہوں اور تم۔۔۔۔۔
ریما: نہیں ہماری شادی نہیں ہوسکتی نہ ہی میں ایسا چاہتی ہوں اللہ حافظ۔
دانیال: او-کے غلطی میری ہے اور سزا تم خود کو کیوں دو؟ ایسا کرتا ہوں میں خود کو ختم کردیتا ہوں آج پہلی صبح ہے جس میں تمہاری کال نہیں آئی اور یہ آخری صبح ہوگئی۔۔۔
ریما: کیا مطلب؟
دانیال : کچھ دیر تک پتہ چل جائے گا اور یہ نمبر میرا نہیں ہے نہ اس پر کال کرنا یہ کہہ کر کال کٹ کر دی۔ اور اس نمبر کو بند کر دیا۔
ریما ہیلو کرتی رہی لیکن کال کٹ ہوچکی تھی۔ اُسے ڈر لگنے لگا کہ کہیں واقع دانیال اُسکے پیار میں کچھ کر نا جائے وہ پہلے بھی کہتا تھا کہ "یار اب تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا" ۔۔
کچھ ہی دیر میں ریما نے صرف واٹس اپ سے ان بلاک کر دیا اور ٹیکسٹ کردیا کہ ان بلاک کردیا ہے لیکن فری ہو کر بات کروں گی۔ وہ اس سوچ میں تھی کہ آہستہ آہستہ اب اس سے دور ہو جائے گی۔
لیکن دانیال نے جب دیکھا کہ رہما نے ان بلاک کر کے ٹیسکٹ کردیا ہےتو اب اُسنے ٹھان لی کہ اس سے پہلے یہ دوبارہ دور ہو کسی طرح ڈیٹ لگائے اور اس سے جان چھڑوائے۔۔۔۔
رات میں جب دانیال نے کال کا کہا تو پہلے ریما نے منع کردیا اور اس سے مسیج کے دوران وہ اسد کو کال اور میسج کرنے لگی اسد نے کال کٹ کردی اور میسج کیا کہ وہ دن میں بات کرے گا ابھی تھوڑا مصروف ہے۔ اسد کے میسج سے وہ اداس ہوگئ اور پھر خود ہی دانیال کو کال کا بول دیا۔ ۔
دانیال پہلے ہی سے اس انتظار میں تھا۔ اور اس نے کال ملا دی۔ لیکن آج وہ ریما سے سیک - سی یا رومینٹک باتیں نہیں بلکہ وہ اس کو احساس دلانا چاہتا تھا کہ وہ اس دنیا میں صرف اسی کے لئے ہے ۔
انہی باتوں کے جال پر اور اسد کے ٹھیک سے ریسپونس نہ دینے پر ریما دوبارہ سے دانیال سے باتیں کرنے لگی وہ دانیال کو اسد سے جب کمپیئر کرتی تو دانیال اسد سے بہت باہر ہوتا۔
اب دانیال صرف ریما کی کیئر کرنے لگا رومینٹک باتیں چھوڑ دیں۔ ایک بار باتوں ہی باتوں میں ریما نے کہا کے مجھ سے اتنا کیوں بات کرتے ہو؟
دانیال کچھ پل خاموشی کے بعد بولا
" باتیں نہیں پیار کرتا ہوں اور بہت کرتا ہوں۔۔۔۔ اورسچ سنو تو تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
میں تو اب تک بات بھی کرچکا ہوتا اگر اُس دن تم نے مجھ ایسے خاموش نہ کیا ہوتا"
ٹھیک ہے میں جب کہوں گی تب تم پیرینٹس سے بات کرنا ریما نے دانیال کی بات پر اعتبار کرتے ہوئے بولا۔ وہ واقعی اب دانیال سے شادی کرنے کا سوچنے لگی۔
دانیال کو اتنا پتہ چل گیا کہ ریما اب اس پر اعتبار کرنے لگی ہے اس نے موقع اچھا سمجھا اور کچھ دنوں بعد باتوں ہی باتوں میں بولا ریما میں لاہور آرہا ہوں!
ریما: کیوں؟
دانیال: یار تمہیں تو پتہ ہے کہ ابو کا کتنا بڑا بزنس نیٹ ورک ہے بس اُنہوں نے کہا ہے۔ اور ویسے بھی لاہور آتا جاتا ریتا ہوں۔۔۔
ریما: لاہور کس جگہ اور کب آنا ہے؟؟؟
دانیال: دو دن تک اپنی ہی گاڑی پر آؤں گا اور گلبرگ کی طرف آنا ہے ۔۔۔۔ یہ کہہ کر اک پل کو خاموش ہو گیا اور پھر بولا گھبراو نہیں ریما، میں تم سے ملنے نہیں آرہا اور ویسے بھی جانتا ہوں کہ اتنا اعتبار ابھی تم مجھ پر نہیں کرتی۔۔۔وہ طنزیہ لہجے میں بولا ۔۔۔۔ بس بتایا اس لیے کہ اب عادت سی ہے ہر بات تمہیں بتانے کی۔۔۔
ریما اتنے وقت سے بات کرنے کی وجہ سے وہ اعتبار کرنے کے ساتھ دل میں اک چاہت رکھنے لگی تھی۔۔۔ دانیال کے ساتھ بات کرتے اسے دن کا احساس نہیں ہوتا تھا دوسرا دانیال کا ہر بات شیئر کرنا مشورہ لینا اچھا لگتا اسے ایسے لگنے لگا جیسے دانیال اس کے ساتھ ہو۔ ۔۔
ریما دانیال کی بات سن کر پہلے خاموش ہوئی اور پھر بولی بات اعتبار کی نہیں لیکن میں آج تک کسی لڑکے سے ملنا تو دور کی بات سوچا بھی نہیں۔۔۔ میں جانتی ہوں تم اتنے برے نہیں نہ ہو۔۔۔۔ نہ ہی میرے ساتھ کچھ برا کرو گے لیکن یار! وہ پھر سے خاموش ہوگئی۔
دانیال: لیکن ؟؟ لیکن کیا۔۔۔۔۔ دانیال نے سگریٹ کا کش لیتے لیتے رک گیا اور سنجیدگی سے بولا ریما کبھی نہ کبھی تو ہمیں جاننے کے لیے ملنا ہوگا۔۔۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ملیں ۔۔۔۔ لیکن سوچنے میں حرج تو نہیں؟ اور اگر واقع ہمیں رشتہ بنانا ہے تو شاید آمنے سامنے ہوجانے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ ۔۔۔۔
ریما: ہمممممم۔۔۔۔ وہ کانوں میں ہینڈ فری دیےہوئے موبائل پر اسد کے ان لائن ہوتے ہوئے مسیج کو سین تک نہ کرنے کا منظر دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ پھر خاموشی کو توڑتے ہوئے بولی "ٹھیک ہے اگر مناسب لگا اور موقع بنا تو میں دکھوں گی لیکن اک وعدہ کرو کہ ہم میں کچھ غلط نہیں ہوگا اور مجھے ٹچ تک نہیں کرو گے بلکہ ہم پبلک پلیس پر کہیں ملیں گے پراویٹ جگہ نہیں ۔۔۔"
دانیال: وعدہ کرتا ہوں بلکہ قسم کھاتا ہوں کہ کچھ نہیں کروں گا اور ہاں۔۔۔ جہاں تم کہو گی وہی مل لیں گے۔ جو کہو گی وہی ہوگا۔۔ تمہیں انکار تھوڑی کرنا ہے وہ اک اعتماد دیتی ہوئی مسکراہٹ سے بولا۔ ۔
کچھ دیر بات کرتے رہے پھر ریما کو نیند آنے لگی اور سونے کا کہہ کر کال کٹ ہو گئی۔
دانیال نے ہاتھ سے یس کا اشارہ کیا اور اک شیطانی مسکراہٹ ہونٹوں پر لایا ۔۔۔ وہ آج اپنے پلان کے کامیابی کے قریب پہنچ گیا تھا۔۔۔
جاری ہے