Be libaas Muhabbat - Episode 4

بے لباس محبت

قسط نمبر 4



آخرکار اُس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ آج اپنی پیاس بجائے گا وہ خود سے کہنے لگا "پھر کون لاہور آئے ، ایسا موقع پھر کہاں ملنا ہے اور مجھے کونسا اس سے شادی کرنی ہے ہنہ۔۔" پھر فورا سے انجیکشن کو جوس میں انجیکٹ کیا اور گاڑی کی طرف آیا اور اک فیک مسکراہٹ سے ریما کو جوس دیا ، سینٹر میں لیز اوپن کر کے رکھ دیے اور گاڑی سٹارٹ کردی۔۔ 


ریما نے بے تکلفانہ انداز میں ایک دو لیز لیے اور پھر جوس کو پینے لگی اُسے پہلے ہی کافی پیاس لگی تھی۔ جوس کے ختم کرنے سے پہلے ہی اُسکے جسم اک عجیب سی لہر دوڑنے لگی اس سے پہلے وہ سنبھلتی اُسے چکر آنے لگے فوراً سے دانیال کو کہا کہ مجھے گھر چھوڑو مجھے کچھ ہو رہا ہے دانیال خاموشی سے گاڑی تیز دوڑاتا ہوا دوبارہ سنسان جگہ لے آیا


 ریما اب غنودگی کی حالت میں تھی اسکا مائینڈ کچھ کچھ چل ریا تھا لیکن وہ ہمت نہ کر پارہی تھی۔انجکیشن کی وجہ سے اُسکے جسم میں عجیب سی بے چینی ہونے لگی۔ 


دانیال نے ہینڈ بریک لگائی اور گاڑی سے اترا اور ریما کو اک نظر دیکھا اسے اندازہ ہو گیا کہ انجیکشن نے اپنا کام کردیا ہے۔۔۔۔وہ ریما کو اتار کر پیچھلی سیٹ پر لے جا کر لیٹانے لگا۔ اُسنے اُسکے پیچھے پڑے عبایا کو بیک سیٹ کے پیچھے رکھا ور وہاں سے کشن اٹھا کر اس کے سر کے نیچے رکھ دیا اور اس کے جسم کو دیکھنے لگا۔


وہ موقع کو ضائع کیے بغیر ریما کے اُوپر آنے لگا اور اس کے چہرے سے بالوں کو ہٹا کر اپنے ہونٹوں کو اسکے ہونٹوں سے ملا کر چوسنے لگا۔ وہ اس کے ہونٹوں کو پینےکے ساتھ اس کی شرٹ کو اُوپر کرنے لگا۔ شرٹ کو اوپر کرنے کے بعد وہ اُس کے بلیک بر - ا کو دیکھتے ہوئے خود سے بولا "آہ کمال کی میچینگ کی ہے" ۔ پھر اس کو کھول کر پینے لگا


ریما کو محسوس ہو رہا تھا کہ دانیال اس کی شرٹ کو اوپر کر کے اس کے جسم کو بے لباس کر رہا ہے لیکن وہ اس کے جسم میں روکنے کی طاقت نہ تھی ریما بس زبان سےٹوٹے ہوئے لفظوں میں اتنا کہہ پارہی تھی "دانیال نہیں کرو پلیز، خدا کا واسطہ مجھے گھر چھوڑ دو پلیز جانے دو "


دانیال نے موبائل نکالا اور اس خوبصورت بے لباس ابھاروں سے لطف اُٹھاتے ہوئے کی ویڈیو بنانا سٹارٹ کردی۔


آخرکار دانیال نے اپنے اور ریما کے نیچے والے حصہ کو بے لباس کر کے ویڈیو بنانے لگا۔ پھر اُس پر جھکنے لگا اور اپنے جسم کو ریما کے جسم سے ملانے لگا۔۔۔۔


ریما کو انداذہ ہورہا تھا کہ دانیال اُسکی ندی کے آس پاس ہے اور اس کے بند کو کھولنے لگا ہے لیکن وہ روکنے کی حالت میں نہ تھی اُسکا جسم کانپ رہا تھا۔ اچانک اک ذرب سے اُسکی چیخ سی نکلی اسے خود میں کسی اور کو داخل ہونے کا اندازہ ہوگیا تھا اُسکی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اور وہ درد سے کراہنے لگی اُس کے منہ سے سیسکنے اور آہیں بھرنے کی آواز یں نکلنے لگی۔ دانیال اسکی سسکتی آواز کو سن کر اس کی کان کی لو کو کاٹتے ہوئے سرگوشی کرتے بولا " ریمااا بس اسی آواز کو تو ترس رہا تھا اب وہ اُس پر مکمل وزن ڈال چکا تھا ۔۔۔۔وہ اُسے اک جنگلی بھیڑیا کی طرح نوچنے لگا اور وہ اُس پر مسلسل زربوں کی برسات کرتا رہا۔ دانیال یہ جان گیا تھا کہ وہ پہلا مرد ہے جو اس کی نرم زمین پر حملہ آور ہوا ۔۔۔


دانیال اب کافی تھک چکا تھا اور دونوں کنڈو - مز کا استمال کر چکا تھا۔۔ وہ گاڑی کے باہر آیا اور سگریٹ پینے لگا اور ریما کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرنے لگا۔


ریما کا جسم ٹوٹ چکا تھا وہ جیسے جیسے ہوش میں آرہی تھی وہ درد کی شدت کا احساس کر رہی تھی ۔ وہ اپنے آپ کو بے لباس محسوس کرنے کے ساتھ ٹانگوں میں گیلا پن اور اندرون درد کا شدید احساس کرنے لگی وہ جلدی سے اُٹھی اور خود کو دیکھنے لگی خون کے چھیٹے اور لیس دار پانی کو دیکھ کر رونے اور چلانے لگی اور پھر جلدی سے بے لباس جسم کو چھپانے لگی پھر شرٹ کو ٹھیک کرنے اور ٹراوزر پہننے لگی ۔۔ 


دانیال اُسکی چیخوں کی آواز سن رہا تھا وہ خاموشی سے اگنور کیے سگریٹ کو ختم کرنے کے لیے کش لگاتا رہا۔۔ پھر اچانک آ کر ڑرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔  


ریما عبایا میں منہ چھپائے رو رہی تھی کہ دانیال تھوڑا سخت لہجے میں بولا " ریما ایسا کیا ہوا ہے؟ جو تم اتنااااااااا چلا رہی ہو؟؟؟۔۔۔ یار تم سے پیار کرتا ہوں اور بس ہو گیا۔۔ اور یہ ہونا ہی تھا۔۔۔


ریما اک دم بھڑک اُٹھی " بکواااس بند کرو!" ریما نے باہر کا نظارہ دیکھا لیکن وہاں کوئی نہ تھا ویران جگہ تھی ۔۔۔اس کا سر ابھی بھی بھاری تھا۔۔۔ وہ چلائی "خدا کے واسطہ مجھے گھر چھوڑوووو یا مجھے ابھی اور نوچنا ہے ؟؟؟؟" وہ آنکھیں بند کیے اپنی جسم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلائی اور چیخ چیخ کر رونے لگی لیکن وہاں کوئی نہ تھا ۔۔۔۔۔وہ دانیال کا چہرہ تک نہ دیکھ پا رہی تھی ۔۔  


دانیال خاموش ہو گیا اور گاڑی کو اُس روٹ کی طرف لے دیا جہاں سے ریما کو اُٹھایا تھا۔


جیسے گاڑی سٹارٹ ہوئی ریما عبایا پہننے لگی اور دوبارہ دوپٹے سے نقاب لگانے لگی۔ اُسکی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے ۔ اُس نے جلدی سے موبائل اُن کیا اور کرن کی دوست کو میسج کیا کے کرن سے کہو گھر آجائے میں گھر ہی آرہی ہوں۔۔۔ یہ کہہ کر اُس نے دوبارہ نمبر بند کر دیا۔ 


بلڈ ابھی بھی اُسکی رگوں سے آہستہ آہستہ بہہ کر اُسکے سفید ٹراوزر پرلگ رہا تھا۔ دانیال وِیو مرر سے ریما کی حالت کو دیکھ کر اب تھوڑا شرمندہ ہو رہا تھا اسے احساس ہو رہا تھا کے آج اس نے غلط کیا ۔ لیکن وہ خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا۔ اُسی جگہ پہنچ کر دانیال نے گاڑی سلو کرنے کے بعد روک دی اور پوچھا کہ آگے کس طرف جانا ہے لیکن ریما بن کچھ کہے اتری اور ڈور کو بند کرنے سے پہلے روتی ہوئی آواز میں بولی کہ "دانیال ۔۔۔ میں تم پر اعتبار کرکے آئی تھی لیکن آج جو تم نے میرے ساتھ کیا وہ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی ۔۔۔۔ اور اب میرا خدا تم سے اس کا حساب لے گا " وہ زور سے ڈور کو بند کیے چل دی۔۔ 


دانیال کو اس کی بات دل پر لگی وہ ایسے فورا سے روکنا اور منانا چاہ رہا تھا کہ اُس سے غلطی ہوئی ۔ لیکن وہ اب جا چکی تھی ۔ دانیال نے گاڑی کو لاک کیا اور پیچھے جانے لگا جیسے ہی ریما گھر میں داخل ہوئی دانیال دیکھتا رہا پھر دانیال مڑ کر واپس اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔۔ اک شاپ سے گولڈ لیو لی اور پی کر لمبے لمبے کش لینے لگا۔۔اور گاڑی میں بیٹھ گیا پیچھلی سیٹ کی طرف دیکھا اور بولا " میں نے اس کے ساتھ غلط کیا یار۔۔شیٹ۔۔۔۔" آہ۔ ۔۔۔۔۔پھر موڈ کو بدلنے کے لیے اُس نے موبائل نکالا اور ریما کی تصویر دیکھی اور آہ بھر کر بولا ۔۔۔۔ اتنی جوبصورت لڑکی کو کیسے نہ کام ڈالتا یار؟ ؟ اور وہ اتنا آچھی ہوتی تو آتی ؟؟۔ وہ مطمئن ہو کر مسکرایا اور پھر سے نصرت فتح علی خان کی اک غزل لگی اور ریما کو کال کرنے لگا لیکن نمبر ابھی بھی بند تھا پھر اپنے دونوں موبائل اور وائلٹ کو سائیڈ والی سیٹ پر رکھ کر اس نے ریس بڑھا دی۔۔۔ وہ ریما کو سوچ رہا تھا اور ایک ہاتھ سے اپنے خاص حصے کو پکڑ کر اُس پر فخر کر رہا تھا ۔۔۔


پھر ریما کو سوچتے ہوئے اُس نے ریما کے ساتھ بنائی ہوئی - ویڈیو چلا کر دینے لگا "کمال یار کیا سائز ہے۔۔۔ کیا چیز تھی مزا آگیا "۔ ۔۔۔ وہ ویڈیو میں کھو سا گیا کہ اچانک اس کی نظر سامنے کتے پر پڑی اُس نے فل زور سے بریک پر پاؤں رکھا لیکن سٹیرنگ ان بیلنس ہو گیا اور گاڑی قلابازیں کھاتی دوسری سائیڈ پر جا گری اور اک تیز رفتار ٹرک سے جا ٹکرائی۔ دانیال کا سر چکرا رہا تھا وہ ہل نہیں پارہا تھا گاڑی کا فرنٹ اندر کی طرف دھنس گیا جس کی وجہ سے دانیال کی ٹانگیں ہل نہ پا رہی تھیں گاڑی میں ہر طرف دھواں تھا۔ وہاں سے گزرتے مسافروں کا رش لگنے لگا لوگوں نے کوشش کر کے فرنٹ ڈور کھلا اور سیٹ بلٹ کو کھلنے لگے۔ 


 گاڑی کا دھواں کافی بڑھنے لگا لوگوں نے دانیال کو زور سے کھینچ کر گاڑی سے الگ کیا۔ ۔ اُسکے جسم سے خون جگہ جگہ سے نکل رہا تھا خاص کر ٹانگیں خون میں لدی ہوئیں تھی، ایئر بیگ اور سیٹ بیلٹ کی وجہ سے اس کے صرف چہرے اور سر پر ہلکی چوٹ نظر آئی۔ جیسے ہی دانیال کو گاڑی سے الگ کیا گاڑی میں آگ بھڑک اُٹھی جس میں اُس کا وائلٹ اور دونوں موبائل بھی موجود تھے۔


ریما خود کو کنڑول میں کرتے ہوئے گھر داخل ہوئی اور روم میں آگئی جہاں کرن پہلے سے انتظار میں تھی کرن نے جیسے میسج دیکھا تھا گھر آگئی تھی اور مما سے کہا کہ ریما مارکیٹ سے ہو کر آرہی ہے۔ 


ریما بغیر عبایا اتارے بستر پر اُلٹی گر گئی اور تکیے میں منہ دیے رونے لگی 


کرن نے کوئی وجہ فلحال پوچھنا مناسب نہ سمجھا بس وہ اتنا جانتی تھی کہ کچھ بہت غلط ہوا ہے۔ ریما پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی کرن مما کو دیکھنے لگی کہ وہ کہیں روم میں نہ آجائیں ویسے وہ اس وقت کچن میں تھیں اور بھابی بھی اپنے میکے گئی تھی کچھ دن سے۔۔۔ 


کچھ دیر رونے کے بعد وہ اُٹھی ، عبایا اُتارا اور واش روم چلی گئی۔ ۔


خشک خون بہنے لگا اسے جگہ جگہ درد ہو رہا تھا جب اُس نے خود کو واش روم کے مرر میں دیکھا تو اُس کی گردن اور اُبھاروں پر کاٹنے کے نشان تھے ۔ غسل کرنے کے بعد اس نے اپنے سفید ٹراوزر کو اک نظر دیکھا اس پر خون کے ہلکے سے نشان تھے۔۔۔ وہ سادہ شلوار قمیض پہنے باہر آگئی ۔۔


کرن جو اب تک خاموشی سے دیکھ رہی تھی پوچھ ہی لیا کہ کیا ہوا ہے؟


ریما نے جواب دیا "کیا ہونا تھا؟ اُسکو جو چاہئے تھا وہ لے گیا اور مجھے جو چاہئے تھا وہ مل گیا۔ ۔۔


کرن: لے گیا؟ مل گیا؟ مطلب 


ریما: اس نے میرے ساتھ سیک - س کیا۔ ۔۔۔ وہ بس میرا جسم لینے آیا تھا جو وہ لے گیا ۔۔۔۔۔


کرن (آہستہ آواز میں پوچھنے لگی) " اور تمہیں کیا ملا؟ ؟"


ریما: سبق،۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت۔۔۔۔۔۔۔ کہ آئیندہ اعتبار نہ کروں کسی پر۔۔۔۔۔۔۔ وہ خاموش ہوگی۔ ۔۔ اور پھر بولی " لیکن یار اب میرے پاس کچھ ہے ہی نہیں جس پر میں غرور کر سکوں گی" 


وہ پھر خاموش ہوئی اک آنسو بہا اور دانتوں میں ہونٹ بِچتے دوبارہ بولی۔۔


اس میں یا کسی میں اتنا دم نہیں تھا کہ تمہاری بہن کو حاصل کر سکے اس لیے اُس نے مجھے بےہوش کیا۔ ۔ وہ کرن کی طرف دیکھ کر بولتی لگی۔ ۔۔کرن خود اس کی بات سن کر حیران تھی اور پوچھنے لگی کہ وہ بے ہوش کیسے ہوئی۔


ریما موبائل کو فلحل آن ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اب دانیال سے رابطہ رکھے یا اُس کے کالز یا میسج دیکھے اسے خود سے نفرت ہو رہی تھی اب اُس نے ارادہ کر لیا کہ اب وہ ہر وہ اکاؤنٹ اور تعلق ختم کر دے گی جو دانیال سے وابستہ ہوا.


گاڑی کا فیول ٹینک پھٹنے سے آگ بھڑک اُٹھی تھی۔ آگ لگنے سے دانیال کا وائلٹ اور دونوں موبائل کے ساتھ اُس کی گاڑی بھی کافی حد جل گئی۔ موٹر وے پولیس بھی پہنچ گئی تھی ڈیمج کار کو اپنی کسٹیڈی میں لیا اور دانیال کو چیک کرنے لگے۔ 


دانیال کا کافی خون ضائع ہوچکا تھا اور وہ بے ہوش تھا۔ اس کے پاس کوئی موبائل وائلٹ کچھ نہ تھا کہ اس کے گھر والوں کو انفارم کیا جا سکے۔ کچھ دیر میں پولیس اور ریسکو والے بھی پہنچ گئے اور ایسے لاہور کے سرکاری ہسپتال میں لے گئے


دانیال کی حالت کافی سیریس ہو رہی تھی پولیس کے کہنے پر ڈاکٹرز نے آپریشن سٹارٹ کردیا ۔ دانیال کی ایک ٹانگ ایک بازو فریکچر ہونے کے علاوہ اُسے مثانے پر گہری چوٹ آئی تھی اور اس چوٹ کی وجہ سے مثانے میں بلڈ جما تھا جو نفس سے بہہ رہا تھا۔ مثانے کے لیے اک یورولوجسٹ کو بلا لیا گیا۔ یورولوجسٹ کو اندازہ ہو گیا کہ مثانے کی رگوں کے ساتھ پینس کی بھی کافی رگیں ڈیمج ہو چکی ہیں۔  


دانیال کا آپریشن ہوئے پانچ گھنٹے ہو چکے تھے ۔ اُسے آہستہ آہستہ ہوش آرہا تھا۔ نرس نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ " گھبراہیں نہیں لیٹے رہیں آپ ٹھیک ہیں" اور ایک بے ہوشی کا انجیکشن لگا دیا - دانیال جوغنودگی کی حالت میں ہلنے کی کوشش کر رہا تھا، انجیکشن لگنے کے بعد دوبارہ سے بےہوش ہوگیا۔


مغرب کی آزان ہونے لگی آج کافی دنوں کے بعد ریما نے وضو کیا اور نماز پڑھنے لگی، وہ توبہ کرنے لگی اُسے اپنی غلطی کا احساس تھا وہ رو رو کر اللہ سے معافی مانگنے لگی اور ساتھ دانیال کے برے انجام کی بد دعا کرنے لگی ۔۔۔۔ اُس نے ابھی تک موبائل آف کیے ہوئے تھی۔


رات سوتے وقت سارا منظر اُسکے سامنے آرہا تھا۔ اچانک وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی اور کچھ یاد کر کے خود سے بولی "اُسکے کنڈوم میں نے خود پھینکے تھے گاڑی سے ۔۔۔۔۔۔ پھر اُس نے دوبارہ یوز کیے تھے یا نہیں؟ کہیں میں پرگنینٹ ۔۔۔" یہ سوچ کر اُسکے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ ۔ "اب کیسے کروں؟ یا کروں " وہ پریشان ہونے لگی۔۔۔ اُسے اب پھر سے ڈر لگ رہا تھا کہ دانیال کی وجہ سے پریگنینٹ نہ ہوجائے۔۔ وہ اب سوچنے لگی۔۔۔۔۔


ریما نے موبائل ان کیا اور سیدھا دانیال کو کال کی لیکن اُسکا نمبر بند تھا اُس نے میسنجر بھی چیک کیا لیکن بند تھا۔ اُسے اب اور غصہ آنے لگا وہ اُٹھی اور اس غصے کو اپنے لمبے بالوں پر نکال دیا اور ان کو اوپر تک کٹ کر دیے۔


دانیال کو جب دوبارہ ہوش آنے لگا وہ اب اتنے ہوش میں تھا کہ بول پا رہا تھا اُس نے پانی مانگا ، نرس نے پانی پلایا اور ڈاکٹر کو بلانے چلی گئی ۔ دانیال نے اپنی حالت کو دیکھنے لگا۔ وہ بس اک جبہ میں تھا بغیر شلوار کے،اس نے دیکھا نفس پر اک بھاری پٹی ہے اور اک پیشاب کی ٹیوب لگی ہے اور اُسکا اک کندھا اور اک ٹانگ پوری (ران سے پاوُں تک) پلستر میں تھے۔دوسری ٹانگ پر بھی بینڈیج کی ہوئی تھی دوسرے ہاتھ میں اک ڈرپ لگی ہوئی تھی اُسے سر پر ہلکی پٹی کا احساس ہوا۔ وہ بس دعا کر رہا تھا کہ کوئی ذیادہ مسئلہ نہ ہوا ہو ۔ اتنے میں ایک پولیس والا اور ڈاکٹر روم میں آئے۔ ڈاکٹر معائنہ کرنے لگا اور ساتھ پوچھنے لگے، "بیٹا کیسی طبیعت ہے؟ ؟ زرا اپنے بارے میں بتاو؟ 


دانیال نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے ہے ۔ پھر نرس کو دیکھتے ہوئے بولا " میرا موبائل کہاں ہے مجھے ڈیڈ کو کال کرنی ہے وہ اب کافی پریشان تھا ۔تب پولیس والے نہ مزید کہا کہ آپ کی جیب سے کچھ نہیں ملا، اور آپ کی گاڑی مکمل طور پر جل چکی ہے ۔۔ اب آپ اپنے ابو کا نام اور نمبر بتا دیں تاکہ اُن کو آگاہ کر سکیں۔ ۔۔



جاری ہے

*

Post a Comment (0)