بے لباس محبت
قسط نمبر 6
فوزیہ اسد کو پانی پلانے کے بعد اپنے روم میں آ کر بیٹھ گئی اور ٹی وی دیکھنے لگی اچانک اُنہیں کرن کی چیخ سنائی دی وہ جلدی سے روم کی طرف گئی تو ایسے لگا جیسے کیسی نے ابھی لاک کیا ہو ۔۔ فوزیہ کو اک کھٹکا سا ہوا وہ فوراً اُس روم میں گئی جہاں اسد سونے لگا تھا لیکن وہاں اب کوئی نہ تھا۔ فوزیہ کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی وہ سمجھ گئی۔وہ کرن کے روم کے باہر آکر غور سے سننے لگی وہ کرن کی مزاحمت اوراسد کی درندگی سن رہی تھی۔ فوزیہ حیران و پریشان تھی کہ اب کرے تو کیا کرے وہ بس اب اسد کے نکلنے کا انتظار کرنے لگی۔
جیسے اسد روم سے باہر آیا اس نے اسے غصے سے دیکھا اور اپنے روم میں آنے کا اشارہ کیا۔ اسد فوزیہ کو دیکھ کر ڈر گیا۔ وہ عمر میں فوزیہ سے 2 سال بڑا تھا۔ لیکن جو اُس نے کیا تھا اس کی وجہ سے اب شرمسار تھا۔
روم میں آنے کے بعد فوزیہ رونے لگی اور کہنے لگی کہ آپ کیسے بھائی ہیں ؟؟؟؟ یہ آپ نے کیا کر دیا ؟ آپ کو عورت کی عزت کا اتنا خیال نہیں ؟ اگر یہ بات ریما، کاشف یا اسکے گھر والوں کو پتا چل گئی تو ہماری عزت رہے گی؟؟؟ کیا وہ مجھے اس گھر میں رہنے دیں گے؟؟؟ فوزیہ بولتی چلی گئی.. فوزیہ کی باتیں اسد کو دل پر لگ رہی تھیں اسے اک پل کو احساس ہوا کہ اس نے غلط کیا پھر کچھ پل خاموش ہونے کے بعد اُس نے اس بات سے مطمئن کیا کہ کرن اب اس کہ ساتھ راضی ہے وہ کچھ نہیں بتائے گی۔۔۔
کچھ وقت کے بعد اسد نے فوزیہ کو کرن کے پاس جانے کا کہا کہ وہ جا کر اس کی طبیعت پوچھے۔
کرن غسل کرنے کے بعد آئی اور ابھی ہوئے واقعے کے بارے میں سوچنے لگی کہ اچانک یہ سب کیسے ہوا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے اور اس کے ساتھ اچانک اتنا کچھ کیسے ہوگیا ہے؟؟۔۔۔وہ ابھی اسی سوچ میں تھی کہ فوزیہ روم میں آگئی اور کرن کی طبیعت کا پوچھنے لگی۔۔۔۔پھر یقین دلایا کہ وہ گھبرائے نہیں اسد نے اسے سب بتا دیا ہے اب اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔اس کی باتوں سے کرن کو تسلی ہونے لگی۔۔۔۔۔۔اور یوں آگے اسد اب فوزیہ کے روم میں کرن کو بلوا کرملنے لگا۔۔۔۔
کرن اب جب بھی ریما کو اسد سے بات کرتا دیکھتی یا اس کے قریب دیکھتی اُسے اُلجھن ہوتی وہ ریما سے اچانک چڑنے لگی۔۔۔ وہ اس بات کو برداشت نہیں کر پارہی تھی کہ اسد ریما سے اب شادی کرے اُس نے ٹھان لی کہ وہ اسد کو کسی حالت میں ریما کا نا ہونے دے گی۔۔
اگلی بار اسد جب کرن سے فوزیہ کے روم میں مل رہا تھا اس نے اسد کو ریما اور دانیال کے بارے میں سب بتا دیا اور یہ بھی کہ دانیال نے اس کے ساتھ سیک - س کیا۔ اسد کو کرن کی بات سن کر غصہ سا آیا وہ اس بات کو سن کر حیران رہ گیا کہ ریما تو اُس سے بے انتہا پیار کرتی تھی پھر یہ سب کیسے ہو گیا؟؟؟؟ لیکن کرن کی بات سن کر اُس نے جلد ہی ریما سے اس بات کو جاننے کا ارادہ کر لیا کیونکہ اس کے دل میں تھا کہ شاید کرن جھوٹ بول رہی ہو۔
ریما دانیال کو بھول تو نہ سکی لیکن اسد کے سامنے ہونے کی وجہ سے وہ اس کا اب نہ سوچتی ریما نے کئی بار اس بات کا ارادہ کیا کہ وہ اسد کو دانیال کے بارے میں بتا دے لیکن ہر بار اس بات سے ڈر جاتی کہ نا جانے اسد کا کیا ری اکشن ہو؟ کہیں وہ اسے چھوڑ نہ دے.
شادی کو تقریبا 2 ہفتے رہتے تھے اسد نے ریما کو کال کی اور باتوں ہی باتوں میں پوچھا " ریما ایک بات بتاو۔۔ جھوٹ نہ بولنا، کیا تمہاری لائف میں میرے علاوہ کوئی اور آیا ہے "؟؟؟
ریما کی دل کی دھڑکن تیز سی ہونے لگی۔ وہ خاموشی سے جواب سوچنے لگی۔۔۔ "تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں " اسد نے تھوڑا سنجیدہ اور سخت انداز میں پوچھا۔۔۔
ریما: ہممممم۔ ۔۔ جی (آہستہ آواز میں بولا)۔۔ ۔۔۔۔ پھر کہنے لگی "میں آپ کو بتانا چاہتی تھی لیکن ڈر تھا"۔ ۔
اسد: کون تھا؟؟؟؟ اور کیا تم ملی بھی تھی؟ ؟ اسد اُسکی بات کو پورا ہونے سے پہلے ہی پوچھنے لگا۔
ریما نے ساری بات بتانا شروع کردی جو جو اس کے ساتھ ہوا جو اسد پہلے ہی کرن سے سن چکا تھا۔ ریما کے بتانے کے دوران ہی اسد غصے میں آگیا اور اُسے خاموش ہونے کا کہا۔۔۔ پھر اُس نے کال کٹ کر کے ریما کو بلاک کر دیا۔
ریما کا دل گھبرا رہا تھا وہ بار بار اسد کا نمبر ملا رہی تھی اور میسج کر رہی تھی اسے ڈر تھا کہ کہیں اسد اب رشتہ نہ توڑ دے۔
ادھر اسد کی نظروں میں ریما گر گئی۔۔۔وہ ریما کے بارے میں اب بُرا سوچنے لگا اُسے یہ تو پتہ چل چکا تھا کہ کوئی ریما کے جسم کو پی چکا ہے ، آخر اسد نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ ریما سے کبھی شادی نہیں کرے گا۔ اُس نے سوچ لیا کہ وہ اب کسی اور سے شادی کرے گا ۔ اس نے اپنے گھر والوں سے بات کی۔ اسد کے گھر والے اچانک اُس کی اِس بات کو بچپنا سمجھے اور اسد کو سمجھانے لگے کہ اب کیسے وہ ریما کا انکار کریں ، جبکہ شادی کو چند دن رہ گئے ہیں؟؟؟اسد کے ابو نے سختی سے منع کیا کہ وہ اب ریما کے علاوہ کسی کا نہ سوچے ورنہ اُن سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔ ۔۔
لیکن اسد ایسی لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا جو اسی اور کو اکیلے میں مل چکی ہو۔ اسد کے پاس فلحال کوئی حل نہ تھا۔ اُس شام اسد جب فوزیہ کے نمبر پر کرن سے بات کر کے کرن کو سارا حال دے رہا تھا تو کرن نے موقعہ اچھا سمجھا اور بول دیا "اسد تم مجھ سے شادی کرلو؟؟ ویسے بھی ہم دونوں ایک دوسرے کو پیار کرتے ہیں؟؟" ۔۔ اسد کرن کی بات سن کر خاموش ہو گیا اور بات گھما دی اور پھر کال کٹ کر کے سوچنے لگا کہ وہ کرن سے پیار تو نہیں کرتا، پر کرن میں کوئی کمی نہیں اور اس کی زندگی میں ہے بھی وہ پہلا شخص۔۔۔ آخرکار اس نے سوچ لیا کہ وہ کرن سے شادی کرے گا وہ بھی گھر والوں کو بتائے بغیر کیونکہ اب آٹھ دن شادی کو رہ گئے تھے اور وہ جانتا تھا کہ اب اس کے گھر والے کبھی نہیں مانے گے۔۔۔
اسد نے اک پلان بنایا اور اگلی شام فوزیہ کو فون کر کے کرن سے بات کی ۔۔ اس نے کرن سے اب خود پوچھا کے کیا وہ شادی کرنا چاہتی ہے؟ کرن تو ویسے ہی پہلے تیار تھی فورا ہاں ملا دی۔۔ پھر اسد نےکرن کو اگلی صبح ملنے کو کہا۔۔
فوزیہ کو اسد کے اس پلان کا پتہ نا تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ اسد کرن سے ٹائم پاس کر رہا ہے شادی وہ ریما کہ ساتھ کرے گا۔۔
اگلی صبح کرن مارکیٹ سے کچھ لینے کے بہانے سے گھر سے باہر چلی گئی۔ اور اسد کے بتائے ہوئے پتہ پر پہنچ گئی جہاں اسد پہلے سے اک نکاح خواں اور ایک دو دوستوں کے ہمراہ تھا۔ کچھ دیر کے بعد نکاح خواں نے دونوں کی رضامندی جاننے کے بعد نکاح پڑھوا دیا اب کرن اسد کے نکاح میں تھی وہ کرن کو لیے اپنے گھر چلا گیا۔ کرن کافی ڈر رہی تھی لیکن وہ جانتی تھی کہ اب اگر وہ کہیں انکار کرتی ہے تو اسد اسے نہیں ملے گا اور اب یہ سب اسد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری تھا۔
اسد جب کرن کو گھر لے کر گیا تو اُس کے ابو امی اس کی بات سن کر سکتہ میں آگئے۔ اُن کو اس بات کا زرا علم نہ تھا کہ اسد اس حد تک چلا جائے گا اور اب اُن کو اس بات کی فکر ہونے لگی کہ اس گھر میں بھی اُن کی بیٹی ہے۔ اسد کے ابو نے اسد کو جب خوب ڈانٹا تو اسد نے کھل کر ریما سے شادی نہ کرنے کی وجہ بتا دی ،جس پر اس کے ابو خاموش ہوگئے اور بولے کہ پہلے وہ سب کچھ بتاتا تو ایسے قدم اُٹھانے کی نوبت نہ۔ آتی۔۔۔۔۔۔پھر کرن کو فلحال گھر جانے کا کہا اور خاموش رہنے کا کہا کہ کسی کو نہ بتائے۔۔۔۔ کرن فوراً واپس گھر پہنچ گئی۔۔۔۔
اسد کے ابو (جو ریما کے ابو کے سگے اور لیکن چھوٹے بھائی تھے) نے ریما کے ابو کو کال کر کے واپسی گھر آنے کا پوچھا۔۔۔
رات کے کھانے کے دوران ریما نے نوٹ کیا کہ آج اسد کے ساتھ ساتھ چچا اور چچی بھی اُسے اگنور کر رہے ہیں۔ کھانے کے بعد ریما کے ابو نے اسد اور اس کے گھر والوں کو روم میں آنے کو کہا۔۔ ریما کو کچھ ٹھیک نہ لگ رہا تھا اُس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں کرنے لگی کہ "یا اللہ سب ٹھیک ہو بس اک بار اسد معاف کردے وہ کبھی ایسا نہیں کرے گی"۔۔
اسد کے ابو پہلے تو حال چال پوچھتے رہے پھر وہ بھابھی (ریما کی ماں) کی طرف مخاطب ہوئے اور بولے بھابھی یہ دانیال کون ہے؟؟؟؟ ریما کی مما کو سمجھ نہ آیا اور سوالیہ انداز میں پوچھا کہ کون دانیال؟ وہ پھر بولے " جس سے ریما کی دوستی تھی" ۔۔ یہ سن کر ریما کی مما کی آنکھیں کھولی رہ گئیں جبکہ ریما کے ابو سخت لہجے میں بولے "اختر بات کھل کے کرو کیا بات ہے"۔۔۔۔۔
اسد کے ابو زرا رکے پھر بولے "بات صرف اتنا ہے اسد اب ریما سے شادی نہیں کرسکتا۔ کیونکہ آپ کی بیٹی کا کسی دانیال نامی لڑکے کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں یہ سب اُس نے خود اسد کو بتایا ہے۔ اتنے میں اسد بولا " انکل آپ خود ریما سے پوچھ لیں اور ثبوت کے لیے میرے پاس اُس کی کال ریکارڈنگ بھی ہے جس میں اُس نے سب بتایا"۔۔۔
ریما کے ابو نے تیز دھڑکتے دل کے ساتھ سخت لہجے میں ریما کو آواز دی، ریما آواز سنتے ہی سہم گئی کہ آج کچھ گڑبڑ ہے۔ وہ کرن کے ساتھ لیے مما پاپا کے روم میں آئی اور مما کے ساتھ بیٹھ گئی۔ ریما کے ابو نے جھکی نظروں کے ساتھ پوچھا ریما" کیا تم اپنے باپ کی عزت اُچھال چکی ہو؟" ریما کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے وہ رحم کی نظر سے اسد کو دیکھنے لگی۔۔ ریما کے ابو نے پھر پوچھا کہ تم سے کچھ پوچھا ہے۔۔۔۔ ۔۔
ریما نے آنکھیں بند کی اور ہاں میں سر ہلا دیا ، ریما کی مما نے ایک زور دار تھپڑ ریما کو مارا لیکن اس تھپڑ کے درد کا احساس اُس درد سے بہت کم تھا جو اسد کی وجہ سے اُس کے دل میں تھا۔ وہ اُٹھی اور بابا کے قدموں میں گر پڑی، اور بتایا کہ بابا اس لڑکے نے مجھے بےہوش کر دیا تھا اور رونے لگی کہ اُس سے یہ پہلی اور آخری غلطی ہوئی وہ پھر کبھی ایسا نہیں کرے گی جس سے ان کی عزت پر آنچ آئے بس اس بار معاف کردیں۔ وہ اسد اور چچا چچی سے بھی ہاتھ جوڑ کر منتیں اور معافی مانگنے لگی۔ ۔ لیکن ایسا لگ رہا تھا وہاں سب پتھر ہیں۔۔ اب وہاں فوزیہ بھی آگئی تھی وہ بھی خاموشی سے سب سننے لگی۔ ۔
کچھ وقت کے بعد ریما کے ابو نے ریما کو دیکھا اور پھر خود ہی اختر سے کہنے لگے " اگر آپ نے رشتہ ختم کرنا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر آپ لوگ میری بیٹی کو اک موقع اور دیتے ہو تو میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ اب وہ ایسا نہیں کرے گی۔"۔۔۔۔ اسد کے ابو نے اک نظر اسد کو دیکھا اور آہستہ آواز میں بولے "بھائی جان ہم خود رشتہ ختم کرنے نہیں آئے ، اور باقی دن ہی کتنا رہ گئے ہیں۔ لیکن۔۔۔۔۔۔" وہ خاموش ہوگئے۔۔۔ ریما رشتہ نہ ٹوٹنے کی بات سن کر شکر ادا کرنے لگی کہ بس وہ اسد کے قدموں میں پڑی رہے گی صرف یہ برا وقت آج ٹل جائے۔۔۔۔۔
ریما کی مما بولیں "لیکن کیا بھائی صاحب ؟؟"
"لیکن یہ کہ اب اسد ریما سے نہیں کرن سے شادی کرے گا"۔۔۔ یہ بات سن کر ریما کا دل پھٹنے سا لگا وہ حیرت سے سب کے چہروں کو دیکھنے لگی ،خود ریما کے ابو اور مما کے ساتھ فوزیہ بھی سن کر حیرت میں پڑھ گئی وہ خود نہیں جانتی تھی کہ ایسا بھی ہوگا۔ ۔۔۔۔
ریما کی مما کرن کو دیکھتے ہوئے بولیں " خدا کا خوف کریں وہ ابھی بچی ہے اور پڑھ رہی ہے ہم نے خود اُس کی شادی کا فلحال نہیں سوچا اور آپ"۔۔۔۔ پھر ریما کے ابو بولے " اختر ! تمہارے بیٹے نے رضا مندی سے ریما سے شادی کرنی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ رشتہ یہیں ختم کر دو ۔۔ بس"۔۔۔۔۔۔
"میں کرن سے نکاح کر چکا ہوں "اسد جو کچھ دیر سے خاموش بیٹھا تھا بول اُٹھا۔ یہ سننا تھا ریما کے ساتھ اس کے مما پاپا کے پاوں کے نیچے سے زمین نکل گئی، ریما کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے وہ بس اتنا چاہ رہی تھی کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اُس میں دفن ہوجائے۔۔۔ فوزیہ حیرات زدو تھی اُسے اسد کی یہ حرکت حیران کن لگی اُسے ریما کی حالت پر ترس آرہا تھا اُسے احساس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ خود بھی اس کی جرم دار ہے۔۔۔
ریما کے ابو غصہ میں اٹھے اور اسد کو زور سے اک تھپڑ مارا اور جھنجھوڑ کر بولا کہ کیا کہا تو نے؟ ؟؟ ؟؟ وہ خاموش رہا اور کانپتی آواز میں بولا " جی انکل یہ سچ ہے کرن سے پوچھ لیں ۔۔۔۔ کرن بھی مجھے پسند کرتی تھی اور آپ لوگ منع نہ کرو اس لیے یہ قدم اُٹھایا۔۔"
ریما کے ابو نے اک نظر کرن کو دیکھا جو سر جھکائے جرم کا اعتراف کر رہی تھی اور خود پیچھے صوفہ پر واپس بیٹھ گئے۔۔۔۔ ان کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان کی دونوں بیٹیوں نے آج کیسا دن دیکھا دیا اُسے کی عزت کا زرا خیال نہ کیا۔۔۔ اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔ ریما کی مما خود روتی آنکھوں کے ساتھ آئیں اور ریما کے ابو کے آنسو صاف کرنے لگیں۔۔۔۔۔۔
کافی دیر گزرنے کے بعد ریما کے ابو نے اختر کی بات کی حامی بھرتے ہوئے فیصلہ سنادیا کہ اب اُسی دن ریما کے بدلے کرن کی بارات جائے گی۔۔۔ لیکن اس کے بعد کرن یا اسد سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب کے جانے کے بعد ریما کے ابو نے کرن اور ریما کو اپنے روم میں روک لیا اور کچھ دیر خاموشی کے بعد بہتے آنسوں کو صاف کرتے ہوئے بولے "بیٹیاں جس گھر میں ہوتی ہے اس گھر میں رحمت ہوتی ہیں کیونکہ وہ ۔۔۔۔وہ ماں باپ کا غرور ہوتی ہیں۔۔۔ میں جب بھی گھر آتا تھا ۔۔۔صرف تم دونوں کو دیکھتا تھا تو تھکن دور ہوجاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ بیٹا گھر نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن بیٹی اگر اک پل کو آنکھوں سے اُوجھل ہو تو دل بیٹھ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹا ! ہم نہیں جانتے کہ ہماری پرورش میں کہاں کمی رہی کس چیز کی کمی رہی جو تم دونوں نے ایسا غلط راستہ اختیار کیا۔ ۔۔"۔وہ خاموش ہو گئے۔۔
دونوں کے چہروں کو اک نظر دیکھنے کے بعد سخت لہجے میں بولے "جو کرنا تھا تم دونوں نے کر دیا۔ ۔ آج کے بعد میں تم دونوں کی شکل نہیں دیکھوں گا۔ ۔۔ اب جاو اپنے کمروں میں اور تم (کرن) شادی کی تیاری کرو۔ ۔اب دیکھتا ہوں کہ کیسے اس گھر میں واپس قدم رکھتی ہو۔ ۔"
ریما بس ذندہ لاش کی طرح واپس روم میں آئی اور بیڈ پر گر پڑی۔۔ اس کے سر میں شدید درد ہو رہا تھا ۔۔ وہ آنکھیں بند کیے اپنی بدقسمتی پر آنسو بہانے لگی اور ناجانے کب اُس کی آنکھ لگ گئی۔
کرن کو اپنے کیے پر بہت شرمندہ تھی اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس نے ریما کے ساتھ بہت غلط کیا اسے ان دونوں کے درمیان نہیں آنا چاہئے تھا۔۔ وہ سب ٹھیک کرنا چاہتی تھی لیکن وہ جانتی تھی کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہ نکاح کر چکی تھی۔۔۔
فجر کی نماز کے بعد ریما رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگی اور توبہ کرنے لگی ۔۔۔ اتنے میں اس نے دیکھا کرن اس کے پاوں پکڑے ہوئے تھی اور معافی مانگ رہی تھی۔ ۔ ریما نے اُسے اُٹھایا اور اپنے پاس بیٹھایا اور پیار کرتے ہوئے بولی " کرن یہ سب نصیب کی بات ہے اسد میرے نصیب میں نہ تھا یا شاید میں اسد کے نصیب میں نہ تھی۔۔۔۔ سچ پوچھو تو مجھے خوشی ہے وہ انسان میرا نہیں ہوا جو مجھ پر اعتبار ہی نہیں کر سکا۔۔۔ میں تمہارے لئے خوش ہوں بس دعا ہے کہ الله تمہارے نصیب آچھے کرے۔ ۔"
تین دن بعد کرن کی شادی ہوگئی۔ سب مہمان حیران تھے کہ شادی ریما کی تھی بارات کرن کی۔۔۔ لوگ جان بوجھ کر ریما سے اور اس کے گھر والوں سے پوچھتے رہے تعنے دیتے رہے اور کہانیاں کستے رہے۔ ۔۔
کچھ دنوں میں کرن کا پاسپورٹ بن گیا اور وہ تینوں ( اسد، کرن اور فوزیہ) باہر چلے گئے۔
جاری ہے