Ek Bhai aur char Behnen - Last Episode

ایک بھائی اور چار بہنیں

آخری قسط


ثمر ین : مجھ سے ایک بار کہا تو ہوتا بھائی . میں تو سمجھ رہی تھی آپ میری اِِس بے حجابی پہ ناراض ہوں گے . آپ ہم پہ کتنا حق رکھتے ہیں ، کیا آپ کا دِل نہیں جانتا ؟ آپ نے صرف میرے ہاتھ ہٹانے کا سوچا کیوں ؟ خود بڑھ کے ہٹا کیوں نہیں دیئے ؟ 

امبرین : یار اب تو مجھے تم پہ رشک آنے لگا ہے . بھائی مجھ پہ تو کبھی کبھی ہی نظر جماتے ہیں ، زیادہ تو تمہیں ہی دیکھ رہے ہیں پِھر مجھ سے مخاطب ہو کر بھائی میں بھی یہیں پہ ہوں . اور میں نے خود کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی

میں : مگر گڑیا . مجھے واقعی شرمندگی ہو رہی ہے کہ میں اپنی چاہت کو بے غرض نا رکھ سکا . اِِس میں لذت نفس شامل ہو گئی ہے

امبرین : تو کیا ہو گیا بھائی ؟ آپ خود کو مرد نہیں سمجھتے یا ہمیں جوان اور خوبصورت نہیں سمجھتے ؟ ایسی چیز دیکھ کے کسی بھی مرد کا دِل للچا سکتا ہے . آپ خوامخواہ شرمندہ ہو رہے ہیں چلیں اندر چلتے ہیں.  وہاں آپ جی بھر کے ہمیں دیکھیے گا بلکہ  چاہیں تو ہنی مون بھی منا سکتے ہیں

ثمر ین : امبرین کو کہنی مرتے ہوئے  شرم کرو . کیا کہہ رہی ہو. بھائی کا جو دِل چاھے کریں مگر ہمیں اپنی شرم اپنی حیا رخصت نہیں کرنی چاہئیے . یہی عورت کا حسن ہوتی ہے . امبرین نے اس کی بات پہ مصنوعی شرمندگی ظاہر کرتے ہوئے ہونٹوں پہ شریر سی مسکراہٹ سجائے مجھے سوری کہا تو میں اس کی اِِس حرکت پہ مسکرا دیا

ثمر ین : بھائی اندر چلیں ؟ ثمر ین کے کہنے پہ میں چُپ چاپ دونوں کے ساتھ اندر چلا آیا اور پِھر ان کے کمرے میں آ کے میں نے خود ہی دروازہ لوک کر دیا . اب میں پورے حق سے کبھی ثمر ین اور کبھی امبرین کے بوبز کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا شروعات کیسے کروں . اتنے میں امبرین کو ہی کچھ سوجھا

 امبرین : چلیں بھائی باتھْ روم میں چلتے ہیں

امبرین کی اِِس بات پہ میں گڑبڑا سا گیا . دونوں کے ساتھ باتھْ روم میں بند ہونے کا مطلب میں اچھی طرح سمجھ رہا تھا . یعنی وہ میرے سامنے بے لباس ہونے کی بات کر رہی تھی . اور مجھے بھی بے لباس کرنا چاہتی تھی . ثمر ین کی خاموشی اور جواب طلب نظریں بھی یہی کہہ رہی تھیں . گویا دونوں کو میرے سامنے بے لباس ہونے اور مجھے بے لباس دیکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا . ایسا کھلا ڈلا سیکس اور وہ بھی دو بہنوں سے ایک ساتھ میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا ، کرنا تو دور کی بات . مگر اب مجھے اِِس کی آفر ہو رہی تھی اور میں چاہ کے بھی انکار نہیں کر پا رہا تھا . انکار کرنا چاہتا بھی تھا مگر کوئی اندر سے میری زُبان پکڑ لیتا تھا اور چُپ چاپ ان دونوں کی بات مان لینے پہ اکسا رہا تھا . مجھے پتا ہی نہیں چلا کب میرے قدم باتھ روم کی طرف اٹھ گئے . باتھْ روم میں پہنچ کے سب سے پہلے امبرین نے اپنے کپڑے اتُارے تو میری نظریں اس کے ننگے بدن پہ جم کے رہ گئیں پِھر اس نے خود ہی مجھے ساکت دیکھ کے میرے کپڑے اتار دیئے. اتنی دیر میں ثمرین بھی بے لباس ہو چکی تھی اور اب میری نظریں کبھی امبرین اور کبھی ثمر ین کے ننگے وجود پہ جمی جا رہی تھیں . آخر امبرین نے ہی پہل کی اور آگے بڑھ کے میری گردن میں بانہیں ڈال دیں. اور اس کی اِِس پیار بھری حرکت پہ جیسے میرے بے جان وجود میں جان آگئی . میں نے اسے اپنی بانہوں میں یوں جکڑ لیا جیسے اپنے وجود میں سما لینا چاہتا ہوں اور پِھر اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے لگا دیئے . مگر یہ کیا ؟ اس کے ہونٹوں پہ ہونٹ رکھتے ہی مجھے ایک عجیب سا کرنٹ لگا تھا . کرنٹ بھی ایسا جو بدن کو دور نہیں جھٹکت ابلکہ خود سے چمٹا لیتا ہے . میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا . میرے ہونٹ اس كے ہونٹوں سے اِِس طرح چپک گئے تھے کہ میں چاہ کے بھی انہیں اس کے ہونٹوں سے جدا نہیں کر پا رہا تھا . پِھر میں نے خود کو حالات کے دھارے پہ چھوڑ دیا اور پوری چاہت سے اس كے ہونٹوں کو چومنے اور چوسنے لگا

مجھے اِِس کام میں اتنی لذت کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی آج محسوس ہو رہی تھی . گرد و پیش کا مجھے کچھ ہوش نہیں رہا تھا . خود اپنا وجود بھی جیسے کہیں کھو سا گیا تھا . بس ہونٹ ہی باقی تھے جو امبرین کے ہونٹوں سے چپکے ہوئے تھے . نا جانے کتنی ہی دیر میں اس کے ہونٹ چومتا رہا ، مجھے کچھ پتا نہیں . میرے ہاتھ اس کی کمر پہ بڑی بیتابی سے گردش کر رہے تھے ، جن کی حرکت کا اندازہ مجھے تب ہوا جب میرے ہاتھ حرکت کرتے ہوئے اچانک اس کے بوبز پہ پھنچے اور پِھر اچانک ہی میرے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے الگ ہونے کے لیے جیسے آزاد ہو گئے اور میں اس کے بوبز پہ ٹوٹ پڑا . میں نے اس کے بوبز کو باری باری اتنا چُوما ، چاٹا اور چوسا کہ اس کو دونوں بوبز سرخ پڑ گئے . اب میرے صبر کی حد ختم ہو گئی تھی . نیچے سے میرا لن کھڑا ہو گیا تھا اور اپنے لیے پھُدی مانگ رہا تھا جو اسے اپنے اندر دبوچ لے . میں نے جلدی سے امبرین کو چھوڑ کے ارد گرد نگاہ دوڑائی تو ثمر ین پاس ہی تیل کی بوتل لیے کھڑی نظر آئی . میں نے جلدی سے بوتل اس كے ہاتھ سے لی اور تھوڑا سا تیل لے کر اپنے لن پہ ملا اور پِھر کچھ تیل امبرین کی پھُدی میں بھی انگلی سے لگایا . اب گویا میں امبرین کی پھُدی لینے کے لیے بالکل تیار تھا مگر سوال یہ تھا کہ یہاں کیسے کروں؟

آخر امبرین نے ہی اِس کا حَل سوچا اور واش بیسن کی سائڈ کو دونوں ھاتھوں سے تھا م کے جھک گئی۔ اور اس کے اِِس طرح جھکنے سے اس کی پھُدی قدرے باہر کو نکل آئی . میں جلدی سے آگے بڑھا اور اس کی پھُدی پہ اپنا لن ایڈجسٹ کرنے لگا . تھوڑی سی کوشش کرنی پڑی ، کچھ جھکنے کے لیے ٹانگوں کو تھوڑا سا پھیلانا بھی پڑا مگر لن پھُدی کے سوراخ تک پہنچ گیا . اور اس وقت میں نا جانے کیوں اتنا بے رحم ہو گیا کہ میں نے بنا کچھ سوچے سمجھے پہلا ہی جھٹکا اتنا زوردار لگایا کہ لن اس کی پھُدی کی سیل توڑتا ہوا تین چوتھائی اس کی پھُدی کے اندر چلا گیا . امبرین کے منہ سے بے اختیار گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی . شاید وہ اپنی آواز دبانے کی انتہائی کوشش کر رہی تھی . مگر مجھے اِِس وقت کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا . عجیب وحشت سی سَر پہ سوار تھی . میں نے پِھر زور لگایا اور پوُرا لن اندر پہنچا دیا . اور اب میں اسے کیا کہوں ، اتفاق یا قدرت، یہی اس کی پھُدی کی آخری حد تھی . میرا لن اس کی پھُدی کی جڑ تک پہنچ گیا گیا تھا اور اب ذرا سا بھی باہر نہیں رہا تھا۔

 امبرین کی ایک دو ہلکی سی چیخیں پِھر نکلیں جنہیں سن کے مجھے کچھ ہوش بھی آیا اور میں شرمندہ سا بھی ہوا . پِھر میں نے اس پہ مزید ظلم کرنا مناسب نہیں سمجھا اور بہت دھیرے دھیرے لن کو اندر باہر کرنے لگا . اِِس دوران ثمرین نزدیک آ كے میرے جسم سے لگ کے کھڑی ہو گئی تھی اور اس کا جسم جیسے مجھے چیخ چیخ کے بلا رہا تھا کہ آؤ مجھے اپنی بانہوں میں لے لو . میں نے اس کے جسم کی پکُار فورا سن لی اور اسے اپنی بانہوں میں جکڑ کے کس کرنے لگا. نیچے سے امبرین کی پھُدی میں میرا لن برابر اندر باہر ہو رہا تھا اور اوپر میں ثمر ین کو کس بھی کیے جا رہا تھا . یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے . پہلی بار مجھے پتا چلا تھا کہ دو لڑکیوں سے ایک ساتھ سیکس کرنے کا کیا مزہ ہوتا ہے . ہر لڑکی کا جسم دوسری سے جدا اور الگ ہی مزہ لیے ہوئے ہوتا ہے . یہی مزہ مجھے اِِس وقت ثمر ین کے جسم سے مل رہا تھا . اس کے ہونٹ مجھے اتنے رسیلے محسوس ہو رہے تھے جیسے ان سے شہد ٹپک رہا ہو جو قطرہ قطرہ میرے وجود میں منتقل ہو رہا ہو . میں نے ان ہونٹوں کو اتنا چوسا کہ خود اپنے جبڑے دکھنے لگے . تھک کے میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے الگ کیے تو وہ بھی جیسے نشے کی سی کیفیت میں مبتلا نظر آئی . مخمور سی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور پِھر لڑکھڑا کر اور بھی میری بانہوں میں سمٹ آئی.  بے اختیار میرا دِل چاہا کہ اب میں امبرین کو چھوڑ کے ثمر ین کو چودنا شروع کر دوں . اور عین اسی وقت مجھے اپنے لن پہ کچھ گرم گرم سا گرتا ہوا محسوس ہوا جو یقینا امبرین کا کم تھا . وہ ریلیز ہو گئی تھی اور یہ آئیڈیل موقع تھا اس کی پھُدی سے اپنا لن نکال لینے کا . میں نے اپنا لن اس کی پھُدی سے کھینچ کے باہر نکالا اور پِھر ثمر ین کو اشارہ کیا تو وہ امبرین کو ہٹا کے اسی کے اندازِ میں واش بیسن کو پکڑ کے جھک کر کھڑی ہو گئی۔

 میں نے اس کی پھُدی کے اندر بھی انگلی سے تھوڑا سا تیل لگایا اور اپنے لن کو بھی تیل سے تھوڑا اور چکنا کیا اور پِھر ذراسا جھک کے اپنا لن اس کی پھُدی کے سوراخ پہ ایڈجسٹ کر کے ایک ہلکے سے جھٹکے سے اندر پشُ کر دیا . اِِس بار میں نے جنونی پن کا مظاہرہ نہیں کیا تھا اِِس لیے ثمر ین کسی خاص تکلیف سے محفوظ رہی۔ بس ہلکی سی کراہ اس کے منہ سے نکلی اور پِھر خاموشی . میں نے لن کو ذرا زور سے آگے دھکیلا تو ایک چوتھائی لن اس کی پھُدی میں چلا گیا . ثمر ین کے منہ سے ایک بار پِھر ہلکی سی آہ . . . کی آواز نکلی . مگر کسی خاص تکلیف میں نہیں لگی وہ مجھے . میں نے حوصلہ کر كے تھوڑا سا لن پیچھے کیا اور ایک زوردار جھٹکا مارا تو میرا لن اس کی پھُدی کی سیل توڑ کے پوُرا کا پوُرا اندر چلا گیا اور اس کی پھُدی کی آخری حد سے جا ٹکرایا . ثمر ین کے منہ سے قدرے بلند آواز میں 3 ، 4 بار کراہنے کی آواز نکلی . آہ آہ. .  . . آہ . آہ اور پِھر اس نے اپنی آواز دبا لی . میں وہیں رک کے اِِس عجیب اتفاق پہ مسکرانے لگا . ثمر ین کی پھُدی میں بھی میرا لن بالکل فٹ آیا تھا . یعنی میری چاروں بہنوں کی پھدیاں شاید بنی ہی میرے لیے تھیں . ایک دم میرے لن کی لمبائی کے آئیں مطابق . پرفیکٹ فٹ اِس دوران امبرین پِھر میرے قریب آ کھڑی ہوئی تو میں نے اسے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا اور نیچے سے ثمر ین کو ہلکے ہلکے سے جھٹکے لگاتے ہوئے لن اس کی پھُدی کے اندر باہر کرنے لگا . اس کے منہ سے ہلکی ہلکی کراہنے کی آوازیں تو نکل رہی تھیں مگر ان آوازوں سے تکلیف سے زیادہ لذت کا احساس ہو رہا تھا . کافی دیر تک میں ثمر ین کی پھُدی میں اپنا لن دھیرے دھیرے ، ہلکے ہلکے جھٹکوں سے اندر باہر کرتا رہا . پِھر میں نے اپنی رفتار بڑھا دی اور ساتھ ہی مجھے اپنے پی سی مسلز بھی ٹائیٹ کرنے پڑے . اب مزے کی انتہا ہو چکی تھی اور کسی بھی لمحے میں اپنی پیک پہ پہنچ کے ریلیز ہو سکتا تھا . اِِس لیے کوئی رسک نا لیتے ہوئے میں نے پہلے ہی کنٹرول کر لیا .جھٹکوں کی رفتار میں نے بڑھا دی تھی تو ثمر ین کے کراہنے میں بھی مزید تیزی آ گئی تھی . اس کی آوازیں پہلے تو ہلکی ہلکی تھیں پِھر تھوڑی سی بلند ہوئی اور پِھر اچانک دھیمی پڑ کے سسکیاں سی بن کے رہ گئیں . کچھ ہی دیر بَعْد اس کے وجود کو ایک دو جھٹکے لگے اور وہ ریلیز ہو گئی . میرے لن پہ اس کی کم گری اور مجھے اندر سے سرشار کر گئی کہ میں نے آج اپنی سب بہنوں کی تشنہ آرزوئیں تکمیل کو پہنچا دی تھیں . ساتھ ہی مجھے بھی جو لذت ملی تھی اس کا بیان الفاظ کی حدود سے باہر ہے . میں نے لن ثمرین کی پھُدی سے باہر نکالا تو ثمر ین سیدھی ہو کے مجھ سے لپٹ کے رونے لگی۔

ثمر ین : بہت بہت شکریہ بھائی . آپ نے ہمیں اپنا کر ہماری بھی اوقات بڑھا دی . ورنہ ہم تو آج تک خود کو بے مصرف ہی سمجھ رہی تھیں . ہمارے بے مقصد وجود پہلے کسی کام کے نہیں تھے . مگر آپ نے اتنے پیار سے ، اتنی شدت سے ہمیں یہ جسمانی لذت دی کہ ہمیں بھی اپنے اہم ہونے کا احساس ہونے لگا۔

امبرین : منہ بناتے ہوئے  تمہیں پیار سے کیا ہو گا . مجھ پہ تو وحشی جانور کی طرح ٹوٹ پڑے تھے . ہائے اب تک دَرْد ہو رہا ہے . امبرین نے ہاتھ سے اپنی پھُدی کو چھوا تو میں ایک بار پِھر شرمندہ ہونے لگا۔

میں : سوری یار . پتا نہیں کیا ہو گیا تھا مجھے . شاید جانور ہی بن گیا تھا . کچھ ہوش ہی نہیں رہا تھا یہ سب کرتے ہوئے . تمہاری چیخیں سن کے کچھ ہوش آیا مگر جو ھونا تھا وہ ہو چکا تھا۔

امبرین : جوش میں آ کے مجھ سے لپٹتے ہوئے ہائے سچ ؟ پِھر تو مجھے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہئیے کہ آپ کو میں اتنی اچھی لگی کہ میرے حسن کے جلووں نے آپ کو سدھ بدھ بھلا دی . ہائے کتنی خوش قسمت ہوں میں۔

اس کی اِِس بات پہ میں اور ثمر ین بھی مسکرا دیے . اتنی دیر کھڑے کھڑے سیکس کرتے ہوئے ہم تھک چکے تھے . ثمر ین کے کہنے پہ ہم کمرے میں آ گئے اور ننگے ہی پلنگ پہ لیٹ گئے . پِھر میں نے ایک بار پِھر امبرین اور اس کے بَعْد ثمر ین کے ساتھ سیکس کیا اور نیند آنے پہ ہم تینوں ننگے ہی ایک دوسرے سے لپٹ کے سو گئے . صبح چار بجے ثمر ین نے ہم دونوں کو جگایا اور ہم تینوں ایک ساتھ ہی باتھْ روم میں نہانے لگے . وہاں مجھ سے صبر نہیں ہوا اور شاور کے نیچے ایک بار پِھر میں نے دونوں کو باری باری چودا اور نہا کر ہم باہر نکل آئے۔

صبر تو مجھ سے ابھی بھی نہیں ہو رہا تھا مگر اب نا صرف میں بلکہ وہ دونوں بھی 3 ، 3 بار ایک ہی رات میں ریلیز ہو چکی تھیں . اب اِِس سے زیادہ سیکس کرنا ہم تینوں کے لیے کمزوری کا باعث ہو سکتا تھا. خیر یہ ہماری لذت بھری محبت کی شروعات تھی . اِس کے بَعْد میں نے چاروں بہنوں کے لیے دن مخصوص کر دیئے . مہرین آپی کے لیے منڈے ، نورین آپی کے لیے ویڈنیس ڈے اور امبرین اور ثمر ین کے لیے 2 دن یعنی فرائیڈے اور سیچر ڈے . سنڈے ، ٹیوز ڈے اور تھرسڈے میں نے جان بوجھ کے فری رکھے تھے کیونکہ ہفتے کے ساتوں دن سیکس کرنا صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا . خیر ہماری یہ محبت ، لذت کے ساتھ آج بھی جاری ہے اور ہمیں آج بھی اتنا ہی مزہ آتا ہے۔ 



THE END





*

Post a Comment (0)