Ek Bhai aur char Behnen - Episode 15

ایک بھائی اور چار بہنیں

قسط 15



میں : اوہو . . . میں تو بھول ہی گیا تھا . چلو تمہارے نرم و نازک بدن کا یہ فائدہ تو ہوا کہ موبائل ٹوٹنے سے بچ گیا .

ثمر ین : اب نکال بھی لیں بھائی . . .

امبرین : شش . . . . گندی گندی باتیں نا کرو . کوئی سن لے گا تو کیا کہے گا ؟

ثمر ین : ( اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ کے ) ہاں . . . یہ میں کیا کہہ گئی . .

میں : ( اس کی بات پہ ہنستے ہوئے ) اگر تمہیں اتنا ہی تنگ کر رہا ہے تو نکال لیتا ہوں .

یہ کہہ کے میں نے ثمر ین کو اٹھنے کا اشارہ کیا اور جیب میں ہاتھ ڈال کے موبائل نکال لیا . مگر جب رکھنے کے لیے سائڈ ٹیبل کی طرف جھکا تو امبرین میرے نیچے دب كے رہ گئی . میں جلدی سے سیدھا ہوا تو ثمر ین میری گھبراہٹ دیکھ کے ہنس رہی تھی . جب کہ امبرین بھی معنی خیز انداز میں مسکرا رہی تھی .

امبرین : مزہ آ گیا بھائی . ایک بار اور کریں ؟

میں : نہیں . ابھی موڈ نہیں بن رہا .

امبرین : میں خود آپ کے اوپر آ جاؤں ؟

میں : دیکھو میں دونوں کے ساتھ انصاف کرنا چاہتا ہوں . تم ایسا کرو گی تو ثمر ین کے ساتھ ذیادتی ہو جائے گی .

ثمر ین : ایک ذیادتی تو کر دی آپ نے . اِس کے اوپر لیٹ گئے . مجھے بھول گئے .

میں : غلطی ہو گئی یار . تم چاہو تو . . .

ثمر ین : چلیں معاف کیا . ابھی رہنے دیں .

امبرین : نہیں بھائی . یہ واقعی ذیادتی ہے میری بہن کے ساتھ . آپ کو اِس کا بھی کچو مر نکا لنا ہو گا .

میں : مطلب تمہارا کچو مر نکل گیا تھا ؟

امبرین : نہیں . . . . بچت ہو گئی . دراصل میں نرم و نازک ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑی لچکدار بھی ہوں .

میں : تم جو بھی ہو بڑی چیز ہو .

امبرین : آدا ب عرض ہے .

میں : ( دوبارہ ثمر ین کی طرف بازو پھیلا کر ) اب اِرادَہ بَدَل گیا کیا ؟ تم دونوں نے تو مجھ سے چپک کے سونا تھا .

ثمر ین : شکر ہے آپ کو یاد ہے . میں سمجھی شاید سارے مزے امبرین سے ہی لینے ہیں .

میں : یار اب غصہ جانے بھی دو . اگر تمہارا دِل کر رہا ہے تو میں تمہارا بھی کچو مر بنا دیتا ہوں .

ثمر ین ہنستے ہوئے دوبارہ میرے کندھے پہ سَر رکھ کے مجھ سے چپک کے لیٹ گئی .

امبرین : بھائی سچ بتائیں . آپ کو ذرا بھی مزہ نہیں آیا ؟

میں : یار غلطی ہو گئی مجھ سے جو تم سے جھجک محسوس نہیں کر سکا . آئندہ نہیں کروں گا . اِس بار معاف کر دو .

امبرین : بھائی کہیں آپ سچ مچ تو خود کو ہم جیسا محسوس نہیں کرنے لگے ہیں ؟

میں : یہ مذاق نہیں ہے گڑیا . واقعی مجھے تم دونوں اپنے جیسی ، بلکہ اپنے وجود کا حصہ ہی لگتی ہو . جیسے تم دونوں مجھ سے ہر طرح کی بات بنا جھجکے کر لیتی ہو ، ویسے ہی مجھے بھی تم دونوں سے کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی .

ثمر ین : اب یہ جذباتی باتیں ختم ہوں گی یا نہیں ؟ بور ہو گئی ہوں میں .

میں : بس ٹھیک ہے اب باتیں ختم . چُپ چاپ سو جاؤ .

امبرین : آپ کو بہت جلدی ہے ہمیں سلانے کی ؟ کیا ارادے ہیں ؟

میں : پہلے سو تو جاؤ . پِھر دیکھی جائے گی .

ثمر ین : ایسی خودکار نیند نہیں ہے ہماری کہ آپ نے کہا اور ہمیں نیند آ گئی .

میں : تو میں کیا لوری سناؤں ؟

امبرین : نہیں . بس پیار سے بانہوں میں لیے باتیں کرتے رہیں . کبھی تو نیند آئے گی .

میں : اتنا لمبا پروگرام مت بناؤ یار . ہمت کر کے اب سو ہی جاؤ .

ثمر ین : سو جاؤ یار . بھائی کا کچھ کرنے کو دِل کر رہا ہو گا . دِل خوش کر دو بچے کا .

میں : بچہ تم دونوں کو بانہوں میں لے کے بھی خوش ہے . مزید خوشی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی . اب چُپ چاپ سو جاؤ

امبرین : جو کرنا ہے کر لیں نا . ہمارے سونے کا انتظار کیوں کر رہے ہیں ؟ ہم نے کونسا آپ کو روکنا ہے .

میں : تم دونوں سونے کے موڈ میں نہیں لگ رہی ہو . مگر مجھے تو نیند آ رہی ہے . میں سونے لگا ہوں .

یہ کہتے ہوئے میں نے گہری سانس سینے سے خارج کرتے ہوئے آنکھیں موند لیں . سچی بات ہے ، ان دونوں کو بانہوں میں لے كے اتنا سکون مل رہا تھا کہ نیند خود بخود ہی آئے جا رہی تھی . بس یوں لگ رہا تھا جیسے سمندر میں ڈوبنے سے بچنے کے لیے میں نے اپنے کسی جگری دوست کا سہارا لیتے ہوئے خود کو مکمل طور پہ اس کے حوالے کر دیا ہو . اور اِس کیفیت میں جو سکون محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا دوست ہمیں بچا لے گا تو اس پہ اِس اندھے اعتماد سے جو سکون ملتا ہے ، اس سکون کی کیفیت میں خود ہی آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں . اِس وقت میری بھی یہی کیفیت ہو رہی تھی . پتا نہیں کب میں نیند کی آغوش میں پہنچ کے اپنے دائیں بائیں موجود آفتوں سے بے خبر سو گیا .

اگلی صبح میری آنکھ کھلی تو امبرین تو میرے پہلو میں موجود سوئی ہوئی تھی مگر ثمر ین نہیں تھی . اور مجھے اپنے پاؤں

پہ کسی کے ہاتھوں کی گرفت کے ساتھ ساتھ کچھ نمی بھی محسوس ہو رہی تھی . میں گھبرا کے اٹھ بیٹھا اور دیکھا تو وہ ثمرین تھی جو میرے پاؤں اپنے ہاتھوں سے پکڑے پتا نہیں کب سے رو رہی تھی .

میں : ( اس کے ہاتھ تھام کے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے ) کیا ہوا گڑیا ؟ رو کیوں رہی ہو ؟ کیا مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ؟

ثمر ین : نہیں بھائی . اور شرمندہ مت کریں . آپ نے کچھ نہیں کیا . مگر میں ساری رات آپ کے کچھ کرنے کی منتظر رہی . مجھے لگتا تھا شاید آپ ساری رات خود پہ ضبط نہیں کر پائیں گے . جوان خوبصورت لڑکی کا جِسَم خود سے اتنے نزدیک محسوس کر کے کوئی مرد خود پہ ضبط نہیں کر پاتا . میں آپ کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھی . اِس لیے ساری رات اتنی چوکس رہی کہ اگر آپ کی انگلی بھی ہلتی تو میں اٹھ جاتی اور پِھر خود آپ کو اپنا آپ پیش کر دیتی . مگر آپ تو یوں بے خبر سوئے رہے جیسے آپ کے پہلو میں دو حَسِین لڑکیاں نہیں ، محض تکیے رکھے ہوں جن کی موجودگی سے آپ کو کوئی فرق ہی نا پڑتا ہو . میں نے آپ کو غلط سمجھا بھائی . مجھے آپ پہ اعتبار کرنا چاہیے تھا . آپ کے وعدے پہ یقین کرنا چاہیے تھا کہ آپ ہماری رضامندی کے بغیر ہمیں ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے . پِھر میں نے کیوں ایسا سوچا ؟ میں بہت بری ہوں بھائی . مجھے معاف کر دیں .

میں : ( حیران ہو کر ) تم ساری رات نہیں سوئی گڑیا ؟ میرے لیے ؟

میرے سوال پہ ثمر ین زُبان سے کچھ نا کہہ سکی . بس اپنا جھکا ہوا سَر اثبات میں ہلا دیا تو میں نے جذباتی سا ہو کے اسے

اپنی طرف کھینچا اور گلے لگا لیا . اس کی محبت پہ میری آنکھیں بھر آئیں تھیں .

میں : تمہاری اِس محبت نے تو مجھے بھی رلا دیا گڑیا . میں اتنا چاھے جانے کے قابل کہاں ہوں ؟

ثمر ین : بھائی آپ نے معاف کر دیا نا ؟

میں : معافی تو مجھے تم سے مانگنی چاہیے گڑیا . میری محبت میں ، میرے لیے تم ساری رات جاگتی رہیں اور میں . . .

ثمر ین : نہیں بھائی . ایسا مت کہیں . آپ کے لیے تو میں ساری عمر جاگ سکتی ہوں .

میں : مجھے اتنا مت چاہو گڑیا . میں اتنا چاھے جانے کے قابل نہیں ہوں .

ثمر ین : آپ کتنا چاھے جانے کے قابل ہیں ، یہ میرا دِل جانتا ہے بھائی . آج سے ثمر ین آپ کی ہوئی بھائی . یہ کہتے ہوئے ثمر ین نے اپنے ہونٹ میرے ماتھے پہ رکھ دیئے اور اسی لمحے امبرین بھی پیچھے سے مجھ سے لپٹ گئی . پتا نہیں وہ کب اٹھ گئی تھی اور شاید اس نے ہماری باتیں بھی سن لی تھیں .

امبرین : ( جذباتی انداز اور آنسوؤں سے بھیگی آواز میں ) اپنے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے مجھے کیوں نظر انداز کر جاتی ہو ثمر ین ؟ کیا امبرین ، ثمر ین سے کبھی الگ ہو سکتی ہے ؟

ثمر ین : یار تم کچھ دیر اور نہیں سو سکتی تھیں ؟ تھوڑی دیر تو مزہ لینے دیا ہوتا .

امبرین : ابھی بھی سوئی رہتی ؟ سارے مزے تم اکیلے ہی لوٹنے کا پروگرام بنائے بیٹھی تھیں ؟

ثمر ین : اچھا لو یار . میں چھوڑ دیتی ہوں . تم لے لو جتنے مزے لینے ہیں .

امبرین : ( مصنوعی شرم سے سَر جھکاتے ہوئے ) نہیں یار . تمہارے سامنے شرم آتی ہے .

میں : یار تم دونوں کو مجھ سے شرم کیوں نہیں آتی ؟

ثمر ین : ارے بھلا اپنے آپ سے کیسی شرم ؟ آپ اب ہم سے الگ تھوڑی ہیں ؟

امبرین : ہاں بالکل . اور اِس پہ ایک شعر عرض ہے

رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی

سدو مینو سدو رانجھا ، ہیر نا آکھے کوئی

( رانجھا رانجھا کرتی میں خود ہی رانجھا ہو گئی . اب ہر کوئی مجھے رانجھا ہی پکارے . کوئی ہیر نا کہے )

میں : یار یہ تمہارا شاعری کا ذوق کسی دن میرے دماغ کی لسی کر دے گا . اتنے مشکل شعر تمھیں یاد بھی کیسے ہوتے ہیں ؟

امبرین : تعلیم نے ایک ہی تو شوق دیا ہے . اب اسے تو برا نا کہیں .

ثمر ین : اچھا اب شاعری کی افادیت پہ لیکچر دینا نا شروع کر دینا . ناشتے کا وقت ہو رہا ہے اور ابھی کپڑے بھی

بدلنے ہیں . ورنہ وہ دونوں جوان حسینائیں ہم بچیوں کو بھی بلوغت کا سرٹیفیکیٹ دے دیں گی . چلو اٹھو . وہ دونوں اٹھ کے کپڑے تبدیل کرنے باتْھ روم چلی گئیں تو میں اٹھ کے کمرے سے باہر نکل آیا . اپنے کمرے میں آ کے میں نے شاور لیا اور کپڑے تبدیل کر کے باہر نکلا تو مہرین آپی بھی اپنے کمرے سے نکل رہی تھیں . مجھے دیکھ کے وہ وہیں رک گئیں . کل دوپہر سے جو وہ اپنے کمرے میں بند ہوئی تھیں تو اب ان کی صورت نظر آئیں تھی . رات کا كھانا بھی انہوں نے اپنے کمرے میں ہی کھایا تھا . اور اب بھی شاید سب کا سامنا کرنے کا موڈ نہیں تھا بلکہ شاید مجھ سے تازہ ترین حالات و خیالات ( ان کے متعلق ) کی رپورٹ لینا چاہ رہی تھیں .

آپی : سنی . . . ان دونوں نے کچھ کہا تو نہیں ؟ میرا مطلب . . . میرے چیخنے کی آوازیں سن کے ان کا رد عمل کیا تھا ؟

آپی کی فکرمندی کا سبب میں سمجھ رہا تھا . امبرین اور ثمر ین نے ان کے چیخنے کی آوازیں سن لی تھیں اور اِس بات کا آپی کو بھی پتا چل گیا تھا . اسی لیے وہ فکرمند تھیں کہ پتا نہیں ان کا رد عمل کیا ہو .

میں : آپ خوامخواہ فکرمند ہو رہی ہیں . اُنہیں کچھ پتا نہیں چلا تھا . بس وہ آپ کے چیخنے سے پریشان تھیں .

آپی : تم سے پوچھا تو ہو گا نا انہوں نے ؟ تم نے کیا بتایا ؟

اِس سوال کا جواب ظاہر ہے میں فوراً نہیں دے سکتا تھا جب تک ان دونوں سے بات نا کر لیتا . مگر اتفاق ایسا ہوا کہ اسی

وقت وہ دونوں بھی اپنے کمرے سے نکلتی دکھائی دیں . آپی کا رخ میری طرف تھا اِس لیے وہ تو نا دیکھ پائیں مگر میں

اُنہیں دیکھ چکا تھا اور وہ بھی مجھے آپی کے ساتھ دیکھ کے رک گئی تھیں ورنہ شاید بے تکلفی سے میرا ہاتھ پکڑ کے کھانے

کے کمرے میں لے جاتیں . اب میں آپی کو جو بھی جواب دیتا ، ان دونوں کے بھی علم میں ہوتا اور وہ اسی حساب سے آپی سے ڈیل کر سکتی تھیں .

میں : میں نے اُنہیں بتایا تھا کہ آپ کی کمر میں بل پڑ گیا ہے . میں آپ کی کمر پہ مالش کر رہا تھا اور اسی وجہ سے آپ کی چیخیں نکل رہی تھیں .

آپی : اور انہوں نے یقین کر لیا ؟ کچھ پوچھا نہیں ؟

میں : کیسے یقین نہیں کرتی آپی ؟ بہت چاہتی ہیں مجھے . میری ہر بات پہ آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتی ہیں .

میں نے آپی کو یقین دہانی کراتے ہوئے تیکھی نظروں سے ان دونوں کی طرف دیکھا ، وہ دونوں منہ پہ ہاتھ رکھے اپنی ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھیں . شاید میرے جھوٹ ہضم نہیں ہو رہے تھے .

آپی : شکر ہے . ورنہ میں تو پریشان ہی ہو گئی تھی .

میں : چلیں اب آپ کی فکر دور ہو گئی . آئیں ناشتہ کرتے ہیں .

آپی : نہیں سنی . . . ابھی نہیں . میں نے رات بھی طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنایا تھا . امی میری طبیعت پوچھنے آئیں تو

انہیں بتا دیا تھا . انہوں نے کچھ نہیں کہا . بس تسلّی دے کے چلی گئیں .

میں : اچھا ٹھیک ہے . آپ آرام کریں . میں آپ کا ناشتہ کمرے میں بھجوا دوں گا .

یہ کہتے ہوئے میں نے ایک بار پِھر ان دونوں کی طرف دیکھا تو وہ اب وہاں نہیں تھیں . کھانے کے کمرے کے دروازے پہ پہنچ چکی تھیں . میں ان کی سمجھ داری پہ مسکرا دیا اور آپی کو ان کے کمرے میں جانے کا کہہ کے خود بھی ناشتہ کرنے کے لیے کھانے کے کمرے میں پہنچ گیا . ناشتے کے بَعْد امی کے کہنےپہ میں ابو کے ساتھ اپنی زمینوں پہ چلا گیا . ہماری زمینیں بہت وسیع رقبے پہ پھیلی ہوئی تھیں اور ان میں مختلف موسمی فصلیں اپنی بہار دکھا رہی تھیں . مختلف باغات بھی تھے جن میں موسمی پھل لگے ہوئے تھے . میں کافی دیر تک وہاں مصروف رہا اور زمینوں اور باغات کے معاملات سمجھتا رہا . پِھر کچھ تھکن ہو گئی تو وہیں ابو کے بنائے ہوئےڈیرے پہ ایک کمرے میں کچھ دیر آرام کر کے اکیلا ہی واپس چل پڑا . واپسی میں موسم بہت خوشگوار ہو گیا تھا . بادلوں نے آسمان کو ڈھک لیا تھا اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا بھی بدن کو گدگدا رہی تھی . اور ابھی میں اپنی حویلی سے کچھ دور ہی تھا کہ موسلادھار بارش شروع ہو گئی اور میں پوری طرح بھیگ گیا . میں بھیگتا بھاگتا حویلی کے اندر پہنچا تو ایک اور دلکش منظر نے میری توجہ کھینچ لی اور پِھر میں نظر وہاں سے ہٹا نا سکا .

امبرین اور ثمر ین سبز ریشمی کپڑے پہنے صحن میں بارش میں نہا رہی تھیں . دونوں نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں

اور بانہیں پھیلائے گول گھوم رہی تھیں . قمیض کے نیچے سے دونوں نے ہی کچھ نہیں پہنا ہوا تھا ( برا بھی نہیں ) . اور دونوں کے بدن کی قیامت خیزی پہلی بار مجھ پہ عیاں ہو رہی تھی . میں جنہیں اب تک بچیاں سمجھ کے نظر اندازِ کرتا رہا تھا ، ان کے جوان جِسَم اتنے دلکش تھے کہ مجھے ان سے نظر ہٹانا مشکل ہو رہا تھا اور قدم بے اختیار ان دونوں کی طرف بڑھتے جا رہے تھے . ہوش تو تب آیا جب بے اِخْتِیاری میں ثمر ین سے ٹکرا گیا . اور وہ بھی اِس طرح کہ اس کے بارش کے پانی میں بھیگے بوبز میرے سینے سے چپک کے میرے اندر ہلچل مچا گئے .

امبرین اِس ٹکراؤ پہ کھلکھلا کے ہنس رہی تھی جب کہ ثمر ین فوراً مجھ سے الگ ہو کر اپنی بانہوں سے اپنا سینہ چھپانے

کی کوشش میں سمٹی جا رہی تھی . شرم سے اس کی نظریں زمین میں گڑی جا رہی تھیں اور اس کی یہ ادا میرے دِل کی دھڑکنوں کو اٹھا پتھل کیے دے رہی تھی .

ثمر ین : ( نظریں جھکائے اپنی بے حجابی کی وضاحت دیتے ہوئے ) بھائی معاف کر دیں . ہمیں پتا نہیں تھا آپ جلدی آ جائیں گے . میں نے کہا بھی تھا امبرین سے مگر اِس نے کہا ابھی کونسا کوئی گھر آنے والا ہے . . کوئی فرق نہیں پڑتا .

امبرین : (( میری نظریں اپنے اور ثمر ین کے بوبز پہ جمی نظروں کو محسوس کر کے ) یار تم خوامخواہ ڈر رہی ہو . مجھے تو لگتا ہے بچے کا کچھ موڈ بن رہا ہے . ثمر ین نے بھی اس کی بات سن کے نظر اٹھائی تو میری نظریں اپنے بوبز پہ گڑی دیکھ کے پِھر سے شرما کے نظریں جھکا گئی . مجھے بھی شرمندگی سی ہوئی کہ جن چھوٹی بہنوں کو میں کل تک بچی سمجھتا رہا تھا ، دوستی اور بےغرض محبت کے دعوے کرتا تھا ، اور محبت بھی ہوس سے پاک آج انہی بہنوں کے جِسَم سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا . خود پہ لعنت کرتے ہوئے میں نے بڑی مشکل سے اپنی نظریں ہٹائیں اور سَر جھکائے شرمندہ سا کھڑا رہ گیا .

میں : میں اپنی اِس حرکت پہ شرمندہ ہوں گڑیا . کل تک تو بےغرض محبت کے دعوے کرتا تھا ، اور آج . . . مجھے معاف کر دو . پتا نہیں تم دونوں کے بھیگے بدن دیکھ کے مجھے کیا ہو گیا تھا .

امبرین : بھائی آپ شرمندہ کیوں ہو رہے ہیں ؟ جب ہم دونوں نے خود کو دِل سے آپ کے نام کر دیا تو آپ جیسے چاہیں دیکھیں ، جو چاہیں ہمارے ساتھ کریں ، اپنی چیز کو حق سے دیکھا جاتا ہے . دیکھ کے نظریں نہیں جھکائی جاتیں

میں : نہیں گڑیا . میں پہلی بار اتنا بے اختیار ہوا ہوں کہ مجھے اپنی اِس حرکت کا خود پتا نہیں چلا . یقین کرو میں دروازے سے یہاں تک کب پہنچا ، مجھے کچھ پتا نہیں . یہاں ثمر ین سے ٹکرایا تو دِل میں خواہش ابھری کہ کاش یہ کبھی مجھ سے الگ ہی نا ہو . پِھر اِس نے شرما کے خود کو چھپانے کی کوشش کی تو میں کسی ایسے بھوکے بچے کی طرح اندر سے تڑپ کے رہ گیا جس کی من پسند کھانے کی چیز اس کے سامنے سے ہٹا لی گئی ہو . ایک طرف مجھے ایک دلکش نظارہ دِل کھول کے دیکھنے کو مل رہا تھا ، مگر دوسری طرف اسی کا عکس مجھ سے چھپایا جا رہا تھا ، اور میرا دِل چاہتا تھا کہ میں زبردستی اِس کے بازو ہٹا دوں اور پِھر جی بھر کے دونوں کو دیکھوں . میری شرمندگی سے ڈوبی آواز میں یہ وضاحت سن کے ثمر ین نے اپنے بازو سینے سے ہٹا کے نیچے کر لیے اور پِھر سے میرے نزدیک آ گئی تو میں نظروں میں الجھن لیے اس کی طرف دیکھنے لگا . دِل چاہتا تھا ابھی دونوں کے بوبز پہ ٹوٹ پڑوں ، باری باری دونوں کے ہونٹوں کو اتنا چوموں کہ اپنے ہونٹ ان ہونٹوں کے بغیر ادھورے محسوس ہونے لگیں . بڑی مشکل سے میں اپنی نظروں کو پِھر سے ثمر ین کے بوبز پہ جم جانے سے روک کے اس کے چہرے پہ نظر ٹکا سکا.





جاری ہے

*

Post a Comment (0)