ایک بھائی اور چار بہنیں
قسط 14
میں : ( ان کی نظروں سے گھبرا کر ) دیکھو گڑیا . . . وہ بات نہیں ہے جو تم دونوں سمجھ رہی ہو . میں نے آپی سے زبردستی نہیں کی . آپی کے چیخنے کی وجہ یہ نہیں تھی .
ثمر ین : آپ اندر آئیں . بیٹھ کے سکون سے بات کرتے ہیں .
ثمر ین نے مجھے کمرے كے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور خود رستہ دینے کے لیے سائڈ پہ ہو گئی تو میں چُپ چاپ کمرے میں داخل ہو گیا . پیچھے پیچھے وہ دونوں بھی اندر آ گئیں .
امبرین : پہلے تو اپنی گھبراہٹ دور کر لیں بھائی . ہمیں آپ پہ کوئی شک نا تھا ، نا ہے اور نا کبھی ہو گا . آپ پہ ہمیں خود سے زیادہ اعتبار ہے . آپی کے چیخنے کی آوازیں سن کے ہمارا گھبرا جانا فطری ہے . مگر اِس کی وجہ ہم آپ کو نہیں سمجھ رہیں . بلکہ ہمیں تو اِس کی وجہ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی . اسی لیے تو گھبرائی ہوئی سی دروازے میں کھڑی تھیں کہ کب دروازہ کھلے اور آپی کی خیریت پتا چلے .
میں : ( اطمینان کی سانس لیتے ہوئے ) وہ ٹھیک ہیں . ان کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں . . . . مگر میں بتا نہیں سکتا کہ ان کے چیخنے کی وجہ نہیں بتا سکتا . اتنا بے شرم نہیں ہوں میں .
ثمر ین : امبرین ! آپی کے چیخنے کی آوازیں پہلے بہت ہلکی تھیں ، پِھر آہستہ آہستہ بلند ہوتی گئیں . غور کرو تو یہ چیخیں نہیں ، شاید کراہنے کی آوازیں تھیں . شاید وہ . . . . .
اس کے بات ادھوری چھوڑنے کے باوجود مفہوم پوری طرح واضح ہو رہا تھا . امبرین کی جھکتی ہوئی گھبرائی سی نظروں سے بھی یہی پتا چل رہا تھا کہ وہ ثمر ین کی بات کا مفہوم بخوبی سمجھ گئی ہے . اور کیوں نا سمجھتی . . . آخر دونوں ایک دوسری کا سایہ تھیں .
میں : تم دونوں کے علاوہ کسی اور نے تو . . . .
ثمر ین : نہیں بھائی . اور کوئی آس پاس موجود نہیں تھا . نورین آپی بھی اپنے کمرے میں نہیں ہیں . امی جان کے ساتھ صحن میں بیٹھی ہیں . شاید اکیلے میں دِل گھبرا رہا ہو گا یا پِھر . . . .
میں : اچھا اب الٹی سیدھی سوچوں کو دماغ میں جگہ نا دو . اگر ایسی بات ہے بھی تو ہمیں اِس پہ غور نہیں کرنا چاہیے .
امبرین : بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں ثمر ین . اگر ایسا ہے بھی تو یہ فطری کمزوریاں ہیں جنہیں نظر انداز کر دینا چاہیے خوامخواہ دِل میں بات رکھنا مناسب نہیں ہے .
میں : مجھ سے تو ناراض نہیں ہو نا تم دونوں ؟ ؟ ؟
ثمر ین : کیسی بات کرتے ہیں بھائی ؟ آپ سے کیسی ناراضگی ؟ آپ تو اتنے اچھے ہیں کہ ما ر بھی ڈالیں گے تو دِل میں کوئی شکوہ نہیں آئے گا .
میں : اچھا اب مکھن مت لگاؤ . اتنا بھی اچھا نہیں ہوں .
امبرین : نہیں بھائی . آپ واقعی بہت اچھے ہیں . اتنے اچھے کہ بس ہر بات پہ پیار آ جائے .
میں : ( جذباتی ہو کر ) تم دونوں بھی مجھے جان سے زیادہ عزیز ہو . تم دونوں کی ناراضگی کے تصور سے ہی جان نکلنے لگتی ہے . خدا کے لیے کبھی مجھ سے ناراض مت ہونا . یہ میری برداشت سے باہر ہے .
ثمر ین : اتنا جذباتی ہونے کی کیا ضرورت ہے بھائی ؟ ہمیں پتا ہے آپ ہمیں کتنا چاہتے ہیں . اور ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ اِس چاہت میں لذت نفس کی ملاوٹ نہیں ہے . آپ کی چاہت بے غرض ہے . اور ہمیں اِس کا یقین ہے .
میں : بنا کسی آزمائش کے تمہیں ایسا یقین کیسے ہے گڑیا ؟
ثمر ین : آزمائش کی ویسے ضرورت تو نہیں ہے . مگر آپ خود کو آزمانا ہی چاہتے ہیں تو آج رات ہم دونوں سرخ ریشمی لباس میں آپ سے لپٹ کے سوئیں گی . ہمارے سونے کے بعد آپ اگر خود پہ قابو رکھ پائے تو ہمارا یقین سچا ہے . اور اگر آپ بہک گئے . . . تو ہمیں اپنے حسن کی قیامت خیزی پہ یقین آ جائے گا . اِس بہانے ہماری بھی سہاگ رات ہو جائے گی .
میں : ( ہنستے ہوئے ) یعنی دونوں صورتوں میں تم نے اپنا ہی فائدہ سوچ رکھا ہے ؟
امبرین : اب یہ تو آپ کی برداشت پہ ہے نا . آج ہی رات سہاگ رات منانا چاہتے ہیں یا ہمیشہ کے لیے ہمیں اپنا بنا لینا چاہتے ہیں .
میں : ( الجھن محسوس کرتے ہوئے ) کیا مطلب ؟
ثمر ین : مطلب یہ کہ اگر آپ اِس آزمائش سے سرخ رُو ہو گئے تو ہم دونوں ہمیشہ کے لیے دِل سے آپ کی ہو جائیں گی میں : مجھے ایسے لالچ دینے کی ضرورت نہیں گڑیا . میں جانتا ہوں کہ اگر ابھی بھی میں ایک اشارہ کر دوں تو تم دونوں مجھے اتنا چاہتی ہو کہ صرف میری خوشی کے لیے ابھی اپنے کپڑے اُتار دو گی . مگر یہ میری چاہت کی توہین ہو گی . میں خود کو تمہاری چاہت کے اہل ثابت کرنے کے لیے اِس امتحان سے گزرنے کے لیے تیار ہوں .
ثمر ین : یہ ہوئی نا مردوں والی بات . ویسے ہماری چاہت پہ اتنا یقین رکھنے کا شکریہ . ہم واقعی آپ کو اتنا ہی چاہتی ہیں کہ آپ کی خوشی کے لیے کچھ بھی کر گزریں گی .
امبرین : اچھا اب یہ بور باتیں بند کریں . چلیں باہر صحن میں چل کے بیٹھتے ہیں . امی جان کے پاس اِس وقت بڑی مزیدار قسِم کی خواتین بیٹھی ہوتی ہیں .
میں : ( ہنستے ہوئے ) مزیدار خواتین ؟ یار مزیدار تو لڑکیاں ہوتی ہیں . خواتین کیسے مزیدار ہو سکتی ہیں .
ثمر ین : اب آپ ہر بات کو اپنے مطلب کے مطابق تو نا لیا کریں . اِس کے کہنے کا مطلب ہے کہ ان کی باتیں بڑی مزیدار ہوتی ہیں . آپ بھی یقینا دلچسپی محسوس کریں گے .
میں : ( اٹھتے ہوئے ) ٹھیک ہے چلو .
میں ان دونوں کے ساتھ کمرے سے نکلا اور صحن میں آ گیا جہاں امی جان کے ساتھ 3 ، 4 پکی عمر کی دیہاتی خواتین موجود تھیں اور اپنے دکھڑے سنانے میں مصروف تھیں . نورین آپی بھی پہلے سے وہاں موجود تھیں . میں نے بھی امبرین اور ثمر ین کے ساتھ وہیں نشست جما لی اور ان خواتین کی باتیں سننے لگا . اور واقعی مجھے تھوڑی ہی دیر میں ان باتوں میں دلچسپی محسوس ہونے لگی کیونکہ یہ خواتین اپنے گھروں کے دکھڑے تو سنا رہی تھیں مگر ان کا انداز بہت تیکھا اور مزاحیہ تھا . گویا اپنے دکھوں کو ہنسی میں اڑا رہی ہوں . واقعی بہت بہادر اور " مزیدار " خواتین تھیں .
رات کے کھانے کے بعد میں ثمر ین اور امبرین کے ساتھ ان کے کمرے میں چلا آیا . دروازے کو اندر سے لوک کر کے وہ دونوں مجھے پلنگ پہ بیٹھنے کا کہہ کے کپڑے تبدیل کرنے کے لیے باتھ روم چلی گئیں . آج ان دونوں نے سرخ ریشمی لباس میں میرے ساتھ چپک کے سونا تھا . اپنی طرف سے تو ان دونوں نے یہ پروگرام میری آزمائش کے لیے بنایا تھا مگر میرے لیے اِس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں تھی . پتا نہیں کیوں میں ان دونوں کو سیکس کی نظر سے دیکھ ہی نہیں پتا تھا . جب بھی ان دونوں کے بارے میں سوچتا ، دِل میں ڈھیروں پیار امڈ آتا . ایسا پیار ، جس میں سیکس ، لذت نفس یا جسمانی قربت کا کوئی تصور ہی نہیں تھا . بالکل بے غرض اور سچا پیار . ویسا ہی پیار جیسا کہ ان دونوں کو یقین تھا کہ میں ان سے کرتا ہوں . یہ الگ بات ہے کہ اگر وہ دونوں زندگی میں کبھی مجھ سے اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین چاہتیں تو میں انکار بھی نا کر پا تا . مگر یہ میری خواہش ہرگز نا ہوتی . صرف ان کی ضرورت پوری کرنے کی مجبوری ہوتی . جب کہ مہرین آپی اور نورین آپی کے بارے میں میرے خیالات ایسے نہیں تھے . بہنیں ہونے کے ناتے میرے دِل میں ان دونوں کے لیے بھی بہت محبت تھی اور میں ان دونوں کی نفسانی خواہشات پوری کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا تھا . مگر ساتھ ہی مجھے ان دونوں کے جِسَم میں اپنے لیے لذت بھی محسوس ہوتی تھی اور میں بار بار ان دونوں سے سیکس کرنا چاہتا تھا . یعنی ان دونوں سے میری محبت اور تعلق میں غرض چھپی ہوئی تھی . اس میں لذت نفس کی ملاوٹ تھی . جب کہ ثمر ین اور امبرین سے میں سچا پیار کرنے لگا تھا . میرے دِل میں دونوں کا خاص مقام بن گیا تھا . ( میری محبت ان دونوں سے بھائی بہنوں والی نہیں تھی . ) شاید میں ان دونوں کو دوستی کا اعلی ترین درجہ دے چکا تھا ، یا پِھر شاید مجھے ان دونوں سے عشق ہو گیا تھا .
ہاں شاید یہ عشق ہی تھا . ان کے ساتھ میں جتنی دیر بھی رہتا ، انہی کے رنگ میں رنگ کے رہ جاتا تھا . ویسا ہی سوچنے لگتا تھا جیسا یہ دونوں سوچتی تھیں ، وہی سب کرنے کو میرا دِل بھی چاہنے لگتا تھا جو یہ کرنا چاہتی تھیں . اور اب بھی میں ان دونوں کے پروگرام کے مطابق خود اپنی ہی آزمائش کے لیے تیار ہوا تھا تو بھی صرف اِس لیے کہ ان دونوں کا اعتبار مجھ پہ ہمیشہ کے لیے مضبوط ہو جائے . یہ دونوں مجھے ایسے چاہنے لگیں کہ ایک لمحے کے لیے بھی انہیں مجھ سے جھجک محسوس نا ہو ، دونوں کبھی مجھے اپنے وجود سے الگ نا سمجھیں بلکہ اپنے وجود کا حصہ سمجھیں . یا کم اَز کم اتنا درجہ تو دیں کہ جیسے یہ دونوں خود کو ایک دوسری کا سایہ محسوس کرتی تھیں ، مجھے بھی اپنا سایہ محسوس کرنے لگیں .
میری یہ خواہش تب سے تھی جب سے میں نے پہلی بار ایک دوسری کے لیے محبت اور انڈر اسٹیڈنگ محسوس کی تھی . اسی وقت سے میرا بھی دِل چاہنے لگا تھا کہ یہ دونوں میرے لیے بھی ایسا ہی سوچنے لگیں . مجھے اپنے وجود کا حصہ ہی محسوس کرنے لگیں . میرے دِل میں بھی وہی کچھ ہو ، جو ان دونوں کے دِل میں ہو . شاید میری یہی خواہش آہستہ آہستہ محبت کے درجے طے کرتی ہوئی عشق کی حدود کو پہنچنے لگی تھی . میں انہی خیالوں میں گم تھا کہ باتھ روم کا دروازہ کھول کے دونوں ایک ساتھ اندر آئیں . دونوں سرخ ریشمی لباس میں واقعی آفت لگ رہی تھیں مگر پِھر بھی نا جانے کیوں میرے دِل میں کوئی ہلچل نہیں مچ رہی تھی . ایسا لگتا تھا جیسے ان دونوں کو اگر بے لباس بھی دیکھوں گا تو میرے لیے نارمل سی بات ہو گی .
امبرین : ( شریر انداز میں مسکراتے ہوئے ) آپ خوامخواہ یہاں بیٹھے بور ہوتے رہے . ہم نے کونسا اندر سے کنڈی لگائی تھی . آپ بھی اندر آ جاتے .
میں : ( ہنستے ہوئے ) اِس سے بھی کوئی فرق نا پڑتا . پتا نہیں کیا بات ہے یار . تم دونوں کے پاس جب بھی آتا ہوں تو خود کو تم دونوں جیسا ہی محسوس کرنے لگتا ہوں . میرے لیے تم دونوں کا بے لباس ہونا بھی شاید نارمل بات ہوتی .
امبرین : ( دِل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ) ہاے یہ سننے سے پہلے میرے کان بند کیوں نا ہو گئے . ہمارا بھائی خود کو لڑکی سمجھنے لگا ہے . بھائی آپ نارمل تو ہیں نا ؟ میرا مطلب آپ نے سچ مچ نورین آپی اور مہرین آپی کے ساتھ . . . کہیں کوئی گڑبڑ تو نہیں ہے نا ؟
میں : یار وہاں تو سب کچھ نارمل ہی تھا . پتا نہیں تم دونوں کے پاس آ کے کیا گڑبڑ ہو جاتی ہے .
ثمر ین : ( شرارت سے مسکراتے ہوئے ) بھائی مانا کہ ہم دونوں ابھی " بچیاں " ہیں . مگر کبھی تو ہمارا بھی دِل چاھے گا جوان ہونے کو . آپ ہمارے ارمانوں پہ برف تو نا گرائیں . آپ ہی تو ہماری آخری امید ہیں .
میں : شاید تم دونوں میں ہی کوئی ٹیکنیکل فالٹ ہے . تم دونوں مجھے لڑکیاں لگتی ہی نہیں ہو . بے شرم لڑکے لگتی ہو .
امبرین : یہ دلہنوں والا رنگ پہن تو لیا ہے . فٹنگ بھی کتنی ٹائیٹ کی ہے کہ کچھ تو لڑکیاں لگیں . اب بھی نہیں لگ رہیں تو اور کیا کریں کہ آپ کی نظر کرم ہو جائے ؟
میں : کوشش جاری رکھو . کیا پتا تم دونوں کے سونے کے بعد مجھے محسوس ہونے لگے کہ واقعی تم دونوں لڑکیاں ہی ہو
ثمر ین : ہاں وہ تو کرنی ہی ہو گی . خیر یہاں ہمارے پاس دو پلنگ ہیں جو ساتھ ساتھ لگے ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک پہ آپ اِس وقت بیٹھے ہیں . اگر اسی پلنگ پہ آپ درمیان میں ہو جائیں تو ہم آپ کو دونوں طرف سے قابو کرنے کے لیے تیار ہیں .
ثمر ین نے یہ کہتے ہی پیچھے دھکیلا جب کہ امبرین نے میرے پاؤں سے جوتا نکال کے میری ٹانگیں جھٹکے سے پلنگ کے اوپر پٹخ دیں . میں اِس کاروائی پہ ہنستا ہوا چُپ چاپ درمیان میں ہو کے لیٹ گیا تو ثمر ین میرے دائیں طرف ( جس طرف دوسرا بیڈ تھا ) اور امبرین میرے بائیں طرف آ کے لیٹ گئیں . دونوں نے میرے کندھوں پہ سَر رکھ کے مجھے دونوں طرف سے جکڑ لیا اور میں دونوں کے درمیان سینڈوچ بن کے رہ گیا . دونوں نے اپنا وجود میرے ساتھ اِس طرح چپکا رکھا تھا کہ درمیان میں ہوا کے لیے بھی گنجائش نہیں چھوڑی تھی .
امبرین : اب کچھ موڈ بنا ؟
میں : یار تم بھول رہی ہو . میں یہاں تم دونوں کے ساتھ مزے لینے کا موڈ بنانے نہیں لیٹا ہوں . ایک امتحان درپیش ہے مجھے اور اب لگ رہا ہے شاید یہ امتحان کچھ سخت ہے .
ثمر ین : ہائے نہیں بھائی . ہم دونوں تو اتنی نرم و نازک ہیں . آپ کو شاید اپنا موبائل سخت لگ رہا ہے جسے آپ نے اسی سائڈ والی جیب میں ڈالا ہوا ہے .
جاری ہے