Ek Bhai aur char Behnen - Episode 13

 ایک بھائی اور چار بہنیں

قسط 13



ثمر ین : نہیں امبرین . کوئی بات ہے ضرور جو ہم سے چھپائی جا رہی ہے . وہ بھی شاید اِس لیے کہ ہَم ابھی بچیاں ہیں ثمر ین کی اِس بات پہ جہاں مہرین آپی اور نورین آپی کے سَر شرمندگی سے جھک گئے تھے ، وہاں مجھے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہو رہا تھا . کمبخت دونوں اتنی ڈرامے باز تھیں کہ پتا ہی نہیں چلنے دے رہی تھیں کہ انہیں سب پتا ہے .

میں : فضول باتوں میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں . ان دونوں کو جو بھی وہم ہوا تھا وہ دور ہو گیا ہے . اب کوئی مسئلہ نہیں .

امبرین : ( خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ) مطلب آپ آج رات ہمارے کمرے میں گزا ر سکتے ہیں ؟

میں : ہاں بالکل . میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں اپنا وعدہ ضرور پُورا کروں گا . بے فکر رہو .

ثمر ین : بھائی آپ کا اگر مہرین آپی اور نورین آپی سے رات کا کوئی پروگرام تھا تو آپ وہ سب ابھی کیوں نہیں کر لیتے ؟ رات کو آپ ہمیں ٹائم دے دینا .


مہرین آپی : ( بوکھلاتے ہوئے ) ابھی ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ نہیں . . . . . . سنی . . میں اِس وقت کیسے ؟ ؟

نورین آپی : ( مہرین آپی کی بوکھلاہٹ پہ مسکراتے ہوئے ) کچھ نہیں ہوتا آپی . امی نے کہا تھا نا ، بھائی کا خیال رکھنا ہے . ویسے بھی اب دن رات سے کوئی فرق نہیں پڑتا .

مہرین آپی : ول . . . . . . لیکن . . نورین . . . دن میں ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟

ثمر ین : اب مجھے آپی کی یہ دن رات کی الجھن سمجھ میں نہیں آ رہی . آخر ایسا کونسا کام ہے جو صرف رات کو ہی ہو سکتا ہے ، دن میں نہیں ہو سکتا .

امبرین : ( معصومیت سے ) ویسے سہاگ رات کے بارے میں سنا ہے کہ رات کو ہی ہوتی ہے . . . مگر بھلا آپی کا سہاگ رات سے کیا لینا دینا .

اس کی یہ بات سن کے جہاں مہرین آپی ما ر ے شرمندگی کے رونے والی ہو گئی تھیں وہاں مجھے اپنی ہنسی روکنا دشوار ہو گیا تھا اور میں کھانستے ہوئے اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کر رہا تھا . کمبخت دونوں اتنی معصومیت سے اگلے کی ایسی تیسی کر کے رکھ دیتی تھیں اور پِھر بھی معصوم ہی رہتی تھیں .

مہرین آپی : ( رونے والے اندازِ میں ) سنی . . . تم نے ان دونوں کو کیا بتایا ہے ؟

میں : ( انجان بنتے ہوئے ) کچھ نہیں آپی . کچھ بتانا تھا ؟

مہرین : تو پِھر یہ اِس نے . . . سہاگ رات . . . کا ذکر . . . کیسے کیا ؟

میں : آپی بچیاں ہیں ابھی . آپ دونوں کی الجھی ہوئی باتیں سمجھ نہیں پا رہی تھیں تو جو سمجھ میں آیا بول دیا .

ثمر ین : کیا ہوا آپی ؟ ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ؟ یہ امبرین بھی نا . . بنا سوچے سمجھے کچھ بھی بول دیتی ہے . آپ اِس کی بات کو دِل پہ مت لیں .

میں : آپی آپ اپنے کمرے میں چلیں . . . میں کچھ دیر میں آتا ہوں .

نورین آپی : میں بھی اپنے کمرے میں ہی جاتی ہوں . ان شیطانوں کی زُبان کے آگے تو خندق ہے . جو دِل میں آئے بول دیتی ہیں . اگلا حملہ مجھ پہ بھی ہو سکتا ہے . چلیں آپی .

نورین آپی ، مہرین آپی کا ہاتھ تھا م کے کمرے سے نکل گئیں تو ان کے جانے کے کچھ دیر بَعْد میں نے گہری سانس لیتے ہوئے ثمر ین اور امبرین کی طرف دیکھا اور پِھر ہم تینوں کی ایک ساتھ ہنسی چھوٹ گئی .

میں : پکی شیطان کی خالہ ہو تم دونوں . ارے سیدھا سیدھا سہاگ رات کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اگر ایک اور بات تم دونوں کے منہ سے ایسی اور نکل جاتی تو مہرین آپی تو یہیں رونا شروع کر دیتیں .

ثمر ین : اب ہم معصوم بچیوں کو کیا پتا کہ کب کیا کہنا ہے . معصومیت میں جو سمجھ آیا بول دیا . بات سنبھالنے کے لیے آپ ساتھ ہیں نا .

امبرین : بھائی یہ آپی کو آخر اتنی ایمرجنسی میں سہاگ رات کا شوق کیوں ہو گیا ؟ کہیں نورین آپی کو دیکھ کر تو . . .

میں : اری آفت کی پڑیا یہ بات کہیں ان کے سامنے نا کہہ دینا . وہ پہلے ہی بہت گھبرائی ہوئی ہیں کہ کہیں تم دونوں کو کچھ پتا نا چل گیا ہو .

ثمر ین : آپ بے فکر رہیں بھائی . . . . . ہم اپنی معصومیت کو مشکوک نہیں ہونے دیں گی .

امبرین : بالکل . . . . آپ جا کے آپی کی معصومیت کو مشکوک کیجیے .

میں : ( ہنستے ہوئے ) یار تم ہر بات میں کوئی نا کوئی مذاق کا پہلو کیسے نکال لیتی ہو ؟

امبرین : آپ کا حُسْن نظر ہے جناب . ورنہ بندی کس قابل ہے .

میں : تو پِھر اب میں جاؤں ؟

ثمر ین : امبرین روک لو یار . کہیں بچہ ہاتھ سے نکل نا جائے .

امبرین : اِس بات پہ ایک شعر عرض ہے .

وہ کہیں بھی گیا ، لوٹا تو میرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی

میں : ( اس کے سَر پہ چپت رسید کرتے ہوئے ) شیطان کی خالہ ، باز آ جاؤ .

امبرین فوراً " آ دا ب عرض ہے " کہتی ہوئی تھوڑا سا جھک گئی تو اس کی اِس بات پہ پِھر سے میری ہنسی چھوٹ گئی .

ثمر ین : ( شرارت سے ) آپ جائیے بھائی . دلہن آپ کا انتظار کر رہی ہے .

ثمر ین کی بات پہ میں نے " تم دونوں نہیں سدھرو گی " کہتے ہوئے سَر ہلایا اور کمرے سے نکل آیا . سامنے ہی مہرین آپی کا کمرہ تھا اور یقینا وہ میرا انتظار کر رہی تھیں . . .

لوگ سہاگ رات مناتے ہیں . . . میں آج پہلی بار سہاگ دن منانے والا تھا .

آپی کے کمرے میں داخل ہو کر میں نے کمرے میں ہر طرف تلاش کرتی نظروں سے دیکھا . مگر آپی کہیں نظر نا آئیں پِھر میرا دھیان باتھ روم کی طرف گیا اور میں سمجھ گیا کہ وہ کپڑے تبدیل کر رہی ہوں گی . اور واقعی کچھ دیر بَعْد آپی سرخ ریشمی کپڑوں میں باتھ روم سے نکلیں تو میں انہیں دیکھتا ہی رہ گیا . ان کے لمبے سیاہ سلکی بال کھلے ہوئے تھے اور ان کی کمر پوری طرح ان میں چھپ گئی تھی . قمیض کی فٹنگ والی ڈوریاں آج انہوں نے اِس طرح سے ٹائیٹ کی ہوئی تھیں کہ ان کے بھرے بھرے سیکسی بوبز واضح محسوس ہو رہے تھے اور دِل کی دھڑکنوں میں طوفان اٹھا رہے تھے . اور قریب پہنچنے پہ تو ایک نہایت خوشگوار خوشبو نے مجھے اور بھی مست کر دیا . شاید انہوں نے کوئی پرفیوم لگایا تھا جس کی خوشبو نے ان کے بدن کی خوشبو سے مل کے ایک نئی مہک تخلیق ( کرئیٹ ) کر دی تھی

یرے بالکل پاس پہنچ کے انہوں نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور میری آنكھوں میں اپنے حسن کی

تعریف دیکھ کے اور بھی کھل اٹھیں . ان کا چہرہ شرم سے سرخ ہو رہا تھا اور پلکیں بار بار جھک جاتی تھیں . ہونٹ بار بار کچھ کہنے کے لیے کھلتے اور پِھر شرم سے بنا کچھ کہے بند ہو جاتے . میں بھی بس پاس کھڑا اُنہیں پیار بھری نظروں سے دیکھتا ہی جا رہا تھا . دیکھنے سے ہی دِل نہیں بھر رہا تھا ، اور کچھ کرنے کا سوچتا کیسے ؟ آخر آپی نے بات کرنے کی ہمت کی .

آپی : بس دیکھتے ہی رہو گے ؟ کچھ کرو گے نہیں ؟

میں : دیکھنے سے دِل بھرے کو تو کچھ اور کروں گا نا .

آپی : دیکھنے کا موقع پِھر مل جائے گا سنی . سب کے سامنے بھی دیکھ سکتے ہو . تنہائی میں وہ کرو جو دوسروں كے سامنے نہیں کر سکتے .

میں : آپ کو جلدی کیا ہے آخر ؟ مجھے جی بھر کے اپنی دلہن دیکھنے تو دیں .

آپی نے مجھے مزید وقت ضایع کرنے کے موڈ میں دیکھ کے جھنجھلا کر پلنگ پہ دھکا دے دیا . سہارا لینے کے لیے مجھے اور تو کچھ ملا نہیں ، میرے ہاتھ میں آپی کا ہاتھ ہی آ گیا جسے میں نے مضبوطی سے پکڑ لیا . نتیجہ ظاہر ہے . میرے گرتے ہی وہ بھی میرے اوپر آ گریں اور ساتھ ہی ان کی چیخ بھی نکل گئی . ( جیسا کہ عام طور پہ لڑکیوں کی عادت ہوتی ہے ) .

میں : ( ان کے چیخنے سے گھبرا کر ) کیا کر رہی ہیں . کسی نے سن لیا تو ؟

آپی : وہ . . . میں ذہنی طور پہ تیار نہیں تھی . . . غلطی ہو گئی . . .

میں : اب تو ایسی کوئی غلطی نہیں کریں گی ؟

آپی : دِل تو بہت چاہتا ہے . . . مگر چلو معاف کیا .

میں : ویسے ایک بات تو بتائیں . آپ کے ہونٹ اتنے نشیلے کیسے ہیں ؟

آپی : صرف ہونٹ ہی نشیلے ہیں ؟ اور کچھ نہیں ؟

میں : آزماؤں گا تو پتا چلے گا نا .

آپی : تو آزما لو نا . کب تک ترساتے رہو گے ؟

میں : مگر آپ تو صرف ہونٹ چومنے تک ہی محدود رہنا چاہتی تھیں . اب کیا ہو گیا ؟

آپی : میں ڈرتی تھی سنی . . . . کہیں دوسروں کو پتا چل گیا تو . . . کہیں کچھ کرتے ہوئے کوئی بے احتیاطی ہو گئی تو . . . میں دراصل . . . تم سمجھ رہے ہو نا ؟

میں : جی میں سمجھ رہا ہوں . مگر یہ نہیں سمجھ رہا کہ اب آپ کا ڈر کیوں اتر گیا ؟

آپی : نورین نے بتایا تھا کہ تمھیں خود پہ بہت کنٹرول ہے . تم کچھ غلط نہیں ہونے دو گے .

میں : اور اگر میرا دِل کرے کچھ غلط کرنے کو تو ؟ ؟

آپی : ڈراؤ مت سنی . . . جب بھی سوچتی ہوں کہ ایسا ہو گیا تو . . ڈر کے مر ے جان نکلنے لگتی ہے .

میں : ٹھیک ہے وعدہ . اب نہیں ڈراؤں گا . اب منہ میٹھا کر دیں تو اپنے سہاگ دن کی شروعات کچھ میٹھی ہو جائے .

میری بات پہ پہلے تو آپی کچھ شرمائیں . پِھر ہمت کر کے تھوڑا سا اوپر ہوتے ہوئے میرے ہونٹوں سے ہونٹ لگا دیئے . پِھر وہی ہوا جو اب سے پہلے ہوتا رہا تھا ، یعنی میں ان کے ہونٹوں کو چومتے ہوئے نشے کی سی کیفیت میں مست ہوتا گیا . اور پِھر میرے ہاتھ بھی خود ہی ان کی کمر پہ پھسلنے لگے . . . پہلے تو کچھ دیر میں مدھوش سا لیٹا ان کی کمر پہ ہاتھ پھیرتا رہا ، پِھر ان کی برا کا ہُک میری انگلیوں سے ٹکرایا تو میں نے دیوانگی کی سی کیفیت میں دونوں ھاتھوں کو اسی کام پہ لگا دیا اور کچھ ہی دیر بَعْد ان کے برا کا ہوک کھل چکا تھا جو میرے ھاتھوں سے نکل کے زوردار آواز نکا لتا ہوا آپی کی کمر کی سائڈپہ لگا . اسی لمحے آپی کی ایک بار پِھر چیخ نکل گئی .

میں : اب کیا ہو گیا ؟ تھوڑا برداشت بھی کر لیا کریں .

آپی : ( ہلکا سا کراہتے ہوئے ) ہُک کھول کے چھوڑ کیوں دیا ؟ اتنی زور سے لگا ہے . اب تک دَرْد ہو رہی ہے .

میں : مجھے کیا پتا تھا کیسے اتا رتے ہیں . نورین آپی نے تو رات کو پہنا ہی نہیں تھا .

آپی : تم چاھے سارے کپڑے اتار لو . مگر ایسے نا کرو . انسان ہوں آخر . مجھے بھی دَرْد ہو سکتا ہے .

میں : اتنے سے دَرْد سے آپ کی چیخیں نکل رہی ہیں . جب وہ دَرْد ہو گا تو آپ کا کیا حال ہو گا ؟

آپی : بتا کے کرنا نا . میں خود کو ذہنی طور پہ تیار کر لوں گی . اب تو دونوں بار مجھے کچھ پتا ہی نہیں تھا کہ تم کرنے کیا لگے ہو .

میں : یعنی آپ سے گندی گندی باتیں کرنی پڑیں گی ؟ میں اتنا بے شرم نہیں ہوں آپی .

آپی : اچھا مجھے تیار ہونے کو تو کہہ سکتے ہو نا .

میں : ہاں . . . وہ تو کہہ سکتا ہوں . ( پِھر کچھ یاد آنے پر ) ویسے یاد آیا . آپ نے کہا تھا چاھے سارے کپڑے اتار لو .

آپی : ( شرما کر ) تو کیا سچ مچ اتارو گے ؟

میں : نہیں اگر آپ نہیں چاہیں گی تو نہیں اُتاروں گا .

آپی : اگر سارے کپڑے اتا رنے ہیں تو باتھ روم میں چلتے ہیں .

میں : یعنی وہاں آپ سارے کپڑے اتار دیں گی ؟

آپی : تم اتارو گے . میں اتنی بے شرم نہیں ہوں .

میں : تو پِھر یہیں اتار لینے دیں نا آپی . . . ابھی آپ کو چھوڑنے کو دِل نہیں کر رہا .

آپی : تو چھوڑنے کو کہا کس نے ہے . میں نے تو بس . . . . .

میں : آپ گھبرائیں نہیں آپی . . . . میں صرف شلوار اُتاروں گا .

آپی : ابھی ؟ ؟ ؟ اتنی جلدی ؟ ؟ ؟ ؟

میں : دیر کرنے پہ بھی تو آپ کو اعتراض ہے ، جلدی کرنے پہ بھی اعتراض ہے . کروں تو کیا کروں ؟

آپی : اچھا چلو اُتار لو . سائڈ ٹیبل پہ تیل کی شیشی رکھی ہے .

آپی کے بتانے پہ میں مسکرا دیا . نورین آپی کی طرح اِنھوں نے بھی پہلے سے انتظام کر رکھا تھا .

میں : اب شلوار اتا رنے پہ چیخیں گی تو نہیں ؟

آپی : نہیں . . . تم . . . . جو کرنا ہے کرو .

میں نے ہنستے ہوئے پہلے اپنی اور پِھر آپی کی شلوار اتاری اور پِھر خود پلنگ سے نیچے اتر کے آپی کی ٹانگیں اپنے دائیں بائیں سے گزرتے ہوئے اپنے بازو ان کی ٹانگوں کے نیچے سے گزار کے ہاتھ پلنگ پہ رکھ لیے . اِس طرح ان کی ٹانگیں میرے بازوؤں کے اوپر ہونے کی وجہ سے اوپر اٹھ گئیں اور چوت کے لیے رستہ بن گیا . چوت پہ ایک بھی بال نہیں تھا . شاید آپی نے صبح اٹھ کے سب سے پہلے یہ بال ہی صاف کیے تھے اور اب یہ انچھوئی کلی ، پھول بننے کی تڑپ لیے میرے بھنورے کو اپنی طرف بلا رہی تھی . پِھر مجھے خیال آیا کہ تیل تو لگایا ہی نہیں . میں نے ان کی ٹانگیں دوبارہ نیچے لٹکا کے سائڈ ٹیبل سے تیل کی شیشی اٹھائی اور تھوڑا سا تیل نکال کے اپنے لن پہ ملا اور ڈھکن بند کر کے شیشی دوبارہ سائڈ ٹیبل پہ رکھ دی . اب اپنی طرف سے میں تیار تھا . ایک بار پِھر میں نے وہی پوزیشن لی . یعنی اپنے بازو ان کی ٹانگوں کے نیچے سے گزارتے ہوئے ہاتھ پلنگ پہ رکھ لیے اور پِھر اُنہیں تیار ہونے کا اشارہ کیا تو انہوں نے سَر ہلا دیا گویا وہ تیار تھیں .

میں نے پوزیشن لیتے ہوئے لن ان کی چوت پہ ایڈجسٹ کیا اور پِھر ہلکا سا دھکا لگایا تو صرف ٹوپی ہی اندر جا سکی . آپی نے پِھر ہلکی سی چیخ ما ر ی تو میں نے اُنہیں گھور کے دیکھا . میرے گھورنے پہ ان کے چہرے پہ ایک بار پِھر معذرت کے تاثرات نظر آنے لگے . میں نے پِھر دھکا لگایا مگر لن تقریباً ایک انچ ہی مزید اندر جا سکا . ان کی چوت نورین آپی کی چوت سے زیادہ تنگ تھی . میں بڑی مشکل سے لن اندر روکے ہوئے تھا ورنہ باہر نکل آتا . اچانک مجھے کچھ خیال آیا

میں : آپ نے ٹائیٹ تو نہیں کر لیا ؟

آپی : ہاں . . وہ دَرْد بہت ہو رہی تھی تو . . .

میں : اِس طرح زیادہ دَرْد ہو گی . ڈھیلا چھوڑ دیں . کچھ دیر دَرْد سہنا پڑے گا . پِھر کبھی دَرْد نہیں ہو گا .

آپی : سچ کہہ رہے ہو . ایک بار ہی دَرْد ہو گا نا ؟

میں : جی . . . اب ڈھیلا چھوڑیں . ورنہ میں نکالنے لگا ہوں .

آپی : نن . . . نہیں . میں ڈھیلا کر رہی ہوں . نکالنا نہیں .

انہوں نے چوت کو ڈھیلا کیا تو لن جو میرے زور دینے پہ مشکل سے اندر رکا ہوا تھا ، تھوڑا سا مزید اندر چلا گیا . اِس سے آگے مجھے وہ جھلی محسوس ہوئی جو یقینا ان کے کنوارپن کا پردہ ( سیل ) تھا . میں نے تھوڑا سا لن باہر کھینچ کے دوبارہ زور سے دھکا لگایا تو لن سیل توڑتا ہوا مزید اندر چلا گیا . اِس بار آپی نے اپنی چیخ روکنے کے لیے اپنا ہاتھ اپنے منہ پہ رکھ لیا تھا اِس لیے آواز نہیں نکلی . بہر حال تکلیف ان کی آنكھوں اور کانپتے ہوئے جِسَم سے ظاہر ہو رہی تھی . اب میرا ہالف سے کچھ زیادہ لن اندر تھا . میں نے کچھ دیر كے لیے رکے رہنا مناسب سمجھا اور ان کی ٹانگیں چھوڑ کے ان کے اوپر لیٹ گیا . میرے ہاتھ اب ان کے بوبز پہ تھے اور ہونٹ ان کے ہونٹوں پہ تھے . میں نے پہلے انہیں ہلکا سا کس کیا اور پِھر پیار سے ان کے ہونٹ چوسنے لگا . ساتھ ساتھ نیچے سے اپنے دونوں ھاتھوں سے ان کے بوبز بھی دبا رہا تھا جس سے ان کا دھیان بھی تکلیف سے ہٹ کے مزے کی طرف ہو گیا . کافی دیر تک میں یوں ہی ان کے ہونٹ چوستا اور بوبز دباتا رہا . پِھر نیچے سے لن کو مزید آگے بڑھانا شروع کر دیا . اب آگے کوئی رکاوٹ تو نہیں تھی مگر چوت اتنی ٹائیٹ تھی کہ مزید آگے کرنے کے لیے زیادہ زور لگانا پڑ رہا تھا . ویسے آپی کو اب زیادہ دَرْد نہیں ہو رہا تھا . بس چوت ٹائیٹ ہونے کی وجہ سے لن اندر جانے سے تھوڑی تکلیف ہوتی تھی جسے وہ شاید ہونٹ چوسنے اور بوبز دبانے کے مزے کی وجہ سے برداشت کر رہی تھیں . میں نے اپنا کام جاری رکھا ، ہونٹ چوستے اور بوبز دباتے ہوئے لن برابر آگے بڑھائے جا رہا تھا . آخر کافی دیر بَعْد لن ان کی چوت کی آخری حد تک پہنچ ہی گیا . اور اتفاق کی بات یہ کہ میرا لن پُورا ان کی چوت میں تھا . یعنی ان کی چوت میں بھی میرا لن بالکل فٹ آیا تھا . . . پرفیکٹ فٹ .

میں دِل ہی دِل میں ہنس دیا . کیا میری بہنوں کی پھدیاں میرے لن کے لیے ہی بنائی گئیں ہیں . اب تک دو بہنوں سے سیکس کیا تھا اور دونوں کی چوت میں میرا لن بالکل فٹ آیا تھا .

میں : ( اپنے ہونٹ آپی کے ہونٹوں سے الگ کرتے ہوئے ) اب تو دَرْد نہیں ہو رہا آپی ؟

آپی : نہیں . . . اب زیادہ دَرْد نہیں ہو رہا . مگر جب تک یہ اندر ہے . . . مجھے تنگ تو کرتا رہے گا . بڑی مشکل سے جھیل رہی ہوں اسے .

میں : ( ہنستے ہوئے ) ابھی پہلی بار ہے آپی . اور ویسے بھی آپ کی . . . . اندر سے بہت ٹائیٹ ہے . آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گی . پِھر مسئلہ نہیں ہو گا .

آپی : ویسے دَرْد کے ساتھ ساتھ کچھ کچھ اچھا بھی لگ رہا ہے . اور یہ سوچ کے تو اور بھی اچھا لگ رہا ہے کہ پُورا اندر چلا گیا ہے .

میں : اب آگے پیچھے کروں ؟ آپ تیار ہیں ؟

آپی : ٹھیک ہے . لیکن تیز تیز نہیں کرنا .

ان کی طرف سے سگنل ملنے پہ میں نے تھوڑا سا پیچھے کر کے پِھر زور لگا کے آگے کرنا شروع کر دیا . ہر بار جب میں لن باہر کی طرف کھینچتا تو ساتھ ہی آپی بھی تھوڑا سا اوپر کی طرف اٹھ جاتیں جیسے لن کے ساتھ ہی کھنچی جا رہی ہوں اور جب لن اندر کرتا تو وہ بھی نیچے ہو جاتیں اور مجھے بھی زور سے دبوچ لیتیں . ان کی ٹانگیں اب میری کمر کے گرد تھیں اور انہوں نے ٹانگوں سے میری کمر کو زور سے جکڑا ہوا تھا . آہستہ آہستہ میں نے اپنی سپیڈ بڑھانا شروع کر دی . اب بھی لن پھنس پھنس کے اندر باہر ہو رہا تھا مگر اب اتنی گنجائش پیدا ہو گئی تھی ان کی چوت میں ، کہ اب انہیں زیادہ تکلیف نہیں ہو رہی تھی . بس ہلکی ہلکی کراہیں ان کے ہونٹوں سے جاری تھیں جن میں دَرْد سے زیادہ مزہ محسوس ہو رہا تھا . جیسے جیسے میری سپیڈ بڑھتی جا رہی تھی ، ان کے کراہنے کی آوازیں بھی بلند ہونے لگی تھیں ، پِھر اچانک انہوں نے بہت زور زور سے کراھنا شروع کر دیا جیسے چیخ رہی ہوں . یقینا یہ ان کے آرگزم کی نشانی تھی . نورین آپی نے تو خود پہ خاصا قابو رکھا تھا مگر مہرین آپی کو شاید خود پہ بالکل بھی اختیار نہیں رہا تھا . اور پِھر اسی طرح کراہتے ہوئے اچانک ان کے جِسَم کو جھٹکے لگنے لگے . پہلا جھٹکا تو اتنا شدید تھا کہ اگر میں ان کے اوپر نا ہوتا تو وہ اُچھل کے پلنگ سے نیچے جا گرتیں . میں گھبرا کے رک گیا اور ان کے ڈسچارج ہونے کا انتظار کرنے لگا . ڈسچارج ہوتے ہوئے وہ مجھے بہت بری طرح نوچنے لگی تھیں میں نے گھبرا کے ان کے دونوں ہاتھ اپنے ھاتھوں کے نیچے دبا لیے تو انہوں نے سَر کو ادھر اُدھر پٹخنا شروع کر دیا . ان کی کم مجھے اپنے لن پہ کافی دیر تک گرتی محسوس ہوتی رہی اور پِھر وہ آہستہ آہستہ ریلکس ہوتی گئیں . اور ان کے ریلکس ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی آواز بھی دھیمی ہونے لگی . آخر جب وہ بالکل پرسکون ہو گئیں تو میں نے بھی سکون کا سانس لیا . اب مجھے ایک اور فکر نے پریشان کیا . ان کے بلند آواز میں کراہنے یا دوسرے معنوں میں چیخنے کی آوازیں یقینا کمرے سے باہر بھی پہنچی ہوں گی . پتا نہیں کس کس نے سنی ہوں گی ان کی چیخیں . اب اپنی پوزیشن میں کیسے واضح کر پاؤں گا . سب کہیں گے میں نے آپی پہ ظلم کیا . میری بات کا کون یقین کرے گا .

میں : مر وا دیا آپ نے آپی . آخر اتنی بلند آواز میں چیخنے کی کیا ضرورت تھی ؟ سب ہمارے رازدار سہی مگر پِھر بھی اگر کسی نے آپ کی چیخیں سن لی ہوں گی تو میری شامت یقینی ہے . آپ کو سب مظلوم اور مجھے ظالم اور جابر سمجھیں گے .

آپی : معاف کر دو سنی . . . . میں اپنے بس میں نہیں رہی تھی . زندگی میں پہلی بار اتنا مزہ آ رہا تھا کہ خود بخود ہی حلق سے چیخیں نکل رہی تھیں . پتا ہی نہیں چلا کہ میری آوازیں کتنی بلند ہو رہی ہیں .

میں : اب باہر نکال لوں ؟ یا ابھی اور کرنے کا موڈ ہے ؟

آپی : نہیں . . . اب نکال لو . ویسے بھی بہت دیر ہو گئی ہے .

میں نے دھیرے دھیرے لن باہر نکالا تو آپی نے جلدی سے سائڈ ٹیبل کی دراز سے ٹشو نکال کے مجھے پکڑا دیا . میں نے جلدی سے لن صاف کیا اور پِھر باتْھ روم میں جا کے ریلیز ہو گیا . وہاں سے فارغ ہو کے لن کو دھو کے واپس آیا تو آپی اپنے پلنگ کی خون آلود چادر تو اُتار چکی تھیں مگر شلوار ابھی تک نہیں پہنی تھی . میں نے خود ہی ان کی شلوار اٹھا کے ان کی طرف بڑھائی تو انہوں نے شرما کے پکڑ لی اور پہننے لگیں .

میں : ایک بار منہ میٹھا کر دیں آپی . سہاگ دن کا اختتام ( اینڈ ) بھی خوشگوار ہو جائے گا .

آپی نے خود ہی آگے بڑھ کے میرے ہونٹوں کو چوم لیا اور کافی دیر تک اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے چپکائے رکھے پِھر وہ خود ہی الگ ہوئی تو ان کی آنكھوں میں سب کچھ پا لینے کی چمک اور چہرے پہ شرم کے آثار تھے . میں نے آخری پیار بھری نظریں ان پہ ڈالیں اور پِھر ان کے کمرے سے باہر نکل آیا . مگر باہر نکلتے ہی میرے قدم وہیں جم کے رہ گئے . امبرین اور ثمر ین سامنے ہی میرے کمرے کے دروازے میں کھڑی تشویش بھری نظروں سے ادھر ہی دیکھ رہی تھیں . یقینا مہرین آپی کی چیخیں انہوں نے سن لی تھیں . اور میرے خدشات كے عین مطابق شاید یہی سمجھ رہی تھیں کہ میں نے آپی سے زبردستی کی ہے ، ان پہ ظلم کیا ہے .میں ان دونوں کی نظروں میں مہرین آپی کے لیے فکر مندی دیکھ کے سخت گھبرایا ہوا تھا اور ہر حال میں اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہتا تھا . کسی بھی حالت میں مجھے ان کے ماتھے کی ہلکی سی شکن بھی گوارہ نہیں تھی . صباء کے بعد میں نے اگر کسی کو دِل سے دوست سمجھا تھا تو وہ یہ دونوں ہی تھیں . میری چاہت ان دونوں کے لیے بے غرض تھی اور اِس میں ہوس اور لذت نفس کی ملاوٹ نہیں تھی . میرے دِل میں ان کے لیے اتنی چاہت تھی کہ میں اُنہیں ناراض دیکھنے کا تصور بھی نہیں کرنا چاہتا تھا.





جاری ہے

*

Post a Comment (0)