ايک بھائی اور چار بہنیں
قسط 12
پوچھا کہ یہ کپڑے کس نے لا کے دیئے تھے . میں نے تمہارا نام بتا دیا. میں سوچ رہی تھی کہ اب شاید وہ ڈانٹیں گی مگر وہ نورین کی طرف دیکھ کے مسکرادیں اور پِھر ہم دونوں سے کہا کہ اپنے بھائی کا خیال رکھا کرو . اب تم چاروں کی خوشیاں اسی سے وابستہ ہیں بس پِھر وہ اٹھیں اور نورین کے سَر پہ ہاتھ پھیر کے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
ثمرین : معصومیت بھرے اندازِ میں مگر ریشمی کپڑے پہننے پہ امی کے نا ڈانٹنے سے نورین آپی کے شرمانے کا کیا تعلق ہے ؟ یہ تو یوں شرما رہی ہیں جیسے ولیمے کی دلہن ہوں۔
نورین آپی : بوكھلا کر نننن . . . . نا . نہیں تو . . . میں کب شرما رہی ہوں گڑیا۔
امبرین : نورین آپی کی وضاحت کو نظر اندازِ کرتے ہوئے اور یہ امی نے آپ دونوں کو ہی بھائی کا خیال رکھنے کو کیوں کہا ؟ ہم دونوں بھائی کا خیال نہیں رکھ سکتیں ؟ کیوں بھائی . ہم آپ کا خیال رکھتی ہیں نا؟
میں : گھبرا کر ( ہاں ہاں . بالکل رکھتی ہو۔
مہرین آپی : دھیمی آواز میں بڑبڑاتے ہوئے اب میں کیسے بتاؤں کہ بھائی کا خیال رکھنے کا کیا مطلب ہے۔
مہرین آپی بڑبڑاتے ہوئے بھی اپنی آواز اتنی دھیمی نہیں کر سکی تھیں کہ ثمرین اور امبرین کے کانوں میں نا پڑے میں نے بھی صاف سن لیا تھا. مگر ہم تینوں نے ہی اِِس طرح نظر اندازِ کر دیا جیسے سنا ہی نا ہو۔
ثمر ین : مہرین آپی سے آپی . اب تو امی نے بھی ریشمی کپڑے پہننے کی اجِازَت دے دی ہے . آپ دونوں نے بھی پہن لیے . ہم بھی پہن لیں؟ اس کے سوال پہ مہرین آپی کے ساتھ ساتھ نورین آپی بھی پریشان سی ہو گئی تھیں . جب کہ میں دِل ہی دِل میں اس کی چالاکی پہ مسکرا دیا تھا . اس نے بڑی چالاکی سے اپنے مطلب کا موضوع چھیڑ دیا تھا۔
امبرین : نورین آپی سے اور نورین آپی ! آپ نے صبح سرخ رنگ کے ریشمی کپڑے پہنے ہوئے تھے . بھائی تو ہم سب کے لیے صرف سبز اور نیلے رنگ کے کپڑے ہی لائے تھے نا ؟ پِھر وہ سرخ جوڑا آپ کے لیے کون لایا ؟
ثمر ین : امبرین سے ارے اور کون لایا ہو گا . بھائی نے ہی لا کے دیا ہو گا . ان کے علاوہ تو ان دنوں کوئی شہر گیا بھی نہیں۔
امبرین : ثمرین سے مگر نورین آپی سے ہی یہ خصوصی محبت کیوں ؟ ہم تینوں بھی تو ان کی کچھ لگتی ہیں۔
ثمر ین : معصومیت بھرے اندازِ میں مجھ سے شکایت کرتے ہوئے بھائی آپ نورین آپی کے لیے ہی سرخ جوڑا کیوں لائے . ہمیں نہیں دینا تھا ، نا سہی ، مہرین آپی کو ہی لا دیتے ۔
میں : مہرین آپی سے آپ کو چاہئے آپی ؟ لا دوں ؟
مہرین آپی : گھبرا کر ابھی جاؤ گے ؟
ثمرین : اِِس کا مطلب آپی کو چاہئے . آپ لا دیں بھائی . آخر یہ بھی تو آپ کی بہن ہیں . نورین آپی کوئی زیادہ سگی تو نہیں ہیں جو ان سے اتنی محبت جتائی ہے آپ نے؟
ثمرین کی اِِس بات پہ مہرین آپی تو گھبرائی ہی تھیں ، نورین آپی بھی گھبرا گئیں اور ٹٹولتی ہوئی نظروں سے ان دونوں کی طرف دیکھنے لگیں کہ کہیں ان دونوں کو کچھ پتا تو نہیں چل گیا اور یہ دونوں انُہیں چھیڑ تو نہیں رہیں۔
امبرین : ہاں بھائی . اب تو امی نے بھی اجِازَت دے دی ہے . اور پِھر مہرین آپی کا بھی دِل کر رہا ہو گا نا . آپ ابھی جا کے ان کے لیے بھی سرخ ریشمی جوڑا لا دیں۔
مہرین آپی : نن . . . . . . . نہیں سنی . . . . ابھی یہ تکلیف مت اٹھاؤ. جب دوبارہ چکر لگے گا تو لے آنا۔
ثمرین : کیسی تکلیف آپی . گھر میں جیپ موجود ہے . ڈرائیونگ انہیں آتی ہے . آرام سے شہر جا کے لے آئیں گے۔
میں : آپ ایسے ہی تکلف کر رہی ہیں
آپی . میں آپ کے لیے بھی لایا تھا . دیا اِس لیے نہیں کہ جب آپ کا دِل چاھے گا تب دوں گا . آپ بیٹھیں میں ابھی الماری سے نکال دیتا ہوں۔ میں اٹھ کے الماری کی طرف بڑھا تو وہ دونوں شیطان کی خالائیں بھی ساتھ ہی اٹھ کے میرے پیچھے آ گئیں اور جب میں نے اس اِسْپیشَل پیکٹ سے مہرین آپی کے لیے سوٹ نکال لیا تو شوپر مجھ سے ثمرین نے جھپٹ لیا۔
ثمرین : یہ کیا . آپ ان دونوں کے لیے دو دو سرخ جوڑے لائے ہیں ؟ ہمارے لیے بھی کوئی نیلا پیلا جوڑا اور لے آتے۔
میں : تم دونوں یہی رکھ لو . بَعْد میں دوسرے رنگ بھی لا دوں گا۔
امبرین : نا بابا نا . انہیں پہن کے تو خوامخواہ اپنا آپ دلہن سا لگنے لگے گا . ہمیں نہیں پہننے یہ کپڑے۔
میں : انسسٹ کرتے ہوئے رکھ لو گڑیا . جب دِل کرے پہن لینا۔
ثمرین : امبرین سے پہننا نا پہننا بَعْد کا مسئلہ ہے
امبرین . بھائی اتنا اصرار کر رہے ہیں تو لے لیتے ہیں . کہیں انہیں برا نا لگے . امی نے کہا ہے نا ان کا خیال رکھنا ہے ، انہیں خوش رکھنا ہے . انکار مت کرو۔
مہرین آپی : گھبراتے ہوئے سنی . . . یہ ابھی بچیاں ہیں . یہ کیا کر رہے ہو ؟
میں : کوئی بات نہیں آپی . یہ کون سا ابھی پہننے لگی ہیں۔
ثمر ین : مہرین آپی سے آپی ہم نے تو بھائی کے اصرار کرنے پہ لیے ہیں . آپ کو چاہیے تو آپ رکھ لیں . ہم نے کونسا پہننے ہیں۔
مہرین آپی : بوكھلا کر نن . . . نہیں . . . مجھے اور نہیں چاہئے. رکھ لو۔
ثمرین : شکریہ آپی ، شکریہ بھائی وہ پیکٹ ھاتھوں میں لیے واپس پلنگ پہ جا بیٹھیں . امبرین بھی اس کے ساتھ تھی . میں نے الماری بند کی اور دوبارہ ان دونوں کے درمیان پلنگ پہ بیٹھ گیا۔
امبرین : نورین آپی سے نورین آپی ! آپ ناراض ہو گئی ہیں نا ہم سے ؟ شاید سرخ جوڑے والی بات آپ کو بری لگی ہے . بس ایک بار معاف کر دیں . آئندہ ایسی بات کروں تو جو چاھے سزا دے لیجیے گا۔
نورین آپی : نن . نا . . نہیں گڑیا۔ میں ناراض نہیں ہوں۔
امبرین : خوشی سے چلا کر سچ آپی ؟ ھائے آپ کتنی اچھی ہیں. شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے میں پتا نہیں کیوں آپ سے بدگمان ہو گئی اِِس کمبخت سرخ جوڑے والی بات پہ . مجھے کیا پتا تھا بھائی سب کے لیے لائے ہیں۔
ثمرین : مجھے بھی معاف کر دیں آپی . کہا تو میں نے کچھ نہیں مگر سوچا وہی تھا جو اِِس نے کہا۔
نورین آپی : مسکراتے ہوئے میں واقعی ناراض نہیں ہوں گڑیا . تم دونوں نے جو بھی کہا ، آپی کی محبت میں کہا . پِھر میں بھلا کیوں ناراض ہوتی۔
مہرین آپی : شرمائے ہوئے اندازِ میں سَر جھکا کر سنی . . . اب تو امی نے بھی اجِازَت دے دی ہے . اگر تم چاہو تو. . . . مہرین آپی کی ادھوری بات کا مفہوم سمجھنا میرے لیے تو مشکل نہیں تھا
. ظاہر ہے نورین آپی بھی سمجھ گئی تھیں . مگر ان دونوں کو شاید یہ پتا نہیں تھا کہ ثمرین اور امبرین بھی اچھی طرح سب سمجھ رہی ہیں۔
میں : آپی کی آفر پہ خوش ہوتے ہوئے جی . . جی آپی . . جیسے آپ کی خوشی. . میری پر شوق نظریں مہرین آپی پہ جمی دیکھ کے ثمرین نے مجھے کہنی مار کے متوجہ کیا تو شرمندہ سا ہو کے میں نے ان سے اپنی نظریں ہٹا لیں۔
مہرین آپی : ثمرین اور امبرین کے متوجہ ہونے سے انجان دھیمی آواز میں تو پِھر آج رات کو۔
میں : ثمرین اور امبرین کی گھورتی نگاہوں سے گھبرا کر نن. .نہیں آپی . . . آج نہیں . آج تو میں نے ثمرین اور امبرین سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ساری رات انہیں فلموں کی کہانیاں سناؤں گا اور انہی کے کمرے میں سوؤں گا۔
مہرین آپی : ثمرین اور امبرین کے لیے پریشان ہو کر نہیں سنی . . .یہ دونوں ابھی بچیاں ہیں . ان کے ساتھ نہیں۔
امبرین : مہرین آپی سے بچیاں ہیں تو کیا ہوا ؟ کہانیاں سننے کا شوق بچوں کو ہی ہوتا ہے نا؟
مہرین آپی : تم دونوں سمجھ نہیں رہی ہو . . . یہ ٹھیک نہیں ہے . . . ایسا نہیں ھونا چاہئے . . . تم دونوں بچیاں ہو ابھی
ثمر ین : جھنجھلا کر آخر آپ کو ہمارے بچیاں ہونے سے کیا پریشانی ہے آپی ؟ اگر کہانیاں ڈراؤنی ہوں گی تو بھائی ہمیں نہیں سنائیں گے . ہم نے ان سے ڈراؤنی کہانیوں کی فرمائش نہیں کی ہے۔
امبرین : آپی آپ کا اگر کوئی اور پروگرام ہے تو ہم کل کہانیاں سن لیں گی . آپ بھائی سے ناراض نا ہوں۔
میں : نہیں گڑیا . وعدہ تو وعدہ ہے۔ آج رات میں تم دونوں کے ساتھ ہی گزاروں گا۔
نورین آپی : مجھ سے منت کرتے ہوئے خدا کے لیے نہیں سنی. یہ دونوں بچیاں ہیں . . . . ان کے ساتھ نہیں۔
ثمرین : آخر مسئلہ کیا ہے ؟ آپ دونوں کو اگر لگتا ہے کہ ہمارا اکیلے میں بھائی سے کہانیاں سننا مناسب نہیں ہے تو آپ دونوں بھی رات کو ہمارے کمرے میں ہی آ جائیے گا . وہاں سونے کے لیے جگہ کی بھی کمی نہیں ہے . ہم پانچوں فرش پہ ہی بستر لگا لیں گے۔
مہرین آپی : بے یقینی سے مجھے دیکھتے ہوئے کیا واقعی صرف کہانیاں سنانے کا ہی پروگرام ہے؟
میں : بہت افسوس کی بات ہے آپی. آپ دونوں سے کیا میں نے کوئی زبردستی کی تھی جو ان کے ساتھ کروں گا ؟
ثمرین : اب یہ زبردستی والی بات کہاں سے آ گئی درمیان میں ؟ آخر آپ لوگ پہیلیوں میں کیوں بات کر رہے ہیں ؟
میں : خراب موڈ میں ان دونوں سے ہی پوچھ لو . مجھے نہیں پتا۔
امبرین : آپی آپ بھائی پہ کس بات کا شک کر رہی ہیں ؟ کیا کیا ہے انہوں نے آپ دونوں کے ساتھ جو آپ نہیں چاہتیں کہ یہ ہمارے ساتھ کریں ؟
امبرین نے معصومانہ اندازِ میں یہ سوال کرتے ہوئے یقینا ان دونوں کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا تھا . دونوں ہی بوكھلا کے ایک دوسری کو دیکھ کے نظر جھکا گئی تھیں۔ جواب دونوں ہی نا دے پائی تھیں۔
میں : ان دونوں کی باتوں سے بد دل ہونے کی ضرورت نہیں گڑیا . میں نے وعدہ کیا ہے تو نبھاؤں گا۔
مہرین آپی : سنی . . . ہمیں اور شرمندہ نا کرو . غلط فہمی ہو ہی جاتی ہے۔
میں : آپی یہ غلط فہمی نہیں تھی . . . . آپ مجھ پہ سیدھا سیدھا الزام لگا رہی تھیں کہ میں ان دونوں کی معصومیت سے فائدہ اٹھاؤں گا . ان کو بہلا پھسلا کر یا پِھر زبردستی . . . . . آخر آپ نے یہ سب سوچا بھی کیسے ؟
مہرین آپی : بس ہو گئی نا غلطی . . اب معاف کر دو۔
ثمر ین : آخر یہ ہو کیا رہا ہے ؟ بھائی آپ بتائیں نا ان دونوں کو آپ پہ کس بات کا شک ہے ؟ آخر آپ نے ان کے ساتھ ایسا کیا کیا ہے جو یہ اتنا ڈر گئی ہیں اور ہمارے ساتھ وہ نہیں ہونے دینا چاہتیں .
نورین آپی : ہم نے واقعی تمہارے ساتھ ذیادتی کی ہے سنی . جو کام کل ھونا ہے ، وہ آج ہی ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے . ہمیں ایسی بات نہیں کرنی چاہئے تھی . معاف کر دو۔
امبرین : ثمرین سے چلو یار . . . اپنے کمرے میں چلیں . ان تینوں کی شاید طبیعت ٹھیک نہیں ہے . یہ الجھی ہوئی باتیں یہ تینوں شاید ہمیں یہاں سے بھگانے کے لیے ہی کر رہے ہیں
جاری ہے