Ek Bhai aur char Behnen - Episode 11

ایک بھائی اور چار بہنیں

قسط 11


.  

ثمرین : ٹھیک ہے . پِھر آپ کو ہر طرح کی بے شرم گفتگو کی اجِازَت ہے۔

امبرین :  ثمرین سے  اور اِِس بے شرمی کی گفتگو سے تمہارے دِل میں ہلچل نہیں مچے گی ؟ 

ثمرین :  امبرین سے  صبر کرو یار . پہلے بات طے تو ہو لینے دو .  یہ مذاق بَعْد میں بھی ہوتا رہے گا۔

میں : اس کی بات پہ تھوڑی بہت توجہ تو دو یار . ہو سکتا ہے اس کی بات میں تھوڑا بہت وزن ہو۔

ثمر ین : مسکراتے ہوئے آپ مجھے اِِس سے زیادہ نہیں جان سکتے بھائی . ہم دونوں ایک دوسری کا عکس ہیں . اسے بھی پتا ہے کہ اِِس کی بات میں کوئی وزن نہیں . اور مجھے بھی پتا ہے کہ اِِس نے مذاق میں ہی یہ بات کی ہے . اِِس لیے  فضول بحث میں پڑے بغیر ہمارے درمیان جو بات طے ہو رہی تھی اسے مکمل کر لیتے ہیں۔

میں : اب اِِس میں کونسی بات طے ہونی رہ گئی ہے یار . سب کچھ طے ہو تو چکا ہے۔

امبرین : نہیں  ابھی آپ کو یہ وعدہ بھی کرنا ہے کہ آپ مہرین آپی اور نورین آپی کو کچھ نہیں بتائیں گے . نا یہ کہ ہمارے درمیان کیا طے ہوا ہے اور نا یہ کہ خیر سے بچیاں جوان ہو گئی ہیں۔

میں : ٹھیک ہے وعدہ . لیکن ان کے ساتھ وقت گزارنے کی اجِازَت تو ہے نا ؟ میرا مطلب. . . 

ثمرین : ہاں ہاں پتا ہے کیا مطلب ہے آپ کا . آپ اپنا مطلب کل سے پوُرا کر لیا کرنا . آج کی رات ہمارے نام ہے. اور آئندہ بھی ہفتے میں 3 راتیں آپ ہمارے ساتھ ہی گذاریں گے . اور وہ بھی ان دونوں کو بتائے بنا۔

میں : یعنی انہیں بتائے بغیر میں تم دونوں کے کمرے میں راتیں گزاروں گا ؟ اور اِِس دوران اگر ان میں سے کسی نے میرے کمرے کا چکر لگا لیا تو ؟

ثمرین :  امبرین سے یار میں تو سمجھی تھی کہ خوبصورت لڑکیوں کے سامنے لڑکوں کی عقل ہمیشہ گھاس چرنے چلی جاتی ہے . مگر یہ لڑکا تو خاصا عقل مند ہے۔

امبرین : ثمرین سے لڑکا اِِس وقت اپنی تعریف سن کے خوش بھی ہو رہا ہے . ایویں خوامخواہ تعریفیں نا کیے جاؤ

ثمرین : اچھا ٹھیک ہے . آخری شرط میں نے صرف آپ کو آزمانے کے لیے رکھی تھی . ورنہ ہماری طرف سے ایسی کوئی پابندی نہیں. آپ ان دونوں کو بس اتنا بتا سکتے ہیں کہ آپ رات کو ہم دونوں کے کمرے میں سوئیں گے۔

میں : یہ بات مانی جا سکتی ہے . ٹھیک ہے اب تو سب کچھ طے ہو گیا. اب میں مہرین آپی اور نورین آپی سے جا کے پوچھ سکتا ہوں کہ وہ دونوں ابھی تک اٹھی کیوں نہیں اور ناشتہ کیوں نہیں کیا ؟

امبرین : وہ دونوں صبح سب کے اٹھنے سے پہلے ناشتہ کر کے سوئی تھیں اور ہمیں منع کر کے سوئی تھیں کہ دوپہر کے کھانے سے پہلے نا اٹھایا جائے . اِِس لیے آپ بھاگ نکلنے کا کوئی اور بہانہ تلاش کریں۔

میں : کون پاگل دو دو حسیناؤں کو چھوڑ کے بھاگنا چاہتا ہے . بس یہ سوچ کے پریشان تھا کہ کہیں دونوں میں سے کوئی جاگنے کے بَعْد مجھے نا ڈھونڈ رہی ہوں۔

ثمرین : ہم یہاں آنے سے پہلے دونوں کے کمروں میں جھانک چکی ہیں . یہ الگ بات ہے کہ آپ کو ہیں دیکھنے گئی تھیں ویسے وہ دونوں اپنے اپنے کمروں میں ہی ہیں اور سو رہی ہیں۔

میں : یعنی اب میں اطمینان سے دو دو بچیاں پھنسانے کی کوشش کر سکتا ہوں . کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔

ثمرین : زبانی کلامی تو میں آپ سے پھنسنے کو تیار ہوں . میری بجائے آپ امبرین کو پھنسانے کی کوشش کریں۔

امبرین :  ثمرین سے  جب تم ہی پھنس رہی ہو تو میں کیوں نخرے دکھاؤں ؟ میں بھی تیار ہوں۔

میں : یار تھوڑی بہت تو کوشش کرنے دو . تم دونوں تو پھنسنے پہ تلی بیٹھی ہو۔

ثمر ین : یہ زبانی کلامی پھنسنا بھی کوئی پھنسنا ہے ؟ آپ ہمیں سچ مچ پھنسانے کی کوشش کریں . کیا پتا کبھی نا کبھی ہم بھی آپ سے سچ مچ ہی پھنس جائیں۔

میں : یعنی اِِس بات کا امکان بھی ہے ؟

امبرین : ابھی نہیں ہے تو کیا ہوا ؟مایوس ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟کبھی تو امکان ہو گا . کبھی تو ہمارا موڈ بدلے گا ؟

میں : بس تو آج سے میری ہر لمحہ یہی کوشش ہو گی کہ کسی طرح تم دونوں کا بھی موڈ بنا دوں. 

ثمر ین : ہنستے ہوئے کوشش جاری رکھیں . کیا پتا کب کامیابی مل جائے۔

میں : ھائے کب وہ دن آئے گا . جب دونوں کم سن حسینائیں میری بانہوں میں ہوں گی۔

امبرین : یہ ذیادتی ہے بھائی . ہم نےکئی بار آپ کو گلے لگایا ہے . آپ ہی مزے لینے کے موڈ میں نہیں تھے تو اِِس میں ہمارا کیا قصور ہے ؟ 

میں : پہلے مجھے پتا بھی تو نہیں تھا نا کہ تم دونوں اب جوان ہو گئی ہو۔

ثمر ین :  امبرین سے  کیا خیال ہے ؟ بچے کو ایک بار اور مزہ لینے کا موقع دینا چاہئیے ؟

امبرین : ثمرین سے نہیں یار رات کو . ابھی ایسا کچھ نہیں کرنا. کسی بھی وقت چھاپہ پڑ سکتا ہے۔

ثمرین : اوہ یہ تو میں بھول ہی گئی تھی . چلیں آپ رات تک صبر کر لیں . مگر کوئی شیطانی نہیں ہو گی۔

میں : یار مزے لینا تو انسانی حرکت ہے . شیطانی کیسے ہو گیا۔امبرین : ثمرین سے  یہ بچہ تو کچھ زیادہ ہی گلے پڑ رہا ہے۔

ثمرین :  امبرین سے ابھی کہاں گلے پڑ رہا ہے یار . ابھی تو بس بچے کا دِل کر رہا ہے گلے پڑھنے کو 

میں : یہ بچہ اِِس وقت بھی گلے پڑ سکتا ہے . اگر آپ دونوں کی اجِازَت ہو تو۔

امبرین : آپ سے کہا نا رات کو . ابھی کسی بھی وقت چھاپہ پڑ سکتا ہے . اور ویسے بھی کسی کو پتا نہیں چلنا چاہئیے کہ بچیاں جوان ہو گئی ہیں

میں : یعنی تم دونوں کا بھی دِل کر رہا ہے بچے کا دِل خوش کرنے کو 

ثمرین : آپ کی خوشی ہماری خوشی بھائی . یہ بے ضرر سی خوشی تو ہم آپ کو دے ہی سکتی ہیں۔

امبرین : ثمرین سے  یار تم کہیں بچے کو بگاڑ ہی نا دینا . ابھی گلے لگانا تمھیں بے ضرر لگ رہا ہے، کل کو ہونٹ چومنا اور جِسَم پہ ہاتھ پھیرنا بھی بے ضرر لگنے لگے گا۔

 میں : ھائے سچ ؟ ایسا ہو سکتا ہے ؟ 

ثمرین : منہ دھو رکھیے۔

میں : یعنی منہ دھونے کے بَعْد . . . .  ؟

ثمرین : بھائی . . . آپ نے وعدہ کیا ہے۔

میں : افُ . . . یہ وعدہ تو گلے میں پھنسی ھڈی بن گیا ہے . یوں لگتا ہے جیسے منو سلوی سامنے ہے اور  میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔

امبرین : ہم نے رات کا وعدہ کیا ہے نا بھائی . رات کو ہم دونوں آپ کے لائے ہوئے ریشمی کپڑے پہن کے آپ سے لپٹ کر سوئیں گی اور ساری رات آپ کے ساتھ ہی رہیں گی۔

میں : یہ تو وہ بات ہوئی کہ بچے کے ہاتھ میں لولیپوپ دے کے کہا جائے خبردار اسے چوسنا نہیں۔

ثمرین : آپ کو لولیپوپ ہی چوسنے ہیں تو ان دونوں سے رابطہ کریں. ہمارا ابھی موڈ نہیں بنا۔

میں : کب بنے گا تم دونوں کا موڈ ؟

ثمرین : کوشش جاری رکھیں . وقت کب بدََل جائے ، کب موڈ بن جائے  کیا پتا۔

میں : اچھا چھوڑو . اب کوئی اور بات کرتے ہیں۔

امبرین : اور بات کرنے سے پہلے آپ یہ بتائیں . . . آپ نے نورین آپی کو سرخ رنگ کا سوٹ بھی لا کے دیا ہے ؟ وہ صبح وہی پہنے ہوئے تھیں۔

میں : یار اب سہاگ رات کو دلہن سرخ جوڑا نہیں پہنے گی تو کیا سفید جوڑا پہنے گی ؟ میں نے تو چاروں کے لیے ایک ساتھ ہی لیے تھے . اب نورین آپی کو جلدی تھی تو انُہیں پہلے دے دیا . میں بس یہ چاہتا تھا کہ جب بھی تم چاروں میں سے کوئی پہلی بار میرے ساتھ سہاگ رات منائے ، تو سرخ جوڑے میں واقعی خود کو پہلی رات کی دلہن محسوس کرے 

ثمرین :  امبرین سے سنبھ لو یار . بچہ ہمیں بھی لالچ دے رہا ہے۔ کہیں ہم لالچ میں ہی بچے  کے ساتھ پھنس نا جائیں

 

امبرین : ثمرین سے میں لالچ میں نہیں آ رہی . مجھے متاثر کرنے کے لیے صرف سرخ جوڑا کافی نہیں ہے۔ 

میں : اور کیا کیا لے کے مانو گی یار؟ مجھے بتا دو . میں آج ہی لے آتا ہوں. 

امبرین : آہستہ آہستہ سمجھ جا ئیں گے آپ بھی کہ مجھے کیا چاہئیے . ابھی وقت ہی کتنا گزرا ہے . کوشش جاری رکھیں

ثمرین : چلیں آپ کا موڈ بدلتے ہیں . میں آپ کو اپنی ایک سہیلی کی شادی کے بَعْد کے تجربات سناتی ہوں . جس کی ابھی کچھ ہی دن پہلے ایک سالہ جوان بڈھے سے شادی  50 ہوئی ہے

 ثمرین کے دلچسپ اندازِ میں بات شروع کرنے پہ میں نے بھی سننا شروع کر دیا اور پِھر ان دونوں کے ساتھ ایسی ہی دلچسپ باتوں میں وقت گزرنے کا پتا ہی نا چلا اور دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا 

.کھانے پہ مہرین آپی اور نورین آپی بھی امی کے ساتھ موجود تھیں. مہرین آپی تو نارمل ہی نظر آ رہی تھیں مگر نورین آپی مجھے دیکھتے ہی کسی ولیمے کی دلہن کی طرح شرمانے لگی تھیں . امی نے پتا نہیں نوٹ ہی نہیں کیا تھا یا پِھر جان بوجھ کے نظر اندازِ کر رہی تھیں ، میں اندازہ نہیں کر پا رہا تھا . وہ بظاہر نورین کی حالت سے انجان ہم سے باتیں کرتے ہوئے کھانے میں مصروف رہیں اورںکھانے کے بَعْد حسب معمول صحن میں اپنا دربار لگا لیا. مجھے امی کا یہ رویہ کچھ عجیب سا لگ رہا تھا . شک سا ہو رہا تھا کہ انُہیں نورین آپی کی کیفیت سے کچھ نا کچھ تو پتا چل ہی گیا ہے . لیکن اگر انُہیں پتا چل گیا تھا تو وہ مجھ سے یا نورین آپی سے غصہ تو ظاہر کرتیں . وہ تو انُہیں شرماتے ہوئے دیکھ کے بھی انجان بنی رہی تھیں . کھانے کی ٹیبل سے اٹھ کے ہم پانچوں میرے کمرے میں آ گئے۔

 ثمرین اور امبرین تو بلا تکلف میرے پلنگ پہ میرے ساتھ جڑ کے بیٹھ گئی تھیں جب کہ مہرین آپی اور نورین آپی نے صوفے پہ نشست جما لی تھی۔

میں : مہرین آپی سے  آپی آپ نے امی کا اندازِ نوٹ کیا ؟ مجھے لگتا ہے وہ جان بوجھ کے نورین آپی کی کیفیت نظر اندازِ کر رہی تھیں 

مہرین آپی : انُہیں پتا چل گیا ہے سنی . . . صبح جب ہم دونوں ناشتہ کرنے اٹھی تھیں تو ہم دونوں نے ہی رات والے کپڑے تبدیل نہیں کیے ہوئے تھے. امی وہاں پہلے سے ہی موجود تھیں اور اطمینان سے بیٹھی چائے پی رہی تھیں . ہم دونوں تو انُہیں دیکھ کے گھبرا گئی تھیں مگر انہوں ہمیں نا ڈانٹا نا برا بھلا کہا . بس اتنا 




جاری ہے

*

Post a Comment (0)