ایک بھائی اور چار بہنیں
قسط 10
امبرین : آپ آج سارا دن اور آج کی ساری رات ہم دونوں کے ساتھ گذاریں گے . مہرین آپی اور نورین آپی کی آج چھٹی۔
میں : بوكھلا کے پلنگ سے اٹھ کے کھڑا ہوتے ہوئے ٹوٹ . ٹی. ٹی . . . . . . . تم دونوں کے ساتھ. . . . مطلب ؟
ثمرین : مطلب وہ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں . مانا کہ ہم بھی جوان ہو چکی ہیں مگر اِِس جوانی نے ہمیں اتنا تنگ نہیں کیا ہوا کہ خود کو پلیٹ میں سجا کے آپ کو پیش کر دیں . ہماری بھی آخر کچھ عزت نفس ہے۔
میں : خدا کے لیے کھل کے بتاؤ۔ میں پریشان ہو رہا ہوں.
امبرین : اِِس پہ ایک شعر عرض کرتی ہوں۔
بٹھا کے رات بھر پہلو میں یار کو غالب
جو لوگ کچھ نہیں کرتے وہ کمال کرتے ہیں
تو آپ کو آج وہی کمال کرنا ہے ..امبرین کے منہ سے غالب کا شعر سن کے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا . صباء نے پاکستان سے آ کے اتنا تو بتایا تھا کہ میری چاروں بہنیں گاؤں کے گرلز ہائی اسکول میں میٹرک تک پڑھی ہوئی ہیں مگر اتنا نہیں پتا چل پایا تھا کہ اتنی معمولی تعلیم حاصل کرنے پہ بھی ان کا شاعری کا ذوق اتنا اچھا ہو گا . اب تک کسی نے بھی اپنے اندازِ گفتگو سے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ انہوں نے تھوڑی بہت بھی تعلیم حاصل کر رکھی ہے ، نا کبھی کسی نے انگلش کا کوئی لفظ بولا تھا اور نا ہی عام گفتگو میں کوئی مشکل لفظ استعمال کیا تھا ، جس سے میں سمجھ پا تا کہ میری بہنیں بھی تھوڑا بہت پڑھی لکھی ہیں. انگلش کے عام الفاظ یعنی سوری ، تھینک یو وغیرہ تو آج کل ان پڑھ لوگ بھی بول لیتے ہیں ، مگر میں نے یہ الفاظ بھی ان چاروں کے منہ سے اب تک نہیں سنے تھے یہ پہلا موقع تھا کہ ان میں سے کسینے مجھے اپنے تھوڑا بہت تعلیم یافتہ ہونے کا احساس دلایا تھا۔
ثمرین : اتنا حیران کیوں ہو رہے ہیں ؟ آپ کو پتا نہیں کہ ہم چاروں نے میٹرک تک پڑھا ہے ؟ ابو جان نے چاھے فون یا خط میں نا بتایا ہو، صباء آپی نے تو یہاں سے جا کے بتایا ہی ہو گا۔
میں : ہاں شاید سرسری سا ذکر ہوا تھا . مگر تم لوگوں کے منہ سے کبھی کوئی ایسی بات ہی نہیں سنی کہ میں سمجھ پا تا کہ کسی پڑھے لکھے شخص سے بات کر رہا ہوں۔
امبرین : یعنی اپنی تہذیب کے دائرے میں رہنا ہی ہمارے ان پڑھ ہونے کی دلیل بن گیا . آپ کو شاید پتا نہیں کہ ابو جان کی سختی سے تاکید ہے کہ گھر میں انگلش کا کوئی لفظ نا بولا جائے . جب اپنی زُبان میں بات کی جا سکتی ہے تو خوامخواہ منہ ٹیڑھا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
ثمرین : ان باتوں میں الجھ کے آپ اصل بات سے ہٹ نہیں سکتے . آپ کو وعدہ کرنا ہو گا کہ آج کا پورا دن اور پِھر پوری رات آپ ہم دونوں کے ساتھ گذاریں گے۔ ثمرین کی دوبارہ یاد دہانی پہ میں مسکرا دیا موضوع سے ہٹنا شاید اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا اور وہ مجھ سے وعدہ لیا چاہتی تھی۔
میں : ٹھیک ہے جناب . جیسے آپ کا حکم . مگر ان دونوں کو بتانے کی اجِازَت تو ہے نا کہ آج ان کے پاس نہیں آؤں گا ؟
امبرین : شاہانہ اندازِ میں گردن اکڑا کے اجِازَت ہے . مگر کوئی الٹی سیدھی بات کہنے کی اجِازَت نہیں ہے . میں نہیں چاہتی وہ دونوں ہمیں بھی جوان سمجھنا شروع کر دیں . بچے بنے رہنے میں بہت فائدہ ہے۔ میں اس کی بات سن کے ایک بار پِھر بوكھلا کے رہ گیا . یعنی وہ جان بوجھ کے بچی اور معصوم بنی رہتی تھیں ؟ اگر ایسا تھا تو واقعی یہ دونوں بہت کامیاب ایکٹریس تھیں۔
میں : اِِس کی تشریح بھی کر دو اب۔
ثمرین : کوئی خاص معرفت کی بات تو نہیں ہے جو سمجھ میں نا آئے . اپنی ہم عمر شادی شدہ سہیلیوں سے ان کی شادی شدہ زندگی کے احوال سن کے ہم جیسی لڑکیاں انجان اور معصوم تو رہ نہیں سکتی تھیں . مگر خدا کا شکر ہے کہ نفس ہمارے قابو میں ہے اور ہمیں تنگ نہیں کرتا . ہم نے خود کو ذہنی طور پہ اتنا مضبوط کر رکھا ہے کہ اگر ساری عمر بھی کنواری رہنا چاہیں تو رہ سکتی ہیں . کوئی پریشانی نہیں ہو گی ہمیں . بس ہم یہ نہیں چاہتیں کہ گھر والوں کو ہماری بلوغت کا علم ہو جائے اور لوگ ہم پہ بھی ترس کھانے لگیں کہ ھائے کتنی خوبصورت جوان لڑکیاں اور یہ ظلم ،بیچاری شادی کے بغیر بیٹھی ہیں۔
میں : چلو یہ معصوم بنے رہنے کی ایکٹنگ تو سمجھ آ گئی مگر یہ رات بھر پہلو میں بٹھانے کا کیا مقصدہ ؟ یہ بھی تو سمجھا دو یار۔امبرین : بس تھوڑی سی دِل پشوری . خدا خدا کر کے تو ایک ہینڈسم لڑکا ملا ہے . تھوڑا دِل ہی بہلا لیں گے۔
ثمرین : ہاں ویسے بھی ہمیں آپ کے لائے ہوئے ریشمی کپڑے پہننے کے لیے کسی موقع کا انتظار ہے . آپ کو پہن کے دکھائیں گی تو تھوڑی بہت تعریف ہی سننے کو مل جائے گی . اگر زُبان سے تعریف نہیں کریں گے تو آنکھیں ہی کچھ نا کچھ کہہ دیں گی . ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے . بس اسے جوانی کا تقاضہ سمجھنے سے پرہیز کیجیے گا بچیوں کو بھی اچھے کپڑے پہن کے دکھانے کا شوق ہوتا ہے۔
میں : اور اگر . . . فرض کرو. . . اگر مجھ سے ان بچیوں کو جوان سمجھنے کی بھول ہو گئی تو . . . ویسے بھی ریشمی کپڑوں میں لڑکی کا فگر کچھ زیادہ ہی سیکسی ہو جاتا ہے۔
ثمرین : اسی موقع پر تو ہم دونوں کی اتفاق کی برکت کام آئے گی ورنہ جہاں وہ دونوں آپ کے دام الفت کا شکار ہو گئیں ، تو ہم معصوم بچیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں۔
میں : یار دو دن سے بچیاں سمجھ کے ہی تو دِل پہ جبر کر رہا ہوں . اب اگر تم لوگ بھی دِل پشوری کرنا چاہتی تو تھوڑی بہت آنکھیں سینکنے کا حق تو مجھے بھی ھونا چاہئیے . ویسے بھی اب تک میں نے بچی پٹانے کا تجربہ نہیں کیا . جو مجھ سے میری بڑی بہنوں نے کرنے کو کہا ، میں نے کر دیا . اب ایک ساتھ دو بچیاں پٹانے کا موقع مل رہا ہے تو چانس مار لینے دو . تم دونوں کا کیا جائے گا بچے کا دِل ہی خوش ہو جائے گا . میں جان بوجھ کے ان دونوں سے لوفروں والے اندازِ میں بات کر رہا تھا تاکہ میری اِِس حرکت پہ گھبرا کے وہ دونوں مجھے رات میں بلانے کا اِراَدَہ ترک کر دیں . مگر وہ دونوں بھی اتنی بھولی نہیں تھیں کہ میری چالاکی نا سمجھ پاتیں۔
امبرین : اگر آپ اپنی حد میں رہیں گے تو جتنا جی چاھے چانس مارلیں . ہمیں اعتراض نہیں ہو گا۔
ثمرین : اور حد سے آگے بڑھنے کی تب تک کوشش بھی مت کیجیے گا جب تک ہم خود ایسا نا چاہیں۔
میں : اب یہ حد بھی بتا دو کہ کہاں تک ہو گی . کہیں بے خبری میں بچیاں ہاتھ سے نکل ہی نا جائیں۔
امبرین : اتنے ننھے کاکے بچے نہیں ہیں آپ کہ آپ کو یہ بھی پتا نا ہو . آپ نے ہمارے نسوانی اعضاء لڑکیوں کے پرائیویٹ باڈی پارٹس کو نہیں چھیڑنا . ہم اگر معصومیت بھرے اندازِ میں آپ سے لپٹ بھی جائیں تو آپ کو اپنے ھاتھوں اور . . . خود پہ قابو رکھنا ہو گا . ورنہ یقینی طور پہ یہ بچیاں ہاتھ سے نکل جائیں گی۔
میں : پِھر سوچ لو یار . مجھے نہیں لگتا کہ مجھے رات کے وقت تم دونوں کے کمرے میں آنا چاہئیے . رات کے وقت ویسے بھی لڑکی لڑکا اگر کمرے میں تنہا ہوں تو ان کے ساتھ شیطان بھی ہوتا ہے . اگر میرے ساتھ ساتھ تم دونوں بھی ایک ساتھ ہی خود پہ اختیار کھو بیٹھیں تو بڑی گڑبڑ ہو جائے گی یار. میں نے ایک بار پِھر سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کہا تاکہ انُہیں اپنے فیصلے پہ نظر ثانی سیکنڈ تھوٹ کا موقع ملے مگر ان کے چہروں کی مسکراہٹ سے لگتا نہیں تھا کہ میری کسی بات کا ان پہ کوئی اثر ہو رہا ہے
. ثمرین : فرض کریں اگر ایسا ہو بھی گیا تو کیا ہماری ہونے والی شادیاں ٹوٹ جائیں گی ؟ لڑکے والے ہمارا رشتہ ٹھکرا دیں گے ؟ ہمارے ہونے والے شوہر ہمیں شادی سے پہلے ہی طلاق دے ڈالیں گے ؟ جب ہماری شادیاں ہی نہیں ہونی تو ہم ایسی انہونی باتوں سے کس لیے ڈریں ؟ اگر اتنا ہی آپ پہ شیطان سوار ہے کہ اپنی چھوٹی بہنوں کی معصومیت کو روند کے ہی جان چھوڑے گا تو یہ بھی کر کے دیکھ لیں . کم ازَ کم میں تو آپ کو نہیں روکوں گی . امید ہے اب تو آپ کو رات کو ہمارے کمرے میں آنے پہ کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
میں : اچھا بابا . تم دونوں جیتیں میں ہارا . پکا وعدہ کرتا ہوں کہ آج پورا دن اور پوری رات میں تم دونوں کے ساتھ ہی گزاروں گا اور اپنی حد سے آگے بھی نہیں بڑھوں گا . اب خوش ؟میری بات سن کے دونوں خوش ہو کے مجھ سے لپٹ گئیں۔
امبرین : بہت شکریہ بھائی۔
ثمرین : آپ بہت اچھے ہیں بھائی . ہماری ناراضگی ختم۔
میں : اچھا اب مجھے امتحان میں مت ڈالو . یہ جاننے کے بَعْد کہ تم دونوں جوان ہو گئی ہو ، میرے جذبات میں تم دونوں کی قربت سے ہلچل مچانے لگتی ہے . یہ کہتے ہوئے میں ان دونوں کو ساتھ لے كے دوبارہ پلنگ پہ بیٹھ گیا.
امبرین : کوئی بات نہیں بھائی . آپ شوق سے ہمیں جوان سمجھتے رہیں. بس اپنا وعدہ نا بھولیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔
میں : اچھا کمر پہ تو ہاتھ لگا سکتا ہوں نا ؟
ثمرین : امبرین سے یار اگر لڑکا کمر پہ ہاتھ پھیرے تو کیا ہوتا ہے ، سونیا نے بتایا تھا نا ؟
امبرین : ہاں ہاں . بہت خطرناک بات ہے . بھائی آپ کہیں بھی ہاتھ نہیں لگائیں گے۔
میں : یار یہ نئی پابندی لگا دی تم دونوں نے . اِِس سے پہلے تو صرف نسوانی اعضاء کی بات ہوئی تھی۔
ثمر ین : سمجھا کریں نا بھائی . اتنا نرم و نازک جوان جِسَم اگر کسی لڑکے کی قربت میں ہو تو لڑکا خود بخود ہی بہکنے لگے گا . ہم یہ۔ خطرہ مول نہیں لے سکتیں۔
میں : یہ ظلم مت کرو یار . میں وعدہ کر چکا ہوں نا کہ حد سے آگے نہیں بڑھوں گا . اب اتنی سی اِجازَت تو دے دو۔
امبرین : بھائی کہیں آپ سچ مچ تو ہمیں جوان نہیں سمجھنے لگے ؟میں : ہاں یار . لگتا تو کچھ کچھ ایساہی ہے . جب سے تم نے بتایا ہے کہ تم دونوں بھی جوان ہو گئی ہو ، میرے دِل میں تم دونوں کی قربت سے ہلچل سی مچنے لگی ہے۔
ثمرین : امبرین سے یار اب تو مجھے بھی ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں میرے دِل میں بھی ہلچل نا مچنے لگے . چلو باہر چلتے ہیں . رات کی رات کو دیکھی جائے گی . اِِس وقت میں یہ خطرہ مول نہیں لے سکتی۔
میں : سوچ لو . اگر باہر کسی نے مجھے تم دونوں کو تاڑتے ہوئے دیکھ لیا تو۔
امبرین : نا بابا نا . . مجھے باہر نہیں جانا . میں تو یہیں بیٹھی ہوں . چاھے جو بھی ہو جائے۔
ثمرین: امبرین سے اور تمھیں یوں خطرے میں چھوڑ کے میں بھی باہر نہیں جاؤں گی . اب جو ہو گا دیکھا جائے گا . اب تک میرے مذاق میں انُہیں تنگ کرنے پہ وہ دونوں بھی اسی ٹون میں جواب دیتی جا رہی تھیں . اور شاید میری طرح انجوئے بھی کر رہی تھیں . آخر مجھے ہی ہار ماننا پڑی۔
میں : اچھا بس اب مذاق ختم . چلو دوستی کر لیتے ہیں . میری طرف سے پکا وعدہ کہ باتوں میں چاھے میں کتنی ہی بے شرمی کا مظاہرہ کروں ، تم دونوں کی رضامندی کے بغیر تم دونوں میں سے کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا
جاری ہے