Ek Bhai aur char Behnen - Episode 9

ایک بھائی اور چار بہنیں

قسط 9


 

مگر آنكھوں سے اب بھی تکلیف کا اظہار ہو رہا تھا. 

میں : بس آپی . جو تکلیف ہونی تھی ہو گئی . کچھ دیر میں یہ تکلیف ختم ہو جائے گی. 

آپی : ہاں . . . . . پتا ہے. . . . تم رکو مت . . . . . میری تکلیف کی پرواہ مت کرو . . . . زور لگا کے اور آگے کرو. 

میرا دِل تو نہیں چاہ رہا تھا کہ انُہیں ایک پل کی بھی تکلیف مزید دوں مگر ان کے اصرار پہ مجھے مزید زور لگانا پڑا . اِس بار پوُرا لن اندر چلا گیا . اور حیرت کی بات یہ تھی کہ ان کی چوت کی بھی یہی آخری حد تھی . یعنی میرا لن ان کی چوت سے بالکل پرفیکٹ فٹ تھا . . . . . وائو پرفیکٹفٹ . کچھ دیر رک کے میں نے ان کی حالت اعتدال پہ آنے کا انتظار کیا اور پِھر دھیرے دھیرے آگے پیچھے ھونا شروع کر دیا . ان کی چوت نے جیسے میرے لن کو جکڑا ہوا تھا جس سے میرا لن بہت پھنس پھنس کے اندر باہر ہو رہا تھا . مگر مزہ بہت آ رہا تھا . میں نے کسی نا خوشگوار صورت حال سے بچنے کے لیے فورا اپنے پی سی مسلز کو ٹائیٹ کر لیا تاکہ کہیں انجانے میں بھی میری منی اندر نا گرے . آپی کو بھی شاید اسی وقت ہی خیال آیا تھا کہ ہم نے کوئی پروٹیکشن تو لی ہی نہیں. میری آنكھوں میں دیکھتے ہوئے انکی آنكھوں میں جو سوال تھا وہ الفاظ کا محتاج نہیں تھا۔

میں : بے فکر رہیں آپی . کچھ نہیں ہو گا۔

آپی : کیسے بے فکر رہوں سنی . . . ہم نے کوئی انتظام بھی نہیں کیا ہوا . کہیں کچھ ہو گیا . . . . مجھے . . . . . . . . حمل . . . میرا مطلب. . . .   بچہ. . . . 

میں : میں نے کہا نا آپی . کچھ نہیں ہو گا . اگر میں 22 گھنٹے بھی اندر باہر کرتا رہوں گا تب بھی کچھ نہیں ہو گا. 

آپی : یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ میں نے کئی شادی شدہ لڑکیوں سے سنا ہے کہ مرد بس 15 منٹ ہی نکال سکتا ہے . پِھر . . . 

میں : آپ اِس الجھن میں مت پڑیں آپی . یہ میرا مسئلہ ہے . آپ کا جب تک دِل نہیں بھرے گا ، میں آپ کا ساتھ دوں گا۔

آپی : ماننے والی بات تو نہیں ہے . مگر تم ٹھیک ہی کہہ رہے ہو گے . خیر تم رک کیوں گئے . کرو نا . .  مجھے مزہ آ رہا تھا . میں ان کی بات پہ مسکراتا ہوا اور زور سے لن آگے پیچھے کرنے لگا . اور آپی بھی مزہ لیتے ہوئے ہلکی ہلکی آوازیں نکا لنے لگیں . . آہ . . . . آں . . . . .مم . . .  . . . . . آہ . . . . . . . . . آہ . . . یوں ہی دھیرے دھیرے آگے پیچھے کرتے ہوئے میں کافی دیر تک لگا رہا اور اِِس دوران دو بار مجھے آپی کے ڈسچارج  ہونے کا پتا چلا . ان کے اندر کا لکویڈ فوارے کی طرح میرے لن پہ گرتا اور میرے لن میں بھی گدگدی سی ہونے لگتی دونوں بار میں نے بڑی مشکل سے خود کو ڈسچارج ہونے سے روکا اور تھوڑا تھوڑا وقفہ دے کے لگا رہا . تیسری بار جب وہ ڈسچارج ہوئیں تو انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور گہرے گہرے سانس لینے لگیں . میں نے کچھ سوچتے ہوئے مزید کرنا مناسب نا سمجھا اور وہیں رکا رہا . کافی دیر انتظار کرتا رہا کہ شاید اب آپی آنکھیں کھول کے مجھے مزید کرنے یا پِھر بس کرنے کو کہیں گی مگر انہوں نے نا آنکھیں کھولیں نا کچھ کہا تو مجھے خود ہی انُہیں مخاطب کرنا پڑا

میں : آپی . . . آپی . . . باہر نکال لوں ؟

آپی :  آنکھیں کھول کے مجھے دیکھتے ہوئے ہوں . . . . ہاں . . .  اب بس . . . اب مزید ہمت نہیں ہے. میں نے لن باہر نکالا اور اٹھ کے جوتا پہن کے باتھْ روم چلا گیا . وہاں فلش کے پاس کھڑے ہو کے میں نے پی سی مسلز ریلیز کر دیئے اور میں ڈسچارج ہونے لگا . کافی دیر جھٹکے لیتے ہوئے میں ڈسچارج ہوتا رہا اور پِھر ٹشو سے اپنا لن صاف کر کے میں دوبارہ اندر آیا تو آپی شلوار پہن چکی تھیں اور اب بستر کی خون آلود چادر اتار رہی تھیں . مجھے دیکھ کے وہ بڑے پیار بھرے اندازِ میں مسکرا دیں اور پلنگ پہ بیٹھ گئیں . میں نے آگے بڑھ کے اپنی شلوار اٹھا کے پہنی اور ان کے قریب بیٹھ گیا۔

 میں : آپی آپ خوش ہیں نا ؟

آپی : ہاں میری جان . بہت خوش . اتنی خوش کے تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔

میں : آپی . . . وہ . . . اگر . . آپ کو اعتراض نا ہو تو . . . . میں کبھی کبھی آپ کے. . . . میری نظروں کو اپنے بوبز پہ دیکھ کے وہ ہنس پڑیں شاید وہ سمجھ گئی تھیں کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔

آپی : تمھیں حق ہے میری جان . یہ حق میں اپنی خوشی سے تمھیں دے رہی

میں : خوش ہو کر ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے  بہت بہت شکریہ آپی .  آپ بہت اچھی ہیں۔

آپی : اچھے تو تم ہو سنی . جو میری خوشی ، مجھے میری ہی رضامندی سے دینے کے لیے بھی اجِازَت مانگ رہے ہو . میں تو اپنا پوُرا وجود تمہارے نام کر چکی ہوں . جب چاہو اپنا حق سمجھ کے آ جانا۔

میں : جانے کا دِل چاھے گا تو آنے کا سوچوں گا نا آپی ؟ آپ کے پاس سے تو جانے کو ہی دِل نہیں کر رہا۔

آپی : دِل تو میرا بھی نہیں چاہتا کہ تم یہاں سے جاؤ . مگر مجبوری ہے۔ تمھیں جانا تو ہو گا۔

 میں : پِھر . . . کل آ جاؤں ؟

آپی : کہا نا میری جان . جب تمہارا دِل چاھے . لیکن بس تمہاری خوشی پوری کرنے کے لیے . کم سے کم ایک ہفتہ تو میں اِِس رات کو یادگار رکھنا چاہتی ہوں . ویسے بھی یہ کام روز نہیں ھونا چاہئیے . ان کا اشارہ یقینا سیکس کی طرف تھا . یعنی وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ایک ہفتے سے پہلے ہم دوبارہ سیکس کریں . جبکہ اپنے بوبز سے مزہ لینے کی انہوں نے کھلی اجِازَت دے دی تھی . مجھے اور کیا چاہئیے تھا . ویسے بھی سیکس کرنے میں مجھے وہ مزہ نہیں آتا تھا جو مہرین آپی کے ہونٹوں اور نورین آپی کے بوبز میں تھا . اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ہر وقت ان دونوں بہنوں کے ہونٹ اور بوبز چوستا رہتا . کبھی چھوڑتا ہی نہیں . مگر اِِس کے لیے رات کا انتظار کرنے پہ مجبور تھا . اور اگلی رات اب ایک پوُرا دن گزرنے کے بَعْد ہی آنی تھی . اور یہ دن گزارنا اب مجھے کتنا مشکل لگتا تھا ، یہ میرا  دِل ہی جانتا تھا . آپی کو ایک الوداعی کس کر کے میں اٹھا اور ان کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں آ گیا . اب نیند تو آنی نہیں تھی . سو میں اپنے پلنگ پہ لیٹ کر اِِس یادگار رات کا ایک ایک لمحہ اپنے تصور کی اسکرین پہ دیکھ کے خوش ہوتا رہا .اگلی صبح میری حیرت کی انتہانا رہی جب کوئی مجھے ناشتے کے لیے بلانے نہیں آیا . مہرین آپی اور نورین آپی کا تو میں سمجھ سکتا تھا کہ شاید نیند پوری نا ہونے کی وجہ سے اب تک سو رہی ہوں . مگر امبرین اور ثمرین کو کیا ہوا . ایک بار بھی میرے کمرے میں کسی نے جھانکا تک نہیں ؟ آخر ہوا کیا ہے ؟ پتا نہیں کیا بات تھی . بہر حال سب کا سامنا تو کرنا ہی تھا . میں نے اٹھ کے باتھْ لیا اور کپڑے تبدیل کر کے  ناشتے کے لیے کھانے کے کمرے میں پہنچ گیا جہاں امی ابو کے علاوہ امبرین اورثمرین بھی موجود تھیں . میرے سلام کا جواب صرف امی ابو نے ہی دیا . امبرین اور ثمرین نے تو مجھے نگاہ اٹھا کے دیکھا تک نہیں . شاید کسی بات پہ وہ مجھ سے  ناراض ہو گئی تھیں . مگر کس بات پہ ؟ انہیں میری کونسی بات اتنی بری لگی کہ وہ میری طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتیں ؟ کہیں انہیں کچھ پتا تو نہیں چل گیا ؟ اندر ہی اندر پریشان ہوتا میں ان کی ناراضگی کے مختلف اسباب سوچتا رہا اور چُپ چاپ ناشتہ ختم کر کے اٹھ گیا . اب میرا رخ اپنے کمرے کی طرف نہیں بلکہ امبرین اور ثمرین کے کمرے کی طرف تھا . ہروقت ایک دوسری کا سایہ بنی رہنے والی وہ جڑواں بہنیں سوتی بھی ایک ہی کمرے میں تھیں. کافی دیر تک میں پلنگ پہ بیٹھا ان دونوں کا انتظار کرتا رہا . 

آخر وہ دونوں اپنے کمرے کا دروازہ کھول کے اندر داخل ہوئیں تو مجھے پہلے سے موجود دیکھ کے وہیں رک گئیں 

امبرین : آپ شاید بھول رہے ہیں بھائی . یہ مہرین آپی یا نورین آپی کا کمرہ نہیں ہے . یہاں ہم دونوں ہی ہوتی ہیں۔

ثمرین : شاید آپ ہمیں رازداری کا وعدہ یاد دلانے آئے ہیں . بے فکر رہیں ہم کسی سے کچھ نہیں کہیں گی 

میں : بات کیا ہے ؟ کچھ پتا بھی تو چلے کہ میری کس بات پہ تم دونوں مجھ سے اتنی ناراض ہو ؟ 

میری بات سن کے پہلے تو وہ دونوں مجھے غصے سے گھورتی رہیں اور پِھر ثمرین نے اپنے پلنگ کی سائڈ ٹیبل کی دراز سے ایک منی ٹپ ریکارڈر نکال کے پلے کا بٹن دباتے ہوئے ٹپ ریکارڈر میرے ہاتھ میں تھما دیا اور پِھر کچھ نامانوس سی آوازوں کے بَعْد مہرین آپی کی آواز سن کے تو میرے ھاتھوں کے طوطے اڑ گئے. " بس کرو سنی . ورنہ میں خود پہ اختیار کھو بیٹھوں گی . اب جاؤ " . یہ بات تو انہوں نے کل رات ہی مجھ سے کہی تھی جب میں ان کے کمرے میں تھا . اور کیا کر رہا تھا ، یہ مجھے یاد کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی. یقینا یہ نامانوس سی آوازیں بھی اسی دوران ریکارڈ ہو گئی تھیں. مگر یہ ریکارڈنگ ہوئی کیسے ؟ کیا ان دونوں کو پہلے سے مجھ پہ شک تھا کہ میں ایسا کروں گا. میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ امبرین نے ایک دوسرا منی ٹپ ریکارڈر میرے ہاتھ میں تھما دیا اور پہلا میرے ہاتھ سے لے کر ثمرین کو دے دیا . اور یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ اِِس کیسٹ میں کل رات کی میری اور نورین آپی کی باتیں اور آوازیں ریکارڈ تھیں . شرمندگی اور گھبراہٹ سے میرے جِسَم سے پسینے کی دھاریں پھوٹ پڑیں اور ہاتھ پاؤں کانپنے لگے . میں نے تو اپنی طرف سے ہر قسِم کی احتیاط کی تھی کہ کسی کو پتا نا چلے کہ میں مہرین آپی اور پِھر نورین آپی کے کمرے میں گیا تھا . مگر شاید ان دونوں کو پہلے سے کچھ شک ہو گیا تھا جو انہوں نے پہلے سے ہی انتظامات کر رکھے تھے . دونوں کمروں میں یقینا پہلے سے ٹپریکارڈر چھپا دیئے گئے تھے اور اب ہماری پچھلی رات کی کاروائی کا ثبوت میرے ھاتھوں میں تھا. 

ثمرین : اب تو آپ کو پتا چل ہی گیا ہو گا کہ بات کیا ہے ؟

امبرین : یہ ٹپ ریکارڈر ہمیں صباء آپی نے تحفے کے طور پہ دیے تھے . ہمیں کیا پتا تھا یہ ایسے کام آئیں گے. یہ کہتے ہوئے امبرین نے میرے کانپتے ھاتھوں سے ٹپ ریکارڈر لے کے بند کر دیا . اور اب میں ڈرتے ہوئے دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ پتا نہیں اب میرے ساتھ کیا سلوک ہو گا . یہ ناراضگی کیا لمبی چلے گی؟ یا پِھر یہ معاملہ امی اباّ کے سامنے لایا جائے گا ؟ نہیں . . یہ نہیں ھونا چاہئیے

ثمرین : میں جانتی ہوں آپ کو ہم پہ ذرا سا بھی اعتبار نہیں ہے۔ ورنہ اتنی رازداری سے یہ معاملات نا طے کیے جاتے. بہر حال . آپ چاہیں تو اپنے ان كارناموں کے ثبوت اپنے ھاتھوں ضایع کر سکتے ہیں . ہم نے امی ابو کو سنانے کے لیے یہ کیسٹ ریکارڈ نہیں کیے تھے . لیکن اگر آپ یہ کیسٹ ہم پہ اعتبار کرتے ہوئے ہمیں واپس کر دیں تو یہ آپ کا ہم پہ احسان ہو گا . ہمارے پاس ان کے علاوہ اور کوئی کیسٹ نہیں ہیں. 

میں : ڈرتے ڈرتے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے معافی کی کوئی صورت نہیں ؟

امبرین : ایک شرط پہ معافی ملے گی 

میں : کیا ؟ جلدی بتاؤ . میں تم دونوں کی ناراضگی دور کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔





جاری ہے

*

Post a Comment (0)