ایک بھائی اور چار بہنیں
قسط 8
مجھے صبح سے ہی یہ دن گزارنا مشکل لگ رہا تھا .آج کا دن بھی تقریبا پچھلے دن کی طرح ہی گزرا یعنی چاروں بہنوں کے ساتھ اپنے کمرے میں ہی وقت گزارا . انُہیں 2 ، 3 فلموں کی کہانیاں سنائیں درمیان میں بس کھانے کا وقفہ ہوا ، ورنہ ہم پانچوں بہن بھائی سارا دن ہی اکٹھے رہے . بہنوں نے اور خاص طور پہ چھوٹی دونوں نے تو خوب انجوئے کیا ہو گا . جب کہ مہرین آپی ، نورین آپی اور میں بس مارے بندھے ہی وقت کاٹ رہے تھے . ہم تینوں کو ہی رات ہونے کا انتظار بڑی شدت سے تھا . اور مجھے تو کچھ زیادہ ہی شدت سے انتظار تھا کہ مجھے ایک ہی رات میں دو مزے ملنے والے تھے . مہرین آپی کے سیکسی جِسَم سے لپٹ کے ان سے کس کرنا تھا اور نورین آپی کے ساتھ تو آج میری سہاگ رات تھی . مجھے سہاگ رات کا اتنا انتظار نہیں تھا جتنا ان کے بوبز کا مزہ لینے کا دِل کر رہا تھا. آج تک کسی بھی لڑکی کے اتنے ٹائیٹ بوبز میں نے نا دیکھے تھے، نا سنے تھے . اور محسوس تو میں نے صرف اپنی بہنوں کے بوبز ہی کیے تھے سو یہ بات تو میں کہہ ہی سکتا تھا کہ میری چاروں بہنوں میں صرف نورین آپی کے بوبز ہی اتنے ٹائیٹ اور سیکسی تھے۔
دن میں ایک آدھ بار موقع ملنے پر مہرین آپی نے مجھے آج پِھر رات 11 بجے ان کے کمرے میں آنے کی یاد دہانی کروا دی تھی اور نورین آپی کی آنكھوں سے چھلکتی مستی تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں چھوڑ رہی تھی . خیر خدا خدا کر کے وہ دن گزرا شام ہوئی اور پِھر رات کو سب اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے۔ آج کی رات ہم 3 افراد کو نیند نہیں آنے والی تھی ، یعنی میں ، مہرین آپی اور نورین آپی
ٹھیک 11 بجے میں سب تسلیّ کرنے کے بعد مہرین آپی کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ آج بلو ریشمی ڈریس میں تھیں اور ڈریس کی ڈوریاں آج پہلی بار انہوں نے ٹائیٹ کر کے باندھی تھیں جس سے ان کے سیکسی بوبز واضح ہو رہے تھے . پہلے جب انہوں نے گرین ڈریس پہنا تھا تو فٹنگ والی ڈوریاں انہوں نے ٹائیٹ نہیں کی تھیں ، اِِس لیے بوبز باہر سے زیادہ محسوس نہیں ہو رہے تھے میں جیسے ہی دروازہ لوک کر کے ان کے پلنگ کے نزدیک پہنچا ، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کے کھینچا اور خود پلنگ پہ لیٹ کے مجھے اپنے اوپر گرا لیا . آج ان کے انداز میں وہ کل والی جھجک نہیں تھی اور نا ہی انہیں ڈر تھا کہ کہیں میں حد سے گزر کے کچھ گڑبڑ نا کر دوں میں بھی باتوں میں وقت ضائع نا کرتے ہوئے سیدھا ان کے ہونٹوں پہ ٹوٹ پڑا . میں نے اتنی چاہت اور شدت سے ان کے ہونٹ چومنے اور چوسنے لگا کہ پِھر دنیا کی ہر شہ میرے ذہن سے خارج ہو گئی . اب یہی ہونٹ میرے لیے کل کائنات تھے . آپی نے اپنے بازؤں سے مجھے جکڑا ہوا تھا اور ان کے ہاتھ مجھے اپنی جانب یوں کھینچ رہے تھے جیسے وہ مجھے اپنے وجود میں سما لینا چاہتی ہوں . وہ میرے نیچےدبی ہوئی ہونے کے باوجود ہلکی سی بھی تکلیف کا اظہار نہیں کر رہی تھیں اور نا ہی سانس رکنے کی سی کیفیت میں لگ رہی تھیں . بلکہ اتنی پر سکون تھیں جیسے یہ سب ان کی دیرینہ خواہش کی تکمیل ہو .میں تو ان کے ہونٹ چومتے ہوئے یوں مدھوش تھا کہ شاید ساری رات بھی لگا رہتا تو وقت گزرنے کا احساس ہی نا رہتا . مگر پِھر انہوں نے خود ہی میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کے الگ کیا تو مجھے ہوش آیا . میں نے سرشار سی نظروں سے انہیں دیکھا تو ان کی آنكھوں میں بھی سب کچھ پا لینے کی خوشی کی چمک نظر آ رہی تھی۔
آپی : بس کرو سنی . ورنہ میں خود پہ اختیار کھو دوں گی . اب جاؤ۔
ان کا حکم تھا جو مجھے ماننا ہی تھا . سو میں ان کے اوپر سے اٹھا اور پِھر پلنگ سے اتر کے کھڑا ہو گیا۔ وہ بھی میرے ساتھ ہی کھڑی ہو گئیں اور پِھر میرے ساتھ دروازے تک میرے ساتھ ہی آئیں . میں دروازے سے باہر نکلا تو انہوں نے مجھے گلے لگانے کے بعد رخصت کیا. میرے قدم نشے کی سی کیفیت میں لڑکھڑا رہے تھے اور اب مجھے نورین آپی کے کمرے میں بھی جانا تھا .نورین آپی کے کمرے کا دروازہ لوک نہیں تھا . ہینڈل گھماتے ہی دروازہ کھل گیا اور میری نظروں نے اپنے سامنے قیامت کا نظارہ دیکھا . چاروں بہنوں کے لیے سرخ ریشمی کپڑے لیتے ہوئے میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ لباس کسی کو ایسا قیامت خیز حسن دے سکتا ہے . میرے سامنے اِِس وقت واقعی قیامت ہی موجود تھی . نورین آپی سرخ ریشمی لباس میں سامنے پلنگ پہ بیٹھی میری ہی منتظر تھیں اور واقعی اِِس وقت قیامت لگ رہی تھیں . قمیض کی فٹنگ والی ڈوریاں انہوں نے کچھ زیادہ ہی ٹائیٹ کی ہوئی تھیں جس سے ان کا قیامت خیز حسن کچھ اور بھی قیامت لگ رہا تھا اور اس پہ سب سے بڑی قیامت. . . . . . . . ہائے . . . . . . کیا بتاؤں. . . . . . . . انہوں نے نیچے سے برا نہیں پہنا ہوا تھا . اور برا کے بغیر ان کے ٹائیٹ بوبز سرخ ریشمی قمیض کے اندر قیامت کا منظر پیش کر رہے تھے . اور ان کے نپلز بھی واضح محسوس ہو رہے تھے . بوبز تو اتنے ٹائیٹ تھے اور قمیض ان سے یوں چپکی ہوئی تھی جیسے ان کے اندر رکھ کے ٹائیٹ سیل پیک کر دیا گیا ہو . ہائے میں مر جاؤں ایسی قیامت کا منظر تھا کہ ہوش گم ہوئے جا رہے تھے .بڑی مشکل سے میں نے کانپتے ہوئے ھاتھوں سے کمرے کا دروازہ لوک کیا اور پِھر اپنی لڑکھڑاتی ہوئی ٹانگوں کو تقریبا گھسیٹتے ہوئے ان کے پلنگ تک پہنچا اور پلنگ پہ جیسے گر سا گیا. میری ٹانگوں سے جان ہی نکلی جا رہی تھی . ایسا کوئی منظر دیکھنے کے لیے میں شاید ذہنی طور پہ تیار نہیں تھا . مجھے پتا ہی نا تھا کہ میری بہن ایسے قیامت خیز حسن کی مالک ہے جو کسی کے بھی ہوش اڑُانا تو معمولی بات ہے ، کسی کو ہارٹ اٹیک بھی کروا سکتا تھا۔
میں : کیوں جان لینے پہ تلی ہوئی ہیں آپی . میں ایسے جلووں کی تاب نا لا سکا تو ؟
آپی : یہ رات میری بہت بڑی حسرت ہے سنی . آج یہ رات مجھے ملی ہے تو میں کوئی کمی کیسے چھوڑ سکتی تھی۔
میں : کامی . . . . . ارے مار ڈالنے میں کیا کسر چھوڑی ہے آپ نے ؟اب تک ہوش اڑے ہوئے ہیں . یقین ہی نہیں آ رہا کہ یہ قیامت میرے ہی سامنے موجود ہے . کہاں چھپا رکھا تھا اتنا قیامت خیز حسن آپ نے ؟
آپی : تعریف کا شکریہ . مگر اب اپنے دِل کو سنبھالو. ابھی ہمیں بہت سے مرحلوں سے گزرنا ہے اور رات گزرتی چلی جا رہی ہے۔
میں : میں یہاں لیٹ جاؤں ؟ میرے اجِازَت طلب کرنے پہ آپی نے مسکراتے ہوئے سَر ہلا کہ گویا اجِازَت دے دی تو میں جوتے اتار کے ان کے قریب سیدھا لیٹ گیا اور پِھر وہ بھی میرے قریب ہی لیٹ گئیں . ان کے جِسَم کی خوشبو مجھے پاگل کیے دے رہی تھی اور ایک قیامت کو اپنے پہلو میں لٹائے میں گویا جان کنی کی سی کیفیت میں تھا . کافی دیر لگی مجھے اپنے آپ کو سنبھالنے میں اور پِھر میں نے ہاتھ بڑھا کے انہیں اپنی طرف کھینچا تو وہ خود ہی میرے اوپر آ لیٹیں . ان کے ٹائیٹ بوبز میرے سینے میں ایسے کھب گئے تھے جیسے پسلیاں توڑ کےاندر گھس رہے ہوں . میرے دِل کی دھڑکنیں پِھر سے بے ترتیب ہونے لگیں . میں نشے کے سمندر میں ڈوبتا جا رہا تھا اور سہارا لینے کے لیے میں نے آپی کی کمر کو جکڑ لیا تھا جس سے ان کے بوبز مزید میرے سینے میں گھس گئے تھے . مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے ان کے بوبز میرے دِل کی دیواروں کے آر پا ر ہو گئے ہوں . مجھے کچھ پتا نہیں میں کب تک یوں ہی بے سدھ سا انُہیں اپنے اوپر لٹائے بے حرکت لیتا رہا کہ آپی نے خود ہی میرے ہونٹ چومتے ہوئے مجھے ہوش کی دنیا میں واپس آنے پہ مجبور کر دیا . پِھر مجھے پتا نہیں کیا ہوا کہ میں انُہیں اپنے اوپر سے ہٹا کے خود ان کے اوپر آیا اور ان کے بوبز پہ قمیض کے اوپر سے ہی ٹوٹ پڑا . میں نے قمیض کے اوپر سے ہی ان کے بوبز کو اتنا سک کیا کہ آپی کی لذت آمیز کراہیں مجھے صاف سنائی دینے لگیں
آپی : سنی . . . قمیض اتار دوں ؟
میں : نہیں . . . ایسے ہی رہنے دیں. کیا پتا وہ جلوہ میں برداشت نا کر پاؤں میری بات سن کے وہ ہنس پڑیں اور میں پِھر سے ان کے بوبز کو قمیض کے اوپر سے سک کرنے لگا . یہاں تک کہ ان کی قمیض وہاں سے پوری گیلی ہو گئی تو میں رک گیا . میرے خیال میں اب وہ مرحلہ آ گیا تھا کہ اصل کام کی شروعات کی جا سکے. میں نے ان کے بوبز سے بمشکل نظر ہٹا کے کسی آئل یا لوشن کی تلاش میں آس پاس نظریں دوڑائیں تو سائڈ ٹیبل پہ ہی مجھے لوشن کی بوتل نظر آ گئی . شاید آپی نے پہلے سے ہی یہ سب سوچ رکھا تھا اور انتظام پورا رکھا تھا . میں نے لوشن اٹھا کے آپی کو دیکھا تو ان کی آنكھوں میں بے تابی سی نظر آئی۔ گویا کہہ رہی ہوں اتنی دیر کیوں کر رہے ہو . جلدی کرو۔
میں : آپی . . . پہلی بار کرنے سے بہت دَرْد بھی ہو گا اور خون بھی نکلے گا . آپ کے اندر ایک پردہ ہو گا جو پھٹ جائے گا . آپ تیار ہیں نا ؟
میرے سوال پہ آپی نے فورا ہاں میں سَر ہلا دیا جیسے انُہیں سب پتا ہو اور وہ اِِس کے لیے ذہنی طور پہ تیار ہوں . آگے بتانے سے پہلے میں یہ بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے دیس میں آنے سے پہلے لندن میں ، میں ہمیشہ پینٹ شرٹ ، یا ٹراؤزر شرٹ پہنتا تھا . جبکہ یہاں آنے کے بَعْد میں نے شلوار قمیض پہننا شروع کر دیا تھا اور اب بھی میں شلوار قمیض میں ہی تھا . میں انُہیں وہیں لیٹا چھوڑ کے خود اٹھکے ان کی ٹانگوں کے قریب آیا اور پِھر اپنی شلوار کھول کے پوری اتار دی اور اِس کے بَعْد آپی کی شلوار بھی اتار دی . ان کی چوت پہ ایک بھی بال نہیں تھا . شاید آج ہی صاف کیے تھے اور اِِس رات کے لیے وہ پورے اہتمام سے تیار ہوئی تھیں . ان کی چوت کے دیکھتے ہی میرا لن تن کے کھڑا ہو گیا جس پہ میں نے ڈھیر سارا لوشن لگا کے اچھی طرح ملا اور کچھ لوشن اپنی انگلی پہ لگا کے ان کی چوت کے اندر کی طرف لگایا تو انُہیں جیسے جھٹکا سا لگا۔
میں : کیا ہوا آپی ؟
آپی : کچھ نہیں میری جان . پہلی بار کسی مرد نے چھوا ہے . کرنٹ تو لگنا ہی تھا۔
میں ان کی بات سن کے مسکرایا اور پِھر انُہیں تیار رہنے کا کہتے ہوئے ان کی ٹانگیں کھول کے ٹانگوں کے درمیان آ گیا. دونوں ھاتھوں سے ان کی ٹانگیں اٹھا کے میں ان کی چوت کے قریب ہوا تو انہوں نے اپنی ٹانگیں میری کمر کے گرد لپیٹ کے میری مشکل آسان کر دی . اب میں آسانی سے اپنے ہاتھ پلنگ پہ ان کے دائیں بائیں رکھتے ہوئے آگے کو جھکا تو میرا لن ان کی چوت سے ٹکرانے لگا . ذرا سا اوپر نیچے ہونے پہ ہی لن انکی چوت کے سوراخ پہ آ گیا جسے میں نے جھٹکا لگا کے اندر کیا تو صرف ٹوپی ہی اندر جا سکی . ساتھ ہی آپی کی ہلکی سی آہ . . کی آواز بھی نکلی جس پہ میں نے کوئی خاص توجہ نا دیتے ہوئے مزید زور لگایا تو ایک تہائی لن ان کی چوت کے اندر پہنچ گیا . آپی کو دَرْد تو اِس بار بھی ہوا تھا مگر انہوں نے کوئی آواز نہیں نکالی تھی . دَرْد برداشت کرنے کی کوشش میں انہوں نے بستر کی چادر کو مضبوطی سے بھینچ لیا تھا اور نچلا ہونٹ بھی دانتوں سے دبا رکھا تھا۔
میں : آپی . . ابھی بہت دَرْد برداشت کرنا ہے . اگر آپ سے برداشت نہیں ہو رہا تو میں۔
آپی : نہیں . . . میری فکر مت کرو . . . . اور رکے بنا آگے کرتے رہو. میں برداشت کر لوں گی. ان کے یقین دلانے پہ میں نے اپنا لن تھوڑا سا پیچھے کھینچ کے ایک بھرپور جھٹکا لگایا تو میرا لن آگے موجود ان کی سیل کو چیرتا ہوا تین چوتھائی اندر چلا گیا . آپی کے منہ سے اِِس بار آہ . . . . . . سی . سی. آہ . . . . کی آوازیں نکلیں . مگر بس ایک دو بار . اِس کے بَعْد انہوں نے اپنی آواز پِھر دبا لی۔۔
جاری ہے