ایک بھائی اور چار بہنیں
قسط 7
آپی : ہاں . . . لیکن صرف قمیض . برا تم نے خود . . . . اور اسی لیے تو میں گھبرا کے تم سے الگ ہو گئی تھی کہ کہیں کچھ . . .آپی کی بات سن کے میں بے اختیار سرَ پکڑ کے رہ گیا . انجانے میں مجھ سے یہ کیسی حرکت سر زد ہو گئی تھی . اگر آپی سچ مچ ناراض ہو جاتیں تو انہیں منانا میرے لیے کتنا مشکل ہو جاتا . کیا پھِر وہ کبھی میرا یقین کر پاتیں ؟
میں : سوری آپی . یہ سب انجانے میں ہوا ہو گا . میں نے جان بوجھ کے نہیں کیا . میں تو نشے کیسی کیفیت میں تھا . آپ کے ہونٹ اتنے۔ رسیلے اور دلکش ہیں کہ . . . پھِر کچھ ہوش ہی نہیں رہتا۔ میں نے آپی کا ہاتھ پکڑ کے ایک بار پھِر معافی مانگتے ہوئے اپنی بے خودی کی وجہ بتائی تو شرم سے آپی کا چہرہ سرخ پڑ گیا . ہونٹوں پہ بھی بڑی پیاری سی مسکراہٹ سج گئی .
آپی یوں شرما رہی تھیں جیسے شوہر کے تعریف کرنے پہ بِیوِی شرماتی ہے . اور انجانے میں شاید میں ان کی اِس فطری خواہش کی بھی تسکین کر گیا تھا۔ ابھی کل ہی تو ان سے سنا تھا کہ ان کا دل چاہتا تھا کوئی انہیں دیکھنے اور سراہنے والا ہو ، کوئی ان کے حسن کی تعریف کرے . اور ابھی ان سے معذرت کرتے ہوئے میں ان کے ہونٹوں کی ایسی تعریف کر گیا تھا کہ اچھی بھلی بولڈ لڑکی بھی شرما جاتی
.
آپی : تمھیں واقعی میرے ہونٹ اتنے اچھے لگتے ہیں سنی ؟ دل رکھنے کے لیے تو نہیں کہہ رہے نا ؟
میں : نہیں آپی قسم سے . میرا تو رات کو دل ہی نہیں کر رہا تھا کہ اپنے ہونٹ آپ کے ہونٹوں سے الگ ہونے دوں . اتنا مزہ آ رہا تھا کہ میں بھلا ہی بیٹھا تھا کہ میں کہاں ہوں اور کیا کر رہا ہوں . اسی لیے تو مجھ سے وہ حرکت ہو گئی۔
آپی : کوئی بات نہیں . میں ناراض نہیں ہوں . اور پھِر میری بھی تو غلطی تھی . تم شرمندہ مت ہو۔
میں : تو اِس خوشی میں منہ تو میٹھا کر دیں۔ میری بات سن کے آپی پہلے تو کچھ نہیں سمجھیں اور الجھن بھری نظروں سے مجھے دیکھتی رہیں پھِر ان کی آنكھوں میں جیسے اچانک ہی چمک سی آ گئی . وہ میری بات کا مفہوم سمجھ گئی اور ان کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اِس بات کا واضح اشارہ دے رہی تھی . اگلے ہی لمحے انہوں نے اپنا سرَ جھکایا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے چپکا دیے اور میں ایک بار پھِر نشے کی سی کیفیت میں خود کو فضاؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرنے لگا . مگر اِِس بار میں نے اپنے ھاتھوں کو اپنی کمر کے نیچے دبا لیا تھا کہ کہیں پھِر کوئی ایسی حرکت نا ہو جائے جو بعَد میں مجھے ان سے شرمندہ کر دے . نا جانے کتنی دیر ہم دونوں یوں ہی ایک دوسرے کے ہونٹوں سے ہونٹ چپکائے مستی میں ڈوبے رہے . ہوش تب آیا جب دروازے پہ دستک کے ساتھ نورین آپی کی آواز سنائی دی اور ان کی آواز سن کے آپی فورا ہی مجھ سے الگ ہو کے بیٹھ گئیں۔
نورین آپی: آپی یہ آپ کیا کر رہی تھیں ؟ اگر میری جگہ کسی اور نے دیکھ لیا ہوتا تو . . . جانتی ہیں کتنا بڑا طوفان کھڑا ہو سکتا تھا؟
مہرین آپی : مجھے خوامخواہ ڈرانے کی کوشش نا کرو لڑکی . تمھیں اچھی طرح پتا ہے کہ امی اباّ اتنی صبح صبح اِس طرف کا رخ نہیں کرتے . اور تم تینوں تو اپنے رازدار ہو . ہمارے سب دکھ سکھ سانجھے ہیں . اگر تمہارے علاوہ ثمرین اور امبرین بھی دیکھ لیتیں تو بھی کوئی پریشانی کی بات نہیں تھی . مہرین آپی کے پر اعتماد اندازِ پہ مجھے حیرت ہو رہی تھی . ورنہ میری تو اب تک بری حالت تھی. زندگی میں پہلی بار رنگے ھاتھوں پکڑا گیا تھا اور وہ بھی اپنی ہی بہن کے ساتھ . کسی غیر لڑکی سے میں کبھی قریب بھی نہیں ہوا تھا۔ اگر نورین آپی کی جگہ کسی ملازمہ نے جھانک لیا ہوتا تو اب تک شاید پوری حویلی میں تباہی مچ گئی ہوتی
نورین آپی : خدا کی بندی . دروازہ ہی بند کر لیتیں . اگر ہم تینوں کی بجائے کسی ملازمہ نے جھانک لیا ہوتا تو ؟
نورین آپی کو بھی وہی خدشہ تھا جو مجھے تھا . اور ان کی یہ بات سن کے تو مہرین آپی کو بھی صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوا تھا . اب ان کے چہرے کا رنگ بھی اڑا ہوا تھا۔
مہرین آپی : تم ٹھیک کہہ رہی ہو نورین مجھ سے واقعی بڑی غلطی ہو گئی . بس خیال ہی نہیں رہا . سنی کو جگانے آئی تھی تو اس وقت تو موڈ نہیں تھا . اِس لیے دروازہ بھی کھلا چھوڑ دیا بعَد میں اچانک ہی . . .
نورین آپی : خدا کے لیے احتیاط کیا کریں آپی . ایسے کاموں کے لیے یہ وقت بالکل مناسب نہیں ہے اور پھِر ایسی لاپرواہی . . . . آئندہ اگر کچھ نا بھی کرنا ہو تو اکیلے میں دروازہ بند کر لیا کریں . بلکہ میں تو کہتی ہوں کہ سنی کے ساتھ جب بھی ہم چاروں میں سے کوئی ایک یا چاھے سب ایک ساتھ بھی ہوں تو دروازہ بند ہی ھونا چاہیے
مہرین آپی : پکا وعدہ . آئندہ ایسی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔
نورین آپی : ٹھیک ہے . آپ جا کے ثمرین اور امبرین کو جگہ دیں میں ابھی آتی ہوں۔
مہرین آپی : اب میرے سامنے بھی شرماؤ گی ؟
نورین آپی : نہیں آپ جائیے . میں اتنی بے شرم نہیں ہوں۔
نورین آپی کی بات سن کے مجھے پہلی بار اندازہ ہوا کہ وہ بھی اِِس وقت کسی خاص موڈ میں آئیں تھیں . اور مہرین آپی بھی یہی بات محسوس کر کے معنی خیز اندازِ میں مسکراتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئیں تو نورین آپی نے آگے بڑھ کے کمرے کا دروازہ بند کر کے لوک کر دیا .
میں : کچھ گھبراتے ہوئے آپی آپ کیا کرنے لگی ہیں ؟
آپی : تمہاری جان کیوں نکلی جا رہی ہے ؟ فکر مت کرو . تمہاری عزت نہیں لوٹنے لگی . بس تم سے ایک بات کرنی ہے
میں : تو بات کرنے کے لیے دروازہ لوک کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟
آپی : میں آپی کی طرح لاپرواہی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی . یہ ضروری تھا . اب ادھر بیٹھو اور بات سنو میری
وہ میرے ساتھ میرے پلنگ پہ بیٹھ گئیں . اور کافی دیر تک اپنی انگلیاں مروڑتے ہوئے شاید کچھ کہنے کے لیے ہمت جمع کرتی رہیں.
آپی : سنی ! تمھیں میں کیسی لگتیہوں ؟ مطلب اگر تم مجھے ایک مرد کی نظروں سے دیکھو تو۔
میں : آپ کسی بھی مرد کا آئیڈیل ہو سکتی ہیں آپی . بری لگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آپی : ہم چاروں کی قسمت میں کسی مرد کا آئیڈیل بننا نہیں لکھا سنی تمہاری نظروں میں اپنے لیے پسندیدگی دیکھی تو اپنے دل کی بات کہنے کی ہمت کر رہی ہوں . دیکھو ناراض مت ھونا . اگر برا لگے تب بھی پیار سے منع کر دینا . تمہاری ناراضگی میں برداشت نہیں کر پاؤں گی۔
میں : آپ کھل کے کہیں آپی . میں وعدہ کرتا ہوں ناراض نہیں ہوں گا .
آپی : ہچکچاتے ہوئے میں تم سے . . . سح . . . . . . . شادی . . . کرنا . . شادی کرنا چاہتی ہوں .
میں : حیران ہو کر کیا ؟ مگر آپ سے میری شادی کیسے ہو سکتی ہے ؟ بہن بھائی کا نکاح نہیں ہو سکتا۔
آپی : نکاح سب کے سامنے ہوتا ہے ، جو نہیں ہو سکتا . مگر سہاگرات تو . . . سب سے چھپ کے ہوتی ہے نا . . وہ تو
میں ان کی اِس بات پہ بوكھلا کے رہ گیا تھا . مجھے امید نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی مجھ سے یہ خواہش کر بیٹھیں گی . مجھے یہ اندازہ تو تھا کہ اپنی شادی سے مایوسی نے میری بڑی دونوں بہنوں کو اپنے ارمان کچلنے پہ مجبور کر دیا ہے . اور اب جب کہ میں نے انہیں ہر خواہش پوری کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی تو یقینا انہیں اپنی مردہ زندگی میں امید کی کرن نظر آنے لگی تھی . مگر مجھے ہرگز یہ اندازہ نہیں تھا کہ نورین آپی اپنی شکستہ تمناؤں کی آگ میں اتنی جل رہی ہیں کہ کچھ دن بھی صبر نہیں کر پائیں گی اور خود مجھ سے کہہ بیٹھیں گی۔
میں : ایک بار پھِر اچھی طرح سوچ لیں آپی . یہ آپ کا آخری فیصلہ ہے ؟ بعَْد میں پچھتائیں گی تو نہیں ؟
آپی : دیکھو تم انکار کا حق رکھتے ہو . ظاہر ہے اگر تمہارا دل نہیں مانتا تو میں تمھیں مجبور نہیں کر سکتی . میں نے بس اِِس لیے کہہ دیا تھا كہ شاید تم میری ان شکستہ آرزوں کی تکمیل کر سکو . ورنہ عمر بھر اِِس آگ میں جلنا تو ویسے ہی نا صرف میرا ، بلکہ ہم چاروں بہنوں کا مقدر ہے۔
میں : میں سمجھتا ہوں آپی . ابھی امبرین اور ثمرین تو معصوم ہیں. مگر آپ دونوں کے جذبات ، آپ کی خواہشات جو حسرت بنکے آپکو تڑپا رہی ہیں ، میں سب جانتا ہوں . اور میں دل میں تہیہ کر چکا تھا کہ اپنی چاروں بہنوں کے دل کی ہر تمنا خود پوری کروں گا . مگر مجھے یہ امید نہیں تھی کہ آپ اتنی جلدی . . . . . مجھے تو لگتا تھا مہرین آپی ہی زیادہ ترسی ہوئی ہیں اور آپ ان کی نسبت خود پہ زیادہ قابو رکھتی ہیں . مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا نکلا .
آپی : میں نے آپی سے بھی کبھی اپنے دل کی بات نہیں کی سنی . مگر انہوں نے مجھ سے اپنے دل کی کوئی بھی بات کبھی نہیں چھپائی . انہیں بس اتنی حسرت تھی کہ کوئی انہیں دیکھ کے سراہے ، ان کی تعریف کرے . وہ مرد کے پیار کو ترسی ہوئی ہیں . ایسا پیار جو ہوس سے پاک ہو . جیسا کہانیوں میں ہوتا ہے . اور جس دن انہیں یقین ہو گیا کہ کوئی انہیں ویسا ہی پیار کرتا ہے تو یقین کرو وہ اسے ہی اپنا سب کچھ سونپ دیں گی . سوچنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگائیں گی
میں : آپ کو ایسے پیار کی خواہش نہیں تھی ؟
آپی : تمہاری نظروں میں وہ پیار چھلکتا میں نے پہلے دن سے ہی محسوس کر لیا تھا . جو شخص مجھے میری مرضی سے چاھے. اس کے پیار میں کیسا شک ؟
میں : تعریف کے لیے شکریہ . اور آپ کی خواہش پہ آج رات ہی عمل ہوگا . لیکن 12 بجے کے بعَد 11 بجے مہرین آپی سے پیار کرنے کا وقت طے ہے۔
آپی : کوئی بات نہیں . میں انتظار کروں گی۔
آپی یہ کہہ کے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تو میں نے ہاتھ پکڑ کے انہیں روک لیا . وہ بنا کچھ پوچھے دوبارہ بیٹھ گئیں تو میں اٹھ کے الماری کی طرف بڑھ گیا اور الماری کھول کے وہ اسپیَشَل شاپنگ بیگ نکالا جس میں اسی مقصد کے لیے لیے ہوئے سرخ ریشمی کپڑے تھے. میں نے ان میںسے ایک ڈریس نکال کے باقی اسی طرح واپس رکھ کے الماری بند کر دی اور وہ ڈریس پلنگ کے پاس آ کے نورین آپی کو پکڑا دیا۔
میں : آپ کا عروسی لباس . امید ہے پسند آئے گا۔
آپی : حیران ہو کر تم نے پہلے سے لیا ہوا تھا ؟
میں : انہی کپڑوں کے ساتھ ہی لیا تھا ، سب کے لیے ایک ایک . مگر اسی خاص موقع پر دینے کے لیے الگ رکھ لیا تھا۔
آپی : یعنی تم جانتے تھے کہ ہم چاروں باری باری اپنے نفس کے ھاتھوں مجبور ہو کے تم سے ضرور کہیں گی ؟
میں : یہ تو انسان کی فطری ضرورت ہے . جب اِِس ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ سامنے موجود ہو تو کون بیوقوف انکار کر کے خود پہ ظلم کرنا پسند کرے گا ؟ میری بات سن کے آپی مسکراتے ہوئے پلنگ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور پِھر مجھے شکریہ کہہ کے دروازے کی طرف بڑھ گئیں. آج رات میری اپنی بہنوں میں سے ایک سے سہاگ رات ہونی تھی اور
جاری ہے