Ek bhai aur char Behnen - Episode 6

ایک بھائی اور چار بہنیں

قسط 6




 جبکہ میں انہیں روتا چھوڑ كے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھ گیا جہاں ثمرین اور امبرین دروازے کے باہر قریب ہی کھڑی تھیں اور دونوں کے سرَ جھکائے ہوئے تھے . یعنی میرا اندازہ درست تھا کہ دونوں کافی دیر سے وہاں کھڑی ہے اور سب کچھ سن رہی ہیں۔

میں نے انہیں اندر آنے کو کہا اور دوبارہ اندر آ گیا . اب مہرین آپی اور نورین آپی صوفے پہ ایک دوسری سے لپٹی بیٹھی تھیں اور دونوں ہی بری طرح سے کانپ رہی تھیں . دونوں چھوٹی بہنوں کی نظروں سے گر جانے کا تصور شاید ان دونوں کے لیے ہی بہت تشویش ناک تھا

  

امبرین : ہمیں معاف کر دیں آپی . ہم نے جان بوجھ کے کچھ نہیں سنا . میں نے تو ثمرین کو اسی لیے باہر روک لیا تھا کہ کہیں آپ تینوں کوئی ذاتی قسم کی باتیں نا کر رہے ہوں . ہمارا اراََدہ آپ کی باتیں سننے کا نہیں تھا مگر آپ لوگ اتنی اونچی آواز میں بات کر رہے تھے کہ باہر آسانی سے آواز آ رہی تھی . اب تو ہم یہاں سے جانے کا سوچ رہی تھیں کہ بھائی کو ہمارے باہر ہونے کا پتا چل گیا . ہمیں معاف کر دیں آپی . یقین کریں ہم نے کسی کو کچھ نہیں بتایا اور نا ہی کسی کو بتائیں گی . بس ایک بار معاف کر دیں .

میں : تم دونوں کو ہم سے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے گڑیا . ہماری زاتی قسم کی باتیں تم دونوں کی ذات سے بھی تعلق رکھتی ہیں . میں نے ان سے بھ ی یہی کہا تھا کہ مجھے بھائی سے زیادہ دوست سمجھیں اور اپنی ہر خواہش اپنا حق سمجھتے ہوئے مجھ سے کہیں . اسے پوُرا کرنا میرے ذمے ہو گا . وہ تو مہرین آپی کی خواہش ہی کچھ . . . . . خیر چھوڑو . اب یہ بات پانچوں کے درمیان طے ہو گئی کہ ہم اپنی آپس کی باتیں کسی سے نہیں کہیں گے . ہیں نا . . .میری بات سن کے دونوں نے زور سے ہاں میں سر ہلایا تو مہرین آپی اور نورین آپی کی بھی جان میں جیسے جان آئی اور میں بھی مطمئن ہو گیا۔

ثمر ین : بھائی آپ واقعی مہرین آپی کی خواہش پہ

میں : مجبوری ہے گڑیا . یہ خواہش ان کی حسرت بن گئی ہے کہ کوئی لڑکا ان کے ہونٹ چومے . اگر ان کی شادی ہوتی تو یہ سب ان کا شوہر کرتا . مگر شادی تو شاید آپ چاروں میں سے کسی کی بھی نا ہو . اِِس لیے اب مجھے ہی انکی خواہش پوری کرنی ہو گی . ورنہ اگر کہیں مایوس ہو کے انہوں نے باہر کسی لڑکے سے . . . یہ نا میرے لیے قابل قبول ہوتا نا ہمارے خاندان کے لیے . ہماری تو ہر طرف بدنامی ہو جانی تھی نا . اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ چاروں کی ہر خواہش میں پوری کروں گا . چاھے وہ میرے لیے کتنی ہی مشکل کیوں نا ہو۔ میری باتیں سن کے مہرین آپی نے ایک بار پھِر شرمندگی سے سرَ جھکا لیا . شاید اپنی خواہش ظاہر کر کے اب وہ پچھتانے بھی لگی تھیں . اور شاید اب اپنی خواہش سے دستبردار بھی ہونے کا فیصلہ کر چکی تھیں . اور فل حال ان کے لیے یہی ٹھیک تھا کہ ابھی وہ اپنی خواہش کو بھول ہی جائیں . مگر بعد میں موقع ملنے پہ مجھے ان کی یہ خواہش پوری ضرور کرنی تھی

مہرین آپی :  اپنی جگہ سے اٹھ کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے میں اب چلتی ہوں سنی۔ 

ان کی بات سن کے میں بھی دروازے کی طرف بڑھا اور جی سے ہی وہ دروازے پہ پوھنچیں میں بھی ان کے قریب پہنچ گیا .

میں :  ان کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے  رات کو 11 بجے۔ وہ گرین والا ڈریس پہن لینا میری بات سن کے وہ یوں گھبرا کے باقی تینوں کی طرف دیکھنے لگیں کہ کہیں کسی نے کچھ سن نا لیا ہو . مگر ان کے یوں چونک کے دیکھنے پہ باقی تینوں حیران تھیں کہ انہیں اچانک کیا ہوا جو اتنا گھبرا گئیں۔

میں نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے جانے کا اشارہ کیا تو وہ فورا کمرے سے نکل گئیں۔

مہرین : بھائی . آپی ناراض ہو گئی ہیں نا ؟

میں : ارے نہیں گڑیا . وہ کیوں ناراض ہوں گی . بس ذرا شرمندگی محسوس کر رہی ہیں . اِِس لیے سب کا سامنا نہیں کر پا رہیں . اگر سب نارمل رہیں گے تو وہ بھی ٹھیک ہو جائیں گی . 

نورین آپی : میں بات کروں ان سے ؟ 

میں : جی ضرور کیوں نہیں نورین آپی بھی شاید تھوڑی بہت شرمندگی محسوس کر رہی تھیں اور بھاگنے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھیں . میری بات سن کے وہ بھی کمرے سے نکل گئیں . اب کمرے میں میرے ساتھ امبرین اور ثمرین رہ گئی تھیں 

ثمرین : بھائی کیا یہ بھی شرمندگی محسوس کر رہی تھیں ؟ انہوں نے تو اپنی خواہش بھی ظاہر نہیں کی تھی 

میں : یار اب اتنی راز کی باتیں تو نا پوچھو . وہ دونوں پہلے ہی گھبرائی ہوئی ہیں .

ثمر ین : ہنستے ہوئے  ٹھیک ہے نہیں پوچھتی . آئیں بیٹھیے نا یہاں میں ان دونوں کے ساتھ اپنے پلنگ پہ بیٹھ گیا اور امبرین کے اصرار پہ ایک اور انگلش مووی کی اسٹوری سنانے لگا . وہ دونوں معصومیت بھرے انداز میں میرے دائیں بائیں کندھے سے لگ کے کہانی سنتی رہیں۔ پھِر ہم رات کے کھانے کے وقت تک کمرے سے نہیں نکلے۔ کھانے کے بعد ہم سب نے اکٹھے کچھ دیر چہل قدمی کی اور پھِر سونے کے لیے اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے . مجھے تو ابھی سونا نہیں تھا .

 رات  11 بجے کا انتظار جو تھا رات 11 بجنے سے 10 منٹ پہلے ہی میں اپنے کمرے سے نکل آیا . پہلے پوری حویلی کا ایک رائونڈ لگایا اور سب کے سونے کا یقین ہونے کے بعد ٹھیک 11 بجے میں مہرین آپی کے کمرے کے دروازے پہ کھڑا تھا . دروازہ آج اندر سے لوک نہیں تھا . ہینڈل گھماتے ہی دروازہ کھل گیا . سامنے ہی مہرین آپی گرین کلر کے ریشمی ڈریس میں اپنے پلنگ پہ گھبرائی ہوئی سی بیٹھی تھیں۔

 ان کی نظریں دروازے پہ جمی ہوئی تھیں . یقینا میرا ہی انتظار تھا انُہیں .

میں : تھینکس آپی . میری اتنی سی خواہش مان کے آپ نے میرا دل خوش کر دیا .

آپی : سنی . کسی کو پتا تو نہیں چلے گا نا ؟ مطلب اگر کسی کو پتا چلا کہ تم رات کو میرے کمرے میں آئے تھے تو غلط تو نہیں سمجھے گا نا ؟

میں : بے فکر رہیں آپی . سب سو رہے ہیں . میں کمرے کا دروازہ بھی لوک کر دیتا ہوں . کوئی آئے گا تو پتا چل جائے گا۔

میں نے مڑ کے دروازہ لوک کیا اور پھِر ان کی طرف بڑھ گیا .

آپی : سنی تم کچھ . . . کچھ غلط تو نہیں کرو گے نا ؟

میں :  آپی کو تسلّی دیتے ہوئے میں کچھ نہیں کروں گا آپی . جو بھی کرنا ہو گا آپ ہی کریں گی. شاید اسی طرح آپ کو مجھ پہ یقین آ جائے۔

آپی : برا نا ماننا سنی . دراصل پہلی بار ہے نا . ڈر لگ رہا ہے۔

 میں نے آپی کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور آگے بڑھ کے ان کے پاس ان کے پلنگ پہ بیٹھ گیا . آپی کافی دیر تک گھبرائی ہوئی سی بیٹھی رہیں . پھِر کچھ ہمت کر کے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔

آپی : سنی . . مجھے اپنی بانہوں میں لے لو . مم . . . . مجھ سے نہیں ہو گا .

میں :  کچھ سوچتے ہوئے  آپی . .  . . لیٹ کے کریں ؟

میری بات پہ آپی نے ہچکچاتے ہوئے ہاں میں سرَ ہلایا تو میں اسی طرح ٹانگیں نیچےلٹکائے پلنگ پہ لیٹ گیا اور انہیں اپنے اوپر کھینچ لیا . پہلے تو وہ کچھ گھبرا سی گئیں اور خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی رہیں مگر پھِر انہوں نے خود کو میری بانہوں میں ڈھیلا چھوڑ دیا . میں نے کچھ دیر انہیں یونہی بانہوں میں جکڑے رکھا اور وہ میرے کندھے پہ سرَ رکھے خاموش اور پر سکون سی میرے اوُپر لیٹی رہیں . پھِر میں نے دونوں ہاتھوں میں ان کا چہرہ پکڑ کے ان کے ہونٹ اپنے ہونٹوں سے لگائے اور ان کو ہونٹوں کو چومنا اور چوسنا شروع کر دیا . کچھ دیر تو وہ مدھوش اور ساکت( اسٹل) رہیں لیکن پھِر انہوں نے بھی میرا ساتھ دینا شروع کر دیا اور بڑے مزے سے میرے ہونٹ چومنے لگیں . ہم کافی دیر ایک دوسرے کے ہونٹ چومتے رہے . ان کے ہونٹوں میں عجیب سا نشہ تھا . ایسا نشہ کہ ایک بار انہیں چومنے کے بعد کبھی چھوڑنے کو دل نہیں کرتا تھا . یوں لگتا تھا کوئی رس ٹپک رہا ہو ان ہونٹوں سے جو مجھے مزے اور سرور کی دنیا کی سیر کرا رہا تھا . میں بھی مدھوش سا ہو گیا تھا . ہوش تب آیا جب آپی اچانک ہی مجھ سے الگ ہو کے سائڈ پہ ہو گئیں اور یہ دیکھ کے میرے تو ہوش ہی اڑ گئے کہ وہ اپنی قمیض نیچے کر رہی تھیں جو نا جانے کب اور کیسے شاید مجھ سے ہی اوپر ہو گئی تھی اور ان کا برا بھی اپنی جگہ پہ نہیں تھا 

جسے انہوں نے خود ہیٹھیک کیا تھا . پتا نہیں ان کے ہونٹوں کی لذت میں سرشار میں نے کب ان کی قمیض اوپر کر کے ان کے بوبز پہ سے برا ہٹا دیا تھا . اور اب ان کا سرخ چہرہ، چڑھتی ہوئی سانسیں ، جھکی ہوئی نظریں اور کانپتے ہوئے ہاتھ مجھے ندامت اور شرمندگی کے سمندر میں غرق کر رہے تھے۔

میں : سوری آپی . مجھے پتا نہیں یہ کیسے ہو گیا . مگر قسم سے میں نے یہ جان بوجھ کے نہیں کیا . پتا نہیں کیسے ہو گیا یہ سب مجھ سے میں تو آپ کے ہونٹ چومتے ہوئے نشے کیسی کیفیت میں تھا. پتا نہیں کب یہ سب ہو گیا۔

آپی : کانپتی ہوئی آواز میں ٹھیک ہے . تم جاؤ . اور کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیے کہ تم یہاں تھے۔ میری معذرت انہوں نے قبول کر تو لی تھی مگر پھِر بھی میں اپنے اندر ندامت محسوس کر رہا تھا . مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا . ابھی آپی اِس کے لیے ذہنی طور پہ تیار نہیں تھیں اور میری یہ حرکت ان کی نظروں سے مجھے ہمیشہ کے لیے گرا سکتی تھی ، میرا اعتبار ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتی تھی . پتا نہیں میں یہ سب کیوں اور کیسے کر بیٹھا تھا۔ اپنے کمرے میں پہنچ کے بھی میں کافی دیر تک شرمندگی محسوس کرتے ہوئے بے چینی سے ادھر ادُھر ٹہلتا رہا . پھِر تھک کے اپنے پلنگ پہ گر سا گیا اور پھِر نا جانے کب مجھے نیند آ گئی .اگلی صبح آنکھ کھلنے سے پہلے ہی مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا سرَ کسی کی نرم گود میں ہے اور کوئی اپنی نرم  انگلیوں سے میرے بال سہلا رہا ہے . یقینا یہ میری بہنوں میں سے ہی کوئی ایک تھی . آنکھ کھولی تو مہرین آپی کا مسکراتا ہوا چہرہ میرے سامنے تھا . انہوں نے اب تک وہی رات والے گرین کلر کے ریشمی کپڑے پہن رکھے تھے اور ان کی آنكھوں کے سرخ دوڑے ظاہر کر رہے تھے کہ ساری رات وہ بالکل نہیں سوئیں 

میں : آپی آپ ؟ آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں نا ؟ قسم سے میں نے جان بوجھ کے کچھ نہیں کیا تھا . پتا نہیں کیسے ہو گیا

آپی : میں جانتی ہوں یہ سب کیسے ہو گیا . اِس میں تمہارا اتنا قصور نہیں تھا جتنا میرا تھا۔

 میں : کیا مطلب ؟

آپی : تم جب میرے ہونٹ چوم رہے تھے تو میں نے تمہارے ھاتھوں کو اپنی چھاتی (بوبز ) کے پاس محسوس کیا تھا . پہلے تو میں کچھ سمجھی نہیں . پھِر سوچا شاید تمھیں کچھ چبھ رہا ہے تو میں ذرا اوپر اٹھ گئی . اور میرے اوپر ہوتے ہی تم نے میری چھاتی ( بوبز ) کو سہلانا اور دبانا شروع کر دیا . پہلے تو مجھے عجیب سا لگا . پھِر مزہ آنے لگا . میں نے سوچا اگر ایسے اتنا مزہ آ رہا ہے تو قمیض کے بغیر کتنا مزہ آئے گا . اسی لیے میں نے قمیض اوپر کر دی تھی۔

میں : آپ نے خود . . ؟





جاری ہے

*

Post a Comment (0)